غم خانۂ ہستی میں ہے مہماں کوئی دن اور

غم خانۂ ہستی میں ہے مہماں کوئی دن اور
by اختر شیرانی
304988غم خانۂ ہستی میں ہے مہماں کوئی دن اوراختر شیرانی

غم خانۂ ہستی میں ہے مہماں کوئی دن اور
کر لے ہمیں تقدیر پریشاں کوئی دن اور

مر جائیں گے جب ہم تو بہت یاد کرے گی
جی بھر کے ستا لے شب ہجراں کوئی دن اور

تربت وہ جگہ ہے کہ جہاں غم ہے نہ حیرت
حیرت کدۂ غم میں ہیں حیراں کوئی دن اور

یاروں سے گلہ ہے نہ عزیزوں سے شکایت
تقدیر میں ہے حسرت و حرماں کوئی دن اور

پامال خزاں ہونے کو ہیں مست بہاریں
ہے سیر گل و حسن‌ گلستاں کوئی دن اور

ہم سا نہ ملے گا کوئی غم دوست جہاں میں
تڑپا لے غم گردش دوراں کوئی دن اور

قبروں کی جو راتیں ہیں وہ قبروں میں کٹیں گی
آباد ہیں یہ زندہ شبستاں کوئی دن اور

رنگینی و نزہت پہ نہ مغرور ہو بلبل
ہے رنگ بہار چمنستاں کوئی دن اور

آخر کو وہی ہم وہی ظلمات شب غم
ہے نور رخ ماہ درخشاں کوئی دن اور

آزاد ہوں عالم سے تو آزاد ہوں غم سے
دنیا ہے ہمارے لیے زنداں کوئی دن اور

ہستی کبھی قدرت کا اک احسان تھی ہم پر
اب ہم پہ ہے قدرت کا یہ احساں کوئی دن اور

لعنت تھی گناہوں کی ندامت مرے حق میں
ہے شکر کہ اس سے ہیں پشیماں کوئی دن اور

شیون کو کوئی خلد بریں میں یہ خبر دے
دنیا میں اب اخترؔ بھی ہے مہماں کوئی دن اور


This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.