غم نہیں گو اے فلک رتبہ ہے مجھ کو خار کا

غم نہیں گو اے فلک رتبہ ہے مجھ کو خار کا
by حیدر علی آتش

غم نہیں گو اے فلک رتبہ ہے مجھ کو خار کا
آفتاب اک زرد پتا ہے مرے گل زار کا

زلف کے حلقہ میں الجھا سبزہ گوش یار کا
ہو گیا سنگ زمرد خال چشم مار کا

ناخدا ہے موت جو دم ہے سو ہے باد مراد
عزم ہے کشتیٔ تن کو بحر ہستی یار کا

خانۂ زنجیر سے مثل صدا ڈرتا ہوں اب
یاد آتا ہے کف پا میں کھٹکنا خار کا

جوش گریہ نے کیا ہے ناتواں اتنا مجھے
ٹوٹنا ممکن نہیں ہے آنسوؤں کے تار کا

کھا گئی آخر مجھے چشم سیاہ سرمگیں
زرق قسمت نے کیا ہے زنگی آدم خوار کا

سعئ لا حاصل مداوائے مریض عشق ہے
تھامنا ممکن نہیں گرتی ہوئی دیوار کا

ہاتھ قاتل کا گریباں تک پہنچ سکتا نہیں
اور فرط شوق ہے یاں زخم دامن دار کا

پھول جو ہے اپنے گلشن کا سپر کا پھول ہے
ہر شجر اس باغ میں لاتا ہے پھل تلوار کا

خط روئے یار سے ایذا اٹھائی ہے زبس
سبزہ سے ہوتا ہے صدمہ میرے دل کو خار کا

گرچہ پیش طاق ابروئے صنم گیسو نہیں
کعبہ پر نرغہ ہوا ہے لشکر کفار کا

اے صنم تیری کرنجی آنکھ سے ثابت ہوا
رنگ اڑ جاتا ہے روئے مردم بیمار کا

یاد میں تیری رقیب رو سیہ جاگا تو کیا
مرتبہ عالی نہ ہو خفاش شب بیدار کا

اس پری رو کے جو کوچہ کا گزرتا ہے خیال
بن کے جن سایہ لپٹا ہے مجھے دیوار کا

اٹھ کے دیوار لحد سے مردے ٹکراتے سر
اک قیامت ہے صنم عالم تری رفتار کا

خم ندامت سے کیا محراب میں کعبہ کے سر
گردن زاہد سے بوجھ اٹھا نہ جب زنار کا

زندگی میں بے ادب ہونے نہ دے تو رعب حسن
خاک ہے میری پس از مرگ اور دامن یار کا

اے صنم عاشق سے روپوشی نہیں لازم تجھے
پردہ موسیٰ سے نہیں اللہ کو دیدار کا

بوئے گل آتشؔ کہیں ہوتی ہے محسوس نظر
افزا ہے روز محشر یار کے دیدار کا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse