غریبوں کا بھگوان

غریبوں کا بھگوان
by رشید جہاں
319614غریبوں کا بھگوانرشید جہاں

درگا مصیبت کی ماری چار بچوں کو پالتے پالتے بالکل بے دم ہو رہی تھی۔ محنت مزدوری کسی سے اسے دریغ نہ تھا۔ بیوگی، غربت اور چار بچے! سلائی کڑھائی کے سوا اسے اور کچھ نہ آتا تھا۔ اسی سلائی کی بدولت پانچ چھ روپے مشکل سے جمع ہو جاتے اور گزارہ چل جاتا۔ صبح ہی صبح اٹھ کر پوجا کرتی۔ گڑگڑا کر بھگوان سے کہتی، ’’ان بچوں کو نہ بھولنا۔ اگر میں پاپی ہوں تو یہ تو معصوم ہیں۔

ہزار محنت کرتی۔ راتوں کو چراغ سے سیتی رہتی۔ مندر جا کر جو ٹہل بھگوان سےکر سکتی تھی کرتی۔ لیکن اس کی حالت کسی طرح نہ بدلتی تھی۔ بچے آئے دن بیماررہتے تھے۔ دبلے پتلے فاقوں کے مارے معلوم ہوتے تھے۔ وہ خود ہر وقت کھانستی رہتی تھی۔

دن چڑھے سلائی لے بیٹھتی۔ اور دن یونہی کپڑے پر آنکھیں جمائے گزر جاتا۔ بنئے کا ادھار بھی چڑھا ہی رہتا تھا۔ ہزار کوشش کرتی کہ اچھے برے وقت کے لئے کچھ بچا لے۔ پڑا رہےگا تو کام آئے گا لیکن مہینہ کسی طرح بغیر قرض کے کھسکتا ہی نہ تھا۔

اس کا شوہر جب زندہ تھا تو ایک لالہ کے ہاں دس روپیہ ماہوار کا منیم تھا۔ تھوڑا اور اوپر سے پیدا کر لیتا تھا اور سب اس قلیل رقم میں لشتم پشتم گزارہ کر لیتے تھے، اور قرض لینے کی نوبت نہ آتی تھی۔ لیکن وہ دق میں ایسا بیمار پڑا کہ جو کچھ جمع جتھا تھا اس کی بیماری میں صرف ہو گیا۔ آخر میں نہ وہ رہا نہ روپیہ رہا۔ ہاں ایک یاددرگا کے لئے چھوڑ گیا۔ اس کا دم توڑنا۔ لوگوں کا اس کی ارتھی لے جانا۔ پھر براہمنوں کا دھوتی اور جنئو میں بیٹھ کر ان کے آنگن میں کھانا کھانا اور پھر برادری کے طعنے۔

جب کوئی براہمن اس کی نظر پڑ جاتا تو وہ کانپ جاتی۔ اسے وہ گدھوں کی طرح لگتے۔

جس طرح گدھ مردار پر گرتے ہیں۔ اسی طرح یہ برہمن بھی ہمیشہ اسے اپنے شوہر کی موت کی یاد دلاتے تھے۔ وہ تو روپیٹ رہی تھی۔ آئندہ کے خیال سے دیوانی تھی اور ان برہمنوں کی بھوک ضرورت سے زیادہ بڑھی ہوئی تھی۔ اسے ایسا معلوم ہورہا تھا کہ آج وہ اس لئے جان جان کر زیادہ کھا رہے ہیں کہ اس کے اور اس کے بچوں کے لئے کچھ بھی چھوڑ کر نہ جائیں۔ مقدور سے زیادہ اس نے انہیں دیا لیکن پھر بھی وہ اس کے گھر سے ناخوش ہی اٹھے۔

وہ جانتی تھی کہ برہمن اس سے بہت اونچے ہیں۔ ان کی سیوا دھرم ہے اور ان سے نفرت کرنا پاپ ہے لیکن اپنے سے مجبور تھی جب کوئی برہمن جنئو اور دھوتی میں بغیر کرتے کے نظر آتا تو اسے ایسا لگتا کہ وہ اس کے گھر کو کھا کر کسی دوسرے گھر کو خالی کرنے جا رہا ہے۔ وحشت کی ایک لہر اس کے سارے جسم میں دوڑ جاتی۔ وہ اپنے ان پاپی خیالوں کو دل میں دبائے رکھتی۔ اور اسی لئے مندر میں ہمیشہ پیسہ دو پیسہ پنڈتوں کو زیادہ دے دیتی۔ تاکہ اس کے پاپ کا کلیان ہو جائے۔ کن کت پر بہت ہمت کر کے بھی وہ برہمن کو اپنے گھرنہ بلا سکی۔ سیدھا لڑکے کے ہاتھ وہیں بھجوا دیا۔ اس کا بڑا لڑکا اندر دس سال کا تھا۔ پاس کے میونسپل اسکول میں پڑھتا تھا۔ اس کی ساری امیدی اسی سے قائم تھیں۔ ہاتھ میں سلائی ہوتی اور سر میں اندر۔ کبھی وہ دوکاندار ہوتا۔ کبھی اپنے باپ کی طرح منیم اور درگا کی مصیبتوں کے خاتمہ کا دار ومدار اندر کی فارغ البالی پر ہوتا۔ اِندر کی بہو ہوتی، اس کےکئی لڑکے بھی ہوتے۔ سب درگا کے بڑھاپے میں اس کی ٹہل کرتے۔ لڑکیاں تو خیر پرائے گھر کی تھیں۔ چلی جاتیں۔ یہی خیالی پلاؤ تھے۔ جو اس کی خوشی اور اس کی راحت تھے۔

جب کسی براہمن فقیر کی صدا اس کے یہ خوشنما خواب بگاڑ دیتی تو وہ لرز جاتی۔ اندر کو مردہ دیکھتی۔ براہمن، بہت سے براہمن اس کے چھوٹے سے صحن میں کھانا کھاتے ہوئے۔ وہ گھبرا کر باہر چلی جاتی۔ محلہ میں کھڑی ہو جاتی۔ ہزار کوشش کرنے پر بھی ایک وحشت طاری رہتی۔ جو صرف اندر کی صورت دیکھ کر کم ہوتی تھی۔ وہ اس کو چمٹا لیتی اور رونے لگتی۔ اندر اس کے سر پر ہاتھ پھیرتا۔ اسے بچوں کی طرح بہلاتا اور کہتا، ’’اماں تو روتی کا ہے کوہے۔ جب میں بڑا ہوں گا تو پھر میں کام کروں گا۔ تو آرام سے پلنگ پر بیٹھیو۔‘‘

بچہ کیا تھا۔ دیوتا تھا۔ ابھی سے اپنی ذمہ داری محسوس کرنے لگا تھا بچوں کی سی کوئی بات، کوئی شرارت اس میں نہیں تھی۔ بہنوں سے لڑائی جھگڑا بھی بہت ہی کم کرتا۔ ماں کے کولہے سے لگا اپنا سبق پڑھا کرتا تھا۔ بعض وقت وہ ڈر جاتی کہ کہیں اس کا ننہا سا دل ٹوٹ نہ جائے۔ پیسہ دیتی کہ بھیا جا، مٹھائی لے آ، مٹھائی لاتا تو وہ بھی اکیلے نہ کھاتا۔

ایک دن مدرسے سے بخار میں کانپتا ہوا آیا۔ درگا نے جلدی سے کھاٹ پر لٹا دیا۔ جو گرم چیزیں پاس تھیں۔ اس کو اڑھا دیں اور کلیجہ سے لگا کر بیٹھ گئی۔ پھر اپنے دل میں سوچا کہ ایسے بیٹھی رہی تو کیسے کام بنےگا۔ لڑکی کو بھائی کے پاس بٹھا کر محلہ کے وید کے پاس چلی۔ گلی کے موڑ پر تین براہمن ملے کہیں جا رہے تھے۔ ان کو دیکھ کر وہ دم بخود ہو گئی اور نہ معلوم کیوں اس کے دل میں آیا کہ وہ اسی کے گھر جا رہے ہیں۔ راستہ روک کر کھڑی ہو گئی، ’’ارے بھیا ابھی تو وہ زندہ ہے۔ تم کیسے ادھر آ رہے ہو۔‘‘ وہ چیختی ہی رہی اور برہمن اس سے بچ کر نکل گئے۔

جب اسے ہوش آیا تو یاد بھی آئی کہ وید کے یہاں جا رہی تھی۔ وید نے چند گولیاں دیں کہ گر م پانی سے بچے کو پلا دو اور کوٹھڑی میں برابرآگ رکھو۔

شام تک اندرکی حالت اور خراب ہو گئی۔ مشکل سے پانی بھی پیتا تھا۔ آنکھیں بند کئے تیز بخار میں پڑا تھا اور درگا گھڑی گھڑی اپنا اطمینان کرنے کو وہ زندہ بھی ہے یا نہیں اس کو جھنجوڑ دیتی اور پکارتی، ’’بھیا، بھیا، بول کیا کچھ کھا ئے گا۔‘‘ وہ آنکھیں کھول کر پھر بند کر لیتا اور وہ سمجھتی کہ کمزوری کی وجہ سے بول نہیں سکتا۔ جا کر وید کو بلا لائی۔ اس نے دوا بدلی اور اس کا اطمینان کر گیا کہ کوئی ڈر کی بات نہیں ہے۔ درگا نے دودھ بوند بوند کر کے اس کے حلق میں ٹپکایا اور اس نے نام کو کچھ پی لیا تو ماں کو ذرا ڈھارس ہوئی۔ اس کی تینوں بچیاں بھوکی تھیں۔ کھانے کے لئے ضد کر رہی تھیں۔ کھانا پکانے کا اسے کہاں ہوش تھا۔ بازار سے کچھ لا دیا اور وہ کھا کر سو گئیں اور یہ رات بھر اندر کے پلنگ سے لگی بیٹھی رہی۔ کبھی وہ کراہتا، کبھی اپنی لال لال آنکھیں پھاڑ کر چھت کی طرف دیکھتا۔ غرضیکہ اس کی حالت بجائے سنبھلنے کے بگڑتی گئی اور درگا کی ساری رات آنکھوں میں کٹ گئی۔

صبح ہی وہ مندر گئی۔ وہاں مورتی کے سامنے ماتھا ٹیکے پڑی رہی۔ اور اپنے بچے کی جان کے لئے دعا مانگتی رہی۔ پنڈت سے صلاح کی اس نے کہا کوئی آسیب ہوگا۔ وید سے کام نہ بنے گا۔ تو کسی سیانے کو دکھا۔ وید کی دوا اور سیانوں کے ڈھولوں میں سارا دن گزر گیا۔ چوبیس گھنٹہ سے زیادہ ہو گئے تھے اور اندر کسی طرح آنکھ ہی نہ کھولتا تھا۔ درگا کے پاس اب پیسہ نہ تھا۔ صبح بنئے سے چار روپے لائی تھی۔ وہ پنڈتوں ، سیانوں کی نظر ہوگئے۔ شام کو وید خود آیا اور اندر کی حالت دیکھ کر گھبرا گیا۔ وہ اب بالکل بے ہوش تھا۔ آنکھیں آدھی کھلی ہوئی تھیں۔ نتھنے پھڑک رہے تھے۔ ہزار بلایا، جھنجھوڑا۔ اس نے آنکھ نہ کھولی۔ وید نے آخر کو کہہ دیا، ’’جا ابھی کسی ڈاکٹر کو بلا لا۔ ورنہ بچہ چند گھنٹوں کا مہمان ہے۔‘‘ اسے گھرکتا رہا کہ دن بھر اس کے پاس کیوں نہیں گئی۔

درگا کے پاس اس وقت دام کہاں تھے کہ ڈاکٹر کو لاتی۔ فوراً بھاگی ہوئی ان لالہ جی کے ہاں گئی جہاں اندر کا باپ منیم تھا۔ یہ لالہ بہت جائیداد والے تھے۔ کئی ٹھاکر دوارے اور مندر بنوا چکے تھے۔ گنگا کے کنارے ان کا بنوایا ہوا ایک شاندار مندر کھڑا تھا۔ جہاں سینکڑوں لوگ منتیں مانتے اور بھگوان کے درشن کو آتے تھے۔

یہ درگا کو دور سے دیکھتے ہی منہ بنا لیتے اور کہتے کہ ’’مائی تیرا مرد میرا نوکر تھا۔ اپنی تنخواہ لیتا تھا یا میرے پاس کوئی ہنڈی رکھوا گیا تھا کہ تجھے نکال نکال کر دیدیا کروں۔‘‘ اس نے بھی مدت سے ان کے سامنے ہاتھ پھیلانا چھوڑ دیا تھا لیکن آج اندرکی حالت دیکھ کر وہ ساری شرم بھول گئی اور لالہ کے قدموں پر گر پڑی۔ بہت منت خوشامد، حیل و حجت کے بعد لالہ نے مدد سے صاف انکار کر دیا۔ ان کی بیوی بھی پاس ہی کھڑی تھیں۔ درگا ان کی طرف مڑی۔ ان کو اپنے بچوں کا واسطہ دلوایا۔ ان کی مامتا کو جگانے کی کوشش کی لیکن سب بے سود۔ وہ بولیں بھی تو کیا، ’’امیروں کی برابری کیوں کرتی ہے۔ ڈاکٹر کو گھر بلانے کی کیا ضرورت ہے۔ ہسپتال کیوں نہیں لے جاتی۔‘‘

وہ ناکام وہاں سے اٹھی اور اسی سوچ میں چلی کہ کہاں سے روپیہ لائے کہ سمترا کمہاری نے چپکے سے دو روپے اسے قرض دے دیئے۔ تو اس کی جان میں جان آئی۔ ڈاکٹر کے پاس بھاگی اور اسے جگا کر گھر لے گئی۔ ڈاکٹر نے بچہ کو دیکھا۔ الٹا پلٹا اور کھڑے ہو کر کہنے لگا، ’’یہ تو گردن توڑ بخار ہے۔ اسے میونسپل ہسپتال لے جاؤ۔ اب دیر ہوگئی ہے لیکن شاید وہاں جا کر کچھ ہو سکے۔

گردن توڑ بخار کا نام تو درگا نے بھی کئی دفعہ سنا تھا۔ محلہ ہی میں دو چار موتیں ہوئی تھیں۔ اس کا دل ایک دفعہ دھک سے رہ گیا اور وہ کھڑی کی کھڑی رہ گئی۔

ڈاکٹر جو فیس پہلے لے چکے تھے، نہ معلوم کب چلے گئے۔ بچہ اکڑا پڑا تھا۔ سانس حلق میں پھنستا تھا۔ ہر ہر لمحہ حالت بد تر ہوتی جارہی تھی اور درگا کی یہ کیفیت تھی کہ بغیر کچھ کہے بس اس کی پٹی سے لگ کر بیٹھ گئی۔

اسے پورا یقین تھا کہ وہ مر جائے گا۔ ہر قسم کی ہمت اور امید ڈاکٹر کے گردن توڑ بخار کے ساتھ رخصت ہو چکی تھی۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ کسی نے اس کے جسم کا عرق نچوڑ لیا ہے اور ہاتھ پاؤں مردہ ہو چکے ہیں۔ پلنگ سے کمر لگائے سامنے کی دیوار کو تک رہی تھی۔

اندھیرا تھا۔ لڑکیاں کھانا مانگ رہی تھیں۔ مچل رہی تھیں۔ لڑ رہی تھیں لیکن وہ تھی کہ یونہی بے حس و حرکت بیٹھی تھی اور اپنی ساری امیدوں کا خاتمہ اس ننھی سی جان میں دیکھ رہی تھی۔ اس کا سر ہر قسم کے خیالوں سے خالی تھا۔ بس وہ بیٹھی تھی۔

چاند نکلا تو اس اندھیر کوٹھڑی میں کچھ اجالا ہوا۔ لڑکیوں کی چیخ و پکار تھم گئی۔ رونا چلانا آہستہ آہستہ کم ہوا۔ جس کو جہاں جگہ ملی۔ روتی پیٹتی وہیں سو گئی۔

بچہ کا سانس زور زور سے چل رہا تھا۔ غر غر غر کی آواز جاری تھی۔ لڑکیوں میں سے کوئی ڈر کر خواب میں چیخ دیتی تھی۔ کوئی بھوکی اٹھ کر رونے لگتی تھی اور روتے روتے پھر سو جاتی تھی۔ درگا ایک عمر دراز سے وہیں پلنگ سے کمر لگائے دیوار کو تک رہی تھی۔ سانس اب آہستہ ہونا شروع ہوا۔ اس کا شور نیچا ہوا۔ دو سانسوں کے درمیان وقفہ بڑھنے لگا۔ بچہ مر رہا تھا اور اس کی ماں میں یہ ہمت نہ تھی کہ مڑ کر اس کی موت دیکھے۔ سانس اب ہچکیوں کی صورت اختیار کر رہا تھا۔ درگا اب بے حس نہ تھی۔ اسے معلوم تھا کہ اب جلد ان ہچکیوں کی آواز بھی بند ہو جائے گی۔ اس کا سارا جسم تن گیا تھا۔ وہ اسی طرح آنکھیں پھاڑے چوکس، کان لگائے بیٹھی تھی جس طرح ایک شکاری کسی جھاڑی میں چھپا ہوا ہر لمحہ شیر کی جھپٹ کا انتظار کر رہا ہو۔

ہچکی آئی، پھر آئی، ایک اور آئی، پھر آئی، اس دفعہ بہت ہی آہستہ سے۔ وہ کان لگائے بیٹھی تھی کہ اب دوسری آئے گی بھی یا نہیں، نہیں آئی۔

وہ ایک دم کھڑی ہو گئی اور زور سے چیخنے لگی’’مر گیا، میرا بچہ مرگیا۔ یہ کہہ کے باہر کی طرف بھاگی۔ بہت سے لوگ صبح کے اندھیرے میں گنگااشنان کرنے جا رہے تھے۔ وہ ان کے درمیان بھاگتی رہی۔ ’’مر گیا میرا بچہ مرگیا۔‘‘ شاید کسی نے اسے پہچانا ہو، شاید کسی نے اس پر ترس کھایا ہو لیکن صرف ایک بڈھے نے اسے روکا اور پوچھا۔ مائی تو کون ہے؟ تیرا بچہ کب مرا؟‘‘ وہ اور زور سے چیختی ہوئی تیز بھاگی۔

ایک اور آدمی نے اسے پکڑ لیا اور اب اس کے چاروں طرف آدمی جمع تھے۔ ہر کوئی اس سے سوال کر رہا تھا۔ اتنے ہجوم کو اپنے ارد گرد دیکھ کر وہ کچھ ہوش میں آئی اور زور سے چلائی، ’’ہائے میرا لال کل بیمار پڑا۔ آج مر گیا۔‘‘

سننے والوں کو قصوں میں بڑا مزا آتا ہے۔ سب کچھ نہ کچھ پوچھنے لگے۔ ان کی باتوں کا اثر تھا یا بھاگنے کا کہ اس کا جما ہوا دماغ پھر جاگ چلا تھا اور اب وہ رفتہ رفتہ پھر اس دنیا میں واپس آ رہی تھی اور اپنے مردہ بچے کے لئے تڑپ رہی تھی۔

’’اپنا اپنا کرم ہے جو اس جنم میں پاپ کرو تو اگلے جنم میں بھوگو اور جو۔۔۔‘‘ کرم! اور پھر دحشی تھی۔ ’’کیا میں نے ایسے پاپ کئے ہیں کہ میرا مرد گیا تو گیا، میرا بچہ بھی چھن گیا؟‘‘

’’ارے دنیا کی بات ہے۔ تیرا ذکر نہیں ہے۔ کرم ہی کا سارا قصورہے۔ ورنہ یہ روز روز کی مصیبت کیوں آئے؟‘‘ کسی نے چلتے چلتے جواب دیا۔

بتاؤ میں نے کیا کیا تھا؟ کرم!کرم! بتاؤ، بتاؤ، بتاؤ! کہہ کر وہ ہر ایک کے پیچھےپڑ گئی۔ لوگ اپنا پیچھا چھٹانے کو جلدی جلدی گنگا کی طرف چلنے لگے۔ وہ بھی پیچھے لپکی۔ وہاں بڑا میلہ تھا۔ سینکڑوں اچھوت رکشا منتر لینے آئے تھے۔ بیچ میں سفید دھوتی باندھے ایک پنڈت آدھے ننگے کھڑے تھے۔ اچھوتوں کو گائے کا پیشاب پلا رہے تھے۔ لوگ اس دیوتا کو چھونے کی ہمت نہ کرتے تھے۔ پاؤں پر گر رہے تھے۔ انہیں اس طرح کھڑے دیکھ کر درگا کی آنکھیں باہر نکل پڑیں۔ یہ کھڑا تھا براہمن۔ اس کے بچہ کا کھانے والا۔ اپنی وحشت میں اسے وہ اندر کو گوشت چباتا ہوا نظر آیا۔ وہ جہاں کھڑی تھی۔ وہیں جم گئی۔ ڈراونی اور بھیانک آنکھوں سے اس کے چہرہ کی طرف دیکھنے لگی کسی نے پاس سے پوچھا، ’’کہ یہ کون ہیں؟‘‘

’’پنڈت ہر چرن موہن، اچھوتوں کو رکھشا منتر دے رہے ہیں۔‘‘

’’کرم، کرم‘‘ درگا نے پاس ہی سے کسی کا ہاتھ دبالیا۔ اور اس خونخوار خوفناک پنڈت کی طرف دیکھتے ہوئے دبی آواز میں بولی، ’’کیا یہ کرم بھی مٹا دیں گے۔‘‘

’’نہیں، وہ کیسے میٹ سکتے ہیں؟‘‘ اس نے جھٹکا دے کر اپنا ہاتھ چھٹا لیا۔

اس نے پھر کہا، ’’معلوم ہے یہ کون ہے؟ میرے بچے کو کھا رہا ہے دیکھو وہ کھا رہا ہے۔‘‘

ٹھیر تو جا خونی۔ ایک کو کھاکر تیرا پیٹ نہ بھرا۔ کل سے میرے گھر کے چاروں طرف گھوم رہا ہے۔‘‘ وہ لپکی کہ پنڈت کو نوچ لے۔ ’’میرے لال کا قاتل کہہ کر اس نے ایک ہاتھ ان پر مارا۔ لوگ بیچ میں آ گئے۔ برتن جس میں وہ گائے کا پیشاب پلا رہے تھے۔ لڑھک گیا۔ وہ رام رام کہہ کر پیچھے ہٹے اور رکشا منتر کو بھول کر اپنے جسم کو بچانے لگے۔

دس پانچ نے اسے ڈانٹا۔ ایک آدھ گالی بھی اس نے کھائی اور بعض نے اسے بچایا۔ ’’اسے جانے بھی دو۔ یہ تو پاگل ہے۔ ابھی چیختی پھر رہی تھی کہ ہائے میرا بچہ مر گیا۔ اب یہاں آ کر پنڈت جی سے جھگڑ بیٹھی۔‘‘

اب پنڈت جی خود آگے بڑھے اور بناوٹی رحم سے کہنے لگے، ’’ہاں ٹھیک ہے کوئی پاگل ہی معلوم ہوتی ہے۔ اسے بھگوان کے نام پر چھوڑ دو۔‘‘

’’بھگوان بھگوان۔‘‘ درگا نے دماغ پر زور ڈالتے ہوئے کہا، ’’کرم کو بھگوان ہی میٹ سکتے ہیں۔ کہاں ہیں بھگوان؟‘‘

پھر اس کے چاروں طرف جمگھٹا تھا۔ کسی نے کچھ جواب دیا کسی نے کچھ ایک بولا’’مندر میں؟‘‘

وہ ننگے سراور ننگے پاؤں مندر کی طرف بھاگی۔ مندر کے پنڈت نے اسے اس طرح گھستے دیکھ کر ٹوکا اور اٹھ کر اسے اندر آنے سے روکنا چاہا۔ خود بھی بچنا چاہتا تھا۔ اسے ڈر تھا کہ درگا کہیں اس کو چھو نہ جائے۔ اسے دھکا دے کر وہ اندر گھس گئی۔ وہاں عورتیں بیٹھی تھیں۔ اسے دیکھ کر جلدی سے اٹھ کھڑی ہوئی۔ ادھر ادھر بچےھ لگیں۔ وہاں لالہ جی کی بیوی بھی تھیں۔ درگا کو دیکھ کر بولیں، ’’ہٹ یہاں سے۔ تو یہاں کیسے آئی؟‘‘

’’اپنے بھگوان کے پاس آئی ہوں۔ کیوں ہٹوں؟‘‘

’’نکالو اس کو پنڈت جی، ورنہ میں لالہ جی سے تمہاری شکایت کروں گی۔ بڑی بنی ہے بھگوان والی۔ تیرا بھگوان کہاں سے آیا۔ بھک منگنی کہیں کی؟‘‘

’’اچھا تو یہ تمہارا بھگوان ہے۔ تمہیں کو مبارک ہو۔ مجھے تمہارے رئیسوں کے بھگوان نہیں چاہئے۔ کہاں ہے مجھ غریب کا بھگوان۔ درگاطیش میں آ کر پنڈت کی طرف لپکی۔

’’مائی، یہی سب کے بھگوان ہیں۔ یہی امیروں کے۔ یہی غریبوں کے وہ سب کا ہے اور سب اس کے ہیں۔ چل تو باہر جا۔

’’چھوٹا کہیں کا!یہ تو ان رانیوں کے ہیں۔ بتا میرا بھگوان کدھرہے۔ بول۔‘‘

یہ پنڈت بھی آدھا ننگا تھا۔ درگا نے اس کی طرف گھورا اور لپک کر ایک مورتی کو اٹھا لیا۔ اب آئیو میرے گھر۔ اب کے روٹی نہیں دوں گی۔

پنڈت اس کی طرف دوڑے۔ درگا نے چیخ کر جلدی سے مورتی کو چھوڑ دیا اور ناچنے لگی۔ یہ رہا لا لائن کا بھگوان۔ یہ رہا رئیسوں کا۔‘‘

پجاریوں نے اسے پکڑ لیا اور خوب پیٹا۔ پولیس میں لیجا نے لگے۔ درگا پٹ رہی تھی اور ہنس رہی تھی۔ شاید اس کی وحشیانہ آنکھوں نے دیوانی ہنسی نے ان مردوں کو یقین دلادیا کہ وہ اپنے ہوش میں نہیں۔ آخر کو مار پیٹ کر انہوں نے درگا کو مندر سے نکال دیا۔

اس طرح پٹ کر درگا کی طبیعت میں اب قدرے سکون تھا۔ لیکن اب اس کو اپنے بچے کا اتنا دھیان نہ تھا جتنا یہ خیال کہ وہ آج اپنے بھگوان کو ضرور ڈھونڈ نکالے گی۔ وہ مندر مندر پھرتی رہی اور ہر پنڈت سے پوچھتی رہی کہ وہ اس کو بھگوان کا پتہ بتا دے۔ کسی نے اسے جواب نہ دیا۔ کسی نے ڈانٹ کر نکال دیا۔ کسی نے بہلا پھسلا کر چلتا کیا۔

درگا سارے شہر میں پھرتے پھرتے ایک مسجد میں گھس گئی۔ وہاں بہت سے لوگ جمع تھے۔ وہ کبھی کھڑے ہوئے تھے کبھی جھکتے کبھی بیٹھتے تھے۔ درگا خاموش کھڑی دیکھتی رہی۔ جب وہ لوگ اٹھے اور چلنے کو تیار ہوئے تو ایک اجنبی عورت کو دیکھ کر حیران ہوئے۔ ایک داڑھی والے آگے بڑھے اور بولے۔

’’ارے تو کون ہے۔‘‘

’’میں اپنے بھگوان کو ڈھونڈ رہی ہوں۔ تمہیں پتا ہے کہ وہ کہاں ہے؟‘‘

’’بھگوان وگوان کی تو خبر نہیں۔ ہمارا تو اللہ ہے جو ہر جگہ رہتا ہے۔‘‘

درگا نے چاروں طرف مڑ کر دیکھا اور پوچھا کہ وہ کون ہے۔

’’اللہ سب کاپروردگار ہے۔ اس نے دنیا بنائی ہے۔ مجھے تجھے سب کو روٹی دیتا ہے۔ امیروں غریبوں سب کا مالک ہے۔ اس کے حضور میں سب برابر ہیں۔‘‘

’’درگا ہنسی جو اس کے لئے سب برابر ہیں۔ تو امیر غریب بناتا کیوں ہے؟‘‘

’’اس کی مرضی۔‘‘

’’واہ بڑے میاں! خوب دور کی لیتے ہو۔ اگر راستہ نہیں بتانا تو مت بتاؤ۔ جھوٹ کیوں بولتے ہو۔‘‘ یہ کہہ کر وہ جواب کے لئے نہ ٹھہری اور اپنی دھن میں چیختی ہوئی نکل گئی۔

درگا سارا دن پھر پھر کر بے دم ہو رہی تھی لیکن پھر بھی اس کے پاؤں کو قرار نہ تھا وہ برابر چلے جا رہی تھی۔ ایک جگہ گھنٹہ بج رہا تھا۔ مرد اور عورتیں جلدی جلدی گرجا کے اندر جا رہے تھے۔ درگا بھی ساتھ گھس گئی اور سب سے آگے جا کر بیٹھ گئی۔ ایک آدمی کالے لباس میں اوپر پلیٹ فارم پر کھڑا وعظ کر رہا تھا، ’’امیر لوگ بھگوان کی مہربانی کا ایک حصہ ہیں۔ غریبوں کی مدد کا ایک آلہ ہیں۔ غریبوں کو مسیح اور اپنے بھگوان کا شکر گزار ہونا چاہئے۔ امیروں پر رشک نہ کرنا چاہئے۔‘‘

درگا پر بھگوان اور غریب کے لفظوں کا بہت اثر ہوا اور اس کی وحشت اور جنون کی حالت اور تیز ہو گئی۔ اپنی دیوانگی میں یہ شخص اس کو ایک پنڈت کالے سوانگ میں نظر آیا۔ وہ ضبط نہ کر سکی۔ اور وعظ کے درمیان میں ہی چیخنے لگی۔ بھیس بدل بدل کر کھڑا ہوتا ہے۔ دھوکہ باز آج تجھے جیتا نہ چھوڑوں گی۔‘‘ یہ کہہ کر وہ آگے لپکی۔

لوگ بیچ میں آ گئے اور آکر درگا کو پکڑ لیا۔ یہ لڑنے لگی اور اس کھینچا تانی میں چھٹ کر گر پڑی اور اس کا سر ایک قریب کے بنچ سے ٹکرایا۔

’’غریبوں کا بھگوان کدھر ہے۔‘‘ درگا ہوش آنے پر چلائی، ’’ہلو نہیں، دیکھو تمہارے سوئی چبھ جائے گی۔‘‘ ایک جوان ڈاکٹر اس کے اوپر جھکا ہوا انجکشن لگا رہا تھا اور ایک سفید پوش نرس اس کا بازو مضبوط پکڑے تھی۔

ڈاکٹر درگا کی طرف دیکھ کر مسکرایا اور درگا نے دبی ہوئی آواز میں پھر پوچھا، ’’غریبوں کا بھگوان کون ہے؟‘‘

’’غریبوں کے ہاتھ۔‘‘

ڈاکٹر نے سوئی نکال لی اور ایک دوسرے مریض کے پاس چلا گیا اور پھر درگا نے اپنے ہاتھوں کو اونچا اٹھایا اور دیر تک ان کو دیکھتی رہی۔


This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.