غم سے فارغ ترے ہرگز دل ناشاد نہ ہو
غم سے فارغ ترے ہرگز دل ناشاد نہ ہو
جو گرفتار محبت ہے وہ آزاد نہ ہو
آگ اس گھر میں لگے تجھ سے جو آباد نہ ہو
خاک ہو جائے وہ دل جس میں تری یاد نہ ہو
بھول جانے سے ترے مجھ کو یہ ہوتا ہے یقیں
کیا عجب موت کو بھی شکل مری یاد نہ ہو
لے اڑی ہے تو اسے اس کی گلی میں پہونچا
اے صبا خاک ہماری کہیں برباد نہ ہو
دم میں سو رنگ بدلتا ہوں تپ فرقت میں
کیسے عاجز مری تصویر میں بہزاد نہ ہو
خواب میں بھی رہے اس زلف مسلسل کا خیال
یا خدا قید محبت سے دل آزاد نہ ہو
عقل سے کام نہ رکھے کبھی عاشق تیرا
بندۂ پیر مغاں قائل زہاد نہ ہو
بیڑیاں کتنی ہی تنکوں کی طرح توڑی ہیں
دست وحشت کہیں شاکی ترا حداد نہ ہو
بے طرح باغ میں گلچیں نے ہوا باندھی ہے
نکہت گل کہیں گلزار میں برباد نہ ہو
شب کا ہنگام ہے راحت سے وہ آرام کریں
گوش ضو ان کے الٰہی مری فریاد نہ ہو
طالباؔ مرنے پہ راضی ہوں مگر خوف یہ ہے
قتل کے بعد بھی کوئی ستم ایجاد نہ ہو
This work is in the public domain in the United States because it was first published outside the United States (and not published in the U.S. within 30 days), and it was first published before 1989 without complying with U.S. copyright formalities (renewal and/or copyright notice) and it was in the public domain in its home country on the URAA date (January 1, 1996 for most countries). |