296808فسانہء مبتلا1885ڈپٹی نذیر احمد

تیرہواں باب: میر متقی کا مبتلا کو سمجھانا

پچھلے بیانات سے بخوبی ظاہر ہو گیا ہو گا کہ غیرت بیگم کے جتنے معاملات تھے، سبھی تو خدا نے میرمتقی کے ہاتھ سے درست کرائے اور کیسی عمدگی اور خوش اسلوبی کے ساتھ کہ نہ لڑائی نہ جھگڑا نہ غصہ نہ فساد نہ غل نہ شور۔ تنخواہیں بھی جاری ہو گئیں مکانات اور دکانات کا بھی انتظام ہو گیا ناظر جیسے موذی کے پنجے سے حصہ زمینداری بھی چھٹا جس کے چھوٹنے کا کسی کو سان گمان بھی نہ تھا مگر ابھی غیرت بیگم کا سب سے بڑا معاملہ باقی تھا یعنی اس کے شوہر مبتلا کی اصلاح اس کی آوارگی کا علاج اس کی بدوضعی کی روک تھام۔

عورت جب بیاہی گئی تو میاں ہی سے اس کا آرام میاں ہی سے اس کا عیش اور میاں ہی سے توقیر ہے اور میاں ہی سے اس کا اعزاز و احترام، آپس میں پیار اخلاص ہو تو دنیا کی ساری مصیبتیں جھیلی جا سکتی ہیں اور جہاں دلوں میں محبت نہیں پہننے میں مزہ اور کھانے میں لذت نہیں دل میں امنگ نہیں سنگھار میں بہار نہیں پھولوں میں باس نہیں، مہندی میں رنگ نہیں۔

میرمتقی کچھ اس سے غافل نہ تھے مگر مبتلا کے بارے میں ان کو بڑی مشکل یہ پیش آرہی تھی کہ ان میں اور مبتلا میں کئی سبب سے اختلاط اور واشدگی کا ہونا ممکن نہ تھا۔ اول تو رشتہ کو میرمتقی مبتلا کے چچا باپ کی جگہ۔ دوسرے عمروں کی بڑائی چھٹائی کہاں میرمتقی پچاس پچپن برس کے بوڑھے اور کہاں مبتلا بیس برس کا پٹھا۔

تیسرے مبتلا کے ہوش میں میرمتقی کو دہلی آتے ہوئے یہ تیسرا پھیرا تھا ایسی صورت میں اجنبیت تو ہونی ہی چاہیے۔

چوتھے وضع میں عادات میں خیالات میں ایک کو دوسرے سے مطلق مناسبت نہیں، پس حال یہ تھا کہ میری متقی مردانے میں ہیں تو مبتلا زنان خانے میں۔ انہوں نے زنان خانے میں قدم رکھا ادھر مبتلا آہٹ پاتے جھٹ باہر نکل آیا۔ رات دن میں صرف دو بار چچا بھتیجے بضرورت کھانے کے لیے دستر خوان پر جمع ہوتے تھے۔ وہ بھی اسی طرح کہ مبتلا نے چچا کے سامنے جانے کے لیے ٹوپی اور کپڑے اور جوتی سب چیزیں سادہ اور بھلے مانسوں کے استعمال کی الگ کر رکھی تھیں۔

کھانے کے لیے طلبی آئی اور اس نے جلدی جلدی رگڑ رگڑ کر منہ دھویا، مونچھوں کو جن پر سارا سارا دن مالش رہتی تھی بل نکال کر سیدھا کیا پٹیوں کو ابھارا بالوں کی سج دھج کو بگاڑا کھانے کے نہیں چچا کے سامنے جانے کے کپڑے پہنے اور گریہ مسکین بن کر جھکے ہوئے نیچی نظر موٴدب دستر خوان پر جا بیٹھے پھر میرمتقی کا کھانا کوئی انگریزی ڈنر تو ہوتا ہی نہ تھا کہ کھانا میز پر آیا اور جتنے کھانے والے تھے۔

اپنی اپنی کرسیوں پر چرغنے لگے۔ دنیا بھر کی بکواس شروع ہوئی اور یہ بھی نہیں کہ کھانے کے ضمن میں باتیں کرتے جاتے ہوں بلکہ یہ کہو کہ باتوں کے ضمن میں کھانا بھی کھاتے جاتے ہیں۔ میرمتقی مولوی آدمی دور سے کھانا آتا ہوا دیکھ کر کسی شغل میں ہوں چھوڑ چھاڑ پہنچوں تک ہاتھ دھو بسم اللہ الرحمن الرحیم کہہ کر اکڑوں ہو بیٹھے کھانا کھایا مگر اس کو بھی عبادت سمجھ کر خیال یہ کہ آداب الطعام میں سے کوئی ادب ترک نہ ہو۔

پس ان کے دستر خوان پر بات چیت کا کیا موقع میرمتقی مستعجل کہ کم کھاؤں، مبتلا منتظر کہ اٹھ جاؤں، الغرض ایسا کوئی موقع ہی نہیں بن پڑتا تھا کہ چچا بھتیجے میں جی کھول کر باتیں ہوں مگر میرمتقی بلا کے تاڑنے والے تھے۔ انہوں نے اتنی دیر کی صحبت میں مبتلا کی حرکات و سکنات سے اس کی نشست و برخاست سے اس کی طرز عادت سے اتنا جان لیا اور ایسا پہچان لیا کہ مبتلا کے لنگوٹیے یار اور اس کے بھیدی اور راز دار بھی اتنا ہی جانتے ہوں گے۔

مبتلا اگرچہ ان کے سامنے اپنے آپ کو بہت ضبط کیے رہتا تھا مگر اسی دن کے لیے کہتے ہیں کہ آدمی بُری لت نہ ڈالے اور عادت کو بگڑنے نہ دے، مبتلا کو خبر تک نہ ہوتی تھی اور بے خیالی میں چچا کے سامنے اس سے کوئی حرکت ایسی سرزد ہو جاتی تھی کہ ہر روز ان کی نظروں میں اس کی قلعی کھلتی رہتی تھی مثلاً بیٹھے بٹھائے خود بالوں پر ہاتھ جا پڑا اور عادات کے مطابق لگا ؤہیں پٹیاں جمانے پھر جو ہوش آیا چچا کو کن انکھیوں سے دیکھ کھجانے کے حیلے سے بالوں کو بگاڑ سیدھا ہو بیٹھا یا کھاتے کھاتے ایک مرتبہ انگرکھے کی چولی کے شکن نکالے، لگاتن کر سینے کو دیکھنے اتنے میں چچا پر نظر جا پڑی اور جلدی سے پھر جھک کر ہو بیٹھا ایک مرتبہ تو اس نے کیا غضب کیا کہ خدا جانے کس خیال میں مستغرق تھا کہ آپ ہی آپ لگا گنگنانے مگر میرمتقی نے اس کو ایسے طور پر ٹال دیا کہ گویا سنا ہی نہیں۔

مبتلا اپنے دل کو یوں سمجھا لیا کرتا تھا کہ چچا نے دھیان نہیں کیا اگر کیا توآدمی سے ایسی لغو حرکتیں ہوا ہی کرتی ہیں۔اتنی ہی بات سے ان کا ذہن اس طرف کیوں منتقل ہونے لگا کہ پٹیاں جمانا یا اکڑنا یا گانا میری عادت ہے۔

لیکن یہ اس کی غلطی تھی میرمتقی کی آنکھ کبھی کسی چیز پر اچیٹی ہوئی پڑی ہی نہ تھی وہ جس چیز کو ایک نظر دیکھ لیتے اس کی تہہ تک پہنچ جاتے اور اس کے سبب کو دریافت کرتے، میرمتقی نے مبتلا کی حرکات سے آخر یہ استنباط کیا کہ اس میں دو عیب بہت بڑے ہیں۔

اول یہ مذہب سے اس کو مطلق سروکار نہیں، یہ جانتا ہی نہیں کہ خدا بھی کوئی چیز ہے اور آدمی اس کے بندے ہیں اس کو خبر ہی نہیں کہ آدمی کو کھانے اور سو رہنے کے سوا دنیا میں کچھ اور بھی کرنا ہے۔ دوسرے حسن پرستی اس کے نزدیک واحد قابل قدر چیز ہے۔ دولت، شرافت، حسب، نسب، علم، ہنر، سلیقہ، اخلاق، دین داری غرض دنیا کے سارے کمالات ہیچ ہیں صرف ایک حسن صورت قابل قدر ہے۔

اور بس میرمتقی کا ایک قاعدہ اور بھی تھا کہ بڑے دھیمے آدمی تھے۔ جب کسی خاص شخص کو نصیحت کرنا منظور ہوتا تو مدتوں اس کے حالات کی تفتیش میں لگے رہتے اور جب معلوم کر چکتے جس قدر معلوم کرنے کی ضرورت تھی تو ہفتوں غور کرتے کہ کس پیرائے سے اور کیسے وقت اس کو نصیحت کروں کہ موٴثر ہو اور یہی سبب تھا کہ ان کی نصیحت کبھی خالی گئی ہی نہیں۔ اگر ایک شخص تارک الصلوٰة ہے اور انہوں نے اس کو نماز کے لیے نصیحت کی تو پھر سفر یا مرض دنیا کی کوئی کیسی ہی ضرورت کیوں نہ ہو اس نے مدت العمر نماز کو قضا نہیں ہونے دیا یا اگر کوئی شخص منہیات شرعی میں کسی کا مرتکب ہے اور انہوں نے واعظ کہا تو پھر توبہ ہی کرا کے چھوڑی۔

غرض میرمتقی نے ایک دن موقع پا کر جوں ہی مبتلا کھانا کھا کر جانا چاہتا تھا اس کو روکا اور کہا کہ ذرا ٹھہرو مجھ کو تم سے کچھ کہنا ہے۔ مبتلا سمجھا کہ آج نماز گلے پڑی بیٹھ گیا تو میرمتقی نے فرمایا: اگرچہ مجھ کو تمہارے حالات بالتفصیل معلوم نہیں مگر جس قدر معلوم ہیں ان سے میرا خیال یہ ہے کہ تمہاری تعلیم جیسی درستی کے ساتھ ہونی چاہیے تھی نہیں ہوئی، تمہاری تعلیم کا عمدہ حصہ وہ ہے جو مدرسہ میں ہوا مدرسے کی تعلیم اس اعتبار سے کہ جو چیزیں پڑھائی جاتی ہیں دنیا میں بکارآمد ہیں بلاشبہ مفید ہے مگر افسوس بڑے سخت افسوس کی بات ہے کہ مذہب کی طرف بھول کر بھی کوئی توجہ نہیں کرتا، مذہب کو سلسلہ درس سے اس طرح نکال کر پھینک دیا ہے جیسے دودھ سے مکھی، جس سے لوگوں پر یہ ثابت ہوتا ہے کہ مذہب ایک فضول اور لایعنی چیز ہے اور دنیا میں اس کی مطلق ضرورت نہیں۔