فروغ حسن میں کیا بے ثبات دل کا وجود

فروغ حسن میں کیا بے ثبات دل کا وجود
by نوح ناروی
331241فروغ حسن میں کیا بے ثبات دل کا وجودنوح ناروی

فروغ حسن میں کیا بے ثبات دل کا وجود
وہ آفتاب یہ شبنم وہ آگ یہ بارود

زہے مدارج و عرفان و لطف بزم شہود
ہمیں ہیں عبد ہمیں عبدیت ہمیں معبود

وہ بار بار محبت سے ذکر خیر کریں
شہید غم کی یہی فاتحہ یہی ہے درود

سواد شام محبت ہے دود بے آتش
طلوع‌ صبح تمنا ہے آتش بے دود

بلطف‌ و عیش و نشاط جہاں مشو نازاں
دریں سرائے‌ عدم آشنا چہ ہست و چہ بود

نگاہ ناز کے جوہر یہ پائے کیا ممکن
فغاں بھی تیغ ہے لیکن ہے تیغ زنگ آلود

اٹھی گھٹا کی طرح چھا گئی فضا کی طرح
حدود حسن میں تاثیر عشق نامحدود

خدا کے جلوۂ‌ قدرت کا پوچھنا کیا ہے
جدھر جدھر نظر اٹھی ادھر ادھر موجود

طریق عشق میں کیوں بار غم اٹھائے نہ دل
اسی پہاڑ کے نیچے ہے منزل مقصود

تلے ہیں پھر مہ و انجم مجھے ستانے پر
دل حزیں وہی اک نالۂ فلک پیمود

غضب ہوا کہ مقدر مجھے وہاں لایا
جہاں سکون بھی ناپید لطف بھی مفقود

رہا یہ اپنی حیات و ممات کا عالم
کبھی وجود عدم تھا کبھی عدم تھا وجود

نگاہ ناز میں دل کا کچھ اقتدار نہیں
اگر ابھی ہے یہ مقبول تو ابھی مردود

حواس و ہوش فرشتوں کے جس سے رہ نہ سکیں
فضا میں گونج رہا ہے وہ نغمۂ داؤد

بڑھائے وادیٔ حسرت میں کیا قدم کوئی
کہ خضر راہ بھی گم اور راہ بھی مسدود

فروغ حسن تغیر پسند کچھ بھی نہیں
ضیائے کرمک شب تاب کی ہے کوئی نمود

یہاں ادائے‌ فرائض کی صورتیں ہیں جدا
نماز عشق میں واجب نہیں رکوع و سجود

پیام مرگ بھی پہنچا نوید زیست کے ساتھ
جو اتفاق سے امرت ملا تو زہر آلود

وفا‌ و عشق کی دشواریاں خدا کی پناہ
عجب عجب ہیں شرائط عجب عجب ہیں قیود

تصرفات محبت کے سب کرشمے ہیں
نہیں تو کیوں ہو تصدق ایاز پر محمود

عدم سے آئے تھے ہم اور پھر عدم کو گئے
یہ ہے حقیقت قبل از وجود و بعد وجود

ترا قلق بھی ترا درد بھی ترا غم بھی
ہمارے عشق کے اتنے گواہ ہیں موجود

خدا کرے کہ نہ دعویٰ کریں خدائی کا
سنا تو ہوگا بتوں نے نتیجہ‌ٔ نمرود

بشر کو قوت احساس نے خراب کیا
جو یہ نہ ہو تو جہاں میں نہ پھر زیاں ہے نہ سود

رہ طلب میں قدم ڈگمگائے جاتے ہیں
سنبھال یا مرے اللہ یا مرے معبود

نگاہ کرد ز‌ قہر و عتاب فتنہ گرے
بایں توقف اندک حواس و ہوش ربود

جمال شاہد مطلق سے جس کو مطلب ہے
وہ دل سعید نظر اسعد آرزو مسعود

جناب نوحؔ کو طوفان غم سے خوف نہیں
کہ اختیار میں ان کے ہے کشتیٔ مقصود


This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.