فردوس بریں/مردودِ ازلی
قلعہ التمونت کے پھاٹک پر حسین کو روکا گیا اور چوں کہ اندر داخل ہونے کا اجازت نامہ پیش نہیں کر سکا، لہٰذا وہی خط جو شیخ علی وجودی نے دیا تھا اس سے لے کے پہلے قلعہ دار کے پاس بھیجا گیا، پھر رکن الدین خور شاہ کے ملاحظے میںپیش ہوا،جو ان دنوںتمام باطنین کا امام اور علی ذکرۃ السلام کا پوتا تھا۔خور شاہ کا ہنوز عنفوان شباب تھا مگر چوں کہ ان لوگوں کے عقیدے میں امام پیدا ہوتے ہی امام ہوتا ہے ، لہٰذا اس کے تقدس و وجاہت میں نو عمری سے کوئی فرق نہیں آنے پاتا۔ ان کے نزدیک اگر رتبۂ اما متحاصل ہو تو ایک چھ برس کا بچہ اور ساٹھ برس کا بوڑھا دونوںیکساں معصوم ہیں اور دونوںکے احکام یکساں واجب التعمیل ہیں۔یہ سلطنت اور مذہب دونوں حسن بن صباح کی بے نظیر کوششوں سے قائم ہوئے تھے جس کو اب ڈیڑھ سو برس گزر چکے ،اور باوجود یکہ دنیا میں بڑے بڑے انقلابات ہو گےہ مگر اس خاندان کا وہی دور دورہ رہا۔ بعض دلیر اور اولو العزم حملہ آوروں نے دو ایک مرتبہ یہاںکی پولیٹیکل قوت کو ضرر پہنچا دیا مگر مذہبی اثر اب پہلے سے بھی زیادہ ترقی پر ہے اور اتمونت کا قلعہ اسی طرحمحفوظ اور مامون چلا آتا ہے جس پر مخالفت کے ساتھ کوئی پرندہ بھی پر نہیںمار سکتا۔ مذہبی مقتدائی کا تاج تو یہاںکے تاج داروںکے سر پر ابتدا ہی سے تھا مگر علی ذکرۃالسلام کے عہد سے یہ لوگ اپنے آپ کو امام اور یادگار خاندان بنی فاطمہ بھی کہنے لگے اس لیے کہ ذکرۃ السلام نے دعویٰ کیا کہ میں جب بچہ تھا،نزار بن مستنصر فاطمی کے پوتے سے مخفی طور پر بدل لیا گیا۔اس وقت سے ان لوگوںنے علانیہ امامت کا دعویٰ کر دیا اور اب اپنے آپ کو نور محض اور لوہوت و ناسوت کا برزخ ظاہر کرتے ہیں۔جو لوگ بادشاہ یا امام کے احکام کو بے عذر و بے حجت آنکھیں بند کر کے بجا لاتے ہیں اور جن کے خنجر سے سارا زمانہ کانپ رہا ہے ،فدائی کہلاتے ہیں۔اور ان کی یہ حالت ہے کہ مقتدا اور فرمانروا کے حکم پر جان دینا اورخودکشی کر لینا بھی ذریعۂ نجات سمجھتے ہیں۔انھیںفدائیوںکی وجہ سے جو رعب داب رکن الدین خور شاہ کے دربار میںہے ،شاید اس عہد کے کسی بادشاہ کے دربار میںنہ نظر آتا ہو گا۔یہاںکسی کی اتنی مجال بھی نہیں کہ بادشاہ کے سامنے بے ادبی و مخالفت کا خیال بھی دل میںلا سکے۔ شیخ علی وجودی کا خط دیکھتے ہی حسین کو باریابی کی اجازت دی گئی۔بڑے بڑے قوی ہیکل اور مہیب شکل و شمائل کے فدائی اُسے پکڑ کے خور شاہ کے سامنے لے گئے۔حسین نے سامنے جا کے جےسل ہی فرمانروائے التمونت کی صورت دیکھی دوڑ کے قدموںپر گر پڑا اور چلایا: " ہٰذا امامی! ہٰذا امامی!"رکن الدین اس کو اٹھانے کے لیے جھکنے ہی کو تھا کہ اہل دربار میںسے بعض ممتاز لوگوںے اسے اٹھا کر کھڑا کیا اور کہا: "بے شک یہی امام زمانہ اور نور محض ہیںمگر ادب و صبر سے کام لو اور جو التجا ہو پیش کرو۔" خور شاہ: اے نوجوان آملی!تجھ میںکیا بات ہی کہ وادیِایمن تیری انتہا سے زیادہ تعریف کرتے ہیں؟ وہ تیرے علم و فضل کے بھی مداحہیںاور تیری بہادری و جان بازی کے بھی؟ حسین: (ادب سے زمیں چوم کے )صرف اس سبب سے کہ میںنے ان کی خدمت گزاری میں موئی دقیقہ نہیںاٹھارکھا،اور کبھی اس بحر حقیقت کے حکم سے انحراف کرنے کی جرات نہ کی۔ خور شاہ: اور اب شیخنے یہاںکس غرضسے بھیجا ہے ؟ حسین: یا امام قائم قیامت! میں فردوس بریںکو ایک نظر اور دیکھنا چاہتا ہوں۔ خور شاہ: (غور کر کے ) ابھی تک تو ان اشعات انوار لم یزلی سے یہی آواز آ رہی ہے کہ "لن ترانی!" حسین: مگر امام قائم قیامت کی توجہ نے شفاعت کی تو ممکن نہیں کہ میری آرزو بر نہ آئے۔ خور شاہ: اے بوالہوس پیکر خاکی! ابھی اس کے متعلق تجھے کسی قسم کی امید نہیںدلائی جا سکتی۔ یہ کہ کے خور شاہ ایک اور شخص کی طرف متوجہ ہونے کو تھا کہ حسین نے آب دیدہ ہوکے اور نہایت ہی پر درد اور مایوسی کی آواز میںکہا: "تو اس ادنیٰ جانثار کو بار گاہ امامت سے اجازت ملے کہ اسی آستانے پر ٹھہر کے اس وقت کا انتظار کرے جبکہ یہ آرزو بر آئے گی۔آئندہ عید قائم قیامت کے موقع پر وادیِایمن بھی ہاںتشریف لائیں گے۔ کیا عجب کہ اس دن جب کہ میرے مرشد اور امام یکجا ہوں گے اور مخلوق کو خالق یا پرتو کو نور سے زیادہ قوت فربت ہو گی،میری دعا قبول ہو جائے۔" خور شاہ: اچھا ٹھہرو،مگر یہ خیال رہے کہ یہاں کے امتحان زیادہ سخت ہیں۔ حسین: میںہر قسم کا امتحان دینے کو تیار ہوں۔ خور شاہ نے اس کے بعد دوسرے شخص کی طرف توجہ کی اور پوچھا "دیدار! تم کب آئے ؟" دیدار: ( ہاتھ جوڑ کے ) آج ہی صبحکو! خور شاہ: اور جس کام کے لیے گئے تھے و پورا ہو گیا؟ دیدار: میرا خنجر کبھی خالی گیا ہے ؟ اگرچہ یہ مہم دشوار تھی مگر میںجنت کے شوق میںوہاںپہنچا اور امام کے حکم کو نہایت ہی کامیابی کے ساتھ پورا کیا۔ خور شاہ: ہاںبیان کرو تم نے چغتائی خان کو کیوںکر قتل کیا؟ دیدار: یا امام قائم قیامت! ترکستان میں اس جاںنثارکا نام متقہ تھا۔ وہاںکی مختلف صحبتوںمیںشریک ہوکے فدوی نے اسی ہر دل عزیزی پیدا کی کہ منقو خان چغتائی خان بہادر کے بیٹے کے دل میںمجھ سے ملنے کا شوق پیدا ہوا۔اس نے مجھے بلوا کے اپنے گھر میںرکھا اور کئی مہینے تک یہ حالت رہی کہ جب تک میںیہ ہوتا کسی بات میںاس کا دل نہ لگتا۔اس نے مجھے اپنے باپ سے ملایا۔اب چغتائی خان بھی میری باتوں کا دیوانہ تھا۔ چند روز بعد دونوںباپ بیٹوںکا میرے سوا کوئی انیس و جلیس نہ تھا۔چغتائی اپنی ذات سے ایسا زبردست اور قوی واقع ہوا تھا کہ اس پر حملہ کر کے کامیاب ہون مجھے نہایت دشوار نظر آیا اور اسی وجہ سے مجھے کئی مرتبہ موقع ملنے پر بھی جرات نہ ہوئی۔آخر ایک روز رات کو جب کہ ہلاکو خان کسی بڑی مہم سے واپس آیا تھا اور منقو خان اس کے ملنے کو گیا تھا،چغتائی خان مجھے تنہا سوتا ہوا مل گیا۔ اس سے زیادہ مناسب موقع ملنے کی امید نہیں ہو سکتی تھی۔میںنے چپکے ہی چپکے پہلے ا س کے ہاتھ پاؤں باندھے اور پھر سینے پر چڑھ کے اس کا کام تمام کیا۔ چغتائی خاں کے قتل کے بعد میں واپس چلا آتا،مگر مجھے حکم تھا کہ ان لوگوںکو یہ بتا بھی دوں کہ چغتائی خاں کے قتل کی وجہ کیا ہے۔اس غرضکے لیے ان تمام حالات کو ایک خط میںلکھ کر میں نے پہلے ہی اپنے پاس رکھ لیا تھا،اب اسی خط کولے کر ہلاکو خان کی فرودگاہ کی طرف چال، خوش نصیبی سے چغتائی خاں کی بیٹی راستے میںمل گئی جو ہلاکو خاں سے مل کے اپنے گھر کو آ رہی تھی۔رات کے اندھیرے میںمیںنے وہ خط اس کے ہاتھ میںچپکے رکھ دیا ور بھاگ کے قریب کے جنگل میںچھپ رہا۔صبح دوسرے دن مجھے معلوم ہوا کہ قراقرم(تاتاریوں کا قدیم دارالسلطنت جو کاشغر کے قریب ہے ) ماتم کدہ بنا ہوا ہے اور ہر شخص کو میری جستجو ہے۔بعد موقع پا کے میں نے ایک غار میں پناہ لی اور پورے آٹھ دن اسی حالت میںچھپا بیٹھا رہا۔نویںدن جب میدان خالی نظر آیا تو اس غار سے نکل کر ادھر کو روانہ ہوا،جس کے تین مہینے بعد اب آستاںبوسی کی عزت حاصل کر رہا ہوں۔ خور شاہ: بے شک دیدار تم نے بڑا کام کیا اور مستحق ہو کہ تمھیںآج ہی جنت کی سیر کرائی جائے۔ یہ سنتے ہی دیدار بادشاہ کے قدموں پر گر پڑا،گمر خور شاہ نے خود اسے اپنے ہاتھ سے اٹھایا اور ساتھ لے جانے کو تھا کہ حسین نے از خود رفتگی کے جوش کے ساتھ کہا: "اے بے رحم بادشاہ!میں سب سے زیادہ جنت میں جانے کا آرزومند ہوں۔اگر یوںنہیںتو میرا کوئی امتحان ہو۔ بتایا جائے کہ میںبھی کسی کو قتل کروں، مگر آہ!زمرد کے فراق میںصبر نہیں ہو سکتا۔ خور شاہ: ابھی نہ تمھارا امتحان لیا جا سکتا ہے اور نہ تم کو باغ فردوس میںجانے کا کوئی استحقاق ہے۔ حسین: ( جوش و خروش سے )مجھ سے زیادہ کوئی مستحق نہیں! میںنے امام نجمالدین نیشاپوری کی زندگی کا چراغگل کیا ہے ،امام نصر بن احمد کے خون میںہاتھ رنگ چکا ہوں،اب اس کے بعد بھی کیا کوئی مجھ سے زیادہ مستحق ہو سکتا ہے ؟میں صرف اپنی بے صبری کی وجہ سے مستحق نہیںبلکہ ایک میں و نشین حور بھی میرے لیے حیران و پریشان ہے۔ یہ گستاخانہ جمہ سنتے ہی سب لوگ چونک پڑے۔بعضحسین پر حملہ کرنے کو جھپٹے۔ قریب تھا کہ گرد کے قوی ہیکل غلام اس کی بوٹیاں اڑا دیتے ،مگر خور شاہ نے خود ہاتھ کے اشارے سے سب کو روکا اور نہایت ہی متانت کے ساتھ حسین کی طرف دیکھ کے بولا: "اس گستاخی اور بدتمیزی کی سزا میں تم سے کہا جاتا ہے کہ فوراً قلعے سے باہر نکل جاؤ،اور تم ہرگز اس کے مجاز نہیںکہ اس فردوس بریں کی پاک زمیں تمھارے قدم سے ناپاک کی جائے۔تمھاری سزا قتل تھی،چند ایسے اسباب ہیںجن کی وجہ سے میںتمھارے قتل تو مناسب خیال نہیںکرا۔مگر اب یہ نہیںہو سکتا کہ تم اس قلعے میں اک گھّی کے لیے بھی ٹھہرنے پاؤ۔" حسین کو فوراً اپنی گستاخی کا خیال آیا۔ ایک بے اختیاری کی شان سے وہ زمیں پر گر پڑا ور عاجزی کے لہجے میںرو و کے کہنے لگا: " یا امام قائم قیامت! میری خطا معاف ہو! میںجوش عشق میںبے اختیار و بے خود ہو گیا تھا۔" لیکن بالکل شنوائی نہ ہوئی۔ خور شاہ دیدار کو لیے ہوئی اپنے محل میں چلا گیا۔اور اس کے جاتے ہی لوگوںنے حسین کو زبردستی قلےش سے دھکے دے کے قلعے سے نکال دی۔ اُس نے ہزار منت و سماجت کی مگر ایک پیش نہ گئی، بلکہ بعضلوگوںنے کہا کہ : " تم بڑے خوش نبیئ تھے کہ صرف خارجالبلد کیے جاتے ہو،ورنہ یہاںگستاخی کی سزا قتل ہے۔" حسین:پھر اب میںکیا کروںاور کہاںجاؤں؟ لوگ:ہم نہیںجانتے ،تمھیںاختیار ہے۔ حسین کی مایوسی کی اس وقت کوئی انتہا نہ تھی۔ صرف یہی نہ تھا کہ وہ زمرد کے وصال سے مایوس ہو گیا بلکہ اپنے آپ کو رحمت باری اور نجات سرمدی سے بھی دور سمجھتا تھا۔ اُس کے عقیدے میں تھا کہ جب میںاس درگاہ سے مردود ہو گیا تو پھر کہیں ٹھکانا نہ لگے گا۔التمونت کے باہر پہاڑوںمیںروتا اور چٹانوںسے سر ٹکراتا تھا۔دل میںآئی کہ اپنے شیخشریف علی وجودی کے پاس جائے ان سے معافی کی درخواست کرے۔ مگر خیال کہ اس بارگاہ امامت سے نکالے جانے کے بعد وہ بھی اپنے وہاںپناہ نہ دیںگے۔ خیال ہر برف لے جاتا اور ہر طرف مایوسی کے آثار نظر آتے۔آخر اسے زمرد کی نصیحت یاد آئی اور اس کے ساتھ ہی کوہ البرز کی اس گھاٹی اور زمرد کی قبر کی تصویر آنکھوںکے سامنے پھر گئی۔ یکایک آپ ہی کہہ اُٹھا: " تو مجھے وہیںچلنا چاہیے ؛ بس اب میرے لیے وہاںکے سوا اور کوئی پناہ کی جگہ نہیں۔" مگر اس کے ساتھ ہی دل میںخیال گزرا کہ اب تو وہاںبھی مقصد وری کی امید نہیں۔جب اس نورستان اور سروشستان سے میرے تعلقات مطلقاً منقطع کر دیے گئے تو وہ بھی مجھ سے ناخوش ہو گی۔ اور اگر بالفرضخوش بھی ہویا قدیک محبت اُس کے دل میںباقی بھی ہو تو یہ کیوںکر ممکن ہو گا کہ امام اور مرشد کے حکم کے خلاب وہ مجھے کسی قسم مدد دے سکے ؟ اب تو اتنی بھی امید نہیںنظر آتی کہ پہلے کی برحاور اپنے وعدے کے مطابق وہ مجھے کامیابی کا کوئی راستہ بتا سکے۔"یہ خیال کر کے وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا۔بار بار دل میںآتی تھی کہ انھیںپہاڑوںسے ٹکرا کے خودکشی کر لے مگر اس میںاور زیادہ مایوسی کا یقین تھا۔آخر اس نے دل میںیہی فیصلہ کیا کہ چلو زمرد ہی کہ قبر پر چل کے بیٹوٹں۔ اگر مایوسی ہو گی تو بھی یہ کیا کم ہے کہ دل کی الجھن زیادہ بڑھے گی تو اس حور وش کی قبر کو سینے سے لگا لوں گا۔ یہ فیصلہ کر کے وہ روتا اور سر دھنتا ہوا پہلے قزوین گیا ور پھر قزوین سے نکل کے کوہ زلبرز کی اُسی پرانی گھاٹی میں پہنچا اور وہیںمقیم ہو گیا۔اتنے انقلابات اور اتنی سرگردانی کے بعد اب پھر وہ معشوقۂ دل ربا کی تربت کا مجاور ہے۔ اُسی طرحشب و روز عبادت و فاتحہ خوانی میں مصروف رہتا ہے۔قبر کے پاس بیٹھ بیٹھ کے گھنٹوںزمرد کے خیال سے باتیںکرتا ہے اور بار بار روکے کہتا ہے :"اے میں و نشین نازنین!خدا کے لیے اپنی قبر کی طرف توجہ کر اور دیکھ کہ میںکیسا حیران و پریشان ہون!آہ تیرے عققا اور تیرے فراق کی بے صبری نے دونوںجہان سے کھویا۔نہ ادھر ک ہوا نہ اُدھر۔نہ اس دنیا ہی کے کام کا رہا اور نہ اس عالم کے کام کا۔مگر او معشوقۂ با وفا! او بارگاہ لم یزل کی مقبول نازنین! میرے حال زار پر توجہ کر۔ اس درگاہ میںمیری شفاعت کر اور اپنی محبت کا صدقہ مجھے اپنے وصل سے مایوس نہ رکھ۔" یہی خیالات تھے جن کو وہ قبر کے سامنے ظاہر کرتا اور یہی دعا تھی جو ہر وقت اس کے لب پر رہتی۔آخر ایک دن اُس کی امید بر آئی۔صبح سویری آنکھ کھول کے دیکھا تو قبر پر زمردکا خط رکھا ہوا تھا۔ایک ہی نہیں بلکہ دو خط،جن میںسے ایک تو سادے لفافے میں بند تھا اور دوسرا کھلا ہوا۔حسین نے دونوں خطوںکو اٹھا کے چوما،آنکھوںسے لگایا اور کھلے خط کو پڑھنے لگا،جس کا مضمون حسب ذیل تھا: "حسین! تو نے بڑی غلطی کی امام قائم قیامت کی خدمت میں اور گستاخی!۔ غنیمت ہے تو بچ گیا۔افسوس! میںاپنے دل کو تیری طرف سے نہیںپھیر سکتی۔ چند روز کے لیے یہاںآکے تو اور مجھے بے تاب کر گیا اور اسی بے تابی کا نتیجہ ہے جو میںتجھے یہ خط لکھ رہی ہوں۔افسوس! میںوہ کام کرنے پر آمادہ ہو گئی جو مجھے نہ کرنا چاہیے تھی۔مگر مجبوری تھی؛ جو بات ہونے والی تھی اکیوںکر رکتی۔خیر، اب تو استعدی سے میری تدبیر پر کاربند ہو۔ مگر یہ سمجھ لے کہ یہ بہت ہی نازک کام ہے جسے بہت ضبط اور تحمل سے انجام دینا چاہیے۔اگر تو نے ذرا بھی میرے مشورے کے خلاف کیا تو تجھے بھی ضرر پہنچے گا اور مجھے بھی اور پھر ہم کبھی نہ مل سکیںگے۔یہ آخری اور سخت تدبیر ہے اور اس کے عمل میںلانے پر میںاس وقت مجبور ہوئی ہوں جب یقین ہو گیا کہ اب تیرے لیے امید و آرزو کے سب دروازے بند ہو گے ۔ یہ دوسرا خط جو تجھے اس خط کے ساتھ ملے گا اور بند ہے ،اسے اسی طرحبند رکھ،اس کو لے کے مزق کی طرف روانہ ہو اور سیدھا شہر قراقرم میںجا جو کہ کاشغر کے قریب ہے اور وہاںمغلوںکے شاہی خاندان کی ایک ملکہ ہے بلغان خاتون،کوشش کر کے اس سے تنہائی میںمل اور مرہا خط اسے دے دے۔ تو اس امر کی کوشش نہ کر کہ اس میںکیا اور اور نہ اس امر کو بلغان خاتون کو پوچھنا وہ تجھ سے جو سوال کرے پس اس کا صحیحجواب دے دے۔اور ملکہ بلغان خاتون جس امر کا ارادہ کرے اس میںاس کی مدد کر۔اگر وہ تیرے ساتھ آنا چاہے تو اُسے اور جو لوگ اس کے ساتھ ہوںاُنس سب کو میری قبر پر لا کے کھڑا کر دے۔بلغان خاتون غالباً تجھ سے اخلاق سے پیش آئے گی،اور یقین ہے کہ اپنی قوم کے ایک لشکر کے ساتھ ادھر ہی آنے کا ارادہ کرے۔ تو خموشی سے اُس کی رہبری کرنا۔ اور منتظر رہ کہ پردۂ غیب سے کیا ظاہر ہوتا ہے۔ بس تیری دل دادہ۔۔۔۔زمرد" حسین نے یہ خط پڑھنے ہی دوسرے خط کو احتیاط سے اپنے سینے میںرکھ لیا اور فوراً قراقرم کی طرف چل کھڑا ہوا۔ راسےم مں بار بار اس کے دل میں یہ خیال آتا تھا کہ مجھے وہاںبھیجنے سے زمرد کی کیاغرضہے ؟ مگر اس خیال کو وہ خود ہی مٹایا اور کہتا: " ان معاملات کے تجسس سے زمرد نے منع کیا ہے۔"تا ہم ایک چیز کی اسے بڑی فکر تھی۔ وہ یہ کہ زمرد نے ملکہ کے سوالوں کا سچ سچ جواب دیدے کی ہدایت کہ ہے اور میںایسے ایسے کام کر چکا ہوںجن کے ظاہر کرنے میں ہر جگہ جان کا اندیشہ ہے۔کیا یہ بتادوںکہ میں نے امام نجم الدین نیشا پوری کو بے خطا و بے قصور قتل کیا،یا مام نصر بن احمد کی نماز پڑھنے میںجان لی؟ اور سب باتیں درکنار وہاںتو شاید اگر یہ بی معلوم ہو گیا کہ مجھے فرقہ باطنیہ سے کوئی تعلق ہے تو واجبالقتل قرار دے دیا جاؤں۔ کئی مہینے جو اسے منازل سفر طے کرنے میںصرف ہوئے انھیںخیالات اور اسی قسم کے ترددات میں گزرے آخر وہ ہرات ہوتا ہوا ترکستان کی حدود میں داخل ہوا اور چند روز بعد خاص شہر قراقرم میں وارد ہوا،جو تاتاریوںکا مرکز اور پائے تخت تھا۔قراقرم پہنچ کے بھی اُسے کئی مہینے ہو گےر مگر شاہ زادی بلغان خاتون تک رسائی نہ ہوئی جس کے حسن و جمال کے قصے سارے شہر میں مشہور تھے اور کہا جات تھا کہ وہ اپنے باب کے مارے جانے کے صدمے سے تمام لذائذدنیوی سے علیحدہ ہو گئی ہے۔آبادی سے باہر اس کا ایک باغ تھا جس میںایک وسیع اور دل چسپ شکارگاہ بھی بھی ہوئی تھی،مگر باپ کے غم نے ایسا پژمردہ کر دیا تھا کہ اس نے اب اس باغ میں آنا بھی چھوڑ دیا تھا۔ ایک دن حسین وسط شہر میں کھڑا تھا کہ ناگہاںغل ہوا: "شاہزادہ بلغان خاتون آتی ہے۔" وہ سڑک ے کنارے ٹھہر گیا اور زیادہ انتظار نہیںکرنا پڑا تھا کہ ملکہ کئی سہیلیوںکے ساتھ گھوڑوںپر سوار آئی اور نکل گئی۔حسین شاید جرات کر کے اور جان پر کھیل کر خط ا س کے ہاتھ میں دے دیتا مگر زمرد نے تاکید کی تھی کہ تنہائی میں دینا۔ مایوسی کیصورت بنائے خاموش کھڑا رہ گیا۔ اور جب شاہزادی نکل گئی تو دل میںکہنے لگا: "یہ تو مشکل نظر آتا ہے کہ اس ناز آفریںملکہ کہ خواب گاہ تک میری رسائی ہو۔" اور چند روز گزر گئے اور اب سنا گیا کہ شاہزادی نے مدت کے بعد باغ اور شکار گاہ میں جانے کا ارادہ کیا ہے۔حسین کو امید پیدا ہوئی کہ غالباً وہاںموقع مل جائے۔اسی خیال سے وہ پہلے ہی سے جا کے شکارگاہ میںچھپ رہا۔ وہاںبھی ملکہ بلغان خاتون آئی اور چلی بھی گئی مگر حسین کو موقع نہ ملنا تھا نہ ملا۔ کئی دفعہ وہ ملکہ سے دوچار ہوا مگر ہر مرتبہ کوئی نہ کوئی سہیلی ضرور موجود تھی۔ اب حسین کو زیادہ مایوسی ہوئی۔ آخری تدبیر یہ تھی کہ نوکری کا امیدوار بن کے ملکہ کی ڈیوڑھی تک پہنچا اور ملازمت کی درخواست دی۔ اتنے دنوںقراقرم میںرہ کے اس نے چند ایسے دوست بھی پیدا کر لیے تھے جنھوںنے اس کی سفارش کیا ور اُسے بہ دشواری ملکہ کے داروغۂ اصطبل ہونے کی عزت حاصل ہو گئی۔ اس نوکری کے بعد بھی دو مہینے تک اسے تنہائی میںملنے کا موقع نہ ملا۔آخر ایک مرتبہ صبح سویرے جب کہ ملکہ اپنے بستر ناز سے اُٹھ کے غسل خانے کو جا رہی تھی اور بالکل اکیلی تھی،وہ سامنے گیا اور جھک کے سلام کیا۔بلغان خاتون حسین کو غیر معمولی طور پر ساد راہ دیکھ کے ٹھہر گئی اور پوچھا: "کیوں؟" حسین: (سامنے زمیں چوم کے ) سب خیریت ہے مگر شاہ زادی کی خدمت میںایک خط پہنچانا ہے جس کو لیے ہوئے چھ مہینے سے قراقرم میں پھر رہا ہوںاور صرف اس وجہ سے کہ بغیر تنہائی کے مجھے اس خط کے پیش کرنے کی اجازت نہ تھی،اتنی تاخیر ہوئی۔اسی غرض کے لیے مجبوراً میںنے شاہزادی کی ملازمت اختیار کیا۔بڑی بڑی نامرادیوںکے بعد خوش نصیبی سے آج اس خط کے پیش کرنے کا موقع ملا ہے۔ یہ کہہ ک اس نے زمرد کا خط نکال کے شہزادی کی طرف بڑھایا۔ شاہد زادی بلغان خاتون تاتاری عورتوںمیںنہیں،تاتاری رؤسا کے خالف بھی ایک نہایت ہی شائستہ اور تعلیم یافتہ ملکہ تھی۔وہ فارسی زبان میں بے تکلف گفتگو کرتی تھی۔ اسی قدر نہیںبلکہ شعرائے فارس کے کلام کی اچھی طرحداد دے سکتی تھی اور مشکل سے مشکل اور بلیغ سے بلیغ فارسی کو بوجہ احسن سمجھ لیتی تھی۔خط کو ہاتھ میں لیتے ی اس نے غور سے دیکھ اور لفافے کو سادہ پا کے تعجب سے حسین کو صورت دیکھ اور پوچھا: " اور یہ خط بھیجا کس نے ہے ؟" حسین: شاہ زادی کو پڑھنے کے بعد خود ہی معلوم ہو جائے گا۔مجھے صرف اتنا ہی معلوم ہے کہ یہ خط کسی انسان کا نہیں بلکہ ایک حور کی طرف سے ہے جس کا نشیمن اس سروشستان اعلیٰ اور حیز نور میں ہے۔ بلغان خاتون یہ جواب سن کے اور حیرت زدہ ہو گئی ،حسین کی صورت دیکھی اور پوچھا: " اگر فردوس بریںکی کسی حور کا خط ہے تو تم کو کیوںکر ملا اور تم سے اس کو کیا تعلق؟" حسین: بس اتنا ہی تعلق ہے کہ میں اس کی یاد میںسر دھنتا ہوں ،اور کبھی کبھی وہ کوئی خط کسی روحانی ذریعے سے میرے پاس پہنچا دیتی ہے۔ تاتاری شاہزادی یہ جواب سن کے اور متحر ہوئی۔دیر تک حسین کو غور سے دیکھتی رہی اور پھر دل میںکچھ سوچ کے بولی: "اچھا، اب اس وقت تم جاؤ؛ اس خط کو اس میں ان سے پڑھ کر میں تم پھر بلاؤں گی اور جو کچھ پوچھا ہو گا پوچھ لوں گی۔" حسین: (سینے پر ادب سے ہاتھ رکھ کے ) بتر،مگر اتنا خیال رہے کہ اس بارے میں جو کچھ دریافت فرمانا ہو،شاہزادی اسی طرحتنہائی میں بلا کے دریافت فرمائیں۔میں اپنے راز کسی اور کے سامنے صحیحطور پر نہیں عرضکر سکتا۔ بلغان خاتون: میں اکیلی ہی ملوںگی۔ یہ خط ار حسین کا بیان ایسی غیر معمولی چیزیںتھی کہ شاہزادی بلغان خاتون نہانا بھی بھول گئی۔ حسین کے واپس جاتے ہی پھر اپنی خواب گاہ کی طرف پلٹ گئی۔تنہا بیٹھ کے خط کو کھولا اور نہایت توجہ و مستعدی سے پڑھنے لگی۔مضمون حسب ذیل تھا: " او غم زدہ اور نیک دل شاہ زادی! تو اپنے باپ کے غم میںمبتلا ہے جو باطنین کے فدائی دیدار کے ہاتھ سے نہایت دغا بازی سے قتل ہوا۔مجھے تیرے رنج و الم سے ہم دردی ہے اور اسی لیے اپنے منصب کے خلاف تجھے خبر دیتی ہوں کہ دیدار یہاں التمونت میںبیٹھا جنت کے مزے لوٹ رہا ہے۔اگر اپنے باب کا انقا م لینا چاہتی ہے ،اگر اس جنت کا لطف دیکھنا چاہتی ہے ،اگر دنیا کے پردے سے ایک بہت بڑا فتنہ دور کرنا چاہتی ہے تو اسی حسین کے ساتھ جو میرا خط لایا ہے، اور جو جنت کی زیارت کے شوق میں عقل و ہوش بلکہ دین و ایمان تک کھو چکا ہے ،کوہ البرز کی وادی میںمیری تربت پر آ؛ قبر کے پتھروںکو میں الٹ،اُس کے نیچے تو میرا دوسرا خط پائے گی جو تیری رہبری کرے گا اور تو اپنے باپ کے انتقام کے ساتھ ایک بہت بڑے طلسم کو توڑ کے دنیا کا سب سے بڑا راز کھولے گی۔اس وقت تجھے معلوم ہو جائے گا کہ دنیا اور ملاء اعلیٰ میں کتنا فرق ہے۔حسین سے تو اس کے حالات پوچھ سکتی ہے جس سے تجھے معلوم ہو گا کہ اس کے دل پر اس فردوس بریںکا کتنا اثر ہے جہاںمیںہوں۔یہی جنت میںتجھے بے منت دکھاؤںگی۔اور تیری مجرم تیرے ہاتھ میںہو گا۔مگر خیال رہے کہ رمضان کی صبح کو تو میری تربت پر موجود ہو۔اس کے ساتھ یہ بھی ضرور ہے کہ کافی تعداد میںایک تاتاری لشکر بھی تیرے قریب ہی موجود رہے۔لیکن میری قبر پر تجھے اپنے ساتھ میں چار آدمیوںسے زیادہ گروہ کو نہ لانا چاہیے۔ میوی نشین۔۔زمرد" بلغان خاتون کے حق میں یہ خط کسی جادو یا تسخیر کے تعقیذ سے کم اثر نہ رکھتا تھا جس کو پڑھتے پڑھتے کبھی وہ انتہا سے زیادہ غضب ناک ہو جاتی اور کبھی کسی خاص مگر حیرت و خیال سے اس کے دل کو گونہ تسکین ہو جاتی اور تعجب کی کوئی انتہا نہ تھی۔اس نے خط کو اول آخر تک کئی مرتبہ پڑھا اور کچھ سوچنے لگی،پھر پڑھا اور پھر غوطے میںآ گئی؛ پھر پڑھا،پھر متفکر چہرہ بنا یا اور نازک گلابی رخساروںکو ہاتھ پر رکھ کے سوچنے لگی۔ آخر دیر تک تردد و انتشار کے بعد اُس نے حسین کو اپنے سامنے بلوایا اور پوچھنے لگی: " تم جانتے ہو اس خط میں کیا لکھا ہے ؟" حسین: نہیں، مجھے ایک لفظ کی بھی خبر نہیں۔ یہ جواب پا کے بلغان خاتون نے متجسس نگاہ سے حسین کو گھور کے دیا ا اور پوچھا: " تم مذہب باطنیہ کے پابند ہو؟" حسین: (ڈر کے )جی ہاں۔ بلغان خاتون: تم نے جنت کی بھی سیر کی ہے ؟ حسین: ایک بار دیکھا ہے اور دوبارہ دیکھنے کی ہوس ہے۔ بلغان خاتون: اچھا تمھاری یہ ہوس پوری ہو جائے گی، مگر کیا تمھارا شمار بھی فدائیوں میںہوتا ہے ؟ حسین: البتہ! یہ جواب سن کے بلغان خاتون نے حسین کو پھر گھور کے دیکھا اور پوچھا: "توتم نے کتنے لوگوںکی جان لی ہے ؟" حسین: صرف دو شخصوںکی۔ مگر بہت بڑے بڑے شخص،جن کے قتل کرنا مجھے بھی افسوس ہے۔ بلغان خاتون: ان پر خنجر چلاتے وقت تمھیں ترس نہ آیا؟ حسین: آیا تھا،مگر مرشد کے حکم سے میں انحراف نہ کر سکتا تھا۔ بلغان خاتون: (تعجب سے ) مرشد کے حکم سے اتنے بڑے گناہ کا ارتکاب کر لیےر میںکیاتمھیں اپنے نیک و بد کا بھی خیال نہیں آتا؟ حسین: نیک وہ بد ہمیںنظر ہی کب آ سکتا ہے ؟ ہم ہر چیز کے ظاہر کو دیکھتے ہیں اور شیخ کی نگاہں باطن پر ،یایوںکہنا چاہیے کہ اصلی حقیقت پر پڑتی ہیں۔ بلغان خاتون: اگر مرشد کنویںمیںگرنے کو کہے تو تم گر پڑو گے ؟ حسین:بلا تامل! یہی ہمارا پہلا عقیدہ اور پہلی ریاضت ہے۔مرشد جس خوبی کو دیکھ کے حکم دیتا ہے اس کے سامنے برائی یا مضرت کی کوئی ہستی ہی نہیں جو ہیں نظر آتی ہے۔ بلغان خاتون: زمرد سے تم سے کیوںکر مفارقت ہوئی؟ حسین: میںمنع کرتا رہا،اس نے مانا نہیں اور کوہ البرز کی اس گھاٹی میں چلی گئی جہاںکبھی کبھی پریوںکا گزر ہوتا ہے۔ہمارے جاتے ہی پریاںبھی آ پہنچیں۔ انھونے آتے ہی اسے مار ڈالا۔ اس کی وہاں قبر بنا دی جس پر میں مدتوںآہو زاری کرتا رہا۔شہادت نے زمرد کو فردوس بریںمیں پہنچا دیا اور میںقبر پر پڑا اپنی موت کا منتظر تھا کہ زمرد نے فردوس بریںسے ایک خط بھیج کے مجھے فرقۂ ناجی باطنیہ میںداخل ہونے کی ہدایت کی اور اپنے پاس پہنچنے کا طریقہ بتایا۔اس کی ہدایتوںکے مطابق عمل کر کے میں ایک بار ا س کے دیدار سے شرف یاب ہو چکا ہوں،مگر افسوس! پھر ملنے کی امید نہیں۔اب دوبارہ یہ کوشش اسی کی زیارت کے لیے آپ کے ذریعے سے شروع ہوئی ہے، مگر چوں کہ مجھے کچھ پوچھنے کی اجازت ہیں لہٰذا میںآُ کے سامنے اپنی کوئی آرزو بھی پیش نہیں کر سکتا۔ بلغان خاتون حسین کو اس سادہ مزاجی پر حیرت سی ہوئی؛ وہ کسی قدر مسکرائی اور کہا: " بے شک تم اپنی آرزو میںبارمراد ہو گے اور تمہاری تمنا بر آئے گی۔لین مجھے بھی اسی مقام تک پہنچا دو جہاںزمرد کی قبر ہے اور جہاںتم کہتے ہو پریوںکا نشیمن ہے۔" حسین: اس امر کا تو مجھے وہیںسے حکم ہو چکا ہے ‘شاہزادی جس تشریف لے چلیں، یہ غلام ہم رکاب ہو گا۔ بلغان خاتون: حسین:اگر میںکسی شخص کے قتل کرنے کو کہوںتو تم اسے قتل کر ڈالو گے ؟ حسین: بے شک!بشرطیکہ اس کے قتل کرنے میںکوئی مضائقہ نہ ہو۔ بلغان خاتون:یہ قید تم مرشد سے بھی لگاتے ہو؟ حسین: نہیں،مرشد کے تعلقات مرید کے ساتھ اور قسم کے ہیں۔اُن کے ہاتھ میں مرید کو ایک بے جان آلے کی طرحرہنا چاہیے۔ بلغان خاتون: خیر تواب میںسفر کا سامان کرتی ہوں،تم بھی تیار ہو جاؤ۔ حسین: میں ہر وقت تیار ہوں۔ یہ کہہ کے شاہزادی نے حسین کو رخصت کیا اور خود حمام میںگئی۔مگر ا س کی حیرت کسی طرحکم ہونے کو نہ آتی تھی۔لوگ اس کے مزاج میں کوئی غیر معمولی تغیر پاتے تھے جس کے متعلق ہر شخص سوال کرتا مگر وہ خاموش تھی اور حیرت زدہ۔دوسرے دل علیالصباح اس نے ایک سانڈنی سوار کو اپنا ایک خط دے کے کسی طرف روانہ کیا اور کود بھی روانگی کا سامان کرنے لگی۔مگر اس کے لیے ضرور تھا کہ اپنے ابن عم اور شہنشاہ ترکستان منقو خاں سے اجازت حاصل کرے ،جس کے لیے وہ ایک ترددمیںتھی۔ ) منقو خاں کو بلغان خاتون کا ابن عم کہا گیا ہے اور چغتائی خاں کی بیٹی۔اس طرح وہ منکو خاں ،قبلائی خاں،ہلاکو خاں (پسران تولی خان) کی چچا زاد بہن ہوئی۔ تاہم تاریخمیںیہ کردار نہیں ملتا۔ شرر کا یہ کردار فرضی ہے۔)