غالب کا روزنامچۂ غدر ۱۸۵۷ء

غالب کا روزنامچۂ غدر ۱۸۵۷ء
by حسن نظامی
319528غالب کا روزنامچۂ غدر ۱۸۵۷ءحسن نظامی

غالبؔ کے روزنامہ میں ایک حرف فرضی نہیں ہے بلکہ چشم دید اصلی حالات کی تصاویر ہیں اور پھر بیان ایسا صاف، ستھرا اور اعلیٰ ہے کہ میری عبارت اس کی گرد کو بھی نہیں پہنچ سکتی۔ غالبؔ کے اس روزنامچہ سے دہلی کی عمارتوں، دہلی کے نامور آدمیوں، دہلی کی قدیمی معاشرت، دہلی کے پرانے احساسات کا اتنا بڑا تاریخی ذخیرہ حاصل ہوتا ہے جو کسی غدر دہلی کی تاریخ میں نہیں ملے گا۔

ایک بات نہایت ہی اہم اس روزنامچہ سے ظاہر ہوگی اور وہ یہ ہے کہ غدر کی تاریخ لکھنے والے عموماً یا تو انگریز تھے اور یا انگریزوں کے زیر اثر مؤرخ۔ اس واسطے اس میں واقعات کا ایک ہی رخ دکھایا گیا ہے، مگر غالبؔ کے روزنامچہ سے تصویر کا دوسرا اور بہت ہی پوشیدہ رخ بھی ظاہر ہوجائے گا اور مؤرخوں کو اس سے بہت مدد ملے گی۔ لوگوں کو حیرت ہوگی کہ غالبؔ کا یہ روزنامچہ کہاں سے آگیا۔ پہلے تو کبھی اس کا ذکر بھی نہیں سنا تھا۔ اس واسطے میں اس حقیقت کو بیان کردینا ضروری سمجھتا ہوں کہ غالبؔ نے غدر کا کوئی خاص روزنامچہ نہیں لکھا تھا، نہ غالباً ان کو روزنامچہ لکھنے کی عادت تھی۔ میں نے یہ روزنامچہ خود تصنیف کیا ہے اور لطف یہ ہے کہ اس تصنیف میں ایک حرف بھی میرا نہیں ہے۔ سب غالبؔ کے قلم سے نکلا ہوا ہے۔ اس معمہ اور چیستاں کا حل یہ ہے کہ غالبؔ کے خطوط میں جہاں جہاں غدر کا ذکر ضمناً آیا تھا، میں نے پوری تلاش و محنت سے اس کو الگ کر لیا اور ایسے طریقے سے چھانٹا کہ روزنامچہ کی عبارت معلوم ہونے لگی۔ بس میرا کمال اسی قدر ہے کہ میں نے بغیر بیشی الفاظ کے خطوط کو روزنامچہ بنا دیا اور کوئی شخص اس کو پڑھ کر خطوط کا شبہ نہیں کر سکتا۔ غالبؔ کے مکتوبات مطبوعہ و غیرمطبوعہ میں غدر کی کیفیت ایسی دبی ہوئی پڑی تھی کہ کوئی شخص اس کی خوبی و اہمیت کو محسوس نہ کرسکتا تھا اور خطوں کے ذیل میں ان عبارتوں کو بھی بے توجہی سے پڑھ لیا جاتا تھا۔ میں نے اس ضرورت کو محسوس کیا کہ اردو زبان میں غدر دہلی کی یہ لاثانی تاریخ جو موتیوں سے بھی زیادہ بیش قیمت ہے، اس طرح دبی ہوئی نہ پڑی رہے، اس لئے اس کو علیحدہ کرنا شروع کیا اور کہیں کہیں اپنے حاشیے بھی لکھے تاکہ آج کل کے لوگوں کو دہلی کی بعض مقامی باتوں سے واقفیت ہو جائے اور جس چیز کا مطلب سمجھ میں نہ آئے، حاشیہ کی مدد سے سمجھ لیں۔ کوشش کے باوجود غالبؔ کی تحریروں میں بعض ایسی ہیں جن کا حل میں بھی نہ کرسکا۔ ایک نہایت مشکل کام روزنامچہ کی تیاری میں یہ پیش آیا کہ بعض مکتوبات پرغالبؔ نے تاریخ اور سنہ لکھے ہیں اور بعض پر صرف تاریخ اور دن ہے، مگر سنہ نہیں لکھا اور بعض پر نہ سن ہے نہ تاریخ ہے۔ اس واسطے ترتیب کا فرض ادا کرنا مشکل ہو گیا، کیونکہ کچھ معلوم نہیں ہو سکتا کہ پہلی عبارت کون سی ہے اور دوسری کون سی۔ ناظرین خود اپنی سمجھ سے اس مشکل کو حل کرسکتے ہیں۔ دوسری مشکل اس روزنامچہ میں یہ ہے کہ بعض مضامین اور واقعات مکرر بلکہ کئی کئی بار لکھے گئے ہیں خصوصاً پنشن کے حالات بہت جگہ آئے ہیں۔ ان کو میں نے اس لئے قائم رکھا اور کم نہیں کیا کہ گو واقعہ ایک ہی ہے مگر طرز ادا میں ہر جگہ نئی قسم کی خوبی ہے اور غالبؔ نے اپنے ہر مخاطب کو ایسے لطف سے کیفیت لکھی ہے کہ نیا مضمون بنا دیا ہے اور پھر کمال یہ ہے کہ واقعات میں کمی بیشی نہیں ہونے دی، جس سے غالبؔ کی صدق بیانی پر پوری روشنی پڑتی ہے۔ (۱۹۲۲ء)دوسرے ایڈیشن میں نظر ثانی اور ترمیم کا وعدہ میں نے کیا تھا، سو خدا کے فضل سے تیسرے ایڈیشن کے وقت میں نے پوری توجہ کے ساتھ کتابت کی غلطیاں درست کرائیں اور چند نوٹ بھی نئے لکھے، حالانکہ آج کل آنکھوں سے معذور ہو گیا ہوں اور لکھنے پڑھنے سے مجبوری بھی ہے۔ پھر بھی میں نے اس کو پڑھوا کر سنا اور اصلاح کرائی۔ امید ہے کہ ناظرین بقیہ حصوں کو بھی منگا کر غدر کے متعلق اپنی تاریخی معلومات کو مکمل کرنے کی کوشش کریں گے۔ حسن نظامی (۱۹۴۰ء)غالبؔ کا روزنامچۂ غدر ۱۸۵۷ءغالبؔ کا نسب نامہمیں قوم کا ترک سلجوقی ہوں۔ دادا میر ماوراء النہر سے شاہ عالم کے وقت میں ہندوستان آیا۔ سلطنت ضعیف ہو گئی تھی۔ صرف پچاس گھوڑے نقاردار نشان سے شاہ عالم کا نوکر ہوا۔ ایک پرگنہ میر حاصل ذات کی تنخواہ اور رسالے کی تنخواہ میں پایا۔ بعد انتقال اس کے جو طوائف الملوکی کا بازار گرم تھا، وہ علاقہ نہ رہا۔ باپ میرا عبد اللہ بیگ خاں بہادر لکھنؤ جاکر نواب آصف الدولہ کا نوکر رہا۔ بعد چند روز حیدر آباد جاکر نواب نظام علی خاں کا نوکر ہوا۔ تین سو سوار کی جمعیت سے ملازم رہا۔ کئی برس وہاں رہا۔ وہ نوکری ایک خانہ جنگی کے بکھیڑے میں جاتی رہی۔ والد نے گھبرا کر الور کا قصد کیا۔ راؤ راجہ بختاور سنگھ کا نوکر ہوا۔ وہاں کسی لڑائی میں مارا گیا۔ نصیر اللہ بیگ خاں میرا چچا حقیقی مرہٹوں کی طرف سے اکبر آباد کا صوبہ دار تھا۔ اس نے مجھے پالا۔ ۱۸۰۶ء میں جرنیل لیک صاحب کا عمل ہوا۔ صوبہ داری کمشنری ہوگئی اور صاحب کمشنر ایک انگریز مقرر ہوا۔ میرے چچا کو جرنیل لیک صاحب نے سواروں کی بھرتی کا حکم دیا۔ چار سو سواروں کا برگیڈیئر ہوا۔ ایک ہزار روپیہ ذات کا اور لاکھ ڈیڑھ لاکھ روپیہ سال کی جاگیر حین حیات علاوہ سال بھر مرزبانی کے تھے کہ بمرگ ناگاہ مر گیا۔ رسالہ برطرف ہو گیا۔ ملک کے عوض نقدی مقرر ہو گئی۔ وہ اب تک پاتا ہوں۔ پانچ برس کا تھا جو باپ مرگیا۔ آٹھ برس کا تھا جو چچا مرگیا۔ ۱۸۳۰ء میں کلکتہ گیا، نواب گورنر جنرل سے ملنے کی درخواست کی۔ دفتر دیکھا گیا۔ میری ریاست کا حال معلوم کیا گیا۔ ملازمت ہوئی۔ سات پارچے اور جیفہ۔ سرپیچ۔ مالائے مروارید۔ یہ تین رقم کا خلعت ملا۔ زاں بعد جب دلّی میں دربار ہوا، مجھ کو بھی خلعت ملتا رہا۔ بعد غدر بہ جرم مصاحبت بہادر شاہ دربار وخلعت دونوں بند ہوگئے۔ میری بریت کی درخواست گزری۔ تحقیقات ہوتی رہی۔ تین برس بعد پنڈ چھٹا۔ اب خلعت معمولی ملا۔ (نوٹ، یہ خلاصہ ہے کہ غالبؔ کے نسب نامہ اور زندگی کے بڑے بڑے واقعات کا اتنے اختصار سے اتنی بڑی لائف کا ماحصل لکھ دینا معمولی بات نہیں ہے۔ یہ قدرت خدا نے غالبؔ کے قلم کو دی تھی۔)ترک اہل سیف ہوتے ہیں اہل قلم نہیں ہوتےبرٹش گورنمنٹ کے موجودہ متعصب، عاقبت کے اندیشے سے بے بہرہ وزیر اعظم مسٹر لائڈ جارج نے خلافت ڈپوٹیشن ہندوستان کے اراکین سے کہا تھا کہ ترکوں کوتلوار نچانے کے سوا اور آتا ہی کیا ہے۔ ان میں کوئی قلمی بہادر پیدا نہیں ہوا۔ اس کے جواب میں غالبؔ اور امیر خسروؔ کو پیش کیا جا سکتا ہے جو دونوں دہلی درگاہ حضرت خواجہ نظام الدین اولیاءؒ میں دفن ہیں کہ امیر خسروؔ بھی ترک لاچین تھے اور غالبؔ بھی ترک سلجوقی تھے جیسا کہ اس عبارت میں انہوں نے خود لکھا ہے۔ اب غالبؔ و خسروؔ کے کمالات علمی و شعری اور فضائل فلسفہ و ادراک حسن انسانی کو دیکھنا چاہئے۔ ان کی لاجواب تصنیفات کو پڑھنا چاہئے۔ انگلش قوم کے علماء و فلاسفروں میں جو بات انفرادی تھی، وہ ان میں مجموعی تھی یعنی انگریزوں میں ایک خاص فن کا کوئی ماہر ہوتا تھا اور اس فن کے سبب اس کی عزت ہوتی اور غالب و خسرو مجموعہ کمالات تھے کہ متعدد فضائل ان کے اندر تھے۔ (تو کیا ہندوستان کے یہ دو مشہور ترک ہندوستانی وفد خلافت کی طرف سے لائڈ جارج کو یہ جواب نہیں دے سکتے کہ ترک صاحب سیف بھی ہوتے ہیں اور صاحب قلم بھی۔ تم کو واقفیت حاصل کئے بغیر زبان سے اتنی بڑی بات کہہ دینی مناسب نہ تھی کہ تم ساری برطانی قوم کے قائم مقام ہو۔ حسن نظامی)غالبؔ کا حلیہجب میں جیتا تھا تو میرا رنگ چمپئی تھا اور دیدہ ور لوگ اس کی ستائش کیا کرتے تھے۔ اب جو کبھی مجھ کو وہ اپنا رنگ یاد آتا ہے تو چھاتی پر سانپ سا پھر جاتا ہے۔ جب ڈاڑھی مونچھ میں بال سفید آگئے۔ تیسرے دن چیونٹی کے انڈے گالوں پر نظر آنے لگے۔ اس سے بڑھ کر یہ ہوا کہ آگے کے دو دانت ٹوٹ گئے۔ ناچار مسی بھی چھوڑ دی اور ڈاڑھی بھی تاکہ اس بھونڈے شہر (دہلی) میں ایک وردی ہے عام۔ ملّا، حافظ، بساطی، نیچہ بند، دھوبی، سقہ، بھٹیارہ، جولاہا، کنجڑا، منہ پر ڈاڑھی سر پر بال۔ فقیر نے جس دن ڈاڑھی رکھی اسی دن سر منڈایا۔ (نوٹ، اس سے معلوم ہوا کہ جوانی میں بہت طرح دار جوان تھے۔ ڈاڑھی منڈاتے تھے اور اس وقت کے دستور کے موافق دانتوں پر مسی بھی ملتے تھے۔ حسن نظامی)غالب کی ازلی طبیعتعلم وہنر سے عاری ہوں، لیکن پچپن برس سے محو سخن گزاری ہوں۔ مبدء فیاض کا مجھ پر احسان عظیم ہے۔ ماخذ میرا صحیح اور طبع میری سلیم ہے۔ فارسی کے ساتھ ایک مناسبت ازلی اور سرمدی لایا ہوں۔ مطابق اہل پارس کے منطق کا بھی مزہ ابدی لایا ہوں۔ مناسبت خداداد۔ تربیت استاد حسن وقبح کی ترکیب پہچاننے، فارسی کے غوامض جاننے لگا۔ غالبؔ کا مجموعۂ کلاممیرا کلام کیا نظم کیا نثر، کیا اردو فارسی، کبھی کسی عہد میں میرے پاس فراہم نہیں ہوا۔ دوچار دوستوں کو اس کا التزام تھا کہ وہ مسودات مجھ سے لے کر جمع کرلیا کرتے تھے۔ سوان کے لاکھوں روپے کے گھر لٹ گئے، جس میں ہزاروں روپے کے کتب خانے بھی گئے۔ اسی میں وہ مجموعہ ہائے پریشان بھی غارت ہوئے۔ غدر کی نسبت غالبؔ کی تصنیفمیں نے آغاز یازدہم مئی ۱۸۵۷ء سے یکم جولائی ۱۸۵۸ء تک روداد شہر اور اپنی سرگزشت یعنی پندرہ مہینے کا حال نثر میں لکھا ہے اور اس کا التزام کیا ہے کہ دساتیر کی عبارت یعنی پارسی قدیم لکھی جائے اور کوئی لفظ عربی نہ آئے۔ جو نظم اس نثر میں درج ہے وہ بھی بے آمیزش لفظ عربی ہے۔ ہاں اشخاص کے نام نہیں بدلے۔ (نوٹ، یہ کتاب ’’دستنبو‘‘ کا ذکر ہے۔ آگے بھی جگہ جگہ اس کی کیفیت مذکور ہوئی ہے اور غالباً اسی کتاب کو دیکھنے کے بعد انگریزی حکام اعلیٰ کو غالبؔ کی قدر ہوئی اور شروع کی بیزاری، نفرت اور حقارت کا شبہ جاتا رہا، جس کا ذکر کئی جگہ آیاہے، کیونکہ ’’دستنبو‘‘ دیکھنے سے پہلے گورنر اور دیگر حکام انگریزی غالبؔ کو معمولی شاعر اور بھاٹ خیال کرتے ہوں گے اور بہادر شاہ کا سکہ کہنے کے سبب اور قلعہ میں جانے آنے کی وجہ سے ان پر پورا شبہ باغیان غدر سے میل جول کا ہوگا، مگر جب کتاب ’’دستنبو‘‘ پڑھی گئی ہوگی اور اس سے غالبؔ کی قابلیت اور غدر سے بے تعلقی ظاہر ہوئی ہوگی، تب گورنر اور حکام انگریزی نے پنشن جاری کی ہوگی۔ حسن نظامی)غالبؔ چشتی نظامی تھے، شیعہ نہ تھےمیاں نصیر الدین اولاد میں سے ہیں۔ شاہ محمد اعظم صاحب کے وہ خلیفہ تھے مولوی فخر الدین صاحب کے اور میں مرید ہوں اس خاندان کا۔ (نوٹ، غالبؔ کی نسبت شہرت ہے کہ وہ اثنا عشری شیعہ تھے اور مکتوبات میں انہوں نے خود بھی ایک جگہ لکھا کہ میں اثنا عشری ہوں مگر یہاں وہ لکھتے ہیں کہ میں مولوی فخر الدین صاحبؒ کے خاندان کا مرید ہوں، جو چشتیہ نظامیہ سلسلہ کےمشہور بزرگ تھے۔ درگاہ حضرت خواجہ قطب صاحبؒ میں ان کا مزار ہے اور وہ فرزند تھے حضرت مولانا نظام الدینؒ اورنگ آبادی کے اور غالبؔ کے اکثر احباب اور لہارو خاندان بھی حضرت مولانا فخر صاحبؒ مذکور کے سلسلہ میں مرید تھے۔ میاں کالے صاحب ان ہی مولانا فخر صاحب کے پوتے تھے جو بہادر شاہ کے پیر سمجھے جاتے تھے اور اسی وجہ سے ان کی املاک و جائداد کی ضبطی ہوئی جیسا کہ غالبؔ نے اسی روزنامچہ میں لکھا ہے۔ پس اگر غالبؔ چشتی نظامی سلسلہ میں مرید تھے تو شیعہ کیونکر ہو سکتے تھے، کیونکہ شیعہ مرید نہیں ہوا کرتے، مگر انہوں نے خود لکھا ہے کہ میں اثنا عشری ہوں۔ اس مشکل کا حل یہ ہے کہ چشتی نظامی فقرا اور ان کے مریدین محبت اہل بیت میں بہت غلو رکھتے ہیں اور بارہ اماموں سے بھی تعلق خاص رکھتے ہیں۔ اس بنا پر غالبؔ نے اپنے آپ کو اثنا عشری یعنی بارہ ائمہ کا ماننے والا لکھا، ورنہ وہ شیعہ نہ تھے۔ شیعہ ہوتے تو مرنے کے بعد علی گنج شاہ مردان کے قبرستان میں دفن ہوتے جو صفدر جنگ کے قریب ہے اور جہاں اس وقت کے تمام شیعہ امرا دفن ہوا کرتے تھے اور اب بھی ہوتے ہیں۔ سنیوں خصوصاً چشتیوں نظامیوں کے قبرستان میں دفن ہونا اور درگاہ حضرت سلطان جی صاحب میں جو نظامیہ سلسلہ کے بانی ہیں، ان کی میت کا لایا جانا ظاہر کرتاہے کہ وہ سنی تھے شیعہ نہ تھے۔ ان کی قبر بھی سنی طریقہ کی بنائی گئی ہے یعنی اس پر اونچا اونٹ کے کوہان کی صورت کا خشتی تعویذ بنایا گیا ہے۔ شیعوں کی قبریں زمین کے برابر ہوتی ہیں۔ ابھرا ہوا یا اونٹ کی کوہان کی شکل کا تعویذ ان کے ہاں نہیں بنایا جاتا۔ غالبؔ کی قبر پر تاریخ میر مجروحؔ کی کہی ہوئی کندہ ہے، جو غالبؔ کے شاگرد اور شیعہ مذہب رکھتے تھے۔ وہ تاریخ یہ ہے، کل میں غم و اندوہ میں باخاطر محزوںتھا تربت استاد پہ بیٹھا ہوا غم ناکدیکھا جو مجھے فکر میں تاریخ کی مجروحؔہاتف نے کہا گنج معانی ہے تہ خاک(۱۲۸۵ھ۔ حسن نظامی)قلعہ کی تباہی کی پیشین گوئیمشاعرہ یہاں شہر میں کہیں نہیں ہوتا۔ قلعہ میں شہزادگان تیموریہ جمع ہوکر کچھ غزل خوانی کرلیتے ہیں۔ میں کبھی اس محفل میں جاتا ہوں اور کبھی نہیں جاتا اور یہ صحبت خود چند روزہ ہے۔ اس کو دوام کہاں؟ کیا معلوم ہے، اب کے نہ ہو اور اب کے ہو تو آئندہ نہ ہو۔ (نوٹ، یہ تحریر غدر سے پہلے کی ہے۔ لال قلعہ اور اس کے باشندوں کی نسبت جس انداز سے لکھتے ہیں، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ شہزادوں کے اطوار اور ملک کی سیاست کے رخ کو دیکھ کر غالبؔ نے سمجھ لیا تھا کہ اب یہ رونق چند روز کی مہمان ہے۔ گو غدر کی خبر غالبؔ کو یہ تھی کہ غیب کا علم نہ جانتے تھے۔ پھر بھی آثار و قرائن سے انہوں نے سمجھ لیا تھا کہ انگریز اب اس بادشاہی کھلونہ کو سامنے سے ہٹا دینا چاہتے ہیں۔ جب ہی تو انہوں نے صاف صاف لکھ دیا کہ ’’یہ صحبت چند روزہ ہے۔ اس کو دوام کہاں؟‘‘ اور یہ لکھ کر تو انہوں نے پیش گوئی کا کمال ظاہر کر دیا کہ ’’کیا معلوم اب کے نہ ہو اور اب کے ہو تو آئندہ نہ ہو۔ ‘‘ گویا غالبؔ کو قلعہ کی تباہی کا اتنا یقین تھا کہ ایک دو سال کی قید بھی انہوں نے لگا دی۔ حسن نظامی)اب دہلی میں کون رہتا ہے؟ کہتے ہیں دلی بڑا شہر ہے۔ ہرقسم کے آدمی وہاں بہت ہوں گے مگر اب یہ وہ دلی نہیں ہے بلکہ ایک کمپ ہے۔ مسلمان اہل حرفہ یا حکام کے شاگرد پیشہ۔ باقی سراسر ہنود و معزول بادشاہ کے ذکور جو بقیۃ السیف ہیں۔ وہ پانچ پانچ روپے مہینہ پاتے ہیں۔ اناث میں سے جو پیرزن ہیں۔ وہ کٹنیاں اور جوانیں کسبیاں۔ امرائے اسلام میں سے اموات گنو، ’’حسن علی خاں بہت بڑے باپ کا بیٹا سو روپے کا پنشن دار۔ ‘‘سو روپے مہینے کا روزینہ دار بن کر نامراد بن گیا۔ میر ناصر الدین باپ کی طرف سے پیر زادہ، نانا اور نانی کی طرف سے امیر زادہ مظلوم مارا گیا۔ آغا سلطان، بخشی محمد علی خاں کا بیٹا جو خود بھی بخشی ہو چکا ہے، بیمار پڑا، نہ دوا نہ غذا۔ انجام کار مرگیا۔ ناظر حسین مرزا جس کا بڑا بھائی مقتولوں میں آگیا ہے۔ اس کے پاس ایک پیسہ نہیں۔ ٹکے کی آمد نہیں۔ مکان اگر چہ رہنے کو مل گیا ہے مگر دیکھئے چھٹا رہے یا ضبط ہو جائے۔ بڈھے صاحب ساری املاک بیچ کر نوش جان کرکے بیک بینی و دو گوش بھرت پور چلے گئے۔ ضیاء الدین کی پانسو روپئے کی املاک وا گزاشت ہو کر پھر قرق ہوگئی۔ تباہ خراب پھر لاہور گیا۔ وہاں پڑا ہوا ہے۔ دیکھئے کیا ہوتا ہے۔ قصہ کوتاہ قلعہ اور جھجر اور بہادر گڑھ اور بلب گڑھ اور فرخ نگر کم وبیش تیس لاکھ روپیہ کی ریاستیں مٹ گئیں۔ شہر کی عمارتیں خاک میں مل گئیں۔ ہنرمند آدمی کیوں پایا جائے۔ جو حکما کا حال ہے، وہ بیان واقع ہے۔ (نوٹ، جو لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ اب دہلی میں نہ صاحب اخلاق و مروت ہیں، نہ علم و ہنر والے ہیں، نہ امرا ہیں، نہ شعرا ہیں، نہ پہلے سے علما و فقراء نظر آتے ہیں۔ ان کو غالبؔ کی یہ تحریر پڑھنی چاہئے کہ غدر نے ان سب کا خاتمہ کر دیا اور ایسا تباہ کیا کہ آج تک اس شہر میں وہ پہلی سی بات پیدا نہ ہو سکی۔ اب دہلی میں دہلی والے کہاں ہیں؟ پردیسی لوگ آباد ہیں۔ دہلی والے یا تو پھانسیوں پر لٹک گئے یا جلا وطن ہو گئے۔ پھر اس غریب شہر کو بدنام کرنا اور اس کو قدیمی ناموری اور شہرت کی نظر سے دیکھنا بے عقلی نہیں تو کیا ہے؟ غالبؔ نے یہ تحریر ایسے درد سے لکھی ہے کہ دل پاش پاش ہوا جاتا ہے۔ غم کا نقشہ مجسم ہوکر آنکھوں کے راستہ دل میں گھسا چلا آتا ہے۔ حسن نظامی)ہندوستان کے غدر کے بعدہندوستان کا قلمرو بے چراغ ہوگیا۔ لاکھوں مرگئے۔ جو زندہ ہیں، ان میں سیکڑوں گرفتار بند بلا ہیں۔ جو زندہ ہے ان میں مقدور زندگی نہیں۔ اب دہلی میں ساہوکاروں کے سوا کوئی امیر نہیں ہے۔ مسلمان امیروں میں تین آدمی نواب حسن علی خاں، نواب حامد علی خاں، حکیم احسن اللہ خاں، سو ان کا یہ حال ہے کہ روٹی ہے تو کپڑا نہیں ہے۔ مع ہذا یہاں کی اقامت میں تذبذب۔ خدا جانے کہاں جائیں۔ سوائے ساہوکاروں کے یہاں کوئی امیر نہیں ہے۔ (نوٹ، غدر کے بعد غالبؔ نے دہلی کے مسلمان امراء کی تباہی کا جو جگہ جگہ نقشہ دکھایا ہے، وہ آج تک اصلی خدوخال میں موجود ہے کہ خاندانی مسلمان امیر ایک نہیں۔ ساہوکار امیر ہزار ہیں۔ خواہ ہندو ہوں یا مسلمان۔ تجارت کا تمول نظر آتا ہے۔ حکومت کی موروثی امیری خواب و خیال ہوگئی۔ حسن نظامی)نواب فرخ میرزا کا بچپنپرسوں فرخ میرزا آیا۔ اس کے ساتھ اس کا باپ بھی تھا۔ پوچھا کیوں صاحب میں تمہارا کون اور تم میرے کون ہو۔ ہاتھ جوڑ کر کہنے لگا۔ حضرت آپ میرے دادا اور میں آپ کا پوتا ہوں۔ پھر میں نے پوچھا کہ تمہاری تنخواہ آئی؟ کہا جناب عالی۔ آغا جان کی تنخواہ آگئی ہے۔ میری نہیں آئی۔ میں نے کہا لوہارو جائے تو تنخواہ پائے۔ کہا حضرت میں تو آغا جان سے روز کہتا ہوں کہ لوہارو چلو، اپنی حکومت چھوڑ کر دلی کی رعیت میں کیوں مل گئے۔ سبحان اللہ بالشت بھر کا لڑکا اور یہ فہم درست اور طبع سلیم۔ میں اس کی خوبی خو اور فرخی سیرت پر نظر کرکے اس کو فرخ سیر کہتا ہوں۔ (نوٹ، یہ نواب فرخ میرزا والی لوہارو کا ذکر ہے، جن کو برٹش گورنمنٹ سے سر کا خطاب ہے اور توپوں کی سلامی دی جاتی ہے اور اعلیٰ درجہ کے والیان ریاست کے برابر اعزاز کیا جاتا ہے۔ درمیانہ قد ہے۔ گورا رنگ۔ کٹورا سی آنکھیں۔ بڑی اور چڑھی ہوئی ڈاڑھی۔ بال سفید ہوگئے ہیں۔ نہایت خلیق و ملنسار رئیس ہیں۔ اردو ایسی بولتے ہیں کہ آدمی بیٹھا حیرت سے منہ دیکھا کرے۔ مولانا شبلیؔ حسرت سے کہا کرتے تھے کہ فرصت ہو تو فرخ میرزا کی باتیں سنے کہ اصل اردو ان کی باتوں میں ہے۔ غالبؔ کے بیان سے معلوم ہوتا ہے فرخ میرزا بچپن سے ہونہار تھے۔ ایک فقرہ تو اس غضب کا غالبؔ سے کہا کہ آج کل لوگ سنیں تو متعجب ہوں کیونکہ جنگ یورپ کے زمانہ میں جب نواب فرخ میرزا بصرہ گئے تو عوام نے مشہور کیا کہ وہ انگریزوں کی مدد کرنے گئے ہیں اور انہوں نے اسلامی حکومت کے درد کی پروا نہ کی۔ غالبؔ کی عبارت سے معلوم ہوتا ہے کہ فرخ میرزا طفلی سے ذاتی اور اسلامی حکومت کی خوبی کو محسوس کرتے تھے۔ جب ہی تو انہوں نے کہا، ’’اپنی حکومت چھوڑ کر دلی کی رعیت میں کیوں مل گئے۔ ‘‘ مگر آفرین ہے فرخ میرزا کی بلاغت پر۔ اس وقت بھی پہلو بچا کر بات منہ سے نکالی۔ دلی کی رعیت کہا انگریزی رعیت نہ کہا۔ حسن نظامی)اینٹ سے اینٹ بجادیکل پنج شنبہ ۲۵ مئی کو اول روز پہلے بڑے زور کی آندھی آئی، پھر خوب مینہ برسا۔ وہ جاڑا پڑا کہ تمام کرۂ شہر زمہریر ہو گیا۔ بڑے دریبہ کا دروازہ ڈھایا گیا، قابل عطاء کے کوچہ کا بقیہ مٹایا گیا۔ کشمیری کرہ کی مسجد زمین کا پیوند ہوگئی۔ سڑک کی وسعت دو چند ہوگئی۔ اللہ اللہ گنبد مسجدوں کے ڈھائے جاتے ہیں اور ہنود کی ڈیوڑھیوں کی جھنڈیوں کے پرچم لہراتے ہیں۔ ایک شیرزور آور اور پیلتن بندر پیدا ہوا ہے۔ مکانات جابجا ڈھاتا پھرتا ہے۔ فیض اللہ خاں بنگش کی حویلی پر جو جو گلدستے ہیں جس کو عوام گمزی کہتے ہیں، ان میں سے ہلا ہلا کر ایک کی بنا ڈھا دی۔ اینٹ سے اینٹ بجا دی۔ واہ رے بندر، یہ زیادتی اور پھر شہر کے اندر۔ ریگستان کے ملک سے ایک سردار زادہ کثیر العیال عسیر الحال، عربی، فارسی، انگریزی تین زبانوں کا عالم دلّی میں وارد ہوا ہے۔ بلی ماروں کے محلہ میں ٹھہرا ہے۔ بحسب ضرورت حکام شہر سے مل لیتا ہے۔ باقی گھر کا دروازہ بند کئے بیٹھا رہتا ہے۔ گاہ گاہ ہر شام وپگاہ غالب علی شاہ کے تکیہ پر آجاتا ہے۔ تم سے گورنمنٹ کو ملاقات کبھی منظور نہیںغدر کے دفع ہونے اور دلی کے فتح ہونے کے بعد میرا پنشن کھلا۔ چڑھا ہوا روپیہ دام دام ملا۔ آئندہ کو بدستور بے کم وکاست جاری ہوا مگر لارڈ صاحب کا دربار اور خلعت جو معمولی و مقرری تھا، مسدود ہو گیا۔ یہاں تک کہ صاحب سکرٹر بھی مجھ سے نہ ملے اور کہلا بھیجا کہ اب گورنمنٹ کو تم سے ملاقات کبھی منظور نہیں۔ میں فقیر متکبر مایوس دائمی ہوکر اپنے گھر بیٹھ رہا اور حکام شہر سے بھی ملنا موقوف کردیا۔ بڑے لارڈ صاحب کے ورود کے زمانہ میں نواب لفٹنٹ گورنر بہادر پنجاب بھی دلی آئے۔ دربار کیا۔ خیر کرو، مجھ کو کیا۔ ناگاہ دربار کے تیسرے دن بارہ بجے چپراسی آیا اور کہا کہ نواب لفٹنٹ گورنر نے یاد کیا ہے۔ سوار ہوگیا۔ پہلے صاحب سکرٹر بہادر سے ملا۔ پھر نواب صاحب کی خدمت میں حاضر ہوا۔ تصور میں کیا بلکہ تمنا میں بھی جو بات نہ تھی، وہ حاصل ہوئی یعنی عنایت سے عنایت۔ اخلاق سے اخلاق۔ وقت رخصت خلعت دیا اور فرمایا کہ ہم تجھ کو اپنی طرف سے از راہ محبت دیتے ہیں اور مژدہ دیتے ہیں کہ لارڈ صاحب کے دربار میں بھی تیرا نمبر اور خلعت کھل گیا۔ انبالہ دربار میں شریک ہو، خلعت پہن۔ (نوٹ، باوجود اس کے کہ حکام گورنمنٹ نے کہہ دیا تھا کہ ملاقات کبھی منظور نہیں، پھر غالبؔ کے استقلال اور لگاتار جد وجہد نے اس ’’کبھی نہیں کے‘‘ قلعہ کو فتح کرلیا اور ملاقاتیں ہونے لگیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ انگریزی آئین میں قطعی فیصلہ طے شدہ امر اور ’’کبھی نہیں‘‘ بھی بدل جاتے ہیں۔ اگر سامنے والا مسلسل جد و جہد کرتا رہے۔ مسٹر مارلے نے کہا تھا تقسیم بنگال طے شدہ امر ہے۔ اس کی منسوخی محال ہے، مگر بنگالیوں کی کوشش نے اس کو منسوخ کرا کے چھوڑا۔ حسن نظامی)غالبؔ کی چند کتب’’پنج آہنگ‘‘ کے دو چھاپے ہیں۔ ایک بادشاہی چھاپہ خانہ کا اور ایک منشی نور الدین کے چھاپے خانہ کا۔ پہلا ناقص ہے، دوسرا سراسر غلط ہے۔ ضیاء الدین خاں جاگیر دار لوہارو میرے نسبتی بھائی اور میرے شاگرد رشید ہیں۔ جو نظم و نثر میں نے کچھ لکھا، وہ انہوں نے لیا اور جمع کیا۔ چنانچہ کلیات نظم فارسی چون پچپن جزو اور ’’پنج آہنگ‘‘ اور ’’مہر نیم روز‘‘ اور ’’دیوان ریختہ‘‘ سب مل کر سو سوا سو جزو مطلے اور مذہب اور انگریزی ابری کی جلدیں الگ الگ کوئی ڈیڑھ سو دو سو روپے کے صرف میں بنوائیں۔ میری خاطر جمع کہ کلام میرا سب ایک جا ہے۔ پھر ایک شاہزادہ نے اس مجموعہ نظم و نثر کی نقل کی۔ اب دو جگہ میرا کلام اکٹھا ہوا۔ کہاں سے یہ فتنہ برپا ہوا اور شہر لٹے، وہ دونوں جگہ کا کتاب خانہ خوان یغما ہو گیا۔ ہرچند میں نے آدمی دوڑائے۔ کہیں سے ان میں سے کوئی کتاب ہاتھ نہ آئی۔ وہ سب قلمی ہیں۔ جناب ہنری اسٹورٹ ریڈ صاحب کو ابھی میں خط نہیں لکھ سکتا۔ ان کی فرمائش ہے۔ اردو کی نثر انجام پائے تو اس کے ساتھ ان کو خط لکھوں مگر اردو میں میں اپنے قلم کا زور کیا صرف کروں گا اور اس عبارت میں معانی نازک کیونکر بھروں گا۔ (نوٹ، باوجود اس کسر نفسی کے غالبؔ کی اردو میں وہ زور ہے اور وہ سلاست ہے کہ آج تک کوئی شخص اس کا ہمسر اردو لکھنے میں پیدا نہیں ہوا)مقتولوں اور مہجوروں کی یادغم مرگ میں قلعہ نامبارک سے قطع نظر کر کے اہل شہر کو گنتا ہوں۔ مظفر الدولہ، میرناصر الدین، مرزا عاشور بیگ، میرا بھانجا، اس کا بیٹا، احمد مرزا، انیس برس کا بچہ مصطفیٰ خاں ابن اعظم الدولہ، اس کے دو بیٹے ارتضیٰ خاں اور مرتضیٰ خاں، قاضی فیض اللہ۔ کیا میں ا ن کو اپنے عزیزوں کی برابر نہیں جانتا تھا۔ اے لو بھول گیا۔ حکیم رضی الدین خاں، میرا حمد حسین، میکش۔ اللہ اللہ۔ ان کو کہاں سے لاؤں۔ غم فراق حسین مرزا، میر مہدی، میر سرفراز حسین میرن صاحب، خدا ان کو جیتا رکھے۔ کاش یہ ہوتا کہ جہاں ہوتے وہاں خوش ہوتے۔ گھر ان کے بے چراغ، وہ خود آوارہ، سجاد اور اکبر کے حال کا جب تصور کرتا ہوں، کلیجہ ٹکڑے ٹکڑے ہوتا ہے۔ کہنے کو ہر کوئی ایسا کرسکتا ہے مگرمیں علی کو گواہ کرکے کہتا ہوں کہ ان اموات کے غم میں اورزندوں کے فراق میں عالم میری نظر میں تیرہ وتار ہے۔ فقیر اور ہتھیار نہ آئےبھائی فضلو عرب سرا میں رہتے ہیں۔ پرسوں سے آئے ہوئے ہیں۔ دوڑتے پھرتے ہیں۔ عرضیاں دیتے پھرتے ہیں۔ کوئی سنتا نہیں۔ آمد و رفت کا ٹکٹ موقوف ہو گیا۔ فقیر اور ہتھیار جس کے پاس ہوں، وہ نہ آئے اور باقی ہندو مسلمان عورت مرد، سوار پیادہ جو چاہے چلا جائے چلا آئے، مگر رات کو شہر میں رہنے نہ پائے۔ وہ شورغل تھا کہ سڑکیں نکلیں گی اور گوروں کی چھاؤنی بنے گی۔ کچھ بھی نہ ہوا۔ مرپٹ کر ایک جان نثار خاں کے چھتے کی سڑک نکلی ہے۔ دلّی والوں نے لکھنؤ کا خاکہ اڑا رکھا ہے۔ کہتے ہیں کہ لاکھوں مکان ڈھا دیے اور صاف میدان کردیا۔ میں جانتا ہوں ایسا نہ ہوا ہوگا۔ (نوٹ، امن عام کے بعد بھی فقیر اور ہتھیار والے کا شہر کے داخلہ سے ممنوع ہونا ظاہر کرتا ہے کہ حکام انتظامی ضرورت سے ایسا کرنے پر مجبور تھے کیوں کہ بغاوت کے وقت اکثر باغیوں نے فقیروں کے لباس میں دورہ کرکے عذر کی آگ بھڑکائی تھی۔ حسن نظامی)امام باڑہ کا انہدامآغا باقر کا امام باڑہ اس سے علاوہ کہ خداوند کا عزاخانہ ہے، ایک بنائے قدیم، رفیع مشہور۔ اس کے انہدام کا غم کس کو نہ ہوگا۔ یہاں دو سڑکیں دوڑتی ہیں۔ ایک ٹھنڈی سڑک اور ایک آہنی سڑک۔ محل ان کا الگ الگ۔ اس سے بڑھ کر یہ بات ہے کہ گوروں کا بارگ بھی شہر میں بنے گا اور قلعہ کے آگے جہاں لال ڈگی ہے، ایک میدان نکالا جائے گا، محبوب کی دکانیں، بہیلیوں کے گھر، فیل خانہ، بلاقی بیگم کے کوچہ تک سوائے لال ڈگی اور دوچار کنوؤں کے آثار عمارت باقی نہ رہے گی۔ آج جان نثار خاں کے چھتے کے مکان ڈھنے شروع ہو گئے ہیں۔ کیوں میں دلّی کے ویرانہ سے خوش نہ ہوں۔ جب اہل شہر ہی نہ رہے، شہر کو کیا چولہے میں ڈالوں۔ پشتم نہیں اکھیڑ سکتازبان زد خلق ہے کہ قدیم نوکروں سے باز پرس نہیں۔ مشاہدہ اس کے خلاف ہے۔ اے لوکئی دن ہوئے کہ حمید خاں گرفتار آیا ہے۔ پاؤں میں بیڑیاں، ہاتھوں میں ہتھکڑیاں، حوالات میں ہے۔ دیکھئے کہ حکم اخیر کیا ہو۔ صرف نوزے رائے کی مختار کاری پر قناعت کی گئی۔ جو کچھ ہونا ہے وہ ہو رہے گا۔ ہر شخص کی سرنوشت کے موافق حکم ہو رہے ہیں۔ نہ کوئی قانون ہے نہ قاعدہ۔ نہ نظیر کام آئے نہ تقریر پیش جائے۔ ارتضیٰ خاں ابن مرتضیٰ خاں کی پوری دوسو روپے کی پنشن کی منظوری کی رپورٹ گئی اور ان کی دوبہنیں سو سو روپے مہینہ پانے والیوں کو حکم ہوا کہ چونکہ تمہارے بھائی مجرم تھے، تمہاری پنشن ضبط۔ بطریق ترحم دس دس روپے مہینہ تم کو ملے گا۔ ترحم یہ ہے تو تغافل کیا قہر ہوگا۔ میں خود موجود ہوں اور حکام صدر کا روشناس پشتم نہیں اکھیڑ سکتا۔ تریپن برس کا پنشن۔ تقرر اس کا بہ تجویز لارڈ لیک و بمنظوری گورنمنٹ۔ اور پھر نہ ملا ہے نہ ملے گا۔ خیر احتمال ہے ملنے کا۔ (نوٹ، پشتم کا لفظ آج کل بے تہذیبی میں داخل سمجھا جاتا ہے، مگر اس زمانہ میں سب لکھتے اور بولتے تھے۔ غالبؔ نے لکھا تو دستور عام کے سبب لکھا ورنہ ان کی عادت فحش نویسی کی نہ تھی۔ حسن نظامی)سب کچھ تماب تو فکر یہ پڑی ہوئی ہے کہ رہیے کہاں اور کھائیے کیا؟ مولانا کا حال معلوم ہوا۔ مرافعہ میں حکم دوام حبس بحال رہا۔ بلکہ تاکید ہوئی کہ جلد دریائے شور کی طرف روانہ کرو۔ ان کا بیٹا ولایت میں اپیل چاہتا ہے۔ کیا ہوتا ہے۔ جو ہونا تھا، ہو لیا۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ وہ ’’دہلی اردو اخبار‘‘ کا پرچہ اگر مل جائے تو بہت مفید مطلب ہے۔ ورنہ خیر کچھ محل خوف و خطر نہیں ہے۔ حکام صدر ایسی باتوں پر نظر نہ کریں گے۔ میں نے سکہ کہا نہیں۔ اگر کہا تو اپنی جان اور حرمت بچانے کو کہا۔ یہ گناہ نہیں اور اگر گناہ بھی ہے تو کیا ایسا سنگین ہے کہ مکہ معظمہ کا اشتہار بھی اس کو نہ مٹا سکے۔ سبحان اللہ! گولہ انداز کا بارود بنانا اور توپیں لگانی اور بنک گھر اور میگزین کا ٹوٹنا معاف ہو جائے اور شاعر کے دو مصرعے معاف نہ ہوں! ہاں صاحب گولہ کا بہنوئی مدد گار ہے اور شاعرکا سالہ بھی جانب دار نہیں۔ ایک لطیفہ پرسوں خوب ہوا۔ حافظ مموبے گناہ ثابت ہو سکے۔ رہائی پا چکے، حاکم کے سامنے حاضر ہوا کرتے ہیں۔ املاک اپنی مانگتے ہیں۔ قبض وتصرف تو ان کا ثابت ہو چکا ہے۔ صرف حکم کی دیر۔ پرسوں وہ حاضر ہیں۔ مثل پیش ہوئی۔ حاکم نے پوچھا کہ حافظ محمد بخش کون ہے؟ عرض کیا کہ میں، پھر پوچھا کہ حافظ مموکون؟ عرض کیا کہ میں۔ اصل نام میر محمد بخش ہے۔ ممو مشہور ہوں۔ فرمایا کچھ بات نہیں۔ حافظ محمد بخش بھی تم اور حافظ ممو بھی تم۔ سارا جہاں بھی تم۔ جو دنیا میں ہے وہ بھی تم۔ ہم مکان کس کو دیں۔ مثل داخل دفتر ہوئی۔ میاں ممو اپنے گھر چلے آئے۔ (نوٹ، بات معمولی تھی۔ حاکم کو اس کا سمجھنا دشوار نہ تھا کہ حافظ محمد بخش نام تھا اور لوگ ممو ممو کہتے تھے۔ پھر جو جائداد نہ دی گئی تو غالباً کوئی اور وجہ ہوگی۔ ورنہ اتنی سی بات پر حقدار کو اس کے حق سے محروم کرنا سمجھ میں نہیں آتا۔ حسن نظامی)احکام قضا وقدرسنا ہے کہ ایک محکمہ لاہور میں معاوضہ نقصان رعایا کے واسطے تجویز ہوا ہے اور حکم یہ ہے کہ کہ جو رعیت کا مال کالوں نے لوٹا ہے۔ البتہ اس کا معاوضہ بحساب وہ یک سرکار سے ہوگا، یعنی ہزار روپے کے مانگنے والے کو سو روپے ملیں گے اور جو گوروں کے وقت کی غارت گری ہے وہ ہدر(اس کے معنی معاف اور ناقابل گرفت کے ہیں) اور محل ہے۔ اس کا معاوضہ نہ ہوگا۔ شاید یہ وہی کمشنر ہوں۔ مکانات حامد علی خاں تومدت سے ضبط ہوکر سرکار کا مال ہوگئے۔ باغ کی صورت بدل گئی۔ محل سرا اور کوٹھی میں گورے رہتے تھے۔ اب پھاٹک اور سر تا سر دکانیں گرا دی گئیں۔ سنگ و خشت کا نیلام کر کے روپیہ داخل خزانہ ہوا۔ جب بادشاہ اودھ کی املاک کا وہ حال ہو تو رعیت کی املاک کون پوچھتا ہے۔ جو احکام کہ دلّی میں صادر ہوئے ہیں، وہ احکام قضا و قدر ہیں۔ ان کا مرافعہ کہیں نہیں۔ گویا ہم نہ کبھی کہیں کے رئیس تھے، نہ جاو وحشم رکھتے تھے، نہ املاک رکھتے تھے۔ دہلی کی چنگی کے پہلے ملازمآج کل یہاں پنجاب احاطہ کے بہت حاکم فراہم ہیں۔ پون ٹوٹی کے باب میں کونسل ہوئی۔ پرسوں ۷؍ نومبر سے جاری ہوگئی۔ سالگ رام خزانچی، چھنامل، مہیش داس ان تینوں شخصوں کو یہ کام بطریق امانی سپرد ہوا ہے۔ غلہ اور اپلے کے سوا کوئی چیز ایسی نہیں کہ جس پر محصول نہ ہو۔ آبادی کا حکم عام ہے۔ خلق کا اژدہام ہے۔ آگے حکم تھا کہ مالکان مکان رہیں کرایہ دار نہ رہیں۔ پرسوں سے حکم ہو گیا کہ کرایہ دار بھی رہیں، مگر کرایہ سرکار کو دیں۔ حکام بے پروا، مختار کار عدیم الفرصت، میں پاشکستہ، محمد قلی خاں کبھی یہاں کبھی وہاں۔ وقت پر موقوف ہے۔ حکیم احسن اللہ خاں کے مکانات شہر ان کومل گئے اور یہ حکم ہے کہ شہر سے باہر نہ جاؤ۔ دروازہ سے باہر نہ نکلو۔ اپنے گھر میں بیٹھے رہو۔ نواب حامد علی خاں کے مکانات سب ضبط ہوگئے۔ وہ قاضی کے حوض پر کرایہ کے مکانات میں مع ممنوعہ کے رہتے ہیں۔ باہر جانے کا حکم ان کو بھی نہیں۔ مرزا الٰہی بخش کو حکم کرانچی بندر جانے کاہے۔ انہوں نے زمین پکڑی ہے۔ سلطان جی میں رہتے ہیں۔ غدر کر رہے ہیں۔ دیکھئے یہ خبر اٹھ جائے یا یہ خود اٹھ جائیں۔ (نوٹ، لالہ سالگ رام وچھنامل صاحب اور مہیش داس صاحب جن کا ذکر پون ٹوٹی کی ابتدائی خدمت میں آیا، بعد میں بہت نامور ہوئے۔ مہیش داس کے نام سے ایک محلہ آباد ہے۔ لالہ سالگ رام وچھنامل کی اولاد نیل کے کٹرہ میں بڑے کروفر سے رہتی ہے اور دہلی کے اعظم رئیسوں میں اس کا شمار ہے۔ اس کے افراد کی گورنمنٹ میں بڑی عزت ہے۔ خطابات میں لاکھوں روپے سال کی آمدنی ہے۔ بہت صاف ستھرے، گورے چٹے اور قدامت کی شان کے یہ لوگ ہیں۔ حسن نظامی)تصوف اور نجومآرائش مضامین شعر کے واسطے کچھ تصوف کچھ نجوم لگا رکھا ہے، ور نہ سوائے موزونی طبع کے یہاں اور کیا رکھا ہے۔ بہرحال علم نجوم کے قاعدے کے موافق جب زمانہ کے مزاج میں فساد کی صورتیں پیدا ہوتی ہیں، تب سطح فلک پر یہ شکلیں دکھائی دیتی ہیں۔ جس برج میں یہ نظر آئے اس کا درجہ و دقیقہ دیکھتے ہیں۔ ہزار طرح کی چال ڈالتے ہیں۔ تب ایک حکم نکالتے ہیں۔ شاہجہاں آباد میں بعد غروب آفتاب افق غربی شہر پر نظر آتا تھا اور ان دنوں میں آفتاب اول میزان میں تھا تو یہ سمجھا جاتا تھا کہ یہ صورت عقرب میں ہے۔ درجہ و دقیقہ کی حقیقت نامعلوم رہی۔ بہت دن شہر میں اس ستارہ کی دھوم رہی۔ اب وہ دس بارہ دن سے نظر نہیں آتا۔ بس میں اتنا جانتا ہوں کہ یہ صورتیں قہر الہٰی کی ہیں اور دلیلیں ملک کی تباہی کی۔ قران النحسین پھر کسوف، پھر خسوف، پھر یہ صورت پر کدورت۔ عیاذ باللہ و پناہ بخدا۔ یہاں پہلی نومبر کو بدھ کے دن حسب الحکم حکام کوچہ و بازار میں روشنی ہوئی اور شب کو کمپنی کا ٹھیکہ ٹوٹ جانا اور قلمرو ہند کا بادشاہی عمل میں آنا سنایا گیا۔ نواب گورنر جنرل لاڈر کیلنگ بہادر کو ملکہ معظمہ انگلستان نے فرزندارجمند خطاب دیا اور اپنی طرف سے نائب اور ہندوستان کا حاکم کیا۔ میں قصیدہ پہلے ہی اس تہنیت میں لکھ چکا ہوں۔ میں نے گیارہویں مئی ۱۸۵۷ء سے اکتیسویں جولائی ۱۸۵۸ء تک روداد غدر نثر میں بعبارت فارسی آمیختہ بعربی لکھی ہے اور وہ پندرہ سطر کے مسطر سے چار جزو کی کتاب آگرہ کو مفید الخلائق میں چھپنے کو گئی ہے۔ ’’دستنبو‘‘ اس کا نام رکھا ہے اور اس میں صرف اپنی سرگزشت اور اپنے مشاہدہ کے بیان سے کام رکھا ہے۔ دلّی پر پانچ لشکروں کا حملہپانچ لشکر کا حملہ پے درپے اس شہر میں ہوا۔ پہلا باغیوں کا لشکر۔ اس میں اہل شہر کا اعتبار لٹا۔ دوسرا لشکر خاکیوں کا۔ اس میں جان و مال و ناموس و مکان و مکیں، آسمان و زمین و آثار ہستی سراسر لٹ گئے۔ تیسرا لشکر کال کا۔ اس میں ہزارہا آدمی بھوکے مرے۔ چوتھا لشکر ہیضہ کا۔ اس میں بہت سے پیٹ بھرے مرے۔ پانچواں لشکر تپ کا۔ اس میں تاب و طاقت نہ پائی۔ اب تک اس لشکر نے شہر سے کوچ نہیں کیا۔ میرے گھر دو آدمی تپ میں مبتلا ہیں۔ ایک بڑا لڑکا، ایک داروغہ۔ خدا ان دونوں کو جلد صحت دے۔ مغل خاں غدرسے کچھ دن پہلے مستعفی ہو کر مرگئے۔ ہے ہے۔ کیوں کر لکھوں رضی الدین خاں کو قتل عام میں ایک خاکی نے گولی مار دی اور احمد حسین خاں ان کے چھوٹے بھائی اسی دن مارے گئے۔ طالع یار خاں کے دونوں بیٹے ٹونک سے رخصت لے کر آئے تھے۔ غدر کے سبب جانہ سکے۔ یہیں رہے۔ بعد فتح دہلی دونوں بے گناہوں کو پھانسی ملی۔ طالع یار خاں ٹونک میں ہیں۔ زندہ ہیں، پر یقین ہے مردہ سے بدتر ہوں گے۔ میر جھونم نے بھی پھانسی پائی۔ حال صاحبزادہ میاں نظام الدین کا یہ ہے کہ جہاں سب اکابر شہر کے بھاگے تھے، وہاں وہ بھی بھاگ گئے تھے۔ بڑودہ میں رہے۔ اورنگ آباد میں رہے۔ حیدر آباد میں رہے۔ سال گزشتہ یعنی جاڑوں میں یہاں آئے۔ سرکار سے ان کی صفائی ہوگئی، لیکن صرف جاں بخشی۔ روشن الدولہ کا مدرسہ جو عقب کوتوالی چبوترہ پر ہے، وہ اور خواجہ قاسم کی حویلی جس میں مغل علی خاں مرحوم رہتے تھے، وہ اور خواجہ صاحب کی حویلی یہ املاک خاص حضرت صاحب کی اور کالے صاحب کے بعد میاں نظام الدین کی قرار پا کر ضبط ہوئی اور نیلام ہو کر روپیہ سرکار میں داخل ہوگیا۔ ہاں قاسم کی حویلی جس کے کاغذ میاں نظام الدین کی والدہ کے نام کے ہیں، وہ ان کو یعنی میاں نظام الدین کی والدہ کو مل گئی۔ فی الحال میاں نظام الدین پاک پٹن گئے۔ شاید بہاول پور بھی جائیں گے۔ (نوٹ، غدر کے بعدجب انگریز پنجاب سے فوج لے کر دہلی پر چڑھے تو ان کی فوج کی وردی خاکی تھی۔ اس واسطے شہر میں خاکی کا لفظ ایک اصطلاح بن گیا تھا۔ خاکی کا ذکر در حقیقت انگریزی فوج (جن میں سکھ بھی تھے اور مسلمان بھی تھے) کے لیے استعمال کیا جاتا تھا۔ میاں نظام الدین صاحب میاں کالے صاحب کے فرزند تھے۔ ان کی جائداد اورنگ آباد دکن میں بھی ہے۔ میاں سیف الدین وغیرہ اس پر قابض ہیں۔ چالیس ہزار سالانہ کی آمدنی ہے۔ میاں عبد الصمد صاحب دہلوی نے جو میاں نظام الدین صاحب کے نواسہ ہیں، اس جاگیر کا دعویٰ کیا ہے اور آج کل حیدرآباد میں اس کا مقدمہ چل رہا ہے۔ حسن نظامی)غدر نہیں خدا کا قہرغلہ کی گرانی، آفت آسمانی، امراض موذی، بلائے جانی، انواع و اقسام کے اور ام و ثبور شائع، چارہ ناسودمند وسطی ضائع۔ میں نہیں جانتا کہ ۱۱؍مئی ۱۸۵۷ء کو پھر دن چڑھے۔ وہ فوج باغی میرٹھ سے دلّی آئی تھی یا خود قہر الٰہی کا پے در پے نزول ہوا تھا۔ بقدر خصوصیت سابق دلّی ممتاز ہے ورنہ سر تا سر قلمرو ہند میں فتنہ و بلا کا دروازہ باز ہے۔ انا للہ۔ لوٹ کی کتابیں کھتریوں میںکتاب کوئی سی ہو، اس کا پتہ کیوں کر لگے۔ لوٹ کا مال کھتریوں میں بک گیا اور اگر سڑک پر بکا تو میں کہاں جو دیکھوں، بر دل نقش اندوہ گیتی بسر آریدگیرید کہ گیتی ہمہ یکسر بسر آمد

یہاں کا قصہ مختصر یہ ہے کہ قصہ تمام ہوا۔ غدر کے بعد ایک چھوٹا سا فساددلّی کا حال تو یہ ہے، گھر میں تھا کیا جو ترا غم اسے غارت کرتاوہ جو کہتے تھے ہم اک حسرت تعمیر سو ہےیہاں دھرا کیا ہے جو کوئی لوٹے گا۔ چند روز گوروں نے اہل بازار کو ستایا تھا۔ اہل قلم اور اہل فوج نے باتفاق رائے ہمدگر ایسا بندوبست کیا کہ وہ فساد مٹ گیا۔ اب امن و امان ہے۔ میاں کالے صاحب کی خانہ ویرانیاںحضرت شیخ کا کلام اور صاحبزادہ شاہ قطب الدین ابن مولانا فخر الدین کا بھلا حال؟ ایں دفتر را گاؤ خورد و گاؤ را قصاب بر دو قصاب در راہ مرد۔ بادشاہ کے دم تک یہ باتیں تھیں۔ خود میاں کالے صاحب کا گھر اس طرح تباہ ہوا کہ جیسے جھاڑو دی۔ کاغذ کا پرزہ، سونے کا تار، پشیمنہ کا بال باقی نہ رہا۔ شیخ کلیم اللہ جہاں آبادی رحمۃ اللہ علیہ کا مقبرہ اجڑ گیا۔ کیا ایک اچھے گاؤں کی آبادی تھی۔ ان کی اولاد کے لوگ تمام اس موضع میں سکونت پذیر تھے۔ اب ایک جنگل ہے اور میدان میں قبر۔ اس کے سوا کچھ نہیں۔ وہاں کے رہنے والے اگر گولی سے بچے ہوں گے تو خدا ہی جانتا ہوگا کہ کہاں ہیں۔ ان کے پاس شیخ کا کلام بھی تھا۔ کچھ تبرکات بھی تھے۔ اب جب یہ لوگ ہی نہیں تو کس سے پوچھوں کیا کرں۔ کہیں سے یہ مدعا حاصل نہ ہوسکے گا۔ (نوٹ، حضرت شیخ کلیم اللہ جہاں آبادی کا مزار پریڈ کے میدان میں جامع مسجد کے شرق کی طرف دوسو قدم کے فاصلہ پر کھلے چبوترے پر واقع ہے۔ پہلے چونے کا چبوترہ تھا، اب سید عبد الغنی کلیمی سجادہ نشین کی سعی سے سنگ مرمر کی سلیں فرش میں لگائی گئی ہیں۔ یہ علاقہ اب تک فوجی قبضہ میں ہے اور یہاں سایہ کی جگہ بنانے کا حکم نہیں ہے۔ نمازی اور زائر نماز وزیارت کے وقت دھوپ کی تکلیف اٹھاتے ہیں۔ پہلے یہاں بڑی بڑی عمارتیں تھیں۔ حضرت شیخ کلیم اللہ سلسلۂ چشتیہ نظامیہ کے بڑے نامور اور صاحب تصنیف بزرگ گزرے ہیں۔ تفسیر کلیمی، مرقع، کشکول کلیمی، عشرۂ کاملہ، مالا بدفی التصوف، مکتوبات کلیمی وغیرہ ان کی یادگار کتابیں ہیں۔ حضرت شیخ یحییٰ مدنی چشتی کے خلیفہ تھے اور حضرت نظام الدین اورنگ آبادی ان ہی کے خلیفہ اورنگ آباد میں مدفون ہیں۔ میاں کالے صاحب کا نام میاں نصیر الدین تھا جو میاں قطب الدین صاحب کے بیٹے اور حضرت مولانا فخر الدین صاحب کے پوتے تھے۔ بہادر شاہ ان کی بہت عزت کرتے تھے، کیونکہ ان کے والد کے مرید اور دادا کے منظور نظر تھے۔ ملکہ بیگم ایک شہزادی سے انہوں نے نکاح بھی کیا تھا۔ قاسم جان کی گلی میں حکیم اجمل صاحب کے محلہ سے غرب کی طرف کالے صاحب کی حویلی مشہور ہے جس میں آج کل پنجابی تاجر دہلی کے رہتے ہیں۔ یہ ان ہی کی تھی اور غدر میں ضبط ہوئی۔ کوتوالی اور سنہری مسجد کے قریب بھی ان کی جائداد کا ذکر غالبؔ نے کیا ہے۔ اب ان کے نواسہ عبد الصمد صاحب پنڈت کے کوچہ میں رہتے ہیں اور دہلی کے فقرا میں مشہور درویش ہیں۔ حسن نظامی)دہلی کے مفتی اعظم کی بے چارگیجناب مولوی صدر الدین صاحب بہت دن حوالات میں رہے۔ کورٹ میں مقدمہ پیش ہوا۔ روبکاریاں ہوئیں۔ آخر صاحبان کورٹ نے جاں بخشی کا حکم دیا۔ نوکری موقوف، جائداد ضبط، ناچار خستہ وتباہ لاہور گئے۔ فنانشل کمشنر اور لفٹیننٹ گورنر نے از راہ ترحم نصف جائداد واگزاشت کی۔ اب نصف جائداد پر قابض ہیں۔ اپنی حویلی میں رہتے ہیں۔ کرایہ پر معاش کا مدار ہے۔ اگرچہ امداد ان کے گزارے کو کافی ہے، کس واسطے کہ ایک آپ اور ایک بی بی۔ تیس چالیس روپے کی آمد، لیکن چونکہ امام بخش چپراسی کی اولاد ان کی عترت ہے اور وہ دس بارہ آدمی ہیں، لہٰذا فراغ بالی سے نہیں گزرتی۔ ضعف پیری نے بہت گھیر لیا ہے۔ عشرۂ ثامنہ کے آخر میں ہیں۔ خدا سلامت رکھے۔ بہت غنیمت ہیں۔ (نوٹ، مفتی صدرالدین صاحب صدر الصدور دہلی کے اکابر علماء و شرفا میں تھے۔ حویلی صدر الصدور کا تختہ اب بھی میونسپل کمیٹی کی طرف سے لکھا ہوا ایک دیوار پر نظر آتا ہے اور جاننے والے کو رلاتا ہے۔ مٹیا محل کے سامنے ان کا مکان تھا، جس میں خان بہادر غلام محمد حسین خاں رجسٹرار مرحوم کی سکونت تھی اور اب ان کی اولاد رہتی ہے۔ اللہ اللہ مسلمانوں کی غربا پروری کس شان کی تھی کہ مٹنے اور مٹائے جانے کے بعد بھی جب کہ نوے برس کے قریب عمر تھی اور صرف چالیس روپے مہینہ گزر اوقات کے لیے باقی بچا تھا، مگر اپنے چپراسی کے کنبہ کو پالتے تھے۔ حسن نظامی)گردش ایام کا قیدی لفافہ بناتا تھااللہ اللہ! یہ دن بھی یادر رہیں گے۔ مجھ کو اکثر اوقات لفافے بنانے میں گزرتے ہیں۔ اگر خط نہ لکھوں تو لفافے بناؤں گا۔ غنیمت ہے کہ محصول آدھ آنہ ہے ورنہ مزہ معلوم ہوتا۔ بقیۃ السیف کا فکربعد قتل ہونے دس آدمی کے کہ دو اس میں عزیز بھی تھے۔ یہ سب وہاں سے نکالے گئے۔ مگر صورت نہیں معلوم کہ کیونکر نکلے۔ پیادہ یا سوار تھے۔ تنگ دست یا مالدار۔ مستورات کو تو(رتھ گاڑی) دے دی تھیں۔ ذکور کا حال کیا ہوا اور پھر وہاں سے نکلنے کے بعد کیا ہوا اور کہاں رہے۔ سرکار انگریزی کی طرف سے مورد تفقد و ترحم ہیں یا نہیں۔ رنگ کیا نظر آتا ہے۔ جبر کسر کی توقع ہے یا نہیں۔ یہ سب اللہ کو معلوم ہے۔ اب کوئی دوست میرے سامنے نہ مرےیا اللہ اب ان احباب میں سے کوئی میرے سامنے نہ مرے کیا معنی کہ جومیں مروں کوئی میرا یاد کرنے والا اور مجھ پر رونے والا بھی تو دنیا میں ہو۔ مصطفی خاں خدا کرے مرافعہ میں چھوٹ جائے ورنہ حبس ہفت سالہ کی تاب اس ناز پروردہ میں کہاں۔ احمد حسین میکش مخنوق ہوا(پھانسی پائی) گویا اس نام کا آدمی شہر میں تھا ہی نہیں۔ پنشن کی درخواست دے رکھی ہے بشرط اجرا بھی میرا کیا گزارہ ہوگا۔ ہاں دوباتیں ہیں۔ ایک تویہ کہ میری صفائی اور بے گناہی کی دلیل ہے، دوسرے یہ کہ موافق قول عوام چولہے دلدر نہ ہوگا۔ (نوٹ، نواب مصطفیٰ خاں شیفتہؔ بے نظیر شاعر اور خاندانی امیر تھے۔ نواب محمد اسحقٰ خاں مرحوم سابق سکریٹری علی گڑھ کالج ان کے صاحبزادہ تھے جنہوں نے ان کے کلام کا مجموعہ چھاپا ہے اور جو ’’حلقہ مشائخ دہلی‘‘ میں بکتا ہے۔ اس مجموعہ میں غدر کے حالات بھی ہیں اور رہائی کا تذکرہ بھی ہے۔ نواب مصطفیٰ خاں اور ان کے لڑکے نواب محمد اسحٰق خاں اپنے خاندان سمیت درگاہ حضرت خواجہ نظام الدین اولیاء میں دفن ہیں۔ درگاہ کی بڑی مسجد کے گوشہ شمال اور سماع خانہ کے غرب میں یہ قبرستان واقع ہے۔ کتبے لگے ہوئے ہیں۔ حسن نظامی)جب شراب پر پہرہ لگایہاں کا حال۔ مصرعہ، زمین سخت ہے اور آسماں دور ہے۔ جاڑا خوب پڑرہا ہے۔ تو نگر غرور سے، مفلس سردی سے اکڑ رہا ہے۔ آبکاری کے بندوبست جدید نے مارا۔ عرق کے نہ کھینچے کی قید شدید نے مارا۔ ادھر انسداد دروازہ آبکاری ہے۔ ادھر ولایتی عرق کی قیمت بھاری ہے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ مولوی فضل رسول صاحب حیدرآباد گئے ہیں۔ مولوی غلام امام شہید آگے سے وہاں ہیں۔ محی الدولہ محمد یار خاں سورتی نے ان صورتوں کو وہاں بلایا ہے۔ پر یہ نہ معلوم کہ وہاں ان کو کیا پیش آیا ہے۔ دوستوں سے ملنے میں دشواری تھیحکیم صاحب پر سے وہ سپاہی جوان پرمتعین تھا، اٹھ گیا اور ان کو حکم ہو گیا کہ اپنی وضع پر رہو، مگر شہر میں رہو۔ باہر جانے کا اگر قصد کرو تو پوچھ کر جاؤ اور ہر ہفتہ میں ایک بار کچہری میں حاضر ہواکرو۔ چنانچہ وہ کچے باغ کے پچھواڑے مرزا جاگن کے مکان میں آرہے۔ صفدر میرے پاس آیاتھا۔ یہ اس کی زبانی ہے۔ جی ان کے دیکھنے کو چاہتا ہے مگر ازراہ احتیاط جانہیں سکتا۔ مرزا بہادر بیگ نے بھی رہائی پائی۔ اب اس وقت سنا ہے کہ وہ خان صاحب کے پاس آئے ہیں۔ یقین ہے کہ بعد ملاقات باہر چلے جائیں گے۔ یہاں نہ رہیں گے۔ مٹنے والوں کے گھروں میں کون رہتا تھاقاسم جان کی گلی میر خیراتی کے پھاٹک سے فتح اللہ بیگ خاں کے پھاٹک تک بے چراغ ہے۔ ہاں اگر آباد ہے تو یہ ہے کہ غلام حسن خاں کی حویلی ہسپتال ہے۔ ضیاء الدین خاں کے کمرہ میں ڈاکٹر صاحب رہتے ہیں اور کالے صاحب کے مکانوں میں ایک اور صاحب عالیشان انگلستان تشریف رکھتے ہیں۔ ضیاء الدین خاں اور ان کے بھائی مع قبائل اور عشائر لوہارو ہیں۔ لال کنوئیں کے محلہ میں خاک اڑتی ہے۔ آدمی کا نام نہیں، کہیمی کی دکان میں کتّے لوٹتے ہیں۔ مجھے عوام کے نقشہ میں نہ لکھروز اس شہر میں اک حکم نیا ہوتا ہےکچھ سمجھ میں نہیں آتا ہے کہ کیا ہوتا ہےمیرٹھ سے آکر دیکھا کہ یہاں بڑی شدت ہے او ر یہ حالت ہے کہ گوروںکی پاسبانی پر قناعت نہیں ہے۔ لاہوری دروازہ کا تھانہ دار مونڈھا بچھا کر سڑک پر بیٹھتا ہے۔ جو باہر کے گورے کی آنکھ بچا کر آتا ہے اس کو پکڑ کر حوالات میں بھیج دیتا ہے۔ حاکم کے ہاں پانچ پانچ بید لکھتے ہیں یا دو دو روپے جرمانہ لیا جاتا ہے۔ آٹھ دن قید رہتا ہے۔ اس سے علاوہ سب تھانوں پر حکم ہے کہ دریافت کرو کون بے ٹکٹ مقیم ہے اور کون ٹکٹ رکھتا ہے۔ تھانوں میں نقشے مرتب ہونے لگے۔ یہاں کا جمعدار میرے پاس بھی آیا۔ میں نے کہا بھائی! تو مجھے نقشے میں نہ رکھ۔ میری کیفیت کی عبارت الگ لکھ۔ عبارت یہ کہ اسد اللہ خاں پنشن دار۱۸۵۰ء سے حکیم پٹیالے والے کے بھائی کی حویلی میں رہتا ہے۔ نہ کالوں کے وقت میں کہیں گیا اور نہ گوروں کے زمانے میں نکلا اور نکالا گیا۔ کرنیل بروں صاحب بہادر کے زبانی حکم پر اس کی اقامت کا مدار ہے۔ اب تک کسی حاکم نے وہ حکم نہیں بدلا۔ اب حاکم وقت کو اختیار ہے۔ پرسوں یہ عبارت جمعدار نے نقشہ کے ساتھ کوتوالی میں بھیج دی ہے۔ کل سے یہ حکم نکلا کہ یہ لوگ شہر سے باہر مکان دکان کیوں بناتے ہیں۔ جو مکان بن چکے ہیں، انہیں ڈھا دو اور آئندہ کو ممانعت کا حکم سنا دو اور یہ بھی مشہور ہے کہ پانچ ہزار ٹکٹ چھاپے گئے ہیں۔ جو مسلمان شہر میں اقامت چاہے، بقدر مقدور نذرانہ دے۔ اس کا انداز مقرر کرنا حاکم کی رائے پر ہے۔ روپے دے اور ٹکٹ لے۔ گھر برباد ہو جائے، آپ شہر میں آباد ہو جائیے۔ آج تک یہ صورت ہے۔ دیکھئے شہر کے بسنے کی کون مہورت ہے۔ جو رہتے ہیں وہ بھی اخراج کئے جاتے ہیں یا جو باہر پڑے ہوئے ہیں وہ شہر میں آتے ہیں۔ الملک للہ والحکم للہ۔ (نوٹ، کیسی بے کسی میں وہ لوگ تھے جنہوں نے غدر کے بعد کا یہ دم گھٹنے والا تماشہ دیکھا اور کیسے نادان ہم لوگ ہیں کہ پھربے امنی کی تمنائیں کرتے ہیں۔ انسان متلون مزاج اور جلدی بھول جانے والا واقع ہوا ہے۔ امن کی برابر دنیا میں کوئی چیز اچھی نہیں ہے۔ حسن نظامی)سوسائٹی کی بربادی کا ماتماس چرخ کج رفتار کا برا ہو۔ ہم نے اس کا کیا بگاڑا تھا۔ ملک و مال، جاہ و جلال کچھ نہیں رکھتے تھے۔ ایک گوشہ و توشہ تھا۔ چند مفلس و بے نوا ایک جگہ فراہم ہو کر کچھ ہنس بول لیتے تھے ، سو بھی نہ تو کوئی دم دیکھ سکا اے فلکاور تو یہاں کچھ نہ تھا ایک مگر دیکھنایہ شعر خواجہ میر دردؔ کا ہے۔ کل سے مجھ کو میکشؔ بہت یاد آتا ہے۔ وہ صحبتیں اور تقریریں، آنسوؤں سے پیاس نہیں بجھتی۔ یہ تحریر تلافی اس تقریر کا نہیں کر سکتی۔ (نوٹ، میکشؔ کے پھانسی پانے کے بعد عالم غم میں لکھی گئی ہے۔ ہائے کتنا درد حروف کے کلیجہ میں بھرا ہے۔ پڑھ کر کلیجہ منہ کو آتا ہے۔ حسن نظامی)دہلی سے انتہائی محبت، اس کے اجڑنے کی خاک بھی آنکھوں میںآنکھوں کے غبار کی وجہ یہ ہے کہ جو مکان دلّی میں ڈھائے گئے اور جہاں جہاں سڑکیں نکلیں، جتنی گرداڑی اس سب کو از راہ محبت اپنی آنکھوں میں جگہ دی۔ (نوٹ، دہلی سے محبت کرنے کی یہ انتہائی مثال غالبؔ نے لکھی ہے کہ آنکھیں دکھنے آئیں تو اس کا سبب یہ قرار دیا کہ دہلی کے مکان اجاڑے گئے اور ان کے مٹنے سے خاک اڑی تو اس کو آنکھوں میں بٹھا لیا۔ گویا اس کے اثرسے آنکھیں دکھنے لگیں۔ اپنے وطن سے محبت اس طرح کیا کرتے ہیں۔ کوئی آج کل کے محبان وطن کو غالبؔ کے یہ چند لفظ سنا دے۔ حسن نظامی)غالب کو کنوؤں کا غماب اہل دہلی ہندو ہیں یا اہل حرفہ ہیں یا خاکی ہیں یا پنجابی ہیں یا گورے ہیں۔ لکھنؤ کی آبادی میں کچھ فرق نہیں آیا۔ ریاست تو جاتی رہی۔ باقی ہرفن کے کامل لوگ موجود ہیں۔ خس کی ٹٹی، پروا ہوا۔ اب کہاں؟ لطف تو وہ اسی مکان میں تھا۔ اب میر خیراتی کی حویلی میں وہ چھت اور سمت بدلی ہوئی ہے۔ بہرحال میگزرد۔ مصیبت عظیم یہ ہے کہ قاری کا کنواں بند ہوگیا۔ لال ڈگی کے کنوئیں یک قلم کھاری ہوگئے۔ خیرکھاری ہی پانی پیتے۔ گرم پانی نکلتا ہے۔ پرسوں میں سوار ہوکر کنوؤں کا حال دریافت کرنے گیا تھا۔ مسجد جامع سے راج گھاٹ دروازۃ تک بے مبالغہ ایک صحرا لق و دق ہے۔ اینٹوں کے ڈھیرجو پڑے ہیں، وہ اگر اٹھ جائیں تو ہو کا مقام ہو جائے۔ مرزا گوہر کے باغیچہ کے اس جانب کو کئی بانس نشیب میں تھا۔ اب وہ باغیچہ کے صحن کے برابر ہوگیا۔ یہاں تک کہ راج گھاٹ کا دروازہ بند ہوگیا۔ فصیل کے کنگورے کھلے رہتے ہیں۔ باقی سب اٹ گیا۔ آہنی سڑک کے واسطے کلکتہ دروازہ سے کابلی دروازہ تک میدان ہوگیا۔ پنجابی کٹرہ، دھوبی واڑہ، رام جی گنج، سعادت کا کٹرہ، جرنیل کی بی بی کی حویلی، رام جی داس گودام والے کے مکانات، صاحب رام کا باغ اور حویلی ان میں سے کسی کا پتہ نہیں ملتا۔ قصہ مختصر شہر صحرا ہو گیا تھا، اب جو کنوئیں جاتے رہے اور پانی گوہر نایاب ہو گیا تو یہ صحرا صحرائے کربلا ہو جائے گا۔ اللہ دلّی والے اب تک یہاں کی زبان کو اچھا کہے جاتے ہیں۔ واہ رے حسن اعتقاد۔ اردو بازار نہ رہا اردو کہاں۔ دلّی کہاں۔ واللہ اب شہر نہیں ہے کیمپ ہے۔ چھاؤنی ہے۔ نہ قلعہ، نہ شہر، نہ بازار، نہ نہر۔ (نوٹ، اس عبارت میں غالبؔ نے دہلی کی ان شاندار عمارات کی بربادی کا نقشہ کھینچا ہے جن میں سے اکثر کے نام سے بھی اب دہلی والے واقف نہیں۔ اورمیں بھی نہیں بتا سکتا کہ وہ کہاں تھیں۔)

معلوم ہوتا ہے غالبؔ کو سب سے زیادہ کنوؤں کے بند کردینے کا صدمہ ہے۔ وہ یہ سن کر کہ کنوئیں بند کئے جارہے ہیں، خود گھر سے نکلے تاکہ اپنی آنکھ سے دیکھیں۔ حالانکہ ان کا گھر سے نکلنا آج کل کی طرح کوئی معمولی بات نہ تھی۔ مشرق والے خصوصاً ہندوستان اور دہلی والے کنوؤں کے پانی کو بہت پسند کرتے ہیں اور ان کو نلوں کے پانی سے کسی قسم کی محبت نہیں ہے۔ حضرت اکبر الہ آبادی (مرحوم) بھی ایک جگہ لکھتے ہیں۔ حرف پڑھنا پڑا ہے ٹائپ کاپانی پینا پڑا ہے پائپ کاپیٹ چلتا ہے، آنکھ آئی ہےکنگ جاج کی دہائی ہےانگریزوں نے حفظ صحت کے خیال سے کنوئیں بند کئے تھے کہ ان کا پانی جلد خراب ہو جاتا ہے، مگر اہل مشرق اپنی پرانی عادات کے خلاف کسی مصحلت کو قبول کرنا نہیں چاہتے۔ تحریر کے شروع میں غالبؔ نے دہلی کی آبادی کے بارے میں سچ لکھا ہے کہ غدر کے بعد ایسی جماعتیں وہاں آکر آباد ہوگئی تھیں جن کو زبان اور تہذیب وعلم سے کچھ سروکار نہ تھا، اس لیے آج کل دہلی کی بگڑی ہوئی زبان پر اعتراض کرنا بھی فضول ہے کہ یہ زبان اہل دہلی کی نہیں ہے۔ وہ تو پھانسی پاگئے اور جو لوگ یہ زبان بولتے ہیں، وہ دہلی والے نہیں ہیں، پردیسی ہیں۔ حسن نظامی)دہلی کی بہاروں کا فشار اور غالبؔ کی آہِ شررباردہلی کی ہستی منحصر کئی ہنگاموں پر ہے۔ قلعہ، چاندنی چوک، ہر روز مجمع بازار مسجد جامع کا، ہر ہفتہ سیر جمنا کے پل کی، ہر سال میلہ پھول والوں کا۔ یہ پانچوں باتیں اب نہیں۔ پھر کہو دہلی کہاں۔ ہاں کوئی شہر قلمرو ہند میں اس نام کا تھا۔ نواب گورنر جنرل بہادر ۱۵؍ دسمبر کو یہاں داخل ہوں گے۔ دیکھئے کہاں اترتے ہیں اور کیوں کر دربار کرتے ہیں۔ آگے کے درباروں میں سات جاگیر دارتھے کہ ان کا الگ الگ دربار ہوتا تھا۔ جھجر، بہادر گڑھ، بلب گڑھ، فرخ نگر، دوجانہ، پاٹودی، لوہار و، چار معدوم محض ہیں، جو باقی رہے اس میں سے دوجانہ و لوہارو تحت حکومت، ہانسی حصار پاٹودی حاضر۔ اگر ہانسی حصار کے صاحب کمشنر بہادران دونوں کو یہاں لے آئے تو تین رئیس ورنہ ایک رئیس دربار عام والے مہاجن لوگ سب موجود۔ اہل اسلام میں سے صرف تین آدمی باقی ہیں۔ میرٹھ میں ہیں مصطفیٰ خاں، سلطان جی میں مولوی صدرالدین خاں، بلّی ماروں میں سگ دنیا موسوم اسدؔ۔ تینوں مردود مطرود ومحروم ومغموم، توڑ بیٹھے جبکہ ہم جام و سبو پھر ہم کو کیاآسمان سے بادۂ گلفام گر برسا کرےجاں نثار خاں کے چھتے کا ڈہنا۔ خان چند کے کوچہ کا سڑک بننا۔ بلاقی بیگم کے کوچہ کا مسمار ہونا۔ جامع مسجد کے گردستّر بہتّر گز میدان نکلنا اور غالب افسردہ دل۔ (نوٹ، دہلی کی پانچ بہاروں کا کس درد سے ذکر کرتے ہیں۔ چاندنی چوک کی وہ رونق جاتی رہی۔ قلعہ میں گورے آباد ہوگئے۔ جمنا کے پل کی سیر کا اب کسی کو خیال بھی نہیں آتا۔ پہلے وہاں آٹھویں دن میلہ لگتا تھا۔ جامع مسجد کے سامنے شام کو اب بھی بازار لگتا ہے، مگر پہلی سی بہار نہیں ہے۔ پھول والوں کی سیراب بھی سال بسال ہوتی ہے، لیکن اگلی سی آن بان کہاں۔ جھجر والے نواب اور بلب گڑھ کے راجہ نے غدر کے بعد دہلی میں پھانسی پائی۔ جھجر ضلع رہتک میں شامل ہوا اور بہادر گڑھ بھی اور بلب گڑھ ضلع گڑگانوہ کو دے دیا گیا۔ یہ عبارت غالباً ۱۸۵۸ء کے آخر میں لکھی گئی ہے، کیونکہ گورنر نے میرٹھ میں دربار دسمبر ۱۸۵۸ء میں کیا تھا، جس کا ذکر غالبؔ نے کیا ہے۔ آخر کی عبارت اس قدر دردناک ہے کہ پتھر کا کلیجہ رکھنے والا بھی بے اختیار رودے گا۔ خبر نہیں غالبؔ کے دل پر کیا کیا اثر یہ انقلاب پیدا کرتے ہوں گے۔ جب ہی تو ان کے قلم سے یہ مجروح کرنے والے الفاظ نکلے ہیں۔ حسن نظامی)برٹش طرز حکومت پر چوٹسنتے ہیں کہ نومبر میں مہاراجہ کو اختیار ملے گا، مگر وہ اختیار ایسا ہوگا جیسا خدا نے خلق کو دیا ہے۔ سب کچھ اپنے قبضۂ قدرت میں رکھا۔ آدمی کو بدنام کیا ہے۔ (نوٹ، یہاں مہاراجہ الور کے اختیار کا ذکر کرتے ہیں، مگر برطانی آئین سلطنت پر ایک پرلطف ضرب بھی لگاتے ہیں کہ وہ والیان ریاست کو ایسا اختیار دیتا ہے جیسا خدا نے بندوں کو اختیار دیا ہے کہ مجبور بھی ہیں اور مختار بھی۔ غالبؔ نے اس وقت یہ عبارت لکھی کہ مشرقی آئین سلطنت لوگوں کے دل و دماغ پر مسلط تھے اور خلقت انہی کو اچھا سمجھی تھی۔ آج وہ زندہ ہوتے تو مان جاتے کہ پرانا دستور امن کے لیے اتنا مفید نہ تھا جتنا نیا آئین ثابت ہوا۔ والیان راست کو مطلق العنان کردینے کا نتیجہ یہ ہوتا تھا کہ وہ ہمیشہ بغاوتیں کرتے رہتے تھے اور سلطنت کو بھی دشواریاں پیش آتی تھیں اور رعایا بھی تباہ ہوتی تھی۔ انگریزوں کے آئین جدید نے اس خرابی کا قطعی سدباب کر دیا اور اب غدر ۱۸۵۷ء کے بعد سے کسی ریاست کو سرکشی و بغاوت کا حوصلہ نہ ہو سکا اور ملک میں امن قائم ہو گیا۔ اس واسطے ہر شحص برٹش آئین کے اس عاقلانہ حصہ کو امن کے خیال سے پسند کرتا ہے اور یہ برائی کی چیز نہیں سمجھی جاتی۔ حسن نظامی)تاج محل کی رہائیچوک میں بیگم کے باغ کے دروازہ کے سامنے حوض کے پاس جو کنواں تھا، اس میں سنگ و خشت و خاک ڈال کر بند کر دیا۔ بلی ماروں کے دروازہ کے پاس کئی دکانیں ڈھاکر راستہ چوڑا کر لیا۔ شہر کی آبادی کا حکم خاص و عام کچھ نہیں ہے۔ پنشن داروں سے حاکموں کا کام کچھ نہیں۔ تاج محل، مرزا قیصر، مرزا جواں بخت کے سالے ولایت علی بیگ وار جے پور کی زوجہ ان سب کی الہ آباد سے رہائی ہو گئی۔ دیکھئے کیمپ میں رہیں یا لندن جائیں۔ خلق نے ازروئے قیاس جیسا کہ دلّی کے خبرتراشوں کا دستور ہے یہ بات اڑادی ہے۔ سو سارے شہر میں مشہور ہے کہ جنوری شروع سال ۱۸۵۹ء میں عموماً شہر میں آباد کئے جاویں گے۔ نوٹ، یہ عبارت ۱۲؍دسمبر ۱۸۵۸ء کی لکھی ہوئی ہے۔ تاج محل بہادر شاہ کی بیگم تھیں۔ زینت محل کا کمرہ لال کنوئیں اور فراش خانہ کے وسط میں سربازار واقع ہے۔ اس کے شاندار دروازہ پر بہادر شاہ کی کہی ہوئی اور خاص ان کے ہاتھ کی لکھی ہوئی تاریخ کندہ ہے۔ یہ عالیشان عمارت آج کل مہاراجہ پٹیالہ کے قبضہ میں ہے۔ غدر کے ایام میں جو امداد انہوں نے انگریزی فوج کی کی تھی، اس کے انعام میں یہ مکان ان کو دیا گیا تھا۔ تاج محل کا خوبصورت مکان کٹرہ خوش حال رائے میں تھا کہ جو ہندوؤں کے مشہو ر محلہ مالی واڑہ کے قریب واقع ہے۔ یہ مکان اب بھی موجود ہے اور اس میں دہلی کے مشہور ساہوکار لالہ رام کشن داس رہتے ہیں جن کے ہاں چاندی سونے کا بیوپار ہوتا ہے۔ لالہ صاحب نےاس کی قدامت کی خوبصورتی کو بھی باقی رکھا ہے اور جدید خوشنما اضافے بھی کئے ہیں، مگر زینت محل کے کمرہ میں ریاست پٹیالہ نے کوئی ترقی نہیں کی، بلکہ سابق کے آثار میں بھی بوسیدگی واقع ہو رہی ہے اور یہ تاریخی مکان چند دن کا مہمان ہے۔ (۱۹۳۶ء میں اس کی بہت اچھی مرمت کرا دی گئی ہے۔ حسن نظامی)جامع مسجد کی رہائیجامع مسجد واگزاشت ہوئی۔ چتلی قبر کی طرف سیڑھیوں پر کبابیوں نے دکانیں بنالیں۔ انڈا، مرغی، کبوتر بکنے لگا۔ دس آدمی مہتمم ٹھہرے۔ مرزا الٰہی بخش، مولوی صدرالدین، تفضل حسین خاں، تین یہ سات اور۔ ۷؍ نومبر ۱۴جمادی الاول سال حال جمعہ کے دن ابوظفر سراج الدین بہادر شاہ قید فرنگ وقید جسم کے رہا ہوئے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ (نوٹ، جامع مسجد دہلی کے واگزاشت کرانے میں خان بہادر شیخ الٰہی بخش صاحب سی آئی ای مرحوم رئیس میرٹھ نے دو لاکھ روپیہ یا اسی کے قریب سرکار کو دیا تھا، جب اس کو رہا کیا گیا تھا۔ فتح دہلی کے بعد جامع مسجد میں گورے سپاہی رہتے تھے۔ جامع مسجد ایام غدر میں باغیوں کا مرکز سمجھی گئی تھی۔ جب انگریزی فوج نے پہلا دھاوا شہر پر کیا تو وہ جامع مسجد تک آگئی تھی، مگر جمعہ کی نماز کے لیے جو مسلمان اس وقت وہاں جمع ہوئے تھے انہوں نے باہر نکل کر فوج سے مقابلہ کیا اور ایسے لڑے کہ فوج کو کشمیری دروازہ تک واپس جانا پڑا اور دوسرے دن دوبارہ حملہ کر کے دہلی فتح کر لی۔ جمعہ کی لڑائی میں میرے والد موجود تھے۔ ان سے میں نے یہ قصہ سنا اور یہی وجہ جامع مسجد کی فوجی قبضہ کی تھی۔ (میرٹھ والوں کے امداد دینے کی بات بعد کی تحقیق سے غلط ثابت ہوئی۔ حسن نظامی)میکشؔ پھانسی سے پہلےمیکشؔ چین میں ہے۔ باتیں بناتا پھرتاہے۔ سلطان جی میں تھا۔ اب شہر میں آگیا ہے۔ دوتین بار میرے پاس بھی آیا۔ پانچ سات دن سے نہیں آیا۔ کہتا تھا بی بی کو لڑکے کو بہرام پور میر وزیر علی کے پاس بھیج دیا ہے۔ خودیہاں لوٹ کی کتابیں خریدتا پھرتا ہے۔ (نوٹ، یہ تحریر اس وقت کی ہے جبکہ میکشؔ زندہ تھے اور غدر کی شرکت کا ان پر الزام لگایا گیا تھا۔ درگاہ حضرت سلطان جی میں رہتے تھے مگر بعد میں ان کو بغاوت کے شبہ میں گرفتار کیا اور پھانسی دی گئی۔ اسی روز نامچہ میں غالبؔ نے کہیں اس کا ذکر کیا ہے۔ میکشؔ کے باپ گولی سے قتل ہوئے اور ان کو پھانسی دی گئی۔ حسن نظامی)کشمیری کٹرہ کی مسماریکشمیری کٹرہ گر گیا ہے۔ دو اونچے اونچے دراور وہ بڑی بڑی کوٹھریاں دو رویہ نظر نہیں آتیں کہ کیا ہوئیں۔ (نوٹ، پریڈ کے میدان کو دربار ۱۹۱۱ء کے ایام میں جب ہموار کیا جا رہا تھا تو سیکڑوں مکانات کے آثار دبے ہوئے نکلتے تھے۔ یہاں تک کہ چار پائیوں کے پایہ، آٹا گوندھنے کے کونڈے اور گھروں کے برتنے کی چیزیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ جب یہاں کے بازار اور محلے مسمار کئے گئے تو رہنے والوں کا سامان بھی اس میں دب گیا۔ خیال یہ تھا کہ گنجان محلوں اور بازاروں کا توڑنا ہوا صاف کرنے کے لیے تھا، مگر ۱۹۱۱ء میں یہ نشانیاں دیکھ کر کہا جاتا تھا کہ مسماری جوش انتقام سے بھی تعلق رکھتی تھی۔ جب ہی تو اس بے دردی سے خانہ داری کے اسباب کو بھی ملیا میٹ کردیا گیا اور یہی وجہ ہے کہ غالبؔ جب بھی اس تباہی کا ذکر لکھتے ہیں تو ان کا قلم آنسو بہاتا جاتا ہے۔ حسن نظامی)جب دہلی پر ٹیکس لگائے گئےشہر میں ’’پون ٹوٹی‘‘ کوئی چیز ہے۔ وہ جاری ہو گئی ہے۔ سوائے اناج اور اپلے کے کوئی چیز ایسی نہیں جس پر محصول نہ لگا ہو۔ جامع مسجد کے گرد پچیس پچیس فٹ گول میدان نکلے گا۔ دکانیں، حویلیاں ڈھائی جاویں گی۔ دارالبقا فنا ہو جائے گی۔ رہے نام اللہ کا۔ خان چند کا کوچہ شا بولا کے بڑتک ڈھئے گا۔ دونوں طرف پھاوڑہ چل رہا ہے۔ (نوٹ ، پون ٹوٹی (چنگی) کوئی چیز ہے کہہ کر غالبؔ نے تڑپا دیا۔ طعن کا نہایت پر لطف انداز ہے۔ سوائے اناج اور اپلے کے ہر چیز پر ٹیکس (محصول) لگ جانا غالبؔ جیسے شخص نے یقیناً نہایت حقارت سے محسوس کیا ہوگا۔ چار پانچ فقروں میں نئی حکومت کے طرز حکمرانی کو بیان کردینا غالبؔ ہی کا کام تھا۔ حسن نظامی)دہلی کے غارت شدہ بازار شہر ڈھ رہا ہے۔ بڑے بڑے نامی بازار، خاص بازار، اردو بازار اور خانم کا بازار کہ ہر ایک بجائے خود ایک قصبہ تھا، اب پتہ بھی نہیں کہ کہاں تھے صاحبان امکنہ ودکا کین نہیں بتا سکتے کہ ہمارا مکان کہاں تھا اور دکان کہاں تھی۔ برسات بھر مینھ نہیں برسا۔ آپ تیشہ اور کلند کی طغیانی سے مکانات گر گئے۔ غلہ گراں ہے۔ موت ارزاں ہے۔ موے کے مول اناج بکتا ہے۔ ماش کی دال آٹھ سیر، باجرہ بارہ سیر، گیہوں۱۳سیر، چنے ۱۶ سیر، گھی ڈیڑھ سیر۔ (نوٹ، یہ تینوں بازار دریا گنج (فیض بازار) کی سڑک کے خاتمہ سے شروع ہوتے تھے۔ جہاں اب پردہ باغ، ایڈورڈ پارک، وکٹوریہ اسپتال اور پریڈ کا میدان واقع ہے۔ اب یہاں اردو بازار بن گیا ہے۔ اس وقت کی گرانی جس کا حال لکھ کر غالبؔ حیران ہیں، آج کل کی گرانی کے مقابلہ میں ارزانی ہے۔ اب ماش کی دال ۳ سیر، گندم ۴ سیر، باجرہ ۴ سیر اور گھی آدھ سیر ہے (یہ نرخ پہلی اشاعت کے وقت کا ہے۔ حسن نظامی)بہادر شاہ پر سکہ کہنے کا الزامسکہ کا وار تو مجھ پر ایسا چلا کہ جیسے کوئی چھرایا کوئی گراب۔ کس سے کہوں۔ کس کو گواہ لاؤں۔ یہ دونوں سکے ایک وقت میں کہے گئے ہیں، یعنی جب بہادر شاہ تخت پر بیٹھے تو ذوقؔ نے یہ دونوں سکے کہہ کر گزرانے۔ بادشاہ نے پسند کئے۔ مولوی محمد باقر جو ذوقؔ کے معتقدین میں تھے، انہوں نے اپنے ’’دلّی اردو اخبار‘‘ میں یہ دونوں سکے چھاپے۔ اس سے علاوہ اب وہ لوگ بھی موجود ہیں کہ جنہوں نے اس زمانہ میں مرشد آباد اور کلکتہ میں یہ سکے سنے ہیں اور ان کو یاد ہیں۔ اب یہ دونوں سکے سرکار کے نزدیک میرے کہے ہوئے اور گزرانے ہوئے ثابت ہوئے۔ میں نے ہر چند قلمرو ہند میں ’’دلّی اردو اخبار‘‘ کا پرچہ ڈھونڈھا۔ کہیں ہاتھ نہ آیا۔ یہ دھبہ مجھ پر رہا۔ پنشن بھی گئی اور وہ ریاست کا نام و نشان، خلعت و دربار بھی مٹا۔ (نوٹ، سکہ کی حقیقت لکھنے میں جو سادہ پر اثر اور شاعرانہ تلازمہ برتا گیا ہے، وہ زبان غالبؔ کا بہترین نمونہ ہے۔ ناظرین غور سے دیکھیں۔

مولوی محمد باقر غالباً شمس العلماء مولانا محمد حسین آزادؔ کے والد یا کوئی عزیز ہوں گے۔ ان کے اردو اخبار کا ذکر غدر کے اکثر حالات میں آتا ہے۔ حسن نظامی۔ (مولوی محمد باقر آزادؔ کے والد تھے۔ مدیر)داغدار دہلیرفع فتنہ و فساد اور بلاد میں مسلّم۔ یہاں کوئی طرح آسائش کی نہیں ہے۔ اہل دہلی عموماً برے ٹھہر گئے۔ یہ داغ ان کی جبین حال سے عموماً مٹ نہیں سکتا۔ دہلی میں مارشل لاءرہنا شہرمیں بے حصول اجازت حاکم احتمال ضرر رکھتا ہے۔ اگر خبر نہ ہو تو نہ ہو۔ اگر خبر ہو جائے تو البتہ قباحت ہے۔ دہلی کی عملداری میرٹھ و آگرہ اور بلاد شرقیہ کے مثل نہیں ہے۔ یہ پنجاب احاطہ میں شامل ہے۔ نہ قانون نہ آئین۔ جس حاکم کی جو رائے میں ہو وہ ویسا ہی کرے۔ (نوٹ، غالبؔ نے مارشل لاء کے چہرہ کو جگہ جگہ جس اختصار اور جس احتیاط مگر جس بے باکی سے لکھا ہے، وہ آج کل کے سیاست نگاروں کے لیے قابل تقلید ہے۔ حسن نظامی)امن کے اشتہار کے بعدحکم عفو تقصیرعام ہو گیا ہے۔ لڑنے والے آتے جاتے ہیں اور آلات حرب و پیکار دے کر توقیع آزادی پاتے ہیں۔ (نوٹ، یہ عبارت ۱۰؍ نومبر ۱۸۵۸ء کو لکھی گئی ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ سب باغیوں کو امن مل گیا تھا، مگر اس کے بعد ۱۸۵۹ء اور ۱۸۶۰ء تک غالبؔ کی بعض تحریروں سے معلوم ہوتا ہے کہ دہلی کے اندر مسلمانوں کو بغیر ٹکٹ کے آنے کی اجازت نہ تھی۔ غالباً انتظاماً بعض حکام مقامی نے ایسا کیا ہوگا، ورنہ ملکہ وکٹوریا امن عام کا اشتہار دے چکی تھیں جو ۱۸۵۸ء میں شائع ہو گیا تھا۔ حسن نظامی)امدادی خرچچند اشخاص کو اس بائیس مہینے میں سال بھر کا روپیہ بطریق مدد خرچ مل گیا۔ باقی چڑھے ہوئے روپے کے باب میں اور آئندہ ماہ بہ ماہ ملنے کے واسطے ابھی کچھ حکم نہیں ہوا۔ سوال امیر خسروؒ کی انملی ہے۔ ’’چیل بسولا لے گئی ہے تو کاہے پھٹکوں راب۔‘‘ علی بخش خاں پچیس روپے مہینہ پاتے تھے۔ بائیس مہینے کے گیارہ سو روپے ہوتے ہیں۔ ان کو چھ سو روپے مل گئے۔ باقی روپیہ چڑھا رہا۔ آئندہ ملنے میں کچھ کلام نہیں۔ غلام حسن خاں سو روپے مہینے کا پنشن دار۔ بائیس مہینے کے بائیس سو روپے ہوتے ہیں۔ اس کو بارہ سو ملے۔ دیوان کشن لال کا ڈیڑھ سو روپے مہینہ۔ بائیس مہینے کے تین ہزار تین سو ہوتے ہیں۔ اس کو اٹھارہ سو ملے۔ منا جمعدار دس روپے مہینے کا سکھ لمبر سال بھر کے ایک سو بیس لے آیا۔ اسی طرح پندرہ سولہ آدمیوں کو ملاہے۔ آئندہ کے واسطے کسی کو کچھ حکم نہیں۔ مجھ کو پھر مدد خرچ نہیں ملا۔ جب کئی خط لکھے تو اخیر خط میں صاحب کمشنر بہادر نے حکم دیا کہ سائل کو بطریق مدد خرچ سو روپے مل جاویں۔ میں نے وہ سو روپے نہ لئے اور پھر صاحب کمشنر بہادرکو لکھا کہ میں باسٹھ روپے آٹھ آنے مہینہ پانے والا ہوں۔ سال بھر کے ساڑھے سات سو روپے ہوتے ہیں۔ سب پنشن داروں کو سال بھر کا روپیہ، مجھ کو سو روپے کیسے ملتے ہیں۔ مثل اوروں کے مجھے بھی سال بھر کا روپیہ مل جاوے۔ ابھی اس میں کچھ جواب نہیں ملا۔ آبادی کا یہ رنگ ہے کہ ڈھنڈورا پٹوا کرٹکٹ چھپوا کر اجرٹن صاحب بہادر بطریق ڈاک کلکتہ چلے گئے۔ دہلی کے حمقا جو باہر پڑے ہوئے ہیں منھ کھول کر رہ گئے۔ اب جب وہ معاودت کریں گے تب شاید آبادی ہوگی یا کوئی اور نئی صورت نکل آئے۔ (نوٹ، یہ تحریر فروری ۱۸۵۹ء کی ہے۔ اس سے بھی ظاہر ہوتا ہے کہ ۱۸۵۸ء میں اشتہار امن کے بعد بھی حکام انتظامی نے دہلی کے آباد ہونے میں احتیاط کی تھی۔ حسن نظامی)دربار میں غالبؔ تھے اور مہاجنرگ قلم کی خونابہ فشانی دیکھو۔ گورنر اعظم نے میرٹھ میں دربار کا حکم دیا۔ صاحب کمشر بہادر دہلی نے سات جاگیرداروں میں سے جو تین بقیۃ السیف تھے، ان کو حکم دیا اور دربار عام میں سے سوائے میرے کوئی نہ تھا یا چند مہاجن۔ مجھ کو بھی حکم نہ پہنچا۔ جب میں نے استدعا کی تو جواب ملا کہ اب نہیں ہو سکتا۔ میں اپنی عادت قدیم کے موافق خیمہ گاہ میں پہنچا۔ مولوی اظہار حسین خاں صاحب بہادر سے ملا۔ چیف سکریٹری بہادر کو اطلاع کی۔ جو اب آیا کہ فرصت نہیں۔ میں سمجھا کہ اس وقت فرصت نہیں، دوسرے دن پھر گیا۔ میری اطلاع کے بعد حکم ہوا کہ ایام غدر میں تم باغیوں سے اختلاط رکھتے تھے۔ اب گورنمنٹ سے کیوں ملنا چاہتے ہو؟ اس دن چلا آیا۔ دوسرے دن میں نے انگریزی خط ان کے نام لکھ کر ان کو بھیجا۔ مضمون یہ کہ باغیوں سے میرا اختلاط مظنہ محض ہے۔ امید وار ہوں کہ اس کی تحقیقات ہو، تاکہ میری صفائی اور بے گناہی ثابت ہو۔ یہاں کے مقامات پر جواب نہ ہوا۔ اب ماہ گزشتہ یعنی فروری میں پنجاب کے ملک سے جواب آیا کہ لارڈ صاحب بہادر فرماتے ہیں کہ ہم تحقیقات نہ کریں گے۔ پس یہ مقدمہ طے ہوا۔ دربار خلعت مسدود۔ پنشن موقوف۔ وجہ نامعلوم۔ الا موجود الا اللہ و لا موثر فی الوجود الا اللہ۔ ۱۸۵۵ء میں نواب یوسف علی خاں بہادر والئی رامپور کہ میرے آشنائے قدیم ہیں، اس سال ۱۸۵۵ء میں میرے شاگرد ہوئے۔ ناظم ان کو تخلص دیا گیا۔ بیس پچیس غزلیں اردو کی بھیجتے۔ میں اصلاح دے کربھیج دیتا۔ کچھ روپیہ ادھر سے آتا رہتا۔ قلعہ کی تنحواہ جاری، انگریزی پنشن کھلا ہوا۔ ان کے عطایا فتوح گنے جاتے تھے۔ جب یہ دونوں تنخواہیں جاتی رہیں تو زندگی کا مداران کے عطیہ پر رہا۔ بعد فتح دہلی وہ ہمیشہ میرے مقدم کے خواہاں رہتے تھے۔ میں عذر کرتا تھا۔ جب جنوری ۱۹۶۰ء میں گورنمنٹ سے وہ جواب پایا کہ اوپر لکھ آیا ہوں تو میں آخر جنوری میں رام پور گیا۔ چھ سات ہفتے وہاں رہ کر دہلی آیا۔ غالبؔ کے استقلال نے فتح پائی۱۸۶۰ء میں لارڈ صاحب بہادر نے میرٹھ میں دربار کیا۔ صاحب کمشنر بہادر دہلی کو ساتھ لے گئے۔ میں نے پوچھا کہ میں بھی چلوں۔ فرمایا کہ نہیں۔ جب لشکر میرٹھ سے دہلی میں آیا، موافق اپنے دستور کے روز ورود لشکر مخیم میں گیا۔ میر منشی صاحب سے ملا۔ ان کے خیمہ سے اپنے نام کا ٹکٹ صاحب سکرٹر بہادر کے پاس بھیجا۔ جواب آیا کہ تم غدر کے زمانہ میں بادشاہی باغی کی خوشامد کیا کرتے تھے۔ اب گورنمنٹ کو تم سے ملنا منظورنہیں۔ میں گدامبرم اس حکم پر ممنوع نہ ہوا۔ جب لارڈ صاحب بہادر کلکتہ پہنچے۔ میں نے قصیدہ حسب معمول قدیم بھیج دیا۔ مع اس حکم کے واپس آیا کہ آپ یہ چیزیں ہمارے پاس نہ بھیجا کرو۔ میں مایوس مطلق ہوکر بیٹھ رہا اور حکام شہر سے ملنا ترک کیا۔ واقع اواخر ماہ گزشتہ یعنی فروری ۱۸۶۲ء نواب لفٹیننٹ گورنر بہادر پنجاب دہلی آئے۔ اہالیان شہر صاحب ڈپٹی کمشنر بہادر و صاحب کمشنر کے پاس دوڑے اور اپنے نام لکھوائے۔ میں تو بیگانہ محض اور مطرود حکام تھا۔ جگہ سے نہ ہلا۔ کسی سے نہ ملا۔ دربار ہوا، ہر ایک کا مگار ہوا۔ شنبہ ۸؍ فروری کو آزاد انہ منشی من پھول سنگھ صاحب کے خیمہ میں چلا گیا۔ اپنے نام کا ٹکٹ صاحب سکرٹر بہادر کے پاس بھیجا۔ بلایا گیا۔ مہربان پاکر نواب صاحب کی ملازمت کی استدعا کی۔ وہ بھی حاصل ہوئی۔ دوحکام جلیل القدر کی وہ عنایتیں دیکھیں جو میرے تصور میں بھی نہ تھیں۔ بقیہ روداد یہ ہے کہ دوشنبہ دوم مارچ کو سواد شہر مخیم گورنری ہوا۔ آخر روز میں اپنے شفیق قدیم جناب مولوی اظہار حسین خاں بہادرکے پاس گیا۔ اثنائے گفتگو میں فرمایا کہ تمہارا دربار خلعت بدستور بحال و برقرار ہے۔ متحیرانہ میں نے پوچھا کہ حضرت کیوں کر؟ حضرت نے کہا کہ حاکم حال نے ولایت سے آکر تمہارے علاقہ کے سب کاغذ انگریزی و فارسی دیکھے اور بہ اجلاس کونسل حکم لکھوایا کہ اسد اللہ خاں کا دربار اور نمبر اور خلعت بدستور بحال و برقرار رہے۔ میں نے پوچھا کہ حضرت یہ امر کس اصل پر متفرع ہوا؟ فرمایا کہ ہم کو کچھ معلوم نہیں۔ پس اتنا جانتے ہیں کہ یہ حکم دفتر میں لکھوا کر چودہ دن یا پندرہ دن بعد ادھر کو روانہ ہوئے ہیں۔ میں نے کہا سبحان اللہ، کار ساز ما بفکرِ کارِ مافکر مادر کار ما آزار ماسہ شنبہ ۲۳ مارچ کو ۱۲ بجے نواب لیفٹیننٹ گورنر بہادر نے مجھ کو بلایا۔ خلعت عطا کیا اور فرمایاکہ لارڈ صاحب بہادر کے ہاں کا دربار و خلعت بھی بحال ہے۔ انبالے جاؤ گے تو دربار خلعت پاؤگے۔ عرض کیا گیا حضور کے قدم دیکھے۔ خلعت پایا۔ لارڈ صاحب بہادرکا حکم سن لیا۔ نہال ہوگیا۔ اب انبالے کہاں جاؤں۔ جیتا رہا تو اور دربار میں کامیاب ہو رہوں گا ، کار دنیا کسے تمام نہ کردہرچہ گیرید مختصر گیریدسرولیم میور اور غالبؔپنشن قدیم اکیس مہینہ سے بند اور میں سادہ دل فتوح جدید کا آرزومند۔ پنشن کا احاطہ پنجاب کے حکام پر مدار ہے۔ سو ان کا یہ شیوہ اور یہ شعار ہے کہ روپے دیتے ہیں، نہ جواب، نہ مہربانی، نہ عتاب۔ خیر اس سے قطع نظر کی۔ ۱۸۵۶ء سے بموجب تحریر وزیر اودھ عطیہ شاہی کا امیدوار ہوں۔ تقاضا کرتے ہوئے شرماؤں۔ اگر گنہگار ٹھہرتا تو گولی یا پھانسی سے مرتا۔ اس بات پر کہ میں بے گناہ ہوں، مقید اور مقتول نہ ہونے سے آپ اپنا گواہ ہوں۔ پیش گاہ گورنمنٹ کلکتہ میں جب کوئی کاغذ بھجوایا ہے، بقلم چیف سکرٹر بہادر اس کا جواب پایا ہے۔ اب کی بار دو کتابیں بھیجیں۔ ایک پیشکش گورنمنٹ اور ایک نظر شاہی ہے۔ نہ اس کے قبول کی اطلاع، نہ اس کے ارسال سے آگاہی ہے۔ جناب ولیم میور صاحب بہادر نے بھی عنایت نہ فرمائی، ان کی بھی کوئی تحریر مجھ کو نہ آئی۔ یہ سب ایک طرف۔ اب خبریں ہیں مختلف۔ کہتے ہیں کہ چیف سکرٹر بہادر لیفٹیننٹ گورنر ہوگئے۔ یہ کوئی نہیں کہتا کہ ان کی جگہ کون سے صاحب عالیشان چیف سکرٹر ہوئے۔ مشہور جناب ولیم میور صاحب بہادر صدر بورڈ میں تشریف لے گئے۔ یہ کوئی نہیں کہتا کہ لیفٹیننٹ گورنری کے سکریٹری کا کام کس کو دیے گئے۔ انگریزں کے احسان کی یاد، شریف ہندوستانی کے دل میںجناب آرنلڈ صاحب بہادر آج تشریف لے گئے۔ سنتا ہوں کہ کلکتہ جائیں گے۔ میم اور بچوں کو دلایت بھیج کر پھر آئیں گے۔ مجھ سے وہ سلوک کر گئے ہیں اور مجھ پر وہ احسان کر گئے ہیں کہ قیامت تک ان کا شکر گزار رہوں گا۔ غدر میں تم کہاں تھےخدا جب کا بھلا کرے۔ مجھ کو ڈپٹی کمشنر نے بلا بھیجا تھا۔ صرف اتنا ہی پوچھا کہ غدر میں تم کہاں تھے؟ جو مناسب ہوا وہ کہا گیا۔ دو ایک خط آمدہ ولایت میں نے پڑھائے۔ تفصیل لکھ نہیں سکتا۔ انداز ادا سے پنشن کا بحال و برقرار رہنا معلوم ہوتا ہے، مگر پندرہ مہینے پچھلے ملتے نظر نہیں آتے۔ غالبؔ کی مفلسی کو توالی میںیہ تو آفت دہلی ہی پر ٹوٹ پڑی ہے۔ لکھنؤ کے سوا اور شہروں میں عملداری کی وہ صورت ہے جو غدر سے پہلے تھی۔ اب یہاں ٹکٹ چھاپے گئے ہیں۔ میں نے بھی دیکھے۔ فارسی عبارت یہ ہے، ’’ٹکٹ آبادی درون شہر دہلی بشرط ادخال جرمانہ۔‘‘ مقدار روپے کی حاکم کی رائے پر ہے۔ آج پانچ ہزار ٹکٹ چھپ چکا ہے۔ کل اتوار یوم التعطیل ہے۔ پرسوں دوشنبہ ہے دیکھئے۔ یہ کاغذ کیوں کر تقسیم ہوں۔ یہ تو کیفیت شہر کی ہے۔ میرا حال سنو۔ بائیس مہینے کے بعد پرسوں کوتوال کو حکم آیا ہے کہ اسد اللہ خاں پنشن دار کی کیفیت لکھو کہ وہ بے مقدور اور محتاج ہے کہ نہیں۔ کوتوال نے موافق ضابطہ کے مجھ سے چار گواہ مانگے ہیں۔ سوکل چار گواہ کوتوالی چبوترے جائیں گے اورمیری بے مقدور ظاہر کر آئیں گے۔ کہیں یہ نہ سمجھنا کہ بعد ثبوت مفلسی چڑھا ہو۔ روپیہ مل جائے گا اور آئندہ کو پنشن جاری ہو جائے گا۔ (نوٹ، کوتوالی میں اظہار مفلسی کے واقعہ کو کس رقت خیز انداز سے لکھا ہے کہ مجبوری سب کچھ کراتی ہے۔ اس پر بھی یہ یقین نہیں کہ نتیجہ مفید نکلے گا۔ حسن نظامی)شرفا کی تصویر افلاسپنشن کا حال کچھ معلوم نہیں۔ حاکم خط کا جواب نہیں لکھتا۔ عملہ میں ہر چند تفحص کیجئے کہ ہمارے خط پر کیا حکم ہوا۔ کوئی کچھ نہیں بتاتا۔ بہرحال اتنا سنا ہے اور دلائل اور قرائن سے معلوم ہوا ہے کہ میں بے گناہ قرار پایا ہوں اور ڈپٹی کمشنر بہادر کی رائے میں پنشن پانے کا استحقاق رکھتا ہوں۔ پس اس سے زیادہ مجھے معلوم نہ کسی کو خبر۔ میں کتابیں کہاں سے چھپواتا۔ روٹی کھانے کو نہیں، شراب پینے کو نہیں، جاڑے آتے ہیں، لحاف توشک کی فکر ہے، کتابیں کیا چھپواؤں گا۔ (نوٹ، یہ غالبؔ نے اپنا ہی حال نہیں لکھا، بلکہ غدر کے بعد جو حالت شرفائے دہلی کی ہوگئی تھی، اس کی تصویر بھی دکھا دی ہے۔ جو لوگ بے امنی کے خواستگار ہیں، ان حالات کو ذرا نظر عبرت سے پڑھیں۔ حسن نظامی)گورنر جنرل نے غالبؔ کی قدردانی کیصاحب کمشنر بہادر دہلی یعنی جناب سانڈرس صاحب بہادر نے مجھ کو بلایا۔ پنجشنبہ ۲۴ فروری کو میں گیا۔ صاحب شکار کو سوار ہوگئے تھے۔ میں الٹا پھر آیا۔ جمعہ ۲۵ فروری کو گیا۔ ملاقات ہوئی۔ کرسی دی۔ بعد پرسش مزاج کے ایک خط انگریزی چار ورق کا اٹھا کر پڑھتے رہے۔ جب پڑھ چکے تومجھ سے کہا کہ یہ خط ہے میکلوڈ صاحب حاکم اکبر صدر بورڈ پنجاب کا۔ تمہارے باب میں لکھتے ہیں کہ ان کا حال دریافت کر کے لکھو۔ سو ہم تم سے پوچھتے ہیں کہ تم ملکہ معظمہ سے خلعت کیا مانگتے ہو؟ حقیقت کہی گئی۔ ایک کاغذ آمد ولایت لے گیا تھا۔ وہ پڑھوا دیا۔ پھر پوچھا۔ تم نے کتاب کیسی لکھی ہے؟ اس کی حقیقت بیان کی۔ کہا ایک میکوڈ صاحب دیکھنے کو مانگتے ہیں اور ایک ہم کو دو۔ میں نے عرض کیا۔ کل حاضر کروں گا۔ پھر پنشن کا حال پوچھا۔ وہ گزارش کیا۔ اپنے گھر آیا اور خوش آیا۔ حاکم پنجاب کو مقدمہ ولایت کی کیا خبر۔ کتابوں سے کیا اطلاع۔ پنشن کی پرسش سے کیا مدعا۔ یہ استفسار بحکم نواب گورنر جنرل ہوا ہے اور یہ صورت مقدمہ فتح و فیروزی ہے۔ (نوٹ، کتاب ’’دستنبو‘‘ نے گورنر جنرل کے خیالات غالبؔ کی طرف متوجہ کئے جیسا کہ میں نے ایک جگہ لکھا ہے۔ اس عبارت سے اس خیال کی مزید تائید ہوتی ہے۔ حسن نظامی)۱۸۶۰ء میں املاک واگزاشتدربار لارڈ صاحب کا میرٹھ میں ہوا۔ دلی کے علاقہ کے جاگیردار بموجب حکم کمشنر دہلی میرٹھ گئے۔ موافق دستور قدیم مل آئے۔ غرضیکہ پنجشنبہ ۲۹ دسمبر کوپھر دن چڑھے لارڈ صاحب یہاں پہنچے۔ کابلی دروازہ کی فصیل کے تلے ڈیرے ہوئے۔ اسی وقت توپوں کی آواز سنتے ہی میں سوار ہو گیا۔ میر منشی سے ملا۔ ان کے خیمہ میں بیٹھ کر صاحب سکرٹر کو خبر کروائی۔ جواب آیا کہ فرصت نہیں۔ یہ جواب سن کر نومیدی کی پوٹ باندھ کر لےآیا۔ ہر چند پنشن کے باب میں ہنوز لا و نعم نہیں، مگر کچھ فکر کر رہا ہوں۔ دیکھوں کیا ہوتا ہے۔ لارڈ صاحب کل یا پرسوں جانے والے ہیں۔ یہاں کچھ کلام و پیام نہیں ممکن۔ تحریر ڈاک میں بھیجی جائے گی۔ دیکھئے کیا صورت پیش آئے گی۔ مسلمانوں کی املاک کے واگزاشت کا حکم عام ہو گیا ہے۔ جن کو کرایہ پر ملی ہے۔ ان کو کرایہ معاف ہو گیا ہے۔ آج یکشنبہ یکم جنوری ۱۸۶۰ء ہے، پھر دن چڑھا ہے۔ (نوٹ، ۱۸۵۸ء کے اعلان ملکہ وکٹوریہ سے صرف جاں بخشی ہوئی تھی۔ جائداد کی رہائی خصوصاً مسلمانوں کی املاک کی واگزاشت ۱۸۶۰ء میں ہوئی جیسا کہ غالبؔ نے لکھا ہے۔ حسن نظامی)گورنر غالبؔ کے بسیار مہربان دوستاں نواب لفٹنٹ گورنر بہادر غرب وشمال کو نسخہ ’’دستنبو‘‘ بسبیل ڈاک بھیجا تھا۔ ان کا خط فارسی مشعر تحسین عبارت و قبول صدق ارادت ومودت بسبیل ڈاک آگیا۔ پھر قصیدہ بہاریہ تہنیت و مدحت میں بھیجا گیا۔ اس کی رسید آگئی۔ وہی خان صاحب بسیار مہربان دوستان القاب اور کاغذ افشانی۔ ازاں بعد ایک قصیدہ جناب رابرٹ منٹگمری صاحب لفٹنٹ گورنر بہادر قلمرو پنجاب کی مدح میں بتوسط صاحب کمشنر بہادر دہلی گیا۔ اس کے جواب میں بھی خوشنودی نامہ بتوسط کمشنر بہادر کل مجھ کو آگیا۔ پنشن ابھی تک مجھ کو نہیں ملی۔ (نوٹ، اس عبارت سے کئی باتیں نئی معلوم ہوئیں۔ ایک تو گورنر کا فارسی میں خط لکھنا۔ دوسرے مشرقی القاب سے مخاطب کرنا۔ تیسرے مشرقی یعنی افشانی کاغذ پر خط لکھا جانا جس سے معلوم ہو سکتا ہے کہ غدر کے بعد سے انگریزوں نے یہاں کے رسم و رواج کو کتنا زیادہ ترک کردیا ہے اور یہی وجہ ان کے غیر ہر دل عزیز ہو جانے کی ہے۔ غالبؔ نے ہر جگہ پنشن کو مذکر لکھا ہے، مگر یہاں مؤنث لکھتے ہیں۔ اس سے ظاہر ہوا کہ پنشن کا استعمال دونوں طرح جائز ہے۔ حسن نظامی)سرجان لارنس اور غالبؔعرضی میری سرجان لارنس چیف کمشنر بہادر کو گزاری۔ اس پر دستخط ہوئے کہ یہ عرضی مع کواغذ ضمیمہ سائل بھیج دی جائے اور یہ لکھا جائے کہ معرفت صاحب کمشنر دہلی کے پیش کرو۔ اب سررشتہ دار کو لازم تھا کہ میرے نام موافق دستور کے خط لکھتا۔ یہ نہ ہوا۔ وہ عرضی حکم چڑھی ہوئی میرے پاس آگئی۔ میں نے خط صاحب کمشنر چارلس سانڈرس کو لکھا اور وہ عرضی حکم چڑھی اس میں ملفوف کرکے بھیج دی۔ صاحب کمشنر نے صاحب کلکٹر کے پاس یہ حکم چڑھا کر بھیجی کہ سائل کے پنشن کی کیفیت لکھو۔ اب وہ مقدمہ صاحب کلکٹر کے ہاں آیا ہے۔ ابھی صاحب کلکٹر نے تعمیل اس حکم کی نہیں۔ پرسوں تو ان کے ہاں یہ روبکاری آئی ہے۔ دیکھئے کچھ مجھ سے پوچھتے ہیں یا اپنے دفتر سے لکھ بھیجتے ہیں۔ دفتر کہاں رہا جو اس کو دیکھیں گے۔ بہرحال یہ خدا کا شکر ہے کہ بادشاہی دفتر میں میرا نام کچھ شمول فساد میں پایا نہیں گیا اور میں حکام کے نزدیک یہاں تک پاک ہوں کہ پنشن کی کیفیت طلب ہوئی ہے اور میری کیفیت کا ذکر نہیں ہے یعنی سب جانتے ہیں کہ اس کا لگاؤ نہ تھا۔ افلاس شاعری پر بھی غالب ہےہمیشہ نواب گورنر جنرل کی سرکار سے دربار میں مجھ کو سات پارچے اور تین رقم جواہر خلعت ملتا تھا۔ لارڈ کیننگ صاحب میر اور بارو خلعت بند کرگئے ہیں۔ ناامید ہوکر بیٹھ رہا اور مدت العمر کو مایوس ہو رہا۔ اب جو یہاں لفٹنٹ گورنر پنجاب آئے ہیں۔ میں جانتا تھا کہ یہ بھی مجھ سے نہ ملیں گے۔ کل انہوں نے مجھ کو بلا بھیجا۔ بہت ہی عنایت فرمائی اور فرمایا کہ لارڈ صاحب دلّی میں دربار نہ کریں گے۔ میرٹھ ہوتے ہوئے اورمیرٹھ میں ان اضلاع کے علاقہ داروں اورمال گزاروں کا دربار کرتے ہوئے انبالے جائیں گے۔ دلّی کے لوگوں کا دربار وہاں ہوگا۔ تم بھی انبالے جاؤ۔ شریک دربار ہوکر خلعت معمولی لے آؤ۔ کیا کہوں کہ کیا میرے دل پر گزری گویا مردہ جی اٹھا، مگر ساتھ اس مسرت کے یہ بھی سناٹا گزرا کہ سامان سفر انبالہ ومصارف بے انتہا کہاں سے لاؤں اور طرہ یہ کہ نذر معمولی میری قصیدہ ہے اور ہر قصیدہ کی فکر ادھر۔ روپیہ کی تدبیر حواس ٹھکانے نہیں۔ شعر کام دل و دماغ کا ہے۔ وہ روپیہ کی فکرمیں پریشان۔ میرا خدا یہ مشکل بھی آسان کرے گا۔ دن کی روٹی رات کی شراببہ نسبت حکیم احسن اللہ خاں کے جو بات مشہور ہے، وہ محض غلط۔ ہاں مرزا الٰہی بخش جو شاہزادوں میں ہیں۔ ان کو حکم کرانچی بندر جانے کا ہے اور وہ انکار کر رہے ہیں۔ دیکھئے کیا حکم ہوتا ہے۔ حکیم جی کو ان کی حویلیاں مل گئی ہیں۔ اب وہ مع قبائل ان مکانوں میں جا رہے ہیں۔ اتنا حکم ان کو ہے کہ شہر سے باہر نہ جائیں۔ رہا میں

تو بیکسی وغریبی ترا کہ پُرسد

نہ جزا، نہ سزا، نہ نفرین نہ آفرین، نہ عدل نہ ظلم نہ لطف نہ قہر۔ پندرہ دن پہلے تک دن کو روٹی رات کو شراب ملتی تھی۔ اب صرف روٹی ملے جاتی ہے۔ شراب نہیں۔ کپڑا ایام تنعم کا بنا ہوا بھی ہے۔ اس کی کچھ فکر نہیں۔ (نوٹ، حکیم احسن اللہ خاں صاحب کی نسبت دلّی میں مشہور ہوا تھا کہ وہ جلاوطن کئے جائیں گے۔ اس کی طرف اشارہ ہے۔ مرزا الٰہی بخش کی جلاوطنی منسوخ ہوئی اور وہ مرتے دم تک درگاہ حضرت سلطان جیؒ میں رہے۔ غالبؔ کی قبر کے پاس ان کا شاندار مکان بنا، جواب کھنڈر پڑا ہے۔ جلاوطنی ہی منسوخ نہیں ہوئی بلکہ بارہ سو روپے ماہ وار پنشن بھی نسلاً بعد نسلاً دی گئی، جو ان کے بیٹوں مرزا سلیمان شکوہ عرف بڑے مرزا اور مرزا ثریا جاہ اورمرزا اقبال شاہ میں تقسیم ہوئی اوراب مرزا ثریا جاہ کے مرنے کے بعد ان کی بیگمات و ورثا کو ملتی ہے۔ مرزا الٰہی اور ان کے لڑکے درگاہ حضرت سلطان جیؒ کے شرتی رخ سنگ سرخ کی جالیوں کے اندردفن ہیں۔ مرزا الٰہی بخش آخر میں خیر خواہ سرکار ثابت ہوئے۔ بہادر شاہ کے سمدھی تھے۔ حسن نظامی)عذر کے دفترِ شاہی میں غالبؔ کا نام نہ تھادفترِ شاہی میں میرا نام مندرج نہیں نکلا۔ کسی مخبر نے نسبت میرے کوئی خبر بدخواہی کی نہیں دی۔ حکام وقت میرا ہونا شہر میں جانتے ہیں۔ فراری نہیں ہوں۔ روپوش نہیں ہوں۔ بلایا نہیں گیا۔ داروگیر سے محفوظ ہوں۔ کسی طرح کی باز پرس ہوتو بلایا جاؤں مگر ہاں جیسا کہ بلایا نہیں گیا۔ خود بھی بروئے کار نہیں آیا۔ کسی حاکم سے نہیں ملا۔ خط کسی کو نہیں لکھا۔ کسی سے درخواست ملاقات نہیں کی۔ مئی سے پنشن نہیں پایا۔ یہ دس مہینے کیوں کر گزرے ہوں گے۔ انجام کچھ نظر نہیں آتا۔ غالبؔ کی جان پٹیالہ کے سبب بچیمیں حکیم محمد حسن خاں کے مکان میں نودس برس سے کرایہ کو رہتا ہوں اور یہاں قریب کیا بلکہ دیوار بدیوار ہیں۔ گھر حکیموں کے۔ اوروہ نوکر ہیں راجہ نرندسنگھ بہادر والی پٹیالہ کے۔ راجہ نے صاحبان عالیشان سے عہد لے لیاتھا کہ بروقت غارت دلّی یہ لوگ بچ رہیں۔ چنانچہ بعد فتح راجہ کے سپاہی یہاں آبیٹھے اوریہ کوچہ محفوظ رہا۔ ورنہ میں کہاں اور یہ شہر کہاں۔ امیر غریب سب نکل گئے۔ جو رہ گئے تھے وہ نکالے گئے۔ جاگیر دار، پنشن دار، دولت مند اہل حرفہ کوئی بھی نہیں ہے۔ مفصل حال لکھتے ہوئے ڈرتا ہوں۔ ملازمان قلعہ پر شدت ہے اور باز پرس اور داروگیر میں مبتلا ہیں، مگروہ نوکر جو اس ہنگام میں نوکر ہوئے ہیں اور ہنگامے میں شریک ہوئے ہیں۔ میں غریب شاعر دس برس سے تاریخ لکھنے اور شعر کی اصلاح دینے پر متعلق ہوا ہوں، خواہی اس کو نوکری سمجھو خواہی مزدوری جانو۔ اس فتنہ وآشوب میں کسی مصلحت میں میں نے دخل نہیں دیا۔ صرف اشعار کی خدمت بجالاتا رہا اور نظر اپنی بے گناہی پر۔ شہر سے نکل نہیں گیا۔ میرا شہر میں ہونا حکام کو معلوم ہے، مگر چونکہ میری طرف بادشاہی دفتر میں سے یا مخبروں کے بیان سے کوئی بات پائی نہیں گئی، لہٰذا طلبی نہیں ہوئی، ورنہ جہاں بڑے بڑے جاگیر دار بلائے ہوئے یا پکڑے ہوئے آئے ہیں، میری کیا حقیقت تھی۔ غرضیکہ اپنے مکان میں بیٹھا ہوں۔ دروازے سے باہر نکل نہیں سکتا تھا۔ سوار ہونا اور کہیں جانا اور کہیں آنا تو بہت بڑی بات ہے۔ رہا یہ کہ کوئی میرے پاس آوے۔ شہر میں ہے کون جو آوے؟ گھر گھر بے چراغ پڑے ہیں۔ مجرم سیاست پاتے جاتے ہیں۔ جرنیلی بندوبست۔ یازدہم مئی سے آج تک یعنی شنبہ پنجم دسمبر ۱۸۵۷ء تک بدستور ہے۔ کچھ نیک وبدکا حال مجھ کو نہیں معلوم، بلکہ ہنوز ایسے امور کی طرف حکام کو توجہ بھی نہیں۔ دیکھئے انجام کار کیا ہوتا ہے۔ یہاں باہرسے اندر تک کوئی بغیر ٹکٹ کے آنے جانے نہیں پاتا۔ ابھی دیکھا چاہیے۔ مسلمانوں کی آبادی کا حکم ہوتا ہے یا نہیں؟ پنشن کی نسبتمیں اجرائے پنشن سرکار انگریزی سے مایوس تھا۔ بارے وہ نقشہ پنشن داروں کاجو یہاں سے بن کر صدر کو گیا تھا اور یہاں کے حاکم نے نسبت میرے صاف لکھ دیا تھا کہ یہ شخص پانے کا مستحق نہیں ہے، گورنمنٹ نے برخلاف یہاں کے حاکم کی رائے کے میری پنشن کے اجرا کا حکم دیا اور وہ حکم یہاں آیا اور مشہور ہوا۔ میں نے بھی سنا۔ اب کہتے ہیں کہ ماہ آئندہ یعنی مئی کی پہلی تنخواہوں کا بٹنا شروع ہوگا۔ دیکھا چاہیے پچھلے روپے کے باب میں کیا حکم ہوتا ہے۔ دہلی کا دردناک مرثیہبسکہ فعال ما یرید ہےہر صلح شور انگلستاں کاگھر سے بازار میں نکلتے ہوئےزہرہ ہوتا ہے آب انساں کاچوک جس کو کہیں وہ مقتل ہےگھر بنا ہے نمونہ زنداں کاشہر دہلی کا ذرہ ذرہ خاکتشنہ خوں ہے ہر مسلماں کاکوئی وہاں سے نہ آسکے یہاں تکآدمی وہاں نہ جا سکے یہاں کامیں نے مانا کہ مل گئے پھر کیاوہ ہی رونا تن و دل و جاں کاگاہ جل کر کیا کئے شکوہسوزش داغہائے پنہاں کاگاہ رو کر کہا کئے باہمماجرا دیدہ ہائے گریاں کااس طرح کے وصال سے غالبؔکیا مٹے دل سے داغ ہجراں کا(نوٹ، یہ مرثیہ محض شاعری نہیں بلکہ واقعات غدر کی تاریخی تصویر ہے۔ چاندنی چوک میں پھانسیاں کھڑی ہوئی تھیں جن پر روزانہ سیکڑوں آدمیوں کو لٹکایا جاتا تھا۔ مسلمانوں کے ساتھ خصوصیت سے سختی برتی جاتی تھی۔ انہی امور کو غالبؔ نے غمناک انداز سے لکھا ہے۔ حسن نظامی)انگریز بھی غالبؔ کے شاگرد تھےجب سخت گھبراتا ہوں اور تنگ آتا ہوں تو یہ مصرعہ پڑھ کر چپ ہوجاتا ہوں، اےمرگ سان تجھے کیا انتظار ہےیہ کوئی نہ سمجھے کہ میں اپنی بے رونقی اور تباہی کے غم میں مرتا ہوں۔ جو دکھ مجھ کو ہے، اس کا بیان تو معلوم، مگر اس بیان کی طرف اشارہ کرتا ہوں۔ انگریزی قوم میں سے جو ان روسیاہ کالوں کے ہاتھ سے قتل ہوئے، اس میں کوئی میرا امیدگاہ تھا اور کوئی میرا شفیق اور کوئی میرا دوست اور کوئی میرا یار اور کوئی میرا شاگرد۔ ہندوستانیوں میں کچھ عزیز، کچھ دوست، کچھ شاگرد، کچھ معشوق۔ سو وہ سب کے سب خاک میں مل گئے۔ ایک عزیز کا ماتم کتنا سخت ہوتا ہے۔ جو اتنے عزیزوں کا ماتم دار ہو، اس کو زیست کیونکر نہ دشوار ہو۔ ہائے اتنے یار مرے کہ جواب میں مروں گا تو میرا کوئی رونے والا بھی نہ ہوگا۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ (نوٹ، غالبؔ کی انصاف پسندی دیکھنا۔ غدر کے مصائب کو بلا تعصب بیان کرتے ہیں۔ انگریزوں پر جو مظالم ہوئے، ان کو بھی قلم پر لاتے ہیں۔ یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ غدر سے پہلے انگریز دیسی شعرا کے شاگرد ہوتے تھے اور شرفا سے دوستیاں کرتے تھے۔ اب یہ باتیں کہانیاں ہوگئیں۔ حسن نظامی)غالبؔ انگریزوں کے خیر خواہ تھےحکم ہوا ہے کہ دوشنبہ کے دن پہلی تاریخ نومبر کو رات کے وقت سب خیرخواہان انگریز اپنے اپنے گھروں میں روشنی کریں اور بازاروں میں اور صاحب کمشنر بہادر کو کوٹھی پر بھی روشنی ہوگی۔ فقیر بھی اس تہی دستی میں اٹھارہ مہینے سے پنشن مقرری نہیں پاتا، اپنے مکان پر روشنی کرے گا۔ (نوٹ، اس عبارت سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ غالبؔ نے جو کہیں کہیں انگریزوں کے خلاف الفاظ استعمال کئے ہیں، یہ اس وقت کی عام زبان تھی، ورنہ جشن میں شرکت، گھر پر روشنی کرنا صاف ظاہر کرتا ہے کہ وہ حکومت سے عناد نہ رکھتے تھے۔ حسن نظامی)


This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.