296770فسانہء مبتلا1885ڈپٹی نذیر احمد

ہمارے نزدیک دنیا جہان کے نزدیک تو جڑ بنیاد سے کٹ گئی۔ جس گھر سے رقعے کی واپسی کا مذکور ہے اس گھر کی عورتیں ایسی ملنسار تھیں کہ سارے شہر میں ان کا رسوخ چلتا تھا۔ کہیں شادی بیاہ ہو۔ کوئی دوسری تقریب ہو، ان کے یہاں ضرور بلاوا آتا اور یہ بھی اپنے یہاں کی چھوٹی بڑی تقریب میں سبھی کو بلاتے۔ سبھی کو یکساں پوچھتے تھے۔ ان عورتوں نے ضد میں آکر مبتلا کا اچھی طرح خاکہ اڑایا اور سارے شہر میں بھی خوب ڈھنڈورا پیٹا اور رسوا کیا۔

غرض اس گھر کے بگاڑنے رہی سہی اور بھی آس توڑ دی۔ اب شہر میں مبتلا کی نسبت ناتے کا ہونا محال تھا۔ بہت قریب کے رشتہ داروں میں جس قدر بیٹیاں تھیں۔ مبتلا تھے تو بڑے لاڈلے دودھ پی پی کر ان سب کو رضاعی بہنیں بنا چکے تھے۔ مبتلا کے نزدیک و دور کے رشتہ داروں میں وہی مثل تھی۔

ازیں سوراندہ وزاں سودر ماندہ۔ اب صرف ایک گھر رہ گیا کہ ہو تو وہیں ہو ورنہ مبتلا ساری عمر کنوارہ پھرے۔

مبتلا کی پھوپھی دلی سے دس بارہ کوس سید نگر میں بیاہی ہوئی تھیں۔ وہ لوگ زمیندار تھے مگر زمینداروں میں سربر آوردہ بڑے بڑے سالم چھ گاؤں کے مالک۔ ان کے بزرگ تو مہمان داری اور مسافر نوازی اور داد و دہش میں دور دور مشہور تھے۔ مگر اب کثرت پٹی داری کے سبب نہ ویسی آمدنی تھی نہ وہ دل، قریب شہر کی وجہ سے رعایا شوخ، حصہ داروں میں طرح طرح کی تکراریں، غرض ہمیشہ ان میں دو چار آدمی مقدموں کی پے روی کے لیے شہر میں موجود رہتے تھے۔

جس طرح دائم المرض اپنی دوا کرتے کرتے حکیم ہو جاتا ہے اسی طرح یہ لوگ مقدمے لڑتے لڑتے ایسے قانون دان ہو گئے تھے کہ بیرسٹروں کو مات کرتے، وکیلوں کی کچھ حقیقت نہ سمجھتے، ڈھونڈ ڈھونڈ کر لڑائیاں مول لیتے اور تلاش کر کے جھگڑے خریدتے، قرب و جوار میں یہ لوگ ایسے لڑاکو اور جھگڑا لو مشہور تھے کہ لوگ ان سے رشتہ ناطے کرتے ڈرتے تھے۔ رقعہ کا پہنچنا تو بہت بڑی بات تھی۔

اگر ان کے یہاں جھوٹوں بھی تذکرہ ہوتا اور چاہتے تو سچوں سر ہو جاتے اور کچھ ایسے قانونی اڑنگے لگاتے کہ کسی کی ایک نہ چلتی مگر مبتلا کو کوئی دوسرا گھر نہ تھا۔

خدا نے ایسا ان کے غرور کو ڈھایا کہ کس کا پلنگ اور کہاں کا دیکھنا بھالنا۔ مبتلا کی ماں گئیں اور منگنی ٹھہرا کر کان دبا کر چپکی چلی آئیں اور اگر ذرا بھی چیں چپڑ کرتیں تو فوجداری کے استغاثوں اور دیوانی نالشوں کے مارے ہوش بگڑے جاتے۔ اب مبتلا کی منگنی کو منگنی نہ سمجھو بلکہ بیچ ڈالنا یا غلام بنا دینا یا عمر قید۔ سمدھیانے تو برابر ہی کے اچھے ہوتے ہیں۔ خیر اٹھارہ بیس تک کے فرق کا بھی مضائقہ نہیں مگر یہاں تو سید نگر والوں کی اس قدر ہیبت چھا رہی تھی کہ جیسے کسی بڑے جابر کوتوال کی۔ ادھر سے حکم ہوتے تھے، ادھر سے تعمیل۔ اُدھر سے فرمائش ادھر سے بجا آوری۔ ادھر سے ناز ادھر سے نیاز۔

بعد چندی انہوں نے کہلا بھیجا کہ اگلا مہینے کی دسویں کو اس طرح سازو سامان کے ساتھ بارات یہاں پہنچے سو ویسا ہی ہوا۔ بیس ہزار روپیہ کا مہر ماننا ہو گا اور مان لیا ہزار روپیہ جوڑے چڑھاوے کا نقد دینا ہو گا اور دیا۔ پچیس روپے مہینہ پٹاری کا خرچ لکھوانا چاہا اور لکھوا لیا۔ مگر بات یہ ہے کہ سید نگر والوں نے بیٹی کو دیا بھی تو اتنا کہ سونے کا پلنگ تو نہ تھا۔

شاید ان کے ہاں کا دستور نہ ہو گا۔ مگر گلے اور کانوں او رسر کا سارے کا سارا زیور دوہرا ملا جڑاؤ الگ، شادی بیاہ اپنے نام کے مطابق کیا۔ دلّی میں اتنا جہیز ملنا مشکل تھا لوگ باہر کی سوبھا اور مال و اسباب کی فہرست دیکھ کر پانچ ساڑھے پانچ ہزار کا جہیز آنکتے تھے، اوپر کا خرچ الگ۔ سو گھر کا دھڑیوں گھی اور منوں غلہ زمینداروں کے یہاں اس کا حساب کیا۔

انیسویں برس مبتلا کا بیاہ ہوا جہیز کے اعتبار سے تو دلہن بہت اچھی پائی۔ ذات جماعت کچھ پوچھنی نہ تھی سگی پھوپھی کی بیٹی۔ رہی صورت کوئی خاص چیز تو چنداں بری نہ تھی بلکہ الگ الگ دیکھو تو رنگ بھی گوارا نہیں تو کھلتا ہوا۔ آنکھ، ناک، دہانہ، ماتھا، مانگ کسی میں کوئی خاص عیب نہ تھا۔ ہاں چہرے کی مجموعی بناوٹ میں خدا جانے کیا بات تھی۔ نزاکت اور جسم میں جامہ زیبی نہ تھی۔

ہزار بیبیوں میں بیٹھی ہو تو صاف پہچان پڑتی کہ باہر کی ہے اور سچ تو یہ ہے کہ مبتلا کے پہلو میں رہی سہی اور بھی بے رونق معلوم ہوتی تھی جن دنوں مبتلا کا بیاہ ہوا وہ اپنے آپے نہ تھا۔ نشہ شباب میں سرشار اور بدمست سیر تماشوں میں منہمک۔

وہ اپنے بیاہ برات کی خبر سن کر خوش ہوتا تھا۔ مگر صرف اس لیے کہ ناچ دیکھنے میں آئیں گے۔ شادی کی تیاری دیکھ کر مسرت ظاہر کرتا تھا۔

مگر اس غرض سے کہ گانا سنیں گے، وہ اگر سمجھ کو کام میں لاتا تو اس کی سمجھ زیبا تھی اور جان سکتا تھا کہ بیاہ کیا چیز ہے اور بیاہ سے کس طرح کی ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں مگر وہ دنیا کے کام میں مطلق غور کرتا ہی نہ تھا۔ اس نے ایک لمحے کے لیے بھی بیاہ کے انجام کو نہ سوچا۔ اس نے نکاح کے وقت ”قبول“ کچھ ایسے کہا گویا کہ کھیل ہے۔ اقرار نامہ پر دستخط کیے کہ جیسے یہ ہنسی ہے۔

اس کو بی بی کی طرف ملتفت ہونا چاہیے تھا اور ملتفت ہونے کی اس کی عمر بھی تھی مگر اس کی آنکھیں ڈھونڈتی تھیں نازو کرشمہ غمزہ و ادا مٹک چٹک وہ شریف زادیوں میں کہاں اور خصوصاً دیہات کی شریف زادیوں میں۔ پس اس نے بی بی کو دیکھا، ناپسندیدگی سے استکراہ سے اور ناخوشی سے اور بی بی کے ساتھ اس کی لشٹم پشٹم گزرتی گئی اور آپس میں ویسی محبت و موانست پیدا نہ ہوئی جیسے نئے بیاہے ہوئے دولہا دلہن میں ہونی چاہیے اور عموماً نہیں تو اکثر ہوا بھی کرتی ہے۔

علاوہ اس کے مبتلا کو ابھی اپنی ہی پرداخت سے فرصت نہ تھی۔ سو دلہنوں کی ایک دلہن تو وہ آپ بنا تھا۔ بناؤ سنگھار میں ہر دم مصروف، زیب و زینت میں ہر لمحہ مشغول وہ خود اپنی حسین صورت پر اس قدر فریفتہ تھا کہ آئینہ دیکھنے سے کبھی اس کو سیری ہی نہیں ہوتی تھی۔ اس کو یہاں تک خبط نے گھیر رکھا تھا کہ راستہ چلتا تو مڑ مڑ کر اپنے سائے کو دیکھتا جاتا۔