غم سے نا اہل وفا حشر تک آزاد نہ ہو
غم سے نا اہل وفا حشر تک آزاد نہ ہو
مر کے سو بار ہو زندہ تو کبھی شاد نہ ہو
اس نشیمن میں دھرا کیا ہے کہ برباد نہ ہو
چار تنکے ہوں پڑے اور کوئی بنیاد نہ ہو
کیا کہا تھا تری آنکھوں نے نظر ملتے وقت
پھر نظر مجھ سے ملا لے جو تجھے یاد نہ ہو
کوئی گاہک نہیں مرجھائے ہوئے پھولوں کا
کسی سینے میں الٰہی دل ناشاد نہ ہو
خوش ہو بلبل کہ سزاوار اسیری ٹھہری
وائے اس پر ہے کہ جس کا کوئی صیاد نہ ہو
تیری آنکھوں کا جو مارا نہیں زندہ ہی نہیں
ہے وہی عین غلط جس پہ ترا صاد نہ ہو
سامنے آ گئی ہے منزل پا لغز فراق
مدد اے عشق کوئی راہ میں افتاد نہ ہو
جو غبار اٹھتا ہے کہتا ہے بآواز بلند
سر نہ اس خاک کا اونچا ہو جو برباد نہ ہو
دل شکستہ نہ ہو ٹوٹے گا قفس خود بیتابؔ
وقت کی بات ہے ممکن نہیں آزاد نہ ہو
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |