غیرت مہر رشک ماہ ہو تم
غیرت مہر رشک ماہ ہو تم
خوب صورت ہو بادشاہ ہو تم
جس نے دیکھا تمہیں وہ مر ہی گیا
حسن سے تیغ بے پناہ ہو تم
کیوں کر آنکھیں نہ ہم کو دکھلاؤ
کیسے خوش چشم خوش نگاہ ہو تم
حسن میں آپ کے ہے شان خدا
عشق بازوں کے سجدہ گاہ ہو تم
ہر لباس آپ کو ہے زیبندہ
جامہ زیبوں کے بادشاہ ہو تم
فوق ہے سارے خوش جمالوں پر
وہ ستارے جو ہیں تو ماہ ہو تم
ہم سے پردہ وہی حجاب کا ہے
کوچہ گردوں سے رو براہ ہو تم
کیوں محبت بڑھائی تھی تم سے
ہم گناہ گار بے گناہ ہو تم
جو کہ حق وفا بجا لائے
شاہد اللہ ہے گواہ ہو تم
ہے تمہارا خیال پیش نظر
جس طرف جائیں سد راہ ہو تم
دونوں بندے اسی کے ہیں آتشؔ
خواہ ہم اس میں ہوویں خواہ ہو تم
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |