غیر کے گھر ہیں وہ مہمان بڑی مشکل ہے
غیر کے گھر ہیں وہ مہمان بڑی مشکل ہے
جان جانے کے ہیں سامان بڑی مشکل ہے
کہتے ہیں آپ ہیں جس بات کے طالب ہم سے
ہے وہی غیر کو ارمان بڑی مشکل ہے
اور پھر کس سے کہوں حال پریشانیٔ دل
تم تو ہوتے ہو پریشان بڑی مشکل ہے
بے ملے کام بھی چلتا نہیں ملنا بھی ضرور
غیر سے جان نہ پہچان بڑی مشکل ہے
اس نے لی جان ہزاروں کی یہ دم دے دے کر
ہم پہ مرنا نہیں آسان بڑی مشکل ہے
وہ اٹھا لیتے ہیں یہ رکھ رکھ کے چھری گردن پر
کام ہوتا نہیں آسان بڑی مشکل ہے
راز دل اس بت بد خو سے کہوں یا نہ کہوں
بات نازک ہے وہ نادان بڑی مشکل ہے
روز کہتے ہو کہ تو کس کے لئے ہے بیتاب
جان کر بنتے ہو انجان بڑی مشکل ہے
دوستی سہل نہیں اس بت بد خو سے نسیمؔ
ضد نہ کر دیکھ مری جان بڑی مشکل ہے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |