غم اس پر آشکار کیا ہم نے کیا کیا
غم اس پر آشکار کیا ہم نے کیا کیا
غافل کو ہوشیار کیا ہم نے کیا کیا
ہاں ہاں تڑپ تڑپ کے گزاری تمہیں نے رات
تم نے ہی انتظار کیا ہم نے کیا کیا
اترا رہا ہے نقد محبت پہ دل بہت
اچھے کو مال دار کیا ہم نے کیا کیا
کہتے ہیں وہ شکایت بیداد و جور پر
تجھ کو خدا نے خوار کیا ہم نے کیا کیا
ناصح بھی ہے رقیب یہ معلوم ہی نہ تھا
کس کو صلاح کار کیا ہم نے کیا کیا
رسوا کیا جو دل نے تو اب کہہ رہے ہیں داغؔ
دشمن کو رازدار کیا ہم نے کیا کیا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |