غنچۂ دل مرا کھا کر گل خنداں میرا

غنچۂ دل مرا کھا کر گل خنداں میرا
by ولی عزلت

غنچۂ دل مرا کھا کر گل خنداں میرا
بوئے گل سا ہے اڑاتا مجھے جاناں میرا

اپنی گرمی سے برشتہ ہوا حسن رخ یار
لالہ رنگ آتش گل سے ہے گلستاں میرا

کبھو گزرا تھا کوئی آبلہ پا دیکھ وفا
رووے اب لگ ہے لہو خار بیاباں میرا

عشق خورشید رخوں سے جو کیا میں نے جنوں
داغ جوں صبح ہوا چاک گریباں میرا

کیمیا حسن کی ہے منہ تو ذرا اس کو لگا
جام مے سے بھی گیا کیا دل گریاں میرا

چور کر دل کو عنایت کیا سنگیں دشنام
شیشے کو توڑ کے پتھر دیا تاواں میرا

قتل عزلتؔ سے نہ منکر ہو کہ گل کے مانند
لب پہ ہنستا ہے ترے خون نمایاں میرا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse