غربت کے رنج فاقہ کشی کے ملال کھینچ

غربت کے رنج فاقہ کشی کے ملال کھینچ
by داغ دہلوی

غربت کے رنج فاقہ کشی کے ملال کھینچ
اے داغؔ پر زمانے سے دست سوال کھینچ

نازک بہت ہے رشتہ الفت نہ ٹوٹ جائے
اتنا نہ اپنے آپ کو اے مہ جمال کھینچ

ہو جائے تو نہ طائر دل کی طرح اسیر
صیاد اپنی سمت کو آہستہ جال کھینچ

کھینچی تھی جب مصور قدرت نے دل کی شکل
کہتا یہ کون تو نہ اسے بے خیال کھینچ

وہ ٹھنڈے ٹھنڈے چین سے گھر کو چلے گئے
لے اور آہ سرد دل پر ملال کھینچ

ناصح قمار گاہ محبت میں جی نہ ہار
دل کو لگا کے نفع اٹھا خوب مال کھینچ

اے داغؔ جذب عشق کی دیکھیں گے اب کشش
کی اس کشیدہ رو نے تو ہم سے کمال کھینچ

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse