296820فسانہء مبتلا1885ڈپٹی نذیر احمد

قریب تھا کہ بیگم تو اس کو صبر کر کے بیٹھ رہے۔ اتنے میں تو میرمتقی کو سنا کہ تشریف لے گئے۔ بیگم تو اس خبر کو سنتے ہی مارے خوشی کے اچھل پڑی اور اسی وقت سے لگی مبتلا کے انتظار میں بار بار مڑ مڑ کر دروازے کی طرف دیکھنے۔ ایک دن گزرا دو دن گزرے تین دن گزرے مبتلا کا پتہ نہیں۔ سمجھی کہ چچا نے ضرور بھتیجے کو کچھ پٹی پڑھائی۔ آخر جب اپنے اہل برادری کو سنا کہ حساب کتاب کو آنے لگے تو اس نے بھی کسی کے ہاتھ ایک رقعہ بھیجا کہ جامن یا بآں شورا شوری ویا بایں بے نمکی۔

اس قدر بے مروتی ایسی بے وفائی۔ کچھ قصور کوئی خطا۔ دل کے ایسے بودے اور ارادے کے اتنے کچے تھے تو اتنا ربط بڑھانا ایسا گہرا اختلاط کرنا کیا ضروری تھا از برائے خدا چند لمحے کے لیے تشریف لاؤ اور اپنی حقیقت مجھ کو سناؤ۔

میں خدانخواستہ کوئی بلا نہیں کہ چمٹ جاؤں گی۔ آپ کوئی بچے نہیں کہ پھسلا لوں اور اگر آپ کو آنا منظور نہیں تو مجھ سے وہاں پہنچنا کچھ دور نہیں:

تم جانو غیر سے جو تمہیں رسم و راہ ہو

ہم کو بھی پوچھتے رہو تو کیا گناہ ہو

مبتلا یہ رقعہ پڑھ کر غوطہ میں تھا کہ عارف اس کے سر پر آکھڑے ہوئے تھے۔

عارف کے چلے جانے کے بعد مبتلا نے رقعے کو پھر کئی بار پڑھا۔ وہ اس وقت جانے میں ہچکچاتا تھا مگر پھر اس نے سوچا کہ اگر میں نہ گیا تو بیگم خود چلی آئے گی۔ اس سے تو میرا جانا بہتر ہے۔ غرض دل خوب مضبوط کر کے بیگم کے گھر گیا مگر افسوس ہے کہ کچھ گھڑی کو گیا کہ بس اسی کے گھر کا ہو رہا۔ بیگم نے جو کئی مہینے کے بعد مبتلا کو دیکھا تو نہایت تپاک سے ملی۔

بس اس کا وہ تپاک ایک جادو تھا کہ مبتلا کی تو کیا حقیقت تھی۔ اس کے چچا باوا میرمتقی صاحب بھی ہوتے تو پھسلتے نہیں تو لڑکھڑا تو ضرور جاتے۔ دیر تک آپس میں گلے شکوے ہوتے رہے۔ آخر مبتلا نے شروع سے آخر تک میرمتقی کا آنا اور امور خانہ داری کی اصلاح اور ان کی نصیحت اور ناظر کی فضیلت اور میر صاحب کا تشریف لے جانا اور عارف سے معرفت کرانا اور عارف کا سمجھانا اور ارباب نشاط کا حساب کتاب ذرا ذرا بیان کیا۔

بیگم نے بہت ہی توجہ سے مبتلا کے قصے کو سنا اور کہا کہ اتنے دن برابر جو آپ کا آنا نہ ہوا۔ اس سے مجھے بڑی آزردگی ہوئی تھی اور میں نے مصمم ارادہ کر لیا تھا کہ آپ سے اخیر دو دو باتیں کر کے ضرور اس محلے سے اٹھ جاؤں گی۔ مگر اب جو آپ سے ساری حقیقت معلوم ہوئی۔ میرا جی بہت خوش ہوا اور اگر میں جانتی ہوتی تو ضرور میر صاحب کے ہاتھ پر بیعت کرتی۔ سبحان اللہ اچھوں کی اچھی ہی باتیں ہوتی ہیں۔

انہوں نے باپ سے بڑھ کر آپ کے ساتھ سلوک کیا۔ ان کے فرمانے پر چلو تو دنیا اور دین دونوں میں سرخ رو۔ میں تو خود آپ سے کہنے والی تھی کہ ان بیسواؤں سے ملنا اور یوں پیسے کو برباد کرنا اور یہ ہرجائی پن اچھا نہیں۔

مبتلا: مشکل یہ آپڑی ہے کہ بی بی کی طرف تو مجھ کو رغبت نہیں تو پھر آپ کسی طرح زندگی بسر بھی کروں یا نہ کروں۔

بیگم: بیاہتا بی بی سے اگر مرضی نہیں ملتی تو ایک اپنی مرضی کی بی بی کر لو۔

خدانخواستہ تم کچھ غریب نہیں ہو کہ دو بیبیوں کا خرچ نہ چلا سکو گے۔ مردوں پر تو خدا نے پابندی نہیں کی، ایک ایک کو چار چار کا حکم ہے۔

مبتلا: تم مجھ سے نکاح پڑھنے پر راضی ہو۔

بیگم: میں تو خود تم سے کہہ چکی ہوں کہ میں اس حالت میں رہنا پسند نہیں کرتی میں تو کوئی دن جاتا ہے کہ کسی نہ کسی کا دامن پکڑ کر بیٹھ رہوں گی اور اگر تم میری دست گیری کرو تو زہے قسمت مگر تم کو بہتیری مجھ سے بہتر ملیں گی۔

نکاح کرو تو ایسی کے ساتھ کہ پھر بی بی کی تمنا باقی نہ رہے بلکہ مناسب تو یہ ہے کہ نکاح مت پڑھاؤ چندے کسی کو آزماؤ۔

مبتلا: میں تو فکر کرتے کرتے تھک گیا اور سوچتے سوچتے میرا سر دُکھنے لگا۔ چچا باوا اور میاں عارف کی تو مرضی یہ ہے کہ میں ساری عمر رنج و غم میں گھل گھل کر مر جاؤں۔

بیگم: نوجِ دور پار نصیب دشمناں رنج کرے تمہاری بلا اور غم اٹھائے تمہاری پاپوش، دنیا میں بار بار جنم لینا نہیں اور جوانی کی عمر بھر چلتی چھاؤں ہے۔

جب اپنا ہی جی خوش نہ رہا تو دنیا کو لے کر کیا چولہے میں ڈالنا ہے۔

مبتلا: دل پر قابو نہیں چلتا۔ اس بی بی سے ممکن نہیں کہ مجھ کو انس ہو، چاروناچار دوسری بی بی تو کرنی ہی پڑے گی۔ اچھا تو آج کے آٹھویں دن۔

بیگم: بلکہ پندرہویں دن مگر ایک شرط ہے کہ ہست و نیست جو کچھ کہنا ہو تم خود آ کر مجھ سے کہنا ایسا نہ ہو کہ پہلے کی طرح بیٹھ رہو۔

مبتلا: نہیں کچھ ہی کیوں نہ ہو میں خود ضرور آؤں گا۔ بلکہ ہو سکا تو بیچ میں ایک دو پھیرے کروں گا۔

بیگم: قسم کھاؤ۔

مبتلا: تمہاری جان کی قسم۔

بیگم: میری جان تو تم ہو۔

مبتلا: اپنے سر کی قسم۔ یہ عہد و پیمان ہو کر بیگم سے رخصت ہوا مگر سچ پوچھو تو آج ہی کا جلسہ جلسئہ نکاح تھا۔ بیگم ایک بلا کی عورت اور اس کو بشرے سے دلی حالات کے معلوم کر لینے کا بڑا ملکہ تھا۔

آج کی ملاقات میں اس کو پورا یقین ہو گیا کہ مبتلا پر اس کا جادو چل چکا ہے اور اسی بھروسے پر اس نے آپ مہلت دی ورنہ وہ ایسا ڈھونگ ڈالتی کہ بے نکاح پڑھائے مبتلا جانے کا نام نہ لیتا۔ بیگم کے پاس یہ آج کا جانا مبتلا کے حق میں غضب ہو گیا۔ اس کو میرمتقی نے ایک حالت پر پایا اور انہوں نے اور عارف نے اس کو ٹھیل ٹھیل کر کچھ دور سر کا یا، آج وہ پھر اپنی جگہ پر عود کر آیا۔