غبار خاطر ناشاد ہوں میں

غبار خاطر ناشاد ہوں میں
by فروغ حیدرآبادی

غبار خاطر ناشاد ہوں میں
کہ مٹنے کے لئے آباد ہوں میں

جفا و جور سے بھی شاد ہوں میں
حریص لذت بیداد ہوں میں

لب معجز نما سے زندگی ہے
خراج ناز سے برباد ہوں میں

بڑی مشکل میں کی امداد میری
فدائے بازوئے جلاد ہوں میں

نہ کر پامال گردش ہائے افلاک
کسی بھولے ہوئے کی یاد ہوں میں

تمنا وصل کی تو اور شے ہے
تمہارے ہجر سے بھی شاد ہوں میں

تمہارے ناوک مژگاں کے ہوتے
رہین نشتر فصاد ہوں میں

مجھی پر آنکھ رہتی ہے عدو کی
فروغؔ اب دیدۂ حساد ہوں میں

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse