فردوس بریں/بلغان خاتون کا سفر
جس روز حسین نے اپنی مینو نشین معشوقہ زمرد کا خط بلغان خاتون کو پہنچایا ہے ، اس کے ایک ہفتے کے بعد صبحکے وقت وہ تاتاری شہزادی اپنے بھائی منقو خاں کے پاس گئی۔ منقوخاںکے پاس اس وقت خاندانِ تاتاری کے کئی معزز رؤسا موجود تھے ،جن کے سامنے کچھ کہتے ہوئی وہ جھجھکی اور دیر تک خاموش بیٹھی رہی۔اس کو چپ دیکھ کے منقو خاںنے کہا: " بہن!یہ غیر معمولی سکوت کیسا؟" ایک درباری: شاہزادی اپنے والد کے غم کو ابھی تک نہیںبھولیں۔ منقو خاں: ہاںبلغان!اب تو اس غم کو چھوڑ دو۔ اتنے دنوںتک غم و الم میںمبتلا رہنا ہماری قومی شجاعت کے خلاف ہے۔ بلغان خاتون: آہ بھائی یہ غم بھول سکتا ہے ؟ ( تھوڑے سکوت کے بعد) خیر،اب یہ باتیںتو ہوتی ہی رہیںگی،اس وقت میںایک ضروری کام کو آئی ہوں۔ منقو خاں: وہ کیا؟ بلغان خاتون: بھائی! آپ نے تو بہت سی مہمیں سر کی ہیں،مگر اب ارادہ ہے کہ ایک مہم کو میںخاصاپنے ہاتھ سے انجام دوں۔ اس جملے کے سنتے ہی سب لوگ حیرت میں آ گئے اور منقو خاںنے اُسے گھور کے دیکھا ور پوچھا :" بہن خیر!تو ہے ؟کیسی مہم؟ کیا میرے اسلحے نے جواب دے دیا؟فقط تمھارے کہہ دینے کی ضرورت ہے ؛ جس ملک یا قوم کو کہو، تم تو تم ہو،میرے جانے کی بھی ضرورت نہیں۔ہمارے بہادر سپاہی جائیں گے اور ایک آن میںتہ و بالا کر دیں گے۔" بلغان خاتون: یہ صحیح ہے ،مگر میںچاہتی ہوںکہ اس کام کو خاص اپنے ہاتھ سے انجام دوں۔ منقو خاں:آخر کون سا کام ہے ؟ اور کس ملک پر فوج کشی کا ارادہ ہے ؟ اس کے جواب میںبلغان خاتون نے زمرد کا خط اس کے سامنے رکھ دیا اور کہا: "پہلے اسے پڑھ لیجیے ،پھر پوچھیے گا۔" منقو خاں نے خط کو اول سے آخر تک پڑھا،لیکن ختم کرنے سے پہلے ہی اس کی آنکھوںسے شعلے نکلنے لگے۔اس نے غضب آلود چشم و ابرو اور خم شدہ ہونٹوںسے خط کو تمام کر کے غصے سے پھینک دیا اور کہا: " بہتر بہن! تم مطمئن رہو؛ میںکل ہی ہلاکو خاںکو لکھتا ہوں۔" بلغان خاتون: نہیں، یہ میرا کام ہے اور میرے ہی ہاتھ سے پورا ہو گا۔ منقو خاں: تم جا کے کیا کرو گی؟ جنگ و پیکار تمھارا کام نہیں۔ بلغانخاتون:اسی خیال کو دنیا سے مٹا کے میںثابت کرنا چاہتی ہوں کہ عورتیں بھی ویسی ہی بہادر ہیںجیسے مرد۔اگر موقع دیا جائے تو وہ بھی کسی معاملے میںمردوںسے کم نہ رہیںگی۔اور ابھی تو یہ بھی معلوم نہیںکہ وہاںلڑائی کی بھی ضرورت ہو گی یا نہیں۔ منقو خاں: بے شک ہو گی؛ بغیر اس کے کامیابی ممکن نہی۔ باقی رہی عورتوںکی شجاعت،میںتسلیم کرتا ہوںکہ عورتوںکی حکومت مردوںسے بڑھی ہوئی ہے۔بڑے بڑے تاج دار اور بڑے صف شکن جو عالم کے تخت الٹ دیتے ہیں اور ساری دنیا کے بہادروںکے دست و بازو کو تھکا دیتے ہیں، ان پر بھی جو حکومت کرتی ہے وہ عورت ہے۔مگر عورت کے اسلحہ دوسرے ہیں۔۔وہ تیر اور خدنگ،شمشیر و خنجر سے نہیںلڑتی،بلکہ اپنے حریفوںپر تیرِ نظر،خدنگِ ناز،شمشیر ابرو اور خنجر مژگاںسے فتحیاب ہوتی ہے۔ لیکن عورت کے یہ اسلحے میدانوں میںکارگر نہیں ہو سکتے جس میدان میں تم جانا چاہتی ہو۔ ایسے میدانوںکی فتح مردوںہی کے اسلحے کے نام پر ہے۔ بلغان خاتون نے اس جواب پر شرمندہ ہو کے سر جھکا لیا، مگر نیچی نظروںہی میںاس نے پھر متانت پیدا کی اور کہا: " بھائی! ایسا نہ سمجھیے۔ میں اسی طرحبہادری اور جاںبازی سے مقابلہ کروںگی جس طرح کسی بہادر تاتاری لڑکی کو لڑنا چاہیے۔" منقوخاں: یہ میںجانتا ہوں، مگر جس وقت تک ہم لوگ زندہ موجود ہیںتم سی نازنین کو میدان جنگ میں قدم رکھنے کی زحمت نیںس دی جا سکتی۔اور آخر تمھارے جانے کی ضرورت ہی کیا ہے ؟ بلغان خاتون: صرف یہ میرا کام ہے اور اپنے فرض سے میں آپ ہی سبکدوش ہونا چاہتی ہوں۔ منقو خاں:خیر ایسا ہی شوق ہے تو چلو، مگر میںبھی ساتھ چلوںگا، یہ مجھے نہیںگوارا ہو سکتا کہ خاندان مغلیہ کی ایک معزز شاہزادی اپنے نامور عزیزوںکے ہوتے ہوئی تن تنہا میدان کارزار میںقدم رکھے۔ بلغان خاتون:مگر بھائی، وہاںکسی بڑی لڑائی کی امید ہی نہیں؛ ہمارے چند سپاہی بھی ہوںگے تو کامیاب ہو جائیںگے۔ منقوخاں: یہ نہ سمجھو۔جو لوگ سردار کے ادنیٰ اشارے پر جان دینے کو تیار ہو جائیں اُن سے ڈرنا چاہیے۔ بلغان خاتون: مگر تاتاریوںکا رعب آج کل دلوںپر اس قدر بیٹھا ہوا ہے کہ میںتو یہ سمجھتی ہوںوہ لوگ بے لڑے بھڑے ہتھیار رکھ دیںگے۔ منقو خاں: بے شک ہمارا ایسا ہی رعب ہے ،مگر پھر بھی ایک قدیم اور ڈیڑھ سو برس کے شاہی و مذہبی خاندان کو جڑ سے اکھاڑ کے پھینک دینا آسان نہیں۔ منقو خاںآخر تک اصرار کرتا رہا مگر شہزادی بلغان خاتون نے اس کی شرکت کسی طرح گوارا نہ کی۔ جب دیکھا کہ تاجدار بھائی کسی طرح منظوری نہیں دیتا تو جھک کے اس کے کان میں کچھ کہا جسے سن کے تھوری دیر تک غور کرتا رہا،اور آخر بڑی دیر کی حجت و تکرار کے بعد قرار پایا کہ اُولو العزم شاہزادی پانچ سو سوار ساتھ لے کو روانہ ہو جائے۔ بلغان خاتون واپسی کے لیے اٹھتے اٹھتے ٹھہر گئی اور خط کو دوبارہ بھائی کے سامنے پیش کر کے بولی: " مگر ذرا دیکھ کے یہ بھی بتلا دیجیے کہ مجھے کب یہاں سے روانہ ہو جانا چاہیے ؟زمرد نے کس تاریخکو بلایا ہے ؟" منقو خاں: ( خط پڑھ کے ) رمضان کی 27 تاریخ۔ بلغانخاتون: خدا جانے اس تاریخ کے معین کرے سے کیا غرضہے ،تو پھر مجھے کوچ کر دینا چاہیے ؟ منقوخاں: اس میں بھی کوئی بات ضرور ہے اور میری سمجھ میں تو یہ بھی نہیں آتا کہ اس گھاٹی میں پہنچنے کے بعد تمھیںکیا پیش آئے گا۔ممکن ہے اس عورت نے جو اپنے آپ کو حور بتاتی ہے فریب کیا ہو۔ بلغان خاتون: اس کی تحریر اور اس کے اس بے تکلفانہ دعوت سے مجھے فریب کی امید نہی۔ باوجود اس کے محضاسی خیال سے میںنے تھوڑے سے سپاہی ساتھ لے جانے کا ارادہ کر لیا۔اور آپ تو جانتے ہیں کہ اپنی حفاظت کا میںنے پورا بندوبست کر لیا ہے۔ہاں تو زمرد نے رمضان کی 27 تاریخکو مجھے بلایا ہے اور آج کون تاریخہے ؟ منقو خاں: جمادیالاول کی 20۔ قریب قریب چار مہینے باقی ہیں۔ راستہ بھی تین مہینے سے کم کا نہیں۔اگر جلدی پہنچ گئیںتو راستے میں کسی جگہ ٹھہر جانا۔ اگر جانا ہے تو کل ہی کوچ کر دینا چاہیے۔ اس کے بعد منقو خاںنے کچھ آپ ہی سوچ کے کہا: "ہاں! خوب یاد آیا،بلغان خاتون! ایک دو دن اور ٹھہر جاؤ۔آج کے چوتھے دن ہلاکو خاں کی کمک کو چالیس ہزار سپاہیوںکا بڑا بھاری لشکر جانے ولا ہے جس کو طولیخاںلے جائے گا؛ اسی کے ساتھ تم بھی ہولینا۔یہ لوگ بھی اسی طرف جائیںگے جدھر تم جاتی ہو،بلکہ انھیں تم سے آگے جانا ہے۔ہلاکو خاں دیلم میںہے اور سلطان دیلم کی تخت گاہ پر قابض ہو چکا ہے۔ فیالحال اُس کا تعاقب کر رہا ہے۔اس فوج کے پہنچنے کے بعد وہ ارض عراق کا عزم کرے گا اور ارادہ ہے کہ خلیفۂ بغداد کو بھی اس کی سرتابیوں اور غرور کی سزا دی جائے۔ بلغان خاتون:ایک دو دن کی بات ہے ،میںٹھہر جاؤںگی۔ان تمام امور کا تصفیہ کر کے بلغان خاتون اپنے مکان کو واپس آئی اور حسین کو بلا کے کہہ دیا:" پرسوںکوچ ہے ،تیار ہو رہو۔"حسین نے سینے پر ہاتھ رکھ کے اور ادب سے سر جھکا کے جواب دیا: " مجھے تو جس وقت حکم ہو حاضر ہوں۔" دوسری طرف منقو خاںکا بیٹا طولی خاں بھی کوچ کا سامان کرنے لگا اور اس کے ساتھ کے لیے چالیس ہزارجوانوںکو تیاری کا حکم دے دیا گیا۔ آخری رات سپاہیوںنے عجیب ذوق و شوق اور بڑی دھوم دھام میںبسر کی۔ قراقرم کے در و دیوار سے جوش و خروش نمایاںتھا۔ہر طرف ایک چہل پہل تھی،لوگ اِدھر اُدھر دوڑتے پھرتے تھے۔جو اپنے گھروںاورخیموںمیںتھے وہ خوشی خوشی اسلحہ بھی درست کرتے جاتے تھے اور عزیزوںیابیوی بچوںسے بھی رخصت ہوتے جاتے تھے۔صبح سویرے ہی کوچ کا طبل بجا اور تاتاریوںکے غول اپنے اپنے نشانوںاور بیرکوںکے نیچے جوش و مسرت میں کودتے ،اپنے قومی گیتوںکو گاتے اور شور کرتے آگے بڑھے۔ یہ فوج مختلف حصوںمیںتقسیم ہوکے روانہ ہوئی۔ قرافل کے پانچ ہزار جوان آگے بڑھ گئے۔ پھر جرانغار و برانغار پانچ پانچ ہزار کی ٹکڑیاںداہنے باہنے پھر گئیں،پانچ ہی ہزار کا ایک گروہ پیچھے قول میںرہا اور درمیان یا قلب میں پورے بیس ہزار ترک جدا جدا فوجوںاور پرچموںمیںبٹے ہوئے آگے پیچھے روانہ ہوئے ،جن کے بیچ میں طولی خاں اور بلغان خاتون دو مضبوط اور گھٹے ہوئے ترکی گھوڑوںپر سوار تھے۔ تاتاری کمانیں اور نیزے چاروں طرف سے حلقہ کیا ہوئے تھے۔اور ہر چہار طرف سے جوش و ولولے کی صدائیں اور فتح و نصرت کے نعرے بلند ہو رہے تھے۔ تاتاریوںکا یہ طوفان ایک ٹڈی دل کی طرحراستے کی تمام چیزوں کو خراب و تباہ کرتا چلا جاتا تھا۔جو گاؤں نظر آتا آدمیوںسے خالی ملتا،اس لےط کہ ان بے رحم و جری لٹیروںکی آمد کی خبر پاتے ہی لوگ اپنے گھر چھوڑ چھاڑ کے بھاگ کھڑے ہوتے ،جن کے ویران و غیر آباد گھروں اور مکانوںکو آگ لگا دی جاتی۔یہ لوگ جوںجوں آگے بڑھتے شہر اور گاؤںمسمار و منہدم اور جل جل کے خاک سیاہ ہوتے جاتے۔رعایا میںسے مرد،عورت،بوڑھا،بچہ جو شخصملتا ان انسان کا شکار کھیلنے والے وحشیوںکے ہاتھ سے قتل ہو جاتا۔ الغرض یہ لوگ تمام علاقہ غزنی و خراسان کو تباہ کرتے بحر خزر کے کنارے کنارے چلے اور مازندران پہنچے۔ پھر وہاںکے گاؤں تخت تاراج کر کے آذربائیجان کی طرف نکل گئے اسلیے کہ ہلاکو کے اسی طرف ہونے کی خبر تھی،کیوںکہ وہ سلطان دیلم کے تعاقب میں شمال کی طرف زیادہ بڑھ گیا تھا۔مگر بلغان خاتون اپنے ساتھ کے پانچ سو سواروں کے ساتھ جبال طالقان کے دامن میں نہر ویرنجان کے قریب خیمہ زن ہو گئی۔ عین اس مقام پر جہاںاس ناول کی ابتدا میںہم نے حسین و زمرد کو پایا تھا۔جس وقت یہ پانچ سو تاتاری اس سر زمیں پر پہنچے ہیںرمضان کی 18 تاریختھی۔مجبوراً چند روز اسی جگہ فروکش رہنا پڑا جس سے زیادہ کوئی مصیبت تاتاری لشکر کے لیے نہ تھی۔ان لوگوںکے لیے یہ معمول تھا کہ جب تک لوٹتے مارتے رہتے اسی وقت تک اچھے اور خوش حال رہتے اور جہاںکسی جگہ قیام ہو گیا،محض اس وجہ سے کہ نئے شہر اور قصبے لوٹنے کو نہ ملتے ،فاقے کرنے لگتے۔لیکن یہاںکیا کرتے ؟ مجبوری تھی،سب نے انتظار کے دن فقر و فاقے سے بسر کیے ،نویںدن ٹھیک 27 تاریخکو بلغان خاتون صبحہی سے کسی کے انتظار میں تھی اور جوںجوںدیر ہوتی جاتی تھی اس کی پریشانی بڑھتی جاتی تھی۔ آخر جب اس نے دیکھ کہ وقت نکلا چلا جاتا ہے تو بڑے پس و پیش کے بعد تین زبردست فوجی جوانوںکو ساتھ لے کے چل کھڑی ہوئی اور حسین اس کا رہبر ہوا۔باقی ماندہ تمام ہمراہی وہیں چھوڑ دیے گئے۔حسین اور تاتاری شہزادی سڑک چھوڑ کے نہر ویرنجان کے کنارے کنارے چلے اور بہ دقت و دشواری گھاٹیوںاورجنگلوںسے گزر کے اس مرغزار میں جا پہنچے۔حسین نے زمرد کی قبر بتا کے فاتحہ خوانی کی اور کہا: " یہی پتھر ہیں جن کے نیچے میری زمرد کا پیکر عنصری آرام کر رہا ہے۔" بلغان خاتون نے زمرد کا خط نکال کے پھر پڑھا اور زمرد کی ہدایت کے مطابق قبر کے پتھروںکو خود اپنے ہاتھوںسے ہٹانے لگی۔ چار ہی پانچ پتھر ہٹے ہونگے کہ حسب وعدہ زمرد کا دوسرا خط مل گیا جسے کھول کے اس نے چپکے چپکے پڑھا اور ذرا متردد ہوکے سامنے کی طرف نظر بڑھا بڑھا کے دیکھنے لگی۔ چند ہی لمحوںکے بعد سوچا اور اپنے ایک ہمراہی کے کان میں کچھ کہنے کو جھکی۔ تاتاری سپاہی شاہزادی کا راز سنتے ہیں واپس روانہ ہوا اور وہ خود حسین کی طرف دیکھ کے بولی: "چلو" حسین: کہاں؟ بلغان خاتون: جہاںمیںچلوں۔ اتنا کہتے ہیںباقی ماندہ سپاہیوںکو ساتھ آنے کا اشارہ کیا اور چل کھڑی ہوئی۔حسین کو بھلا کیا مجال ان کار تھی،بے عذر ساتھ ہولیا۔ بلغان خاتون اس وادی کے شمالی کونے کی طرف چلی۔اسی طرف جدھر سے حسین نے کبھی پریوں کو آتے دیکھا تھا۔جاتے جاتے تقریباً دو گھنٹے کے بعد وہ ایک سرسبز پہاڑ کے دامن میںپہنچی،اور گو اس طرف کوئی راستہ نہیں نظر آتا تھا مگر وہ برابر بڑھتی چلی جاتی تھی۔ حسین ایک عقیدت کیش مرید کی شان سے بے عذر اطاعت کر رہا تھا، مگر ہمراہی سپاہیوںکو حیرت تھی کہ شاہزادی انھیںکہاںلیے جاتی ہے بلکہ ایک نے آگے بڑھ کے ادب سے پوچھا بھی کہ: "ادھر تو راستہ نہیں ہے ؟" جس کے جواب میں بلغان خاتون نے کہا: "کچھ بولو چالو نہیں، خاموش چلے آؤ۔" پہاڑکی جڑ میںپہنچ کے وہ ایک تیرۂ تار غار میںگھسی اور ساتھیوںسے کہا: اس طرح چلو کہ کسی کو آہٹ معلوم نہ ہو۔"شاہزادی کے حکم کے مطابق سب لوگوں سے جہاںتک ممکن تھا آہستہ آہستہ قدم اٹھاتے چلے۔غار کے اندر بالکل اندھیرا تھا اور سب ہاتھوںسے ٹٹولتے اور دونوںطرف کی کنگروں سے بچتے چلے جاتے تھے۔پندرہ بیس منٹ کے بعد دور اوپر کچھ روشنی نظر آئی جس کی نسبت معلوم ہوا کہ غار کے اس طرف کا دہانہ ہے۔ آخر بلغان خاتون اس غار سے باہر نکلی مگر جب غار سے باہر نکل کے دیکھا تو یہ مقام بھی کچھ کم وحشت ناک نہیں، اس لیے کہ یہاںبہت ہی گھنا جنگل تھا،جس کے درخت اسطرحملے اور جڑے تھے کہ آفتاب کی روشنی بمشکل زمیں تک پہنچتی تھی۔ شاہزادی اس جنگل میں پہنچتے ہی بائیں ہاتھ کی طرف مڑ گئی۔اب اُس کا رخمغرب کی طرف تھا اور درختوںمیں پھنستی اور کانٹوںمیںالجھتی برابر آگے چلی جاتی تھی۔ ساتھ والے اس دشوار گزار راستے کو دیکھ کے گھبرا گئے تھے اور دل میںحیران تھے۔آخر یہ جنگل یکایک ایک پہاڑ کے پاس ختم ہو گیاجہاںپہنچ کے شاہزادی پھر داہنے ہاتھ کی طرف مڑی اور پہاڑ کے دامن ہی دامن میں دور تک چلی گئی۔ ایک مقام پر پہنچ کے اسے نظر آیا کہ جیسے کسی ناگہانی صدمے کے باعثپہاڑ پھٹ گیا ہے اور درمیان میں ایک بہت ہی پتلی اور لمبی گلی پیدا ہو گئی ہے ،جس سے ایک سے زیادہ آدمیوںکا گزرنہیںہو سکتا۔ بلغان خاتون نے اس گلی کو غور سے دیکھا،چاروںطرف نظر دوڑائی اور جیسے دل ہی دل میںکچھ مطمئن ہوکے اس گلی کے اندر گھسی،مگر اندر جانے سے پہلے اس نے ایک اور ہمراہی سپاہی کے کان میںجھک کے کچھ کہا جس کے ساتھ ہی وہ بھی واپس چلا گیا۔ اب شاہزادی،حسین اور باقی ماندہ ایک جوان کو ساتھ لے کے گلی میں داخل ہوئی۔گلی کے اندر ایک مقام پر ایک گٹھڑی پڑی ملی جسے شاہزادی نے کھول کے دیکھا اس کے اندر ایک زنانہ کپڑوںکا جوڑا تھا ور دو مردانے جوڑے بالکل دہقانیوں اور گائے بھینس پالنے والوںکی وضع کے تھے۔شہزادی نے دونوں جوڑے حسین اور اپنے دوسرے ساتھ کو دے کے کہا: " اپنے کپڑے اتار کے یہاں رکھ دو اور یہ کپڑے پہن لو۔"یہ کہہ کے وہ خود بھی ہو زنانہ جوڑا پہننے لگی۔ جب سب کپڑے پہن کے تیار ہو گےل تو اگرچہ یہاں اندھیرا تھا،حسین کو شاہزادی کی وضع و لباس پر حیرت ہوئی اور وہ تعجب سے دیکھنے لگا۔ بلغان خاتون: کیوںحسین!تعجب کس بات کا؟ حسین:کیاعرض کروں،یہ لباس پہن کے تو آپ دنیاوی شاہزادی نہیں، آسمانی حور معلوم ہوتی ہیں۔ بلغان خاتون یہ سن کے مسکرائی اور بولی : " بس چپکے سے چلے آؤ!" اور آگے کو روانہ ہوئی۔یکایک معلوم ہوا کہ آڑی چٹان نے راستہ بند کر دیا ہے۔ بلغان خاتون نے جب مڑ کے دیکھا تو نیچے ایک چھوٹا سا سوراخنظر آیا جس میںسے ایک آدمی بمشکل سمٹ سمٹا کے نکل سکتا تھا۔اسی سوراخ سے وہ نکلی اور ہمراہیوںکو بھی نکلنے کا حکم دیا۔اس دشواری کو جھیل کے شاہزادی آگے بڑھی،لیکن ایک سب سے بڑی مشکل نظر آئی۔وہ یہ کہ ایک زبردست فولادی دروازہ تھا جو دوسری طرف سے بند تھا۔مگر بلغان خاتون نے دروازے کے داہنے بازو کے برابر سے ایک پتھر نکالا جس کے ہٹتے ہی ایک روشن دان سا ہو گیا اس روشن دان میںہاتھ ڈال کے اس نے دروازے کی کنڈی کھول لی اور حسین کی روز آوری سے دروازہ اندر کی طرف ہٹ آیا اور جانے کا راستہ ہو گیا۔ اس دروازے سے نکلتے ہی بلغان خاتون نے حیرت سے دیکھا کہ عجب فرحت بخش اور راحت افزا چمن لگے ہوئے ہیں۔پھولوں کی بہار اور طیور کی نغمہ سنجیاںدیکھتے ہی بے ساختہ اس کی زبان نکل گیا "واہ"۔مگر حسین جو اس مقام کو آنکھیں پھاڑکے اور حیرت سے دیکھ رہا تھا۔ شاہزادی کی زمان سے یہ لفظ سن کے بولا: " مجھے تو فردوسِبریںیہی معلوم ہوتی ہے مگر کیوںکر کہوں؟" بلغان خاتون: اب میں تمھیںحور نظر آئی ہوںتو ضرور ہے کہ یہ باغجنت نظر آئے۔مگر پھر غور سے دیکھو کیا یہی وہ فردوس بریں ہے جس کی تم سیر کر چکے ہو۔" یہ کہہ کے شاہ زادہ ذرا مسکرائی۔ حسین: بعینہ وہی مقام معلوم ہوتا ہے۔خداوندا!میں خواب دیکھتا ہوںیا بیدار ہوں؟ اور ہاںدیکھیے طیور کے نغمے سے بھی وہی آواز نکلتی ہے " سلام علیکم طبتم فادخلوہا خالدین۔" بلغان خاتون: اس کے کیا معنی؟ حسین: اللہ جل شانہ نے قر آن پاک میںوعدہ کیا ہے کہ جنت میںانھں الفاظ سے لوگوںکا خیر مقدم کیا جائے گا۔جس کا مطلب یہ ہے کہ " تم پر سلام ہو!پاک ہو گےک تم لوگ اور ہمیشہ کے لیے جنت میںداخل ہو!" حسین نے زبان سے تو یہ جواب دے دیا مگر اس وقت دل و دماغ اور آنکھوں پر ہر ساعت زیادہ حیرت مستولی ہوتی جاتی تھی۔ وہ ہر چیز کو گھبرا گھبرا کے دیکھتا اور بار بار کہہ اُٹھتا؛ " یا تو میںآسمان پر پہنچ گیا یا فردوس بریںنیچے اتر آئی۔یہ تو بعینہ وہی باغہے جس میںمَیں زمرد کے ساتھ سیر کرتا پھرتا تھا۔" بلغان خاتون: فردوس بریں تو تم پہنچ ہی گئے ،اب مطمئن رہو زمرد سے بھی ملا دوںگی۔ حسین کو جنت میں پہنچ جانے کا تو یقین ہو ہی گیا تھا شاہزادی کی زبان سے یہ فقرہ سن کے اس کے قدموںپر گر پڑا اور کہنے لگا: " آپ نے اس راہ میںرہبری کی ہے جس میں اب شیخعلی وجودی سے بھی دست گیری کی امید نہ تھی۔یہ احسان ہمیشہ لوحدل پر نقش رہے گا۔" بلغان خاتون: ( حسین کو زمین سے اٹھا کے ) ذرا صبر و تحمل سے کام لو۔ زمرد سے ملنے کے لیے شرط ہے کہ چپکے ساتھ چلے چلو۔ایسا اضطراب ظاہر کرو گے تو کام بگڑجائے گا۔ یہ کہہ کے شہزادی نے پھر زمرد کا خط نکال کے پڑھا اور دونوںہمراہیوںکو ساتھ لیے ہوئے ایک جانب چل کھڑی ہوئی اور چند منٹ میںوہ قصروں اور کوشکوںکے قریب تھی۔ حسین اس نظر فریب سین کو کھڑا نہایت ہی حیرانی و از خود رفتگی سے دیکھ رہا تھا۔ ناگہاںایک حسین و نازنین عورت شاہزادی کے سامنے آئی اور اس کے پاؤںچومنے کو جھکی۔ بلغان خاتون: تم کون ہو؟ مگر اس کے ساتھ ہی حسین کی نظر جا پڑی؛ ایک بے اختیاری و خود فراموشی کے جوش میںاس کی زبان سے نکلا : " زمرد!" ا اور دوڑ کے لپٹگیا۔ زمرد: ( حسین کو اپنے سے علیحدہ کر کے ) ذرا صبر کرو،پہلے مجھے شاہزادی کے سامنے اپنی احسان مندی ظاہر کرنے دو۔ بلغان خاتون: تو تم ہی زمرد ہو؟ یہ کہہ کے اس نے زمرد کو گلے سے لگا لیا اور بولی: "میںنے تو کیا احسان کیا ہے ، ہاںتمھاری البتہ انتہا سے زیادہ شکر گزار ہوں۔اگر تم مدد نہ کرتیں تو مجھے غم و الم سے کبھی نجات نہ ملتی۔" زمرد: (ذرا مسکرا کے اور کسی قدر ندامت سے ) مگر شاہزادی! اس میںمیری بھی خود غرضی شامل تھی۔ بلغان خاتون: اسے خود غرضی نہ کہنا چاہیے ؛ یہ اس سادہ لوحنوجوان پر تمھارا احسان ہے کہ اپنی محبت سے اسے عزت بخشی اور اتنے بڑے اور اس قدر گہرے فریب سے نجات دلائی۔ اس کے بعد زمرد حسین کی طرف متوجہ ہوئی اور پوچھا: " اب تو تم پر سارا راز کھل گیا؟" حسین: راز کیسا؟ میںنے تو شاہزادی کے حکم کی اطاعت کی، اور صرف اس وجہ سے کہ تمھاری ہدایت یہی تھی۔ بلغان خاتون: نہیں میں نے بھی ان سے کچھ نہیں کہا اور نہ تمھارا کوئی خط دکھایا ہے۔مگر جب سے یہ اس باغ میںداخل ہوئے ہیںانتہا سے زیادہ پریشان و بدحواس ہیں۔اب اپنے ساتھ لے جاؤ اور جو کچھ کہنا ہو کہہ دو،تاکہ یہ وحشت ذرا دور ہو اور آدمی بنیں۔ زمرد: افسوس!اس غلطی میں یہ ایسے ایسے کام کر چکے ہیں کہ اطمینان تو انھیں بڑی مشکلوںسے نصیب ہو گا۔ بلغان خاتون: لیکن اب یہی مصلحت ہے کہ انھیںاپنے قصر میںلے جاؤ اور کوشش کرو کہ ان کی آنکھوں کے سامنے سے فریب کا پردہ ہٹے۔ مگر ہاںپہلے مجھے تو بتا دو کہ یہاںکسی کا خوف تو نہیں؟تمھارے لکھنے کے مطابق میںآنے کو تو چلی آئی مگر اندیشہ ہے کہ کوئی خرابی نہ اٹھ کھڑی ہو۔ زمرد: شاہزادی! آپ مطمئن رہیے ،کسی بات کا اندیشہ نہیں۔آج شام تک آپ یہاںبے کھٹکے رہ سکتی ہیں۔مگر وہ جو میںنے لکھا تھا اس کا بھی بندوبست آپ نے کر لیا ہے ؟ بلغان خاتون: سب سامان کر چکی ہوں، اگرچہ اس کے متعلق مجھے ذرا تردد ہے۔ زمرد:وہ کیا؟ شاہزادی: خیر کوئی مضائقہ نہیں،اس کو پھر بیان کروںگی۔یہ کہہ کے اس نے باقی ماندہ جوان کو بھی جو ساتھ آیا تھا، کان میں کچھ کہہ کے واپس بھیج دیا اور زمرد سے پوچھنے لگی: "اور یہ تو بتاؤ کہ قلعے پر کدھر سے حملہ ہو سکتا ہے ؟" زمرد: آپ قلعے میں ہی ہیں،مگر اتنا حصہ قلعے سے علیحدہ کر دیا گیا ہے۔اگرچہ غیر لوگ یہاںنہر ویرنجان کے ذریعے سے اور بیرونی دیوار کے نیچے سے لائے جاتے ہیں، مگر اسی نہر کے اُس طرف خور شاہ کا محل ہے۔ حسین: ( چونک کے ) خور شاہ کا محل! وہ یہاںکہاں؟ وہ تو قلعہ التمونت میں ہے ؟ بلغان خاتون: ( ہنس کے ) اب انھیں ان کے قصر دری ہی میںپہنچادو جس کے دیکھنے کا انھیںشوق ہو گا۔باقی باتیںپھر آ کے کرنا۔یہ اگر یہاںموجود رہے تو بات نہ کرنے دیںگے۔ زمرد:بے شک شاہزادی! آپ بجا فرماتی ہیں۔ میں انھیں وہاںبٹھا کے ابھی آتی ہوں۔ یہ کہہ کے اس نے حسین کا ہاتھ اپنے ہاتھ میںلیا جو ابھی تک بے ہوشی کے عالم میںکھڑا تھا اور شاہ زادی کو تنہا چھوڑ کے اسے کھینچتی ہوئی اپنے قصر دری میںلے گئی۔حسین راستے بھر اس سے طرح طرح کے سوالات کرتا رہا،مگر زمرد نے ہر سوال کے جواب میں یہی کہا کہ پھر بتا دوںگی،اور اسے قصر میں بٹھا کے شاہزادی کے سامنے واپس آئی اور ادب سے کھڑی ہو گئی۔ بلغان خاتون: ہاںتو خور شاہ کے محل کو یہاںسے راستہ گیا ہے ؟ زمرد:جی ہاں! وہ روز یہاںآکے عیش و عشرت میںمشغول ہوا کرتا ہے۔آپ اس راستے سے اپنے تمام ہمراہیوںکے ساتھ بآسانی پہنچ جائیںگی۔پہلے نہر کا سنہرا پل ہے ، اس کے اترتے ہی آپ کو ایک سیدھا راستہ ملے گا جو خور شاہ کے حرم سرا کو گیا ہے ،جس میں داخل ہوتے ہی آپ سجھ لیجیے کہ التمونت میںپہنچ گئیں۔آج عید کا دن ہے اور معمول یہ ہے کہ اس زمانے میںکوئی شخص جنت میںنہیں لایا جاتا اور نہ خود خور شاہ آ سکتا ہے ،اس لیے کہ اس علاقے کے تمام معززو مقرب لوگ اور نیز دور دور کے سربرآوردہ اور نامی نقیب امام کی زیارت کو آتے ہیں اور قلعے میں عام معتقدین کا بڑا بھاری مجمع رہتا ہے۔اسی خیال سے میں نے آپ کو رمضان کی 27 تاریخ کو بلایا،کیوںکہ اس دن لازمی طور پر یہ باغ غیروںسے خالی رہتا ہے اور خود خور شاہ کو بھی تین چار دن تک یہاںآنے کی فرصت نہیں ملتی۔اگر اور کوئی زمانہ ہوتا تو اب تک آپ کے آنے کا حال قلعے میںمعلوم ہو گیا ہوتا۔ بلغان خاتون: تو ابھی کسی کو ہمارے آنے کی خبر نہیں؟ زمرد: بالکل نہیں۔ اول تو یہاںکوئی مرد نہیں جولوگوںکو خبر کر کے لڑائی کا سامان کرے ؛ اور شاید کوئی عورت بھاگ کے چلی بھی جاتی،مگر میںنے آج صبح سے ہی سنہرے پل کے پھاٹک میں قفل لگا دیا ہے اور کنجی میرے پاس ہے۔ لہٰذا ممکن نہیں کہ کوئی بھی بھاگ کے پھاٹک کے قلعے میںجا سکا ہو۔اور لطف یہ کہ ان دنوںادھر سے بھی کوئی آنے والا نہیں۔ بلغان خاتون: یہ تو بہت اچھی بات ہوئی۔تم کہتی ہو آج عید ہے جب کہ قلعے میںخوشی کا جوش و خروش ہو گا۔ بس کوئی فکر نہیں۔آج شام سے پہلے ہی ہمارا حملہ ہو جائے گا۔مگر زمرد مجھے ایک بات کا تردد ہے۔جس فوج کو میں نے اپنی مدد کے لیے بلایا تھا اس کا ابھی تک پتا نہیں۔ میرے ہمراہ صرف پانچ سو سپاہی ہیں جو شاید کافی نہ ہو سکیں۔ زمرد: میںتو سمجھتی ہوںکہ پانچ سو جوان بھی قلع پر ادھر سے جا کے قبضہ کر لیںگے۔ بلغان خاتون: مگر مجھے یقین ہے کہ ہماری کمک ضرور آئے گی،صرف شام تک کی مہلت چاہیے۔ زمرد: شام کیا معنی آپ کل تک یونہی مخفی رہ سکتی ہیں۔کوئی اندیشے کا مقام نہیں۔بس جب تک وقت آئے یہاںآرام فرمائے۔ آپ تھک بھی گئی ہونگی سستانے کے لیے اچھی مہلت مل گئی۔ اس کے بعد شاہزادی نے پوچھا: " اور زمرد!یہ لباس جو تم نے میرے اور میرے دونوں ساتھیوں کے یے تجویز کیا،اس میںکیا مصلحت تھی؟" زمرد: شاہزادی! آپ کا لباس تو وہی حوروں کا لباس ہے جس کو لوگ یہاںحلۂ جنت سمجھتے ہیں۔اس لباس کی وجہ سے کسی کو آپ پر بدگمانی نہیں ہو سکتی۔ بلغان خاتون: شاید اسی لیے مجھے وہ کپڑے پہنے دیکھ کے حسین نے کہا تھا کہ آپ حور معلوم ہوتی ہیں۔" یہ جملہ سن کے زمرد بہت ہنسی اور بولی: " مگر اپنے لباس کے متعلق انھوں نے کچھ نہ کہا؟" بلغان خاتون:اور ہاں، مردوںکے بارے میںتم نے ایسا بیہودہ لباس کیوں تجویز کیا؟ زمرد: اس لیے کہ مردوںمیںعموماً یہاںوہی دودھ والے آیا کرتے ہیں جو یہاںکی نہروں میں دودھ اور شراب بھرتے ہیں۔اگر کوئی مرد اس لباس کو پہنے ہوئے یہاںآئے تو کسی کو خیال بھی نہ ہو گا کہ کوئی غیر ہے۔ شاہزادی:مگر ایسا نہ ہو کہ کسی کو خبر ہو جائے اور قبل از وقت راز کھل جائے۔ زمرد: کسی کو خبر نہ ہو گی،آپ شوق سے یہاںفروکش ہوں۔عید کے دن کسی کو یہاںآنے کی فرصت ہی نہیںہوتی۔ بلغانخاتون: بہتر! میںیہیںٹھہر جاؤںگی،مگر مجھے چل کے ذرا جنت کی سیر کرا دو اور وہ پل اور سڑک بھی دکھا دو تاکہ راستہ خوب پہچان لوں۔ زمرد: چلیے ! اس تجویز کے بعد دونوںحسین و نازنین عورتیں قصروں اور کوشکوں کو قطع کرتی اور باغوںاور چمنوںکی بہار دیکھتی ہوئیں اس بڑی نہر کے کنارے پہنچیںجہاں سے لوگ سونے کی کشتی میں بٹھا کے جنت میںلائے جاتے تھے۔اس سنہرے پل کے پھاٹک میںقفل لگا ہوا تھا،جسے زمرد نے کھولا اور دنوں لڑکیاںدوسری طرف کے میدان میںاتریں۔ادھر بھی پھولوںکا ایک مسطح تختہ دور تک پھیلا ہوا تھا اور درمیان سے ایک سڑک گزری تھی جو تھوڑی دور جا کر سایہ دار درختوںکے ایک جھنڈ میں غائب ہو گئی تھی۔انھیں درختوں کی دوسری طرف حرم سرا کا راستہ تھا۔ یہ دلچسپ سیر کر کے شاہزادی واپس آئی اور زمرد کے انتخاب کے مطابق ایک عالی شان فیروزی کوشک میںجا کے فروکش ہو گئی۔زمرد دیر تک اس کے پاس بیٹھی رہی،اور جب دیکھا کہ شاہزادی بلغان خاتون لیٹ کے آرام کرنا چاہتی ہے تو اس سے رخصت ہوکے دروازہ اندر سے بند کروا لیا اور اپنے قصر کی طرف واپس روانہ ہوئی۔