296952فسانہء مبتلا1885ڈپٹی نذیر احمد

بیگم: لانا، ایک انگار کہ اس کم بخت ناشدنی کا منہ جلاؤں۔ نگوڑا، بدوں کا بد، گندی بوٹی کا بساندا شوربا۔ آخر اپنی اصالت پر آگیا۔ کنچنی کو اماں بنایا میرے سامنے۔ اگر پھر اس مردار کو اماں کہا ہو گا تو پکڑ کر زبان کاٹ ڈالوں گی۔ معصوم یہ سن کر آدھی دور سے پھر الٹا بھاگ گیا۔ نسبتی پیچھے دوڑی بھی مگر اب وہ کس کے ہاتھ آتا تھا ڈیوڑھی میں کھڑا ہوا، غیرت بیگم کے چڑانے کو پکار پکار کر چھوٹی اماں کہتا تھا اور جہاں غیرت بیگم نے دیکھا تو آڑ میں ہو گیا اور پھر ذرا سی دیر میں سامنے آکر چھوٹی اماں کہنے لگا۔

غیرت بیگم نے دالان میں سے بیٹھے بیٹھے جوتی کھینچ کر ماری مگر وہ ڈیوڑھی تک کیا پہنچتی۔ غرض معصوم کو جو دھن لگی تو غیرت بیگم کو اسی طرح گھڑی بھر تک دِق کرتا رہا اور پھر چھوٹے گھر میں جا گھسا۔

غیرت بیگم ہریالی کی ساری باتوں کو برائی پر ڈھال لے جاتی تھی۔ معصوم کے ساتھ جو ہریالی عام ماؤں سے اور خصوصاً غیرت بیگم سے بڑھ کر محبت کرتی تھی تو میاں کی خوشامد پر محمول کرنا شاید چنداں بے جا نہ تھا مگر ہریالی کی مخالفت میں غیرت بیگم کے خیالات ایسے بڑھے ہوئے تھے کہ اس کا بھی وہ دوسرا ہی مطلب لگاتی تھی اس کا مقولہ یہ تھا دیکھا نامراد کٹنی کو۔

کیسے معصوم کی للونپو میں لگی رہتی ہے اور مجھ کو یقین ہے کہ وہ ضرور اس کو مجھ سے تڑا کر رہے گی ابھی سے اس کو میری صورت سے بیزار کر دیا ہے۔ نہیں تو اتنے بچے ماؤں سے ایک لمحے کے لیے پرے نہیں ہٹتے اور معصوم کو تو اگر میں نہ بلاؤں کبھی بھول کر بھی ادھر کا رخ نہ کرے۔ بیگم کو تو الٹے سیدھے ہر طرح ہریالی کو الاہنا دینا منظور تھا۔ معصوم اگر کبھی بیمار ہوتا اور چھوٹے بچے اکثر بیمار ہوتے ہی رہتے ہیں۔

تو مصیبت یہ تھی کہ میاں کی ضد کے مارے دوا علاج کچھ نہ کرتی اور کہتی کہ جو کوئی دکھ ہو تو علاج کروں اس کو تو دشمنوں نے کچھ کر دیا ہے۔

اور دشمن کون یہی بغلی گھونسا۔ یہ کیا ہم میں سے کسی کو جیتا چھوڑے گی لیکن اگر میرے بچے کا بال بیکا ہوا تو کوٹھڑی میں کیا مار ماری تھی اگر جان سے نہ مار ڈالوں تو سید کی جنی نہیں۔ اور پھر اس کے حمایتیوں کو دیکھ لوں گی۔

ہریالی عجیب پس و پیش میں تھی۔ اگر معصوم کو نہیں آنے دیتی تو کہیں خود جو بے اولادی ہے جلتی ہے دیکھ نہیں سکتی اور آنے دیتی ہوں تو اس کی ذمہ داری کون کرے کہ بچہ بیمار نہ پڑے تو ضرور اچھا ہی ہو جایا کرے۔ پس ذرا بھی معصوم کا جی ماندہ ہوتا تو ہریالی کا کئی چلو لہو خشک ہو جاتا۔ انتظام خانہ داری کی یہ صورت ہوتی کہ آخر اس کو بھی تو صاحب خانہ کی توجہ درکار ہے۔

یہاں آپس کی کہا سنی تاک جھانک۔ لڑائی جھگڑ ے سے اتنی فرصت ہی کس کو تھی کہ انتظام کی طرف متوجہ ہوتا اور فرصت تھی بھی تو دلوں میں شوق نہیں۔ رغبت نہیں اطمینان نہیں امنگ نہیں۔ کسی کی بلا سے۔ کیا غرض پڑی تھی کہ یہ درد سرمول لے۔ خانہ داری میں سب سے بڑا انتظام کھانے کا کہ صبح بھی ہو اور شام بھی ہو سو کھانے کا یہ حال کہ بڑے گھر میں تو مبتلا نے کبھی پیٹ بھر کر کھانا کھایا ہی نہیں۔

میاں بی بی میں ناخوشی تو سدا کی تھی، تاہم کھانا دونوں ایک ہی دستر خوان پر کھایا کرتے تھے جس دن سے ہریالی نے الگ گھر کیا، غیرت بیگم نے میاں کے ساتھ بات چیت کرنی کیا چھوڑی بات چیت کے ساتھ کھانا اور کھانے کے ساتھ دیکھنا بھالنا نکالنا سب کچھ چھوڑ دیا۔ دوچار بار مبتلا نے منہ پھوڑ کر ہا بھی جواب ندارد۔ پس کھانا تیار ہوتا تو گھر کے نوکروں میں سے کسی نے میاں کا حصہ نکال کر لا آگے رکھ دیا۔

اس بے قراری کے ساتھ جو کھانا دیا جاتا تھا تو مبتلا کو اس قدر طیش آتا تھا کہ اگر کا بس چلے تو غیرت بیگم کو کچی اٹھا کر کھا جائے مگر وہ اپنا خون جگر پی کر چپ ہو رہتا تھا۔ ڈر کے مارے ذرا کی ذرا منہ جھٹلایا اور کھڑا ہو گیا۔ غیرت بیگم خود تو کبھی خبر نہیں لیتی تھی۔ اگر کبھی کوئی نوکر خدا کے واسطے کو کہہ بیٹھا کہ میاں تو پوری چپاتی بھی نہیں کھاتے تو بولتی اس مال زادی کے بغیر میاں کے حلق سے نوالہ کیوں اترنے لگا اور ان کو گھر کا کھانا کیوں بھانے لگا۔

غیرت بیگم جلتی تن کا مبتلا سے بدتر حال تھا وہ آپ ہی اپنے دل سے باتیں پیدا کرتی اور آپ ہی ان کی ادھیڑ بن میں دو دو وقت کھانا نہ کھاتی۔ نوکروں نے جو دیکھا گھر والے دو، میاں اور بیوی اور دونوں کو کھانے کی طرف مطلق رغبت نہیں۔ یہ لوگ بھی سستی اور بے پرواہی اور چوری اور طرح طرح کی خرابیاں کرنے لگے۔

نتیجہ یہ ہوا کہ خرچ تو ڈیوڑھا اور دونا بڑھ گیا اور برکت آدھی اور پاؤ بھی باقی نہ رہی غیرت بیگم کی طرف تو سویرے خاک اڑنے لگی چھوٹا گھر خیر یوں ہی لشٹم پشٹم چلا جاتا تھا۔

گھر کی عزت ہوتی ہے مردانے سے۔ اور مردانے کی رونق مردوں سے اور مردوں کے شوق کے اہتمام سے۔ مبتلا کبھی جس کا یہ حال تھا کہ بالوں میں تیل نہ پڑتا تو سر درد کرنے لگا۔ دن میں اگر چار مرتبہ گھر سے باہر نکلتا تو چار طرح کی پوشاک پہن کر۔ ایک چیز ایک جگہ سے بے جگہ رکھی ہوئی تو بے چین ہو جاتا فرش پر سلوٹ پڑی دیکھی اور تیوری پر بل پڑا۔ آندھی ہو مینہ ہو سردی ہو گرمی ہو چار گھڑی دن رہے گھوڑے کی سواری کبھی ناغہ ہونے نہیں دی۔

ہر چیز صاف ستھری قیمت انوکھی یا اب خانہ داری کے جھگڑوں نے اس کو اس قدر عاجز اور ناچار کر دیا تھا کہ اس کو اپنے تن بدن کا بھی ہوش نہ تھا۔ بال الجھ کر نمدہ ہو گئے ہیں۔ کسی کو دماغ ہے کہ کنگھی کرے۔ معلوم ہے کہ کپڑے میلے چکٹ ہو رہے ہیں۔ مگر بدلتے ہوئے آلکسی آتی ہے۔ چیز بے ٹھکانے پڑی ہے مگر کون زبان کو ہلائے کہ اس کو موقع سے رکھو۔ سفید چاندنی دھبے پڑ پڑ جا جم بن گئی ہے نوکروں کو توفیق نہیں کہ بدلیں، میاں کو خیال نہیں کہ بدلوائیں گھوڑا نسل ولائتی جس پر مکھی پھسلتی تھی۔

پٹھوں پر نالی پڑی ہوتی۔ سواری موقوف تھی لہٰذا تھان پر بندھے بندھے پانچواں عیب نکال لایا۔ بادی آدبایا۔ مالش میں ہوئی کمی اور دانے میں ہوئی چوری۔ تھوڑے دن میں پر تل کا ٹٹو معلوم ہونے لگا۔ سینکڑوں روپے کا اسباب صرف غور اور پرداخت کے نہ ہونے سے کوڑے کی طرح بے قیمت ہو گیا۔

غرض وہ لوگ کہاوت کہتے ہیں کہ دو ملا میں مرغی حرام دو بیبیوں کی کشمکش میں گھر کی مٹی ایسی پلید ہوئی کہ باہر سے لے کر اندر تک نکبت اور مفلسی اور بے رونقی چھا گئی ایک مدت تک غیرت بیگم کی طرف سے انواع و اقسام کے ظلم ہریالی پر ہوتے رہے اور بدلہ لینا کیسا اس کی اتنی بھی مجال نہ تھی کہ اف کرے۔

نام لے لے کر پکار پکار کر سنا سنا کر گالیوں کی بوچھاڑ برسا رکھی ہے اور کوسنوں کا تار باندھ دیا ہے۔ ہریالی دم بخود مگر کتنا صبر، کہاں تک برداشت، آخر اس کا منہ کھلا کہ لوگوں نے اپنے اپنے کان بند کر لیے۔ برکت، رونق، فراغت، عافیت، محبت، مروت سب کچھ غارت ہو کر ایک آبرو تھی لیکن اب وہ بھی محلے والوں کی نظر میں نہ رہی تھی۔ ہر وقت کی تھکا فضیحت میں وہ بھی گئی گزری ہوئی۔

کم بختیں اس بے ہودگی کے ساتھ آپس میں لڑتی تھیں کہ کنجڑنوں قصائنوں کو مات کر دیا تھا اور دھوبنوں بھٹیاریوں کو شرمندہ۔ غیرت بیگم تو کسی کے قابو کی تھی نہیں مگر ہاں ہریالی کو اگر مبتلا منع کر دیتا تو وہ بے شک باز آجاتی۔ پر غیرت بیگم کی طرف سے مبتلا کو ایسے ایسے رنج پہنچے تھے کہ روکنا کیسا وہ تو کبھی کبھی ہریالی کو اور اشتعالک دے دے کر اس کی آڑ میں اپنے دل کے جلے پھپھوے پھاڑ لیتا تھا۔ ان لوگوں میں جو باہمی رنجش اور عداوتیں تھیں، پہلے چند روز تک دل میں رہیں۔ بڑھتے بڑھتے دلوں سے منہ تک آئیں، اب وہ زیادہ ہوئیں تو پھوٹ کر ایسی بہیں جیسے کوہ آتش فشاں کا ملغوبہ۔ آگے آگے آپ اور پیچھے پیچھے تباہی اور بربادی۔