فدا کر جان اگر جانی یہی ہے
فدا کر جان اگر جانی یہی ہے
ارے دل وقت بے جانی یہی ہے
یہی قبر زلیخا سیں ہے آواز
اگر ہے یوسف ثانی یہی ہے
نہیں بجھتی ہے پیاس آنسو سیں لیکن
کریں کیا اب تو یاں پانی یہی ہے
کسی عاشق کے مرنے کا نہیں ترس
مگر یاں کی مسلمانی یہی ہے
برہ کا جان کندن ہے نپٹ سخت
شتاب آ مشکل آسانی یہی ہے
پرو تار پلک میں دانۂ اشک
کہ تسبیح سلیمانی یہی ہے
مجھے ظالم نے گریاں دیکھ بولا
کہ اس عالم میں طوفانی یہی ہے
زمیں پر یار کا نقش کف پا
ہمارا خط پیشانی یہی ہے
وو زلف پر شکن لگتی نہیں ہات
مجھے ساری پریشانی یہی ہے
نہ پھرنا جان دینا اس گلی میں
دل بے جان کی بانی یہی ہے
کیا روشن چراغ دل کوں میرے
سراجؔ اب فضل رحمانی یہی ہے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |