فتنہ خو لے گئی دل چھین کے جھٹ پٹ ہم سے

فتنہ خو لے گئی دل چھین کے جھٹ پٹ ہم سے
by عاشق اکبرآبادی
317362فتنہ خو لے گئی دل چھین کے جھٹ پٹ ہم سےعاشق اکبرآبادی

فتنہ خو لے گئی دل چھین کے جھٹ پٹ ہم سے
اور پھر سامنے آنے میں ہے گھونگھٹ ہم سے

آپ کا قصد محبت ہے اگر غیروں سے
قرض لے لیجئے تھوڑی سی محبت ہم سے

سو گئے ہم تو ہم آغوش ہوئے خواب میں وہ
اب تو کرنے لگے کچھ کچھ وہ لگاوٹ ہم سے

ایک بوسہ کی طلب میں ہوئی محنت برباد
وصل کی رات ہوئی یار سے کھٹ پٹ ہم سے

صلح کر لیں ترے خنجر کے گلے مل جائیں
قتل کے وقت نہ رکھئے وہ رکاوٹ ہم سے

ہائے کس ناز سے کہتے ہیں شب وصل میں وہ
ہو چکی بات جو ہونی تھی پرے ہٹ ہم سے


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.