غم اٹھانے کے واسطے دم ہے

غم اٹھانے کے واسطے دم ہے
by داغ دہلوی

غم اٹھانے کے واسطے دم ہے
زندگی ہے اگر تو کیا غم ہے

کہتے ہو کچھ کہو کہوں کیا خاک
جانتا ہوں مزاج برہم ہے

گریہ بے اثر کی کچھ حد بھی
ہم ہیں اور آج چشم پر نم ہے

کیا نئے دوستوں سے بگڑی آج
دشمنوں کا کچھ اور عالم ہے

مجھ کو دیکھا تو غیر سے یہ کہا
عمر اس نوجوان کی کم ہے

گر خوشی ہے تو وصل کی ہے خوشی
غم اگر ہے تو ہجر کا غم ہے

سنتے ہیں داغؔ کل وہ آئے تھے
بارے اب تو سلوک باہم ہے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse