فجر اٹھ خواب سیں گلشن میں جب تم نے ملی انکھیاں
فجر اٹھ خواب سیں گلشن میں جب تم نے ملی انکھیاں
گئیں مند شرم سوں نرگس کی پیارے جوں کلی انکھیاں
نظر بھر دیکھ تیرے آتشیں رخسار اے گل رو
مرے دل کی برنگ قطرۂ شبنم گلی انکھیاں
خراماں آب حیواں جوں چلا جب جان آگے سیں
انجہو کا بھیس کر پیچھوں سیں پیارے بہہ چلی انکھیاں
تمہیں اوروں سیں دونا دیکھتی ہیں خوش نمائی میں
ہنر جانے ہیں اپنا آج عیب احولی انکھیاں
پکڑ مژگاں کے پنجے سوں مروڑا یوں مرے دل کو
تری زورآوری میں آج رستم ہیں بلی انکھیاں
ترا ہر عضو پیارے خوش نما ہے عضو دیگر سیں
مژہ سیں خوب تر ابرو و ابرو سیں بھلی انکھیاں
تحیر کے پھندے میں صید ہو کر چوکڑی بھولے
اگر آہو کوں دکھلاؤں سجن کی اچپلی انکھیاں
ہوئی فانوس گردوں کے سیہ کاجل سوں سر تا پا
شب ہجراں میں تیری شمع ہو یاں لگ جلی انکھیاں
زباں کر اپنے مژگاں کوں لگی ہیں ریختے پڑھنے
ہوئی ہیں آبروؔ کے وصف میں تیری ولی انکھیاں
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |