غیر کے گھر بن کے ڈالی جائے گی
غیر کے گھر بن کے ڈالی جائے گی
کیوں کر ان کی عید خالی جائے گی
آپ نے باندھی ہے کیوں تلوار آج
کیا مری حسرت نکالی جائے گی
پھنس چکا دل ہو چکی آشفتگی
اب طبیعت کیا سنبھالی جائے گی
جان کا دینا مجھے منظور ہے
ان کی فرمائش نہ ٹالی جائے گی
ان پہ ظاہر ہو نہ اے دل شوق مرگ
تیغ گردن سے اٹھا لی جائے گی
دل کو واپس تم سے کیا مانگیں گے ہم
دے چکے جو شے وہ کیا لی جائے گی
کیوں نہ وہ بے چین ہوئیں گے نسیمؔ
سیدوں کی آہ خالی جائے گی
This work was published before January 1, 1930, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |