غزل (دریا میں موتی، اے موجِ بے باک)
دریا میں موتی، اے موجِ بے باک
ساحل کی سوغات! خاروخس و خاک
میرے شرر میں بجلی کے جوہر
لیکن نَیستاں تیرا ہے نم ناک
تیرا زمانہ، تاثیر تیری
ناداں! نہیں یہ تاثیرِ افلاک
ایسا جُنوں بھی دیکھا ہے میں نے
جس نے سِیے ہیں تقدیر کے چاک
کامِل وہی ہے رِندی کے فن میں
مستی ہے جس کی بے منّتِ تاک
رکھتا ہے اب تک مَیخانۂ شرق
وہ مے کہ جس سے روشن ہو ادراک
اہلِ نظر ہیں یورپ سے نومید
ان اُمّتوں کے باطن نہیں پاک
This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator. |