غم اٹھانے کے واسطے دم ہے

غم اٹھانے کے واسطے دم ہے
by داغ دہلوی
331873غم اٹھانے کے واسطے دم ہےداغ دہلوی

غم اٹھانے کے واسطے دم ہے
زندگی ہے اگر تو کیا غم ہے

کہتے ہو کچھ کہو کہوں کیا خاک
جانتا ہوں مزاج برہم ہے

گریہ بے اثر کی کچھ حد بھی
ہم ہیں اور آج چشم پر نم ہے

کیا نئے دوستوں سے بگڑی آج
دشمنوں کا کچھ اور عالم ہے

مجھ کو دیکھا تو غیر سے یہ کہا
عمر اس نوجوان کی کم ہے

گر خوشی ہے تو وصل کی ہے خوشی
غم اگر ہے تو ہجر کا غم ہے

سنتے ہیں داغؔ کل وہ آئے تھے
بارے اب تو سلوک باہم ہے


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.