غنچے سے مسکرا کے اسے زار کر چلے
غنچے سے مسکرا کے اسے زار کر چلے
نرگس کو آنکھ مار کے بیمار کر چلے
پھرتے ہو باغ سے تو پکارے ہے عندلیب
صبح بہار گل پہ شب تار کر چلے
اٹھتے ہوئے جو دیر سے لی مدرسے کی راہ
تسبیح شیخ شہر کی زنار کر چلے
آئے جو بزم میں تو اٹھا چہرے سے نقاب
پروانے ہی کو شمع سے بیزار کر چلے
آزاد کرتے تم ہمیں قید حیات سے
اس کے عوض جو دل کو گرفتار کر چلے
اٹھ کر ہمارے پاس سے گھر تک رقیب کے
پہنچے گا وہ کوئی جو ہمیں مار کر چلے
لو خوش رہو گھر اپنے میں جس شکل سے ہو تم
دو چار نالے ہم پس دیوار کر چلے
اندوہ و درد و غم نے کیا عزم جب ادھر
ہم کو عدم سے قافلہ سالار کر چلے
سوداؔ نے اپنے خوں کی دیت تم سے یک نگاہ
چاہی تو اتنی بات سے انکار کر چلے
پیارے خدا کے واسطے ٹک اپنے دل کے بیچ
انصاف تو کرو یہ کسے مار کر چلے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |