فسانہء مبتلا/29
مبتلا: میں ایسا سمجھتا ہوں کہ اسی رغبت میں جس کا طبیعی ہونا آپ تسلیم کرتے ہیں۔ سراپا کو ایسا مدخل ہے جیسا غذا میں مسالے کو۔
عارف: بالکل غلط۔ مسالہ جزو غذا ہوتا ہے داخل غذا اور خود غذا۔
مبتلا: حسن کی نسبت آپ کی رائے تمام دنیا کی رائے کے خلاف ہے اور اگرچہ بادی النظر میں آپ کی دلیل لا جواب معلوم ہوتی ہے۔ مگر چونکہ فی الواقع ایک عالم فریفتہ حسن ہے اور ازاں جملہ میں بھی ہوں گو آپ کو قائل نہ کر سکوں۔
تاہم دل ہے کہ حسن کے تصور سے پگھلا جاتا ہے۔
عارف: اگر دنیا عبارت ہے ان لوگوں سے جن کو تمہاری طرح حسن پرستی کا خبط ہے تو بلاشبہ تمہارا کہنا درست ہے مگر زیادہ نہیں تو اپنی ہی معرفت کے مثلاً دس گھر معین کرو اور دیکھو کہ ان میں کتنے آدمی ہیں پھر ان میں اپنے جیسے عاشق مزاج منتخب کرو تب تم کو معلوم ہو کہ جنون عشق عالمگیر ہے یا نہیں اور ایک بات میں تم سے اور بھی کہتا ہوں کہ یہ تمام خرمستیاں پیٹ بھرے کی ہیں۔
دوسرے یہ روگ اکثر شہریوں ہی کو ہوتے دیکھا اور تم نے اپنے دل کا جو حال بیان کیا اس کو میں مانتا ہوں لیکن بُرا مت ماننا۔ مدرسے کے تمام طالب علموں میں تم سب سے زیادہ معروف و مشہور تھے مگر کس بات میں مدرسے کے چند آوارہ اور بد وضع نوجوان لڑکے تمہاری محبت کا دم بھرتے تھے اور انہوں نے گفتار سے کردار سے یہ بات تم پر ثابت کر دی تھی کہ تم بھی حسین ہو۔
آدمی قربہ شود ازراہ گوش سنتے سنتے وہ خیال تمہارے ذہن میں راسخ ہو گیا۔ جب خود جوان ہوئے اس خیال کا پیرایہ بدل گیا:
عاشق ہوئے ہیں آپ بھی ایک اور شخص پر
بارے ستم کی کچھ تو مکافات چاہیے
مبتلا: آپ مولوی ہو کر آداب مناظر کا لحاظ نہیں رکھتے۔ آپ کا دعویٰ یہ ہے کہ حسن کی نسبت لوگوں کے خیالات طبعی نہیں بلکہ شخصی ہیں اور اس دعویٰ کے اثبات میں آپ میری خاص حالت سے استدلال کرتے ہیں۔
دعویٰ عام ہے اور دلیل خاص۔ دنیا میں ہزار ہا آدمی حسن پرست ہیں تو کیا سب کی حسن پرستی کا یہی سبب ہو سکتا ہے کہ میری طرح وہ بھی حسین ہیں۔
عارف: تم نے اچھی طرح خیال نہیں کیا۔ جیسا میرا دعویٰ عام ہے۔ ویسی ہی میری دلیل بھی عام ہے اور تمہارا تذکرہ تمثیلاً تھانہ استدلالاً میری دلیل یہ ہے کہ حسن کی نسبت مختلف ملک کے باشندوں اور مختلف قوموں اور مختلف شخصوں کے مذاق مختلف ہیں اور اگر طبعی ہوتے تو مختلف نہ ہوتے۔
مبتلا: آپ کی دلیل کا خلاصہ یہ ہے کہ اتمتضاتِ طبیعت انسانی تمام دنیا میں یکساں ہیں۔ مگر میرے سمجھنے میں تو یہ بات درست نہیں معلوم ہوتی۔ میں دیکھتا ہوں کہ روئے زمین کے مختلف قطعات میں مختلف طور پر کی آب و ہوا اور مختلف طور کی پیداوار ہے اور آب و ہوا اور پیداوار کے اختلاف سے باشندوں کے طبائع کا مختلف ہونا ضروری ہے۔ چنانچہ بعض ملکوں کے لوگ آرام طلب ہوتے ہیں او ربعض کے جفاکش۔
بعض کے غصیلے زودرنج بعض کے متحمل اور بردبار، بعض کے بہادر دلیر بعض کے بزدل ڈرپوک بعض کے سیدھے سادھے بعض کے مفسد چالاک اور بایں ہمہ یہ سب خصائص طبعی سمجھے جاتے ہیں۔ اسی طرح حسن کی نسبت لوگوں کے مذاق چاہے مختلف ہوں مذاقِ حسن پھر بھی طبعی ہی کہا جائے گا۔
عارف: جن خصائص کے اختلاف پر تم مذاقِ حسن کے اختلاف کو قیاس مع الفازق کرتے ہو وہ خصائص طبعی اور کیمیائی ہیں۔
آب و ہوا اور غذا کی حرارت اور برودت اور رطوبت اور پیوست خون پر اثر کرتی ہے۔ گرم ملکوں کے لوگوں کے مسامات کشادہ، خون گرم اور رقیق اور اس کی گردش تیز اور سرد ملکوں میں اس کے بالکل خلاف اور یہی وجہ ہے کہ گرم ملکوں کے لوگ آرام طلب، غصیلے اور بزدل اور ذہین ہوتے ہیں۔ لیکن آب و ہوا کو اس طرح کا دخل مذاق حسن میں ہو نہیں سکتا اور اگر ہے تو اس کا ثابت کرنا تمہارا کام ہے۔
ہاں اگر یہ کہو کہ بعض گرم ملکوں کے لوگوں میں تو الدوتناسل کی رغبت جلد پیدا ہوتی ہے یا وہ لوگ اس رغبت پر زیادہ حریص ہوتے ہیں تو میں اس کو مانتا ہوں۔ کیونکہ مطلقاً اس رغبت کا طبعی ہونا مجھ کو تسلیم ہے، رہی عجلت اور حرص دونوں حرارت کے آثار کیمیائی ہیں۔ مگر ہر پھر کر وہی بات آئی کہ اس رغبت طبعی کو شاعروں کے سراپا سے کہ وہی حسن ہے کیا تعلق؟ میری سمجھ میں نہیں آتا کہ کوئی شخص دوسرے شخص کے کسی عضو کو بسبب بے غرض بے مطلب کیوں اچھا یا برا کہہ سکتا ہے۔
مثلاً تمہاری ناک سے اگر کسی کی کوئی غرض متعلق ہو سکتی ہے تو وہ تم ہی ہو کہ تم اس سے سونگھتے یا سانس لیتے ہو۔ اگر تمہاری ناک تمہارے کام اچھی طرح دیتی ہے تو وہ اچھی ہے مگر تمہارے لیے۔ میرا کون سا مطلب تمہاری ناک سے اٹکا ہے کہ میں اس کو اچھا یا برا سمجھوں اور یہی حال ہے تمام سراپا کا جس کے پیچھے رند نے جز کے جز سیاہ کیے ہیں۔ غرض تم کو دو باتیں ثابت کرنی چاہئیں۔
اول یہ کہ مذاق حسن تقاضائے طبیعت انسانی ہے۔ دوسرے یہ کہ توالدوتناسل کی رغبت طبعی میں اس کو دخل ہے۔
مبتلا: کبھی تو میں اس بات کو سوچ رہا ہوں کہ لوگوں میں مذاقِ حسن مختلف کیوں ہیں؟
عارف: میں نے ان باتوں کو برسوں سوچا ہے۔ آخر اس بات سے دل کو تسلی ہو گئی کہ حسن صورت فی نفسہ کوئی چیز نہیں پھر یہ خیال پیدا ہوا تو کہاں سے پیدا ہوا۔
پہلے ذہن اس طرف منتقل ہوا تھا کہ شاید حسن کا ماخذ علم قیافہ ہو یعنی انسان کی روح اور جسم میں ایک تعلق ہے، ایسا کہ اعضاء کی ساخت اور وضع سے اس کے دلی خیالات اور اخلاق پر استدلال کیا جاتا ہے۔
لوگوں نے تجربے سے اس تعلق کو دریافت کر کے جمع کیا۔ علم قیافہ کے بڑے ماہر ہوتے ہیں۔ آدمی کے اعضاء کی بناوٹ سے اس کے خصائص طبیعت کو پہچان جاتے ہیں۔ عجب نہیں کہ اعضاء کی جو وضع محاسن اخلاق پر دلالت کرتی ہو۔ اس کو اچھا سمجھنے لگے ہوں۔ لیکن جن لوگوں کے حسن کا بڑا چرچا ہے۔ ان کو دیکھا تو من حیث الاخلاق سب سے بدتر پایا۔ معلوم ہوا کہ علم قیافہ تو حسن کا ماخذ نہیں ہو سکتا۔