غریبوں کی صدا

غریبوں کی صدا
by محمد دین تاثیر

غریبوں کی فاقہ کشوں کی صدا ہے
مرے جا رہے ہیں
امیروں کے عیشوں کا انبار سر پر
لدے ہیں زمانے کے افکار سر پر
زمیندار کاندھے پہ سرکار سر پر
مرے جا رہے ہیں
شرابوں کے رسیا امیروں کا کیا ہے
ہنسے جا رہے ہیں
غریبوں کی محنت کی دولت چرا کر
غریبوں کی راحت کی دنیا مٹا کر
محل اپنے غارت گری سے سجا کر
ہنسے جا رہے ہیں
غریبوں نے سمبندہ مل کر کیا ہے
خوشی بڑھ گئی ہے کہ غم بڑھ رہے ہیں
نگاہوں سے آگے قدم بڑھ رہے ہیں
سنبھلنا امیرو کہ ہم بڑھ رہے ہیں
بڑھے جا رہے ہیں

This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.

Public domainPublic domainfalsefalse