فردوس بریں/انتقام
حسین اور زمرد نے اپنے قصر دری سے نکل کے دیکھا تو عجب عالم نظر آیا۔ جنت کے آرام و اطمینان میںفرق آ گیا تھا اور معلوم ہوتا تھا گویا فردوس بریںمیںقیامت آ گئی۔خوب رو اور پری چہرہ حور و غلمان جوا پنے حسن و جمال سے ہر ایک کو نورانی پیکر ہونے کا دھوکا دیتے تھے قصروںاور کوشکوںسے نکل نکل کے بدحواس بھاگے اور ایک دوسرے کی آڑ میںچھپنے لگے۔ ہر طرف ایک تہلکہ پڑ گیا۔جہاںرونا حرام بتایا جاتا تھا وہیںہر طرف رونے پیٹنے اور نوحہ و بکا کی آواز بلند ہوئی۔ ایک عظیم الشان اور بڑا بھاری تاتاری لشکر جنت میںداخل ہو گیا تھا جس کے سپاہی ہر چہار طرف پےیلتا جاتے تھے۔قصروں اور کوشکوںمیںلوٹ مار مچ گئی تھی۔ خوبصورت لڑکیاںاور پری جمال لڑکے گرفتار ہو رہے تھے۔جن کی سہمی ہوئی صورتوں، چیخو پکار کی آوازوں نے عجب نازک گھڑی کا سماںپیدا کر رکھا تھا۔ یہ وحشت انگیز اور بدحواس کرنے والا سماں دیکھتے ہی زمرد اور حسین دوڑتے ہوئے اس قصر میں پہنچے جہاںشاہزادی آرام کر رہی تھی۔ زمرد شہزادی کی آرام گاہ کے قریب پہنچ کے دستک دینے ہی کو تھی کہ ایک وحشی و غارت گر تاتاری اس کی صورت دیکھ کے جھپٹ پڑا۔ قریب تھا کہ اور سب حوروںکی طرحوہ بھی گرفتار ہو جاتی۔ مگر حسینسے یہ دیکھ کے رہا نہ گیا؛ اور کوئی ہتھیار تو پاس نہ تھا،وہی اپنا فدائیت کا خنجر لے کے دوڑا۔قریب تھا کہ اس میں اور تاتاری میںلڑائی ہو جائے کہ ناگہاں کمرے کا دروازہ کھلا اور خوبصورت شاہ زادی بلغان خاتون اپنے بکھرے ہوئے لٹکتے بالوںکے ساتھ لباس کے لمبے لمبے دامنوںکو زمین پر لٹاتی ہوئی نکلی اور تاتاری زبان میںچلا کے بولی: " ٹھہرو!"شاہ زادی کی صورت دیکھتے ہی تاتاری دوڑ کے اس کے قدموںپر گر پڑا اور عرضکیا: " ہم حضور کی تلاش میںتھے۔" شاہزادی: تم میرے ساتھ والوںمیںسے ہو؟ تاتاری: نہیں! شاہزادی: (خوش ہوکے )تو بھائی آ گےم ؟ تاتاری: جی ہاں۔ ناگہاںتاتاریوںکا ایک بڑا بھاری غول نظر آیا ،جن کے درمیان میںخود ہلاکو خاں بھی موجود تھا۔شمشیر برہنہ اس کے ہاتھ میںتھی۔ عمامے میںکلغی لگی تھی،جس پر مغلئی نیزے اور تاتاری بیرقیںسایہ کیے ہوئے تھی۔ اس شان سے اس کے شاہی خاندانمیںہونے اور نیز تمام فوج کے سردار ہونے کا پورا پتہ چلتا تھا۔ہلاکوخاںکو آتے دیکھ کے بلغان خاتون کمرے سے نکل کے استقبال کو دوڑی۔ بہن بھائی جوش و خروش سے ملے ، وحشی اور غارت گر جوانوںنے ایک گھڑی کے لیے مہذب بن کے اور مرتب ہوکے اپنی حسین و نازنین شاہ زادی کو سلام کیا اور ہر طرف سے خوشی و مسرت کے نعرے بلند ہونے لگے۔ بلغان خاتون: (ہلاکو خان سے ) بھائی آپ کب آئے ؟ مجھے تو تردد پیدا ہو چلا تھا۔ ھلاکو خان: تم لکھتیں اور میں نہ آتا؟ اس میںشک نہیںکہ اس وقت سلطان دیلم کے تعاقب میں عجلت کرنے کی ضرورت تھی،مگر تمھارا خط دیےھتل ہی مجبور ہونا پڑا۔ میں نے تھوڑی سے فوج اس کے تعاقب میں چھوڑ دی اور باقی لوگوںکو ساتھ لے کے چلا آیا۔ بلغان خاتون: میں روانہ ہونے سے کئی دن پہلے آہ کو اطلاع دے چکی تھی،اسی خیال سے زیادہ فوج اپنے ہمراہ نہیںلائی، لیکن آج صبح سے جوںجوں آُ پ کے پہنچنے میں تاخیر ہوتی تھی،میرا تردد بڑھتا جاتا تھا۔ ہلاکو خاں: میںنے بہت کوشش کی کہ صبح تڑکے پہنچ جاؤںمگر کسی طرحنہ پہنچ سکا۔ خیر اب بھی چنداںدیر نہیںہوئی۔ اس کے بعد بلغان خاتون نے زمرد اور حسین کو ہلاکوخاںکے قدموںپر گرایا اور کہا: " یہی لوگ ہیںجن کی مدد سے میں یہاں تک آ سکی۔" ہلاکو خاں نے دونوں کو اٹھا کے گلے لگایا اور کہا: " اپنی بہن کی طرف سے میںبھی تمھارا شکر گزار ہوں۔" دونوںنے پھر جھک کے اس کے قدم چومے اور کہا:" حضور ہی کی وجہ سے ہم کو اس قید سے نجات ملی،ورنہ زندگی بھر نجات کی امید نہ تھی۔" بلغان خاتون: اور بھائی آپ کے ہمراہ کتنی فوج ہے ؟ ہلاکو خاں: میںپچاس ہزار فوج لے کے چلا تھا،راستے میںوہ چالیس ہزار جوان اور مل گئے جو تمھارے ساتھ آئے تھے۔ اب کل نوے ہزار جانباز تاتاری میرے ہمراہ ہیں،مگر ان میں سے صرف پانچ ہزار آدمی اندر لایا ہوں،اس لیے کہ راستے کی دشواریوں کے باعث اس سے زیادہ فوج کا یہاںلانا غیر ممکن تھا۔ بلغان خاتون: اور باقی ماندہ فوج وہیںنہر کے کنارے ٹھہری ہو گی؟ ہلاکو خاں" نہیں، میںنے کئی منزل پیشتر سے اپنی فوج کے چالیس ہزار آدمی قلعہ التمونت پر بھیج دیے تھے ،جو آج ہی پہنچ گئے ہونگے اور قلعے کے اندر سے ہمارے طبل و قرنا کی آواز سنتے ہی یورش کر دیںگے۔ نہر ویرنجان کے کنارے پہنچ کے جب مجھے معلوم ہوا کہ زیادہ آدمی یہاںتک نہیںپہنچ سکتے تو میںنے طولی خاںکو تمام باقی ماندہ فوج پر سردار مقرر کر کے حکم دے دیا کہ وہ بھی التمونت ہی پر جا کے حملہ کرے۔ اس کے ساتھ 45 ہزار فوج ہے۔مجھے اندیشہ تھا یہ لوگ وقت پر نہ پہنچ سکیں گے مگر اتفاقاً خوش قسمتی سے ایک یہیںکا کوہستانی مل گیا جس نے بتایا کہ التمونت بہت قریب ہے اور زیادہ سے زیادہ پانچ گھنٹے میںیہ پورا لشکر وہاں پہنچ سکتا ہے۔طولی خاںاس شخص کو ساتھ لے کے گیا ہے اور یقین ہے کہ تھوڑی ہی دیر میںوہ بھی قلعے کے پھاٹک پر پہنچ گیا ہو گا۔ خیر اب یہ بتاؤ کہ قلعے کا راستہ کدھر سے ہے ؟ بلغان خاتون: تو بھائی! تھوڑی دیر یہاںٹھہر کے سستا لو،پھر چلنا ، تم ابھی منزل مارے اور تھکے ماندے چلے آتے ہو۔ ہلاکو خاں: (ہنس کے ) ہمارا آرام اسی میںہے کہ جوہر شجاعت دکھانے کو کوئی اچھا میدان جنگ ملے۔جب تک فتح نہ حاصل ہولے اس وقت تک کوئی چیز ہماری تھکن کو نہیںمٹا سکتی۔ ہاںتمھارے تھکنے کا البتہ مجھے لحاظہوتا،مگر تم مجھ سے پہلے ہی یہاںپہنچ چکی تھیںاور اچھی طرح سستا چکی ہو،لہٰذا اب کسی بات کا انتظار کرنے کی ضرورت نہیں۔ حسین: (جوش و خروش سے قدم آگے بڑھا کے ) حضور! بے شک انتظار نہ کرنا چاہیے۔مجھے ان لوگوںنے اتنا بڑا فریب دیا ہے ،اور میرے ہاتھ سے ایسے ایسے گناہ کرائے ہیں کہ جب تک ان میں سے خاصتین شخصوںکی جان نہ لے لوںگا، چین نہ پڑے گا۔ہر وقت میرے دل سے انتقام کی آواز نکلتی ہے اور پریشان ہو جاتا ہوں۔ ہلاکوخاں: (مسکرا کے ) ہاںذرا بیان تو کرو کہ تمھیںکیوںکر فریب دیا گیا تھا؟ شاہی حکم کی تعمیل میں حسین نے اپنی ساری سرگزشت مختصر الفاظ میں بیان کی اور آخر میںآبدیدہ ہوکے کہنے لگا: "افسوس! زمرد کی محبت کے نام سے مجھے اتنے بڑے اور ایسے ایسے فریب دیے گئے ہیں کہ جب تک زندہ ہوںاپنے اوپر لعنت کرتا رہوںگا۔" ہلاکو خاں: (حیرت سے ) عجب! واقعی ان لوگوںنے دنیا پر ریاکاری و مکاری کا عجیب جال ڈال رکھا تھا۔اب اس قلعے کی فتح کے بعد میرا ارادہ ہے کہ ملاحدہ کی نجاست سے ساری دنیا کو پاک کر دوں۔ حسین: اگر ایسا ہوا تو خدا آپ سے بہت خوش ہو گا،اور دنیا ہمیشہ کے لیے آپ کے مبارک اسلحہ کی ممنونِ احسان رہے گی۔ ہلاکوخاں: تو چلو، اب تاخیر میں نقصان ہے۔ہماری فوج جو قلعے کے گرد اتری ہوئی ہے ،متردد و پریشان ہو گی۔ زمرد: یہ کام میرے ذمے ہے۔ حضور! آپ کی اس لونڈی کے سوا کوئی اس راستے سے واقف نہیں ہے۔مگر اپنے ہمراہیوںکو حکم دے دیجیے کہ جب تک محل کے اندر نہ داخل ہولیں، نہایت خموشی سے چلیں۔کہیںپہلے سے خبر ہو گئی تو محل سرا کا پھاٹک بند کر لیا جائے گا اور پھر قلعے سے نکل جانے میں بڑی بڑی دشواریاں پیش آئیںگی۔ زمرد کی ہدایت کی مطابق ہلاکوخاںنے اپنے تمام ساتھیوںکو ساکت و صامت رہنے اور آہستہ آہستہ قدم اٹھانے کا حکم دے دیا۔ وہ پانچ سو تاتاری جو قراقرم سے شاہ زادی کے ہمراہ آئے تھے اور اب اس پانچ ہزار فوج کے بعد وہ بھی جنت کے اندر داخل ہو گے تھے ،یہیں جنت میںچھوڑ دیے گئے تاکہ اسیر شدہ حور و غلمان کی حفاظت کریں۔اورہلاکوخاںالتمونت کے قصر شاہی کی طرف اس شان سے روانہ ہوا کہ آگے آگے سے حسین تھا۔ اسے اب کسی تاتاری جوان سے ایک تلوار مل گئی تھی جسے وہ غضب اور انتقام کے ارادے سے علم کیے ہوئے تھا۔ا س کے پیچھے خود ہلاکو خاںجس کے داہنی جانت بلغان خاتون تھی اور بائیںطرف زمرد اور ان کے پیچھے پانچ ہزار تاتوریوں کا غول تھا جو باوجود اژدحام اور جوش خروش کے نہایت ہی سکوت و متانت کے ساتھ آہستہ آہستہ آگے بڑھتا چلا جاتا تھا۔ نہر ویرنجان کے اس طرف کے تمام چمن اور دل کش قطعات باغ طے کر کے یہ پُر سطوت گروہ سنہرے پل پر پہنچا۔زمرد نے بڑھ کے پل کا قفل کھولا اس لیے کہ اس نے آج صبح کو راستہ روکنے کے لیے اس پل میں قفل ڈال دیا تھا۔ پل کا پھاٹک کھلتے ہی سب لوگ نہر سے اتر کے اُدھر کے پر فضا اور دل کش مرغزار میں داخل ہوئے اور زمرد کے بتانے کے موافق ایک خوش نما اور خوش سواد راستے سے گزر کے بڑے بڑے سایہ دار درختوں کی ایک جھنڈ میںپہنچے۔انھیں درختوںکے گھونگٹ میںرکن الدین خور شاہ کی محل سرا کا خوبصورت چہرہ(دروازہ) چھپا ہوا تھا۔دروازے کی صورت دیکھتے ہی یہ لوگ دوڑ کے اندر گھس پڑے اور قبل اس کے کہ کسی کو خبر ہو،ایک طولانی ڈیوڑھی کو قطع کر کے خوش نما اور نزہت بخش خانہ باغ میں جا پہنچے ،جو اپنی شادابی و دل کشی میں التمونت کی جنت سے کم نہ تھا۔ ان غیر خلل اندازوںکی صورت دیکھتے ہی چند سپاہی جو پہرے پر متعین تھے ،اپنے اسلحہ لے لے کے دوڑے ،مگر جب دیکھا کہ تاتاریوںکا ایک لشکر ہے تو بدحواس بھاگنے لگے دوچار تو مارے گئے اور بقیۃ السیف نے بھاگ کے سارے محل اور قلعے میں ہلچل مچا دی۔قلعے میں مذہبی عید کی رسمیںبجا لائی جا رہی تھیں اور بیرونی اور نیز یہاںکے لوگوںکا ایک بڑا بھاری مجمع تھا۔اگر حواس سے کام لیا جاتا تو ممکن تھا کہ ایک معرکے کی لڑائی ہوتی ،مگر تاتاریوںکی ہیبت ان دنوںساری دینا میںببیٹھی ہوئی تھی۔ ان کے قلعے میں داخل ہو جانے کا نام سنتے ہی سب کے ہاتھ پاؤں پھول گئے۔ خود خور شاہ جو کھڑا خطبہ پڑھ رہا تھا،منبر سے اُتر کے بدحواس بھاگا کہ کسی کونے میںجا چھپے ،مگر جانے نہ پاتا تھا،اس لیے کہ محل کی نازک اندام و پری جمال عورتیں برہنہ سر اور برہنہ پا بھاگ بھاک کے آتی تھیں اور قدم قدم پر اس کے دامن سے لپٹ کے پناہ مانگتی تھیں۔اس وقت تک یہاںاس کی خبر نہ تھی کہ قلعے کے گرد بھی ایک بڑا بھاری اور عظیم الشان تاتاری لشکر محاصرہ کیے ہوئے ہے۔ بادشاہ اور معتقدوںکو بدحواس دیکھ کے تمام سپاہی اور اہل قلعہ،داعی اور فدائی قلعلے کے پھاٹک کھول کے بزدلی اور خوف کی آوازیںبلند کرتے ہوئے باہر نکلے جن کے نکلتے ہی قلعے کے اندر سے مغلئی طبل و قرنا بجے اور تاتاریوںکے باہر والے لشکر نے اپنے قومی باجوںکی آواز سنتے ہی خود اپنا طبل بجا دیا اور فوراً حملہ کر دیا۔ بھاگ کے باہر جانے والے ،تاتاری لشکر کے متلاطم سمندر کو ایک طوفان کی طرح اپنی طرف آتے دیکھ کے نہایت ہی از خود رفتگی کے ساتھ الٹے پھرے ،جن کا طولی خاںکے لشکر نے بڑی پھرتی سے تعاقب کی اور باہر کے مغلئی جان باز ان کو قتل کرتے ہوئے قلعے کے اندر گھس پڑے۔ اب قلعے کے اندر سخت طوفان بپا تھا۔ہر طرف قتل عام کا سماںنظر آ رہا تھا۔بوڑھے ،بچے ،زن و مرد،اہل حرفہ اور سپاہی سب بلا استثنا و امتیاز قتل ہو رہے تھے۔ایک عجب ہنگامہ تھا جس میںتیر اور نیزے ،تلوار اور چھری اور گزر اور تبر کی ہوش ربا آوازوںکے ساتھ تاتاری لٹیروںکی وحشت ناک چیخیں،عورتوںاور بچوںکی آہ و زاری اور رونے پیٹنے کی آوازیںایک ساتھ سنی جاتی تھیں۔ ہلاکو خان اور بلغان خاتون کے ہمراہی خور شاہ کے محل کے ایک ایک کمرے اور دالان میںگھس گھس کے خوف زدہ عورتوںاور مردوں،بوڑھوںاور بچوں کو نکال نکال کے ہنکاتے ہوئی اس بڑے میدان میںلائے جہاںابھی چند منٹ پہلے عید کا جشن ہو رہا تھا اور عیش و مسرت کے پر جوش نعرے بلند تھے۔دوسری طرف سے باہر بھاگنے والوںکو طولی خان کے ہمراہیوںنے نہایت ہی بدحواسی کے ساتھ بھگا بھگا کے اندر کیا۔اور وہ بھی اسی میدان میں آ کے اپنے مظلوم و پریشان دوستوںسے اندھوںکی طرحٹکرانے لگے۔ کسی کو اپنے پرائے کا ہوش نہ تھا۔ہر شخص کے حواس غائب تھے اور جو دوست دشمن میں سے کسی کو پاتا مجنونوں یا ڈوبنے والوںکی طرحاس کے دامن سے لپٹ کے پناہ مانگتا۔یہ دل خراش سین زمرد کے دل پر نہایت ہی اثر کر رہا تھا۔اور ان لوگوںکی بے کسی دیکھ دیکھ کے رو اُٹھتی تھی۔کئی مرتبہ قلعے کی بعضستم زدہ عورتوںکے ساتھ اس کی زبان سے بھی چیخکی آواز نکل گئی۔ زمرد کی پریشانی دیکھ کے بلغان خاتون اس کے قریب آئی اور کہنے لگی: "زمرد! میںنہ جانتی تھی کہ تمھارا دل اس قدر کمزور ہے ،ورنہ تم کو یہاں نہ لاتی۔" زمرد: (روکے ) شاہزادی! یہ سب میرا کیا ہوا ہے۔ ہر خون کا قطرہ جو اس وقت قلعے میں گر رہا ہے اور گرے گا،اس کے گناہ میں میرا نام بھی لکھا جائے گا۔اور ممکن نہیںکہ ا س کے انتقام سے میں بچ سکوں۔ بلغان خاتون: یہ صرف تمھارے دل کا بودا پن ہے ،ورنہ ان لوگوں کا قتل کرنا ہرگز گناہ نہیں۔ ذرا یہ تو خیال کرو کہ اس وقت ہم کیسے کیسے مقدس بزرگوںاور نامور لوگوںکا بدلہ لے رہے ہیں۔جتنے لوگ یہاںمارے جائیںگے ،ان سے زیادہ روحیںاس وقت خوش ہو رہی ہونگی اور ہمارے لیے خدا سے مغفرت کی خواست گار ہونگی۔ زمرد: (ہچکیاںلے لے کے ) جو کچھ ہو،مگر شاہزادی مجھ سے یہ ظلم و جور نہیںدیکھا جاتا۔ بلغان خاتون: جب یہ ظلم و جور دل پر اثر کرے تو ان مظالم کو یاد کر لو جو ان ظالموں کے ہاتھ سے دنیا پر ہوتے رہے۔ تھوڑی ہی دیر میں قلعے کی نصف سے زیاد آبادی قتل ہو گئی۔ لاشیںہر طرف تڑپ رہی تھی۔ ہر طرف پھڑکتی ہوئی آ آ کے ایک مقام پر بہت سی جمع ہو جاتیں، اور ایک دوسری کو اپنے خون میں رنگتیں، اور لپٹ لپٹ کے اچھلتی تھیں؛ مگر قاتلوںکا خیال بھی اس طرف نہ جاتا تھا۔وہ برابر نئے بے سر دھڑوںکو گرا گرا کے انھیں تڑپتی ہوئی لاشوںکے تودوںکی طرف بھیج رہے تھے۔ اب ہلاکوںخاںاسی منبر پر جا کھڑا ہوا تھا جس پر سے خور شاہ خطبے کو ناتمام چھوڑ کے اترا تھا۔ برہنہ و خون آلود تلوار اس کے ہاتھ میں تھی اور اس کی بہن شہزادی بلغان خاتون منبر کے نیچے اس کے قریب ہی کھڑی تھی۔ حسین اگرچہ فوجی آدمی نہ تھا مگر اسے انتقام کا پورا موقعہ ملا تھا اور دل کی آگ ملاحدہ کے قتل کی پیاس کو تیز کر رہی تھی۔ تاتاریوںکی بھیڑ میں گھس گھس کے اوہ ان خاصلوگوںکو ڈھونڈتا پھرتا تھا جنھیںاس نے پہلے سے اپنا شکار تجویز کر لیا تھا۔ ناگہاں ایک شخص دوڑ کے اس کے دامن سے لپٹ گیا اور اس کے منہ سے آواز نکلی: " حسین، مجھے بچا! میںجانتا ہوں کہ تو شجر معرفت کی ایک شاخ ہے۔" حسین سمجھ گیا کہ کاظم جنونی ہے۔دل میں آئی کی ایک ہی وار میں اس کا سر اڑا دے مگر خود ہی سوچا کہ اس سے طور معنی اور علی وجودی کا پتہ لگ جائے گا۔یہ خیال آتے ہی اس نے ذرا دوستی کی شان سے کاظم جنونی کے کان کی طرف جھک کے پوچھا: "اور طور معنی کہاںہیں؟" کاظم جنونی نے یہ سنتے ہی سر اٹھا کے ادھر ادھر دیکھا اور شکستہ حال بڈھے کی طرف جو کئی آدمیوں کے درمیان زمیں پر ننگے سر بیٹھا تھا،اشارہ کیا،اور پھر زمیں پر گر کے کہنے لگا: " اے شجر معرفت! مجھے پناہ دے !" حسین نے غضب آلود تیوروںسے اس کی اس ذلیل خوشامد کو دیکھا ور یہ کہہ کے کہ :"تجھ سے ذلیل فریبی کے لیے پناہ نہیںہے " ا س کا سر اڑا دیا۔ کاظم جنونی کو تڑپتا چھوڑ کے وہ اس بڈھے کی طرف گیا اور دیر میں پہچان سکا کہ طور معنی وہی ہے۔حسین نے اس مجمع کے اندر ہاتھ ڈال کے اسے باہر کھینچا اور کہا: " آج تو میںنے وہ ستر ہزار حجاب خود ہی چاک کر ڈالے اور نور سینا کو بے حجاب دیکھ رہا ہوں۔"یہ جملہ سنتے ہی طور معنی نے حیرت و استعجاب سے حسین کی طرف دیکھا اور کہا:" اے نوجوان! تو کون ہے کہ رمز حقیقت سے آگاہ معلوم ہوتا ہے ؟" حسین: ہاںخوب آگاہ ہوں، مگر اپ نے شاید مجھے نہیںپہچانا؟ طور معنی: نہیں،بالکل نہیں۔ یہ جواب سنتے ہی حسین نے غصے میں آ کے ا س کے منہ پر تھوک دیا اور کہا:" یا تو وہ کشف تھا کہ بغیر اس کے کہ میری صورت دیکھے اور میری آواز سنے تو نے کہا تھا: " اے نوجوان آملی مرحبا!" یا آج مجھے دیکھ کے بھی نہیں پہچان سکتا؟ تیری سب سازشیںکھل گئیں اور معلوم ہو گیا کہ تو کتنا بڑا مکار و بدمعاش ہے۔" اس جواب پر طور معنی جھک کے حسین کے قدم چومنے لگا اور رقت و بدحواسی کی آواز میں بولا: " رحم اے جوان آملی رحم!" حسین: ہرگز نہیں! تو ایک فتنہ ہے جس سے دنیا کو جہاںتک جلد ہو سکے خالی کرنا چاہیے۔" یہ کہہ کے حسین طور معنی کے سینے پر چڑھ بیٹھا؛ تلوار زمیں پر ڈال دی اور کمر سے خنجر نکال کے بولا:"یہی وہ فدائیت کا خنجر ہے جو میری کمر میںبندھوایا گیا تھا۔ اسی سے میں نے امام نصر بن احمد کے سے نیک بزرگ کی جان لی تھی اور اسی سے آج تیرا سینہ چاک کرتا ہوں۔" طور معنی کچھ کہنے کو تھا کہ حسین کا خنجر ا س کے سینے کے اندر تیر گیا۔ ایک ہی وار میں ایڑیاں رگڑ کے اس نے ایک آہ کے ساتھ جان دی اور حسین اپنی تلوار لے کے کھڑا نہیںہونے پایا تھا کہ دیکھا کسی قدر فاصلے پر ہلاکوخاںکے قریب ہی ایک تاتاری شخص کسی ضعیف العمر بڈھے کو اسی کے عمامے سے باندھ کے کھینچ رہا ہے۔حسین نے دور سے دیکھتے ہی پہچان لیا کہ علی وجودی ہے ؛ بے اختیار دوڑا ہوا گیا اور پگڑی کو درمیان میں پکڑکے چلایا: "یہ میرا مجرم ہے۔" تاتاری: کیوں؟گرفتار میںنے کیا اور مجرم تمھارا ہو گیا؟ حسین: ہاں،اس لیے کہ میرا قدیمی مجرم ہے۔" اس جملے کے ساتھ ہی ہلاکوخاںنے بھی اس تاتاری کو اشارہ کیا کہ اس قیدی کو حسین ہی کے سپرد کر دے۔حسین علی وجودی کو اسی طرح اس کے عمامے سے کھینچتا ہوا ایک طرف لے گیا اور جب دیکھا کہ لوگوںکے ہجوم سے باہر نکل آیا ہے تو عمامے کو جھٹکا دے کے پوچھا :"مجھے پہچانا؟" علی وجودی کچھ ایسی مایوسی و از خود رفتگی کی حالت میں تھا کہ اس وقت تک اس نے دیکھا بھی نہ تھا کہ ا س کے سر پر کیا گزر رہی ہے اور کس کے ہاتھ میںگرفتا ہے۔حسین کی آواز سن کے اس نے سر اُٹھایا اور پہچانتے ہی ایک دفعہ چلا اٹھا: "آہا حسین! مجھے تیری جستجو تھی۔جب قلعہ التمونت سے تیرے نکالے جانے کی خبر معلوم ہوئی تو مجھے بہت صدمہ ہوا۔افسوس! اگر تو میرے پاس چلا آتا تو اس طرحناکام نہ رہتا۔" دراصل علی وجودی یہ نہیںسمجھتا تھا کہ حسین اب اس کے عقائد کے خلاف ہے۔اسے خیال گزرا کہ یہ اب تک میرا معتقد ہے اور اسی وجہ سے مجھے تاتاریوںکے ہاتھ سے چھڑا کے یہاں لایا ہے۔ حسین: (عقیدت کی شان سے عمامے کا سرا چھوڑ کے ) مگر آپ تو غیب کی باتیںمعلوم کر لیا کرتے ہیں۔آپ نے اپنی سیر لاہوتی میں بے شک دریافت کر لیا ہو گا کہ میںکن پہاڑوںاور گھاٹیوںمیں سر ٹکراتا پھرتا تھا؟" یہ سن کے علی وجودی نے حسین کو بدگمانی کی نظر سے دیکھا اور کہا:"وہ سیر لاہوتی اسی وقت ہوتی ہے جب آدمی توجہ قلبی سے کام لے۔ دراصل میںنے تیرا حال دریافت کرنے کی طرف کبھی توجہ ہی نہیںکی تھی۔" حسین: مگر یہ امید نہ تھی کہ مجھ سے عقیدت کیش کو آپ بالکل چھوڑ دیںگے۔ علی وجودی: اور حسین یہ فتنہ کیوںکر بپا ہوا؟ یقین ہے تجھے معلوم ہو گا،اس لیے کہ تیرے کہنے سے تاتاریوںنے میری جان چھوڑ دی؟ حسین:آپ کو پوچھنے کی کیا ضرورت ہے ؟آپ کو ہر امر ایک ادنیٰ توجہ قلبی سے معلوم ہو جاتا ہے۔ علی وجودی: اتنا جاننے پر بھی تو عالم ارواحکے رموز سے نا آشنا ہے ؟ جن لوگوںکو ان رموزمیںکمال حاصل ہوتا ہے انھیںکو کبھی اپنی خبر بھی نہیں رہتی۔سنا نہیںکہ: گہے بر طارم اعلیٰ نشینم گہے بر پشت پائے خودنہ بینم حسین: رکن الدین خور شاہ نے مجھے جنت میںبھیجنے سے ان کار کیا،اپنے قلعے سے نکلوا دیا،جس کے بعد مجھے مایوسی تھی اور عجب بے کسی کی حالت میںتھا۔ا فسوس!اس وقت آپ نے بھی خبر نہ لی۔مگر معاملہ دگرگوں ہونے والا تھا۔تقدیر نے مجھے ایک اور شخص سے ملایا اور اب اس کی برکت و رہبری سے میں جنت میں پہنچا اور زمرد کی ہم کناری نصیب ہوئی۔افسوس! کہ اب میں آپ کے مریدوں سے نکل گیا اور اس کے مریدوںاور معتقدوںمیںشامل ہوں۔ علی وجودی: وہ کون شخصہے ؟ حسین: تاتاریوںکا سردار ہلاکوخاں۔اور اس کے شرائط بہت سخت ہیں۔ علی وجودی نے یہ سنتے ہی سر سے پاؤں تک کانپ کے حسین کی صوت دیکھی اور پوچھا: "وہ شرائط کیا ہیں؟" حسین: وہ یہ کہ آپ اور آپ کے سے جتنے مکار اور سیہ کار ملاحدہ ملیں، ان کا سر تن سے اُڑا دوں۔ علی وجودی: (سہم کے ) اور ایسے ظالمانہ احکام بجا لانے میںتامل نہیں؟ حسین: بالکل نہیں! اس کا سبق تو آپ ہی سے مل چکا ہے کہ مرید کو مرشد کے ہاتھ میں ایک بے جان آلے کی طرحرہنا چاہیے۔ ہر ظاہر کا ایک باطن ہے۔ اور اس کا باطن میرے مرشد کے نزدیک بہت ہی اچھا اور خدا کی درگاہ میںمقبول ہے۔ علی وجودی نے شرما کے اور لاجواب ہوکے سر جھکا لیا اور کہا: " مگر جو کچھ ہو تمھیںرحم سے کام لینا چاہیے۔ ظلم خدا کو نہیں پسند ہو سکتا۔" اس جواب پر حسین کو بہت غصہ آیا مگر اس نے ضبط کر کے اپنے تئیں روکا اور کہا : " بے شک خدا کو ظلم نہیںپسند ہے ،اور اسی وجہ سے امام نجم الدین نیشا پوری کی روح آج تک پکار پکار کے کہہ رہی ہے کہ میرا خون علی وجودی کے گردن پر ہے۔ یہ سنتے ہی علی وجودی سر سے پاؤںتک کانپنے لگا،اور تھوڑی دیر کے بعد جب اس کے دل کو ذرا سکون ہولیا تو بولا: "مگر مجھ کو تمھارے ساتھ ایسے تعلقات رہ چکے ہیںکہ مجھے تم سے کسی بے رحمی کی امید نہیں۔" حسین:امام نجم الدین نیشا پوری سے زیادہ مجھے آپ سے تعلق نہیںرہا ہے ؛ وہ میرے چچا تھے ،استاد تھے اور مرشد تھے۔ اب علی وجودی کو خوف نے اس کے اختیار سے باہر کر دیا تھا؛ وہ ایک دفعہ روتا ہوا حسین کے قدموںپر گرا اور چلایا: "رحم رحم!" حسین: ہرگز نہیں! ہزار ہا پاک اور مقدس روحیںفریاد کر رہی ہیںجو یقیناً اب تمھاری نظر کے سامنے ہوںگی اور تمھیںچاروں طرف سے دھمکا رہی ہونگی۔ اور بے شک علی وجودی کی اس وقت یہی حالت تھی۔ وہ بار بار چاروںطرف گھبرا گھبرا کے دیکھتا تھا اور ہر طرف اسے کسی اپنے ہی مظلوم کی تصویر چھریوںاور خنجروںسے دھمکاتی نظر آتی تھی۔ عین اسی حالت میںجب کہ اُسے چاروں طرف چھریاںہی چھریاں نظر آ رہی تھیں،حسین نے اپنا وہ خنجر کمر سے نکالا اور اس کی آنکھوںکے سامنے کر کے کہا: "یہی وہ خنجر ہے جو مجھے تم سے ملا تھا اور جو امام نجم الدین نیشا پوری اور امام نصر بن احمد کے سینوںمیںخاصتمھارے حکم اور میرے ہاتھ سے تیر چکا ہے۔یہ خنجر آج تک باقی ہے اور صرف اسی لیے کہ تمھارے سینے میں خاصمیرے ہاتھ سے اُتر جائے۔اسے اچھی طرحپہچان لو اور تیار ہو جاؤ کہ انتقام کا وقت آ گیا۔ یہ کلمات سن کے علی وجودی پھر کانپ گیا اور رو رو کے کہنے لگا: "مجھے نہ مارو، اب میںکبھی اس مذہب باطنیہ کی طرف داری نہ کروںگا۔" حسین: مگر تمھارا یہ عہد میرے دامن سے وہ خون کے دھبے نہیںچھڑا سکتا جو تمھاری سیہ کاریوںسے لگے ہیں۔یہ کہہ کے حسین نے علی وجودی کو زمیں پر گرا دیا اور اس کے سینے پر چڑھ کے پھر اس کا خنجر اس کی آنکھوںکے سامنے پیش کیا اور کہا: "دیکھ لو اور خوب پہچان لو کہ یہ وہی تمھارا خنجر ہے۔" درحقیقت علی وجودی کی موت بہت بری موت تھی۔اس وقت تمام گناہ طرحطرح کی بھیانک صورتوںکا جامہ پہن کے اس کی آنکھوں کے سامنے کھڑے تھے۔ وہ ہزار ہا مظلوم روحوںکو دیکھ رہا تھا جو خنجر دکھا دکھا کے اسے ڈرا اور دھمکا رہی تھیں۔اس نے ان تمام چیزوںسے گھبرا کے آنکھیں بند کر لیںاور حسین کو کہا:‘ خدا کے لےم مجھے چھوڑ دے اور میری بے کسی پر ترس کھا!" حسین: نہیں! جس کے دل میںخود ہی خدا کا خوف اور ترس نہیں،اس پر ترس آنا گناہ ہے۔ علی وجودی: تو کمبخت کہیں جلدی کام تمام کر؛ ان بلاؤں سے پیچھا چھُوٹے جو مجھے گھیرے ہوئے ہیں۔ حسین: میںفقط اتنے ہی کے لیے تامل کر ہا ہوںکہ تجھے موت کی نازک اور پر خطر گھڑی کا اچھی طرحمزا مل لے تو تیرا کام تمام کروں۔ اب علی وجودی بہت بے تاب تھا۔ حسین کے نیچے دبا ہوا تھا اور حسین اس کا دیا ہوا خنجر ا س کی آنکھوںکے سامنے پیش کر رہا تھا،جس کی ڈراؤنی صورت سے ڈر ڈر کے وہ اپنا منہ ادھر اُدھر ہٹا لیتا تھا اور کہتا تھا: " خدا کے لیے اس چیز کو میری نظروںکے سامنے سے دور کرو۔" آخر بڑی دیر کے بعد جب حسین نے دیکھا کہ اب بہت دیر ہو گئی اور قریب قریب قلعے کی ساری رعایا قتل ہو گئی تو اس نے بھی خنجر بھونک بھونک کے اور آزار دے دے کر علی وجودی کا کام تمام کیا۔اپنے سب سے بڑے بہکانے والے سے یوںانتقام لے کے وہ پھر ہلاکو خاںکے قریب گیا۔ اب تاتاریوںکے قتل کرنے کے لیے کوئی شخصنہ ملتا تھا۔اتنے بڑ قتل عام کے بعد ان کی آنکھوںمیںخون اتر آیا تھا اور وہ مجنونوں، کتوں یا وحشی درندوں کی طرحادھر اُدھر دوڑتے پھرتے تھے کہ کوئی ملے تو اس کو قتل کر کے دل کا بخار نکالیں۔ سوائے چند خاصکم سن اور حسین عورتوںکے جو لونڈیاںبنانے کے لیے بچا لی گئی تھیں قلعہ التمونت میںکوئی شخصباقی نہیںرہا تھا۔ اب خود فرماںروائے التمونت رکن الدین خور شاہ کی جستجو تھی۔ لوگ دیر سے ڈھونڈھ رہے تھے اور کہیںپتا نہ لگتا تھا۔ آخر ایک تاتاری کسی تہ خانے میںگھس کے اسے پکڑ لایا۔جیسے ہی وہ ہلاکو خاںکے سامنے پیش ہوا اور تاتاری سالار فوج کے آگے سر جھکا کے کھڑا ہوا،حسین نے جھپٹ کے ارادہ کیا کہ اپنے خنجر سے اس کا کام بھی تمام کر دے ،مگر ہلاکو خاں نے چلا کے روکا اور کئی مغلوںنے بڑھ کے اس کا ہاتھ پکڑ لیا۔ ہلاکو خاں: یہ یہاں کا بادشاہ ہے اور بے کسی کی صورت بنا کے پناہ مانگتا ہوا ایا ہے ،لہٰذا اسے کی جان بخشی کرنی چاہیے۔ حسین: حضور! اگر یہ بچ رہا تو دنیا میںبہت بڑا فتنہ رہ جائے گا۔یہ ساری سازشیں اور تمام خرابیاںاسی کی ذات سے تھیں۔ ہلاکو خاں: اب وہ سازش کرنے والے ہی نہیںرہے تو یہ کیا کر لے گا۔سب کیاد اور فریبی خاک و خون میںلوٹ رہے ہیں۔ یہ ایک نا تجربہ کار نوجوان دنیا کو ضرر نہیںپہنچا سکتا۔ حسین: ایسا نہیں ہے کہ کوئی معتقد نہ رہا ہو؛ مصر و شام سے لے کے سندھ تک اس کے معتقد ہر جگہ پھیلے ہوئی ہیں۔ ہلاکو خاں: میں ان مقامات میں بھی جاؤںگا اور اس کے معتقدین سے دنیا کوخالی کر دوںگا۔ مگر اس کے لیے یہی سزا کافی ہے کہ جلا وطن کر دیا جائے۔ اس کے بعد اس نے خور شاہ کی طرف دیکھ کے کہا: " بے شک تمھارا فتنہ بہت بڑا تھا،مگر اس بے کسانہ خموشی پر ترس کھا کے تمھاری جان بچائی جاتی ہے ،مگر اس کے ساتھ حکم دیا جاتا ہے کہ ترکستان میں، جہاںتم کو کوئی مرید و معتقد نہ مل سکے گا،جا کے اپنی زندگی کے باقی ماندہ دن بسر کرو، یہ جتنی عورتیںیہاںہیں، ان میںسے کوئی تمھیںنہ دی جائے گی۔ممکن ہے اس کے ذریعے سے پھر تمھارا فساد دنیا کو فریب دینے لگے۔ ترکستان میںجا کے تم کو اختیار ہے کہ چاہنا تو کسی تاتاری لڑکی سے عقد کر لینا۔ اس حکم کے ساتھ ہی ایک مغلئی دستے نے اسے اپنی حراست میںلے لیا۔جس نے التمونت کے آخری تاجدار کو بحر حزر کے اس پار ترکستان کے کسی گم نام گاؤں میںپہنچا دیا۔ اور یہاںجب قلعہ آدمیوںسے خالی ہو گیا تو تاتاری لٹیرے دولت لوٹنے ،محلوںکو کھودنے اور آگ لگانے میںمشغول ہو گےد۔محل اور جنت میںہر جگہ آگ لگا دی گئی۔ وہ قصر اور کوشکیںکھود کھود کے زمین کے برابر کر دی گئیں اور باغ اور محل جو جنت بنے ہوئی تھے اور جنت ہی سمجھے جاتے تھے ،محض مٹی اور اینٹوںکے ڈھیر رہ گئے اور تاتاریوںنے انھیں آناً فاناً ایسا کر دیا کہ نہ کوئی رہنے والا تھا اور نہ کوئی رونے والا۔ حسین اپنے دل کی آگ بجھا کے اور انتقام لے کے جب زمرد کے قریب گیا تو وہ نہایت ہی پریشان اور بدحواس تھی۔ وفا کیش معشوقہ کو اس قدر پریشان دیکھ کے اُس نے پوچھا: "زمرد! اب پریشانی کس بات کی؟‘ زمرد: (رونی آواز میں) اتنا قتل عام، ایس خون ریزی ہو چکی اور پوچھتے ہو پریشانی کس بات کی؟ حسین: ان ظالموں کی تباہی اپر خوش ہونا چاہیے یا غمگین؟ زمرد: تم خوش ہولو،جس کا دل خدا نے پتھر کا بنایا ہے۔ایسا وحشت ناک سماںدیکھنا کیا معنی،کبھی میر ے خیال میںبھی نہ گزرا تھا۔میں ایسی حالتوں کے دیکھنے کی عادی نہیں۔ حسین: خیر اب بتاؤ کی ارادہ ہے ؟ شاہزادی بلغان خاتون قریب کھڑی تھی، یہ جملہ سنتے ہی پاس آئی اور بولی: " ارادہ کیا! اب تم دونوںمیرے ساتھ چلو۔زمرد کو اپنی بہن سے زیادہ عزیز رکھوںگی اور تم کو بھی کسی بات کی تکلیف نہ ہو گی۔" زمرد: نہیںشاہزادی! ہم دونوںنے بڑے بڑے گناہ کیے ہیں۔حج کا ارادہ کر کے گھر سے نکلے تھے ،تقدیر نے ان مصیبتوں میں مبتلا کر دیا۔ اب ہمارا فرضہے کہ پہلے حج کر لیںتو پھر اور کوئی کام کریں۔ اگر زندگی باقی ہے تو یہ فرضدا کر کے ہم دونوںوہیںقراقرم میںآپ کی خدمت میںحاضر ہو جائیںگے۔ میںجب تک وہاںخاص خانۂ خدا میں اپنے لیے دعائے مغفرت نہ کروںگی ،اس وقت تک یہ ندامت نہ مٹے گی جو ہر وقت دل میںموجود رہتی ہے اور کوئی وقت نہیں گزرتا کہ نہ ستاتی ہو۔ حسین: بے شک زمرد کا کہنا ٹھیک ہے۔میرا دل ہمیشہ مجھ پر لعنت کیا کرتا ہے ؛ شاید وہاں جا کے اور اس مقدس مقام میںدعا کر کے یہ بات دور ہو جائے۔ بلغان خاتون: کیوںکر کہوں، دل تو نہیںچاہتا کہ تم کو جدا کروں۔مگر اب تم کو اصرار ہے اور مکے جانے کو اپنا فرض سمجھتے ہو تو مجھے روکنا بے فائدہ معلوم ہوتا ہے۔لیکن میری ایک بات مان لو۔ زمرد: جو حکم ہو آپ کا ہر حکم بجا لانا ہمارا فرضہے۔ بلغان خاتون: تم دونوںباہم عقد کرنے کی غرضسے گھر سے نکلے تھے ؛ میںچاہتی ہوں کہ جدا ہونے سے پہلے تم دونوںکا عقد کر دوں تاکہ وطن واپس جانے کے قبل ہی مجھے معلوم ہو جائے کہ تم دونوںمیں باہمی اتفاق کی صورت پیدا ہو گئی ہے اور یہ بات یاد کر کے میںاپنا دل خوش کر لیا کروںکہ تمھاری آرزوئیں میرے ہی ہاتھ سے پوری ہوئیں۔ یہ ایسی درخواست نہ تھی جس سے کسی کو ان کار ہوتا،حسین نے تو صاف الفاظ میں رضامندی ظاہر کر دی،مگر زمرد مسکرائی اور ایک شرم کی آواز میںسر جھاا کے بولی: " اب میں آپ کی لونڈی ہوںاور جو حکم ہو اس سے ان کار نہیں کر سکتی۔" دوسرے دن علی الصباحہلاکو خاںنے فتحکی خوشی میںاور مال غنیمت تقسیم کرنے کے لیے بڑا بھاری جشن کیا،جس کے لیے فوج کے معزز افسروںکی ایک محفل مرتب کی گئی۔گزشتہ فتحپر بڑے جوش و خروش سے اظہار مسرت کیا گیا،اور اسی کامیاب و ظفر کی یادگار میں بلغان خاتون کی درخواست اور ہلاکو خاں کے حکم سے شیخنصیر الدین طوسی سے محقق زمانہ اور علامۂ روزگار نے ، جن کی تاتاریوں میں بڑی عزت،قدر و منزلت تھی اور جو اس موقع پر موجود تھے ،حسین اور زمرد کا نکاح پڑھایا۔ اس کاروائی کے بعد سب آپس میںرخصت ہوئے۔بلغان خاتون نے اپنے ہمراہیوں کے ساتھ قراقرم کا راستہ لیا۔ ہلاکو خاںاپنی فوج ظفر موج کے ساتھ آذر بائیجان کی طرف کوچ کر گیا۔حسین اور زمرد پھر اسی شان سے جس طرح پہلے گھر سے نکلے تھے ،ارض حجاز کی طرف روانہ ہوئے۔اور التمونت کے کھنڈروں اور ان کی تمام لاشوںپر صرف گدھوں اور مردار خوار طیور کے بڑے بڑے غول چھوڑ گئے۔ زمرد اورحسین نے مکہ معظمہ پہنچ کر اور غلاف کعبہ پکڑ کے نہایت ہی رقت قلب اور جوش دل سے مغفرت کی دعا مانگی کہ : " یا بار الٰہا! ہمیں تمام گناہوںسے نجات دے ! اگرچہ ہم نے تیری نافرمانیاںکیں،تیرے مقبول بے گناہ بندوں کی جانیںلیں،مگر ایک بڑے فریب میں مبتلا تھے۔شیطان کا ہم پر اس قدر تصرف تھا کہ گناہوںکی برائیاںنظر میں نہ آتی تھیں۔ہم نے گناہ کیے مگر ثواب سمجھ کے ،ہمارے قدم کو لغزشیںہوئیںمگر ایک بڑے فریب میںمبتلا ہوکے۔تو عالم الغیب ہے ،دلوںکی باتیںجانتا ہے ؛ ہماری بے کسی و بے بسی کو دیکھ اور ان سخت گناہوں سے درگزر!" اس طرحگناہوںکا دل سے زنگ مٹا کے واپس روانہ ہوئے۔چند روز اپنے وطن شہر آمل میںرہے اور باقی زندگی قراقرم میںجا کے شہزادی بلغان خاتون کی صحبت میںصرف کر دی۔ تمت بالخیر۔
حواشی
1- منقو کو چغتائی خان کا بیٹا کہا گیا ہے۔منکو قا ان یا منگو،چنگیز خان کے چھوٹے بیٹے تولی خان کا فرزند ہے۔اور اوکتائی یا اغتائی یا اغدائی خلف چنگیز خان کے بعد خاقان بنا۔روضۃ الصفا جلد پنجم مطبوعہ نول کشور طبع چہارم 1905 ع میںمنکو قا ان نام ملتا ہے اور یہ تولی (یا تولوئی) ابن چنگیز کا (جو چنگیز خان کا چھوٹا بیٹا تھا) بیٹا ہے۔کیوک خاںخلف اغتائی خان کے بعد جانشین مملکت چنگیز خان ہوا۔شرر کا یہ کہنا کہ منقو (منکو یا منگو )چغتائی کا بیٹا ہے ،درست نہیں۔
2۔تولی خان چنگیز خان کا چھوٹا بیٹا ہے اور منگو خان کا باپ ہے شرر کو تسامح ہوا ہے۔ مزید تفصیلات کے لیے :: روضۃ الصفا جلد پنجم مطبع نول کشور ص 41 تا 75۔ تاریخ اسلام جلد اول (عمدۃ الکلام فی تاریخ اساطین الاسلام)ص 105 از ذاکر حسین جعفر،مطبوعہ جے ،اینڈ سنز پرنٹنگ ورکس دہلی 1918ع۔ چنگیز خان از ہیرلڈ لیم مترجم عزیز احمد ناشر مکتبہ جدید ص 215 تا 219 تاتاریوں کی یلغار،ناشر غلام علی اینڈ سنز ص 88 تا