غیر سے بد گمان ہو جاتے

غیر سے بد گمان ہو جاتے
by ریاض خیرآبادی

غیر سے بد گمان ہو جاتے
میری سنتے تو کان ہو جاتے

مہرباں آسمان ہو جاتے
آپ اگر مہربان ہو جاتے

میرے گھر میہمان ہو جاتے
دل میں تم آ کے جان ہو جاتے

جاتے ہم زار اس گلی میں اگر
ذرے بھی آسمان ہو جاتے

پیر فانی کو وقت بادہ کشی
ہم نے دیکھا جوان ہو جاتے

نام میرا جو بزم میں آتا
میرے لاکھوں بیان ہو جاتے

دل تو کہتا ہے لطف وصل یہ تھا
جان من میری جان ہو جاتے

کہتے تیری سی برگ گل بلبل
یہ بھی تیری زبان ہو جاتے

بوسے کیا لے کوئی تصور میں
کہ ہیں رخ پر نشان ہو جاتے

ظلم ڈھاتے جو آتے تربت پر
فرش رہ آسمان ہو جاتے

بادلوں میں جو مے بھری ہوتی
جھک کے اونچی دکان ہو جاتے

شیخ جی مے کدہ وہ جنت ہے
تم بھی جا کر جوان ہو جاتے

پاسباں تو رقیب بن جاتا
ہم ترے پاسبان ہو جاتے

ملتے کم عمر مہ جبیں جو ریاضؔ
ہم ابھی نوجوان ہو جاتے

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse