غیر توکل نہیں چارا مجھے
غیر توکل نہیں چارا مجھے
اپنے ہی دم کا ہے سہارا مجھے
حرص و طمع نے تو ڈبویا ہی تھا
صبر و قناعت نے ابھارا مجھے
جو وہ کہے اس کو سزاوار ہے
چون و چرا کا نہیں یارا مجھے
بے ادبوں کی ادب آموزیاں
ان کے بگڑنے نے سنوارا مجھے
کوشش بے سود مشوش نہ کر
قعر نہ بن جائے کنارا مجھے
زشتیٔ پندار دلاتا ہے یاد
قصۂ اسکندر و دارا مجھے
ننگ مذلت سے چھڑا لے گیا
جوش حمیت کا حرارا مجھے
اوج معالی پہ اڑا لے گیا
توسن ہمت کا طرارا مجھے
آہ نہیں رخصت افشائے راز
قصہ تو معلوم ہے سارا مجھے
فرصت اوقات ہے بس مغتنم
یہ نہیں ملنے کی دوبارا مجھے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |