296970فسانہء مبتلا1885ڈپٹی نذیر احمد

ناظر کی بہن نے سوکن کو زہر دلوایا مگر وہ اتفاق سے بچ گئی کل حضور بھی واقع واردات تک چلیں ورنہ وکیل صاحب بڑے شورہ پشت اور ثقہ بدمعاش ہیں۔ ہم لوگوں کے قابو آنے والی آسامی نہیں۔ ادھر ناظر بہن کے پاس گیا تو دیکھا کہ مارے ہول کے دست پردست چلے آرہے ہیں۔ دیکھنے کے ساتھ ہوش ہی تو خطا ہو گئے اور سمجھا سب سے بڑا ثبوت تو خود ان کی حالت ہے۔ آخر بہن سے اتنا کہا کہ بڑے بھائی نے تم کو اس قدر ڈرا دھمکا دیا تھا۔

مگر تم نے نہ مانا اور جب عقل کی بودی طبیعت کی کچی ہمت کی ہیٹی تھیں تو ایسے کام پر تم کو جرأت کیونکر ہوئی بس اب تین پہر رات اور ہے صبح ہوئی اور تمہاری ڈولی کوتوالی چلی۔ بھائی کے منہ سے اتنی بات سن غیرت بیگم کو اور تو کچھ نہ سوجھا۔ بہت دن ہوئے تولہ بھر افیون منگوا کر صندوقچے میں رکھ چھوڑی تھی۔

دوڑی کوٹھڑی میں جا صندوقچہ کھول افیون کا گولا نگل، اوپر سے بھرا کٹورا پانی کا پی لیا۔

بتول کی انّا کو یہ حال معلوم تھا کہ انہوں نے صندوقچے میں افیون رکھ چھوڑی ہے۔ دالان کے ایک کونے میں بیٹھی ہوئی بھائی بہن کی باتیں سن رہی تھی۔ بیوی کو جو اس طرح گھبرا کر اندھیری کوٹھڑی میں جاتے ہوئے دیکھا جلدی سے بتول کو چارپائی پر لٹا پٹتی ہوئی بھاگی کہ اے ہے۔ خاک پڑے ایسے جھگڑے پر۔ لو اب تو دشمنوں کو ٹھنڈک پڑی۔ وہ بیوی نے افیون کھالی۔

اتنے میں تو غیرت بیگم بھی کوٹھڑی سے کہتی ہوئی نکلی کہ بھائی تم کچھ تردد مت کرو۔ مجھ بُری سے خدا نے تم سب کا پیچھا چھڑایا۔ صبح تک میں ہی نہیں رہوں گی۔ کوتوال کو اختیار ہے میرا مردہ لے جا کر کوتوالی میں دفن کرے۔ زہرخورانی کا ایک مقدمہ تو قائم تھا ہی اقدام خودکشی کا دوسرا اور ہوا۔ معصوم اور بتول دونوں کو گلے لگا کر ایسی بلک بلک کر روئی کہ گھر میں قیامت برپا ہو گئی۔

ناظر نے جو بہن کا بلبلانا دیکھا اور ساتھ ہی خیال آیا کہ بس یہ بھی دنیا میں تھوڑی دیر کی مہمان اور ہے پھر کہاں ہم اور کہاں بہن۔ اس کے سر پر ایسا جنون سوار ہوا کہ نہ پکارا نہ کنڈی کھڑکھڑائی نہ دستک دی نہ اجازت لی۔ منہ اٹھا سیدھا چھوٹے گھر میں جا گھسا۔ دونوں میاں بیوی سرجوڑ بیٹھے ہوئے خدا جانے کیا صلاحیں کر رہے تھے۔ مبتلا نے آہٹ پاکر دور سے ڈانٹا ایں ایں کیا بدتمیزی ہے۔

اندھے ہو تم کو معلوم نہیں کہ پردہ ہے۔ تب کی مرتبہ بہن کو مداخلت بے جا کی نالش پر آمادہ کرتے تھے۔ اب یہ مداخلت بے جا نہیں ہے۔ ناظر بولا کہ اللہ دے تیرا پردہ، نوسوچوہے کھا کے بلی حج کو چلی۔ یہی نالائق پردے والی بنی۔ پردے والی نے افیون کھائی اور دنیا جہان سے روپوش ہونے کی تیاری کی۔

مبتلا: الحمدللہ خس کم جہاں پاک مگر تم خیریت سے چلتے پھرتے تو نظر آؤ سامنے سے۔

پرے ہٹتے ہو یا میں اٹھ کر تم کو رستہ دکھاؤں۔ مبتلا کا اتنا کہناتھا کہ ناظر یا تو صحن میں تھا یا مبتلا کی چھاتی پر، پھر تو دونوں میں خوب کشتی ہوئی۔ ناظر دیہات میں پیدا ہوا۔ دیہات میں پلا ہاتھ پاؤں کا ڈھلا، گٹھیلا برسوں اکھاڑے کا لڑا ہوا بیسیوں داؤ یاد، پچاسوں گھاتیں معلوم، سینکڑوں پیچ رواں اور اب تک بھی دو وقت ڈنڈمگدر کبھی اس نے ناغہ ہونے نہیں دیئے۔

مبتلا بے چارے نازنین، میرپھوپھا مرزا مہین۔ ناظر نے وہ پٹخنیاں دیں اور ایسا ایسا رگڑا کہ آنکھیں نکل نکل پڑیں اور سانس اوپر کا اوپر اور نیچے کا نیچے۔ مبتلا کے پاس کل جمع تین حربے تھے، چٹکیاں لینا نوچنا کاٹنا سو ناظر کی پھرتی کے مقابلہ میں ایک بھی کارگر نہ ہوا۔ مبتلا کو اگر معلوم ہوتا کہ یہ کم بخت چھوٹا کھوٹا چھپا رستم ایسے غضب کا بچھا ہوا ہے تو کبھی بھول کر بھی اس سے دو بدو نہ ہوتا مگر اس کی تقدیر میں تو دو بیبیاں کر کے ہرطرح کی مصیبت اٹھانی لکھی تھی۔

چھوٹا سمجھ کر اس کو ایک ڈانٹ بتائی بیٹھے بٹھائے۔ ہریالی نے دیکھا کہ میاں کو ناظر گیند کی طرح اچھالے اچھالے پڑا پھرتا ہے یہاں سے اٹھایا اور وہاں دے مارا۔ ادھر سے اچھالا ادھر لاپٹکا، ایسی دہشت دل میں سمائی کہ اس کا حمل جس کے سبب سے اتنا سارا فساد پڑا ساقط ہو گیا۔ ناظر کیا مبتلا کو جیتا چھوڑتا وہ تو خدا کا کرنا عین وقت پر سید حاضر آپہنچے تو گھر میں مجموعہ تعزیرات ہند پھیلا پڑا ہے مگر کیا قائم مزاج آدمی تھا آتے کے ساتھ سب سے پہلے تو ناظر اور مبتلا کو چھڑایا پھر نمک ڈال بھر بھر لوٹے گرم پانی غیرت بیگم کو پلانا شروع کیا۔

غیرت بیگم اس طرح کی ضدی عورت تھی کہ اگر ساری دنیا ایک طرف ہوتی تو گرم پانی کا کٹورا منہ کو نہ لگانے دیتی مگر کچھ تو بڑے بھائی کا لحاظ اور ادھر چپکے سے کسی نے کان میں جھک کر کہہ دیا کہ مبارک ہو ہریالی کا حمل تو گرگیا بے عذر خوب ڈگڈگا کر پانی پی لیا۔ پانی کا حلق سے اترنا تھا کہ استفراغ ہوا اور استفراغ کے ساتھ کھٹ سے افیون کا گولا سموچے کا سموچا نکل کر الگ جا پڑا۔

ادھر ہریالی کی خدمت کے لیے دوہری دوہری دائیاں بلوائیں اور پھر مبتلا اور ناظر دونوں کو ساتھ لے جا کر بیٹھا کر ہر چند تم دونوں کی طبیعتیں اس وقت حاضر نہیں اور سچ تو یہ ہے کہ مزاج میرا بھی ٹھکانے نہیں مگر میں دیکھتا ہوں تو آدھی رات ڈھل چکی ہے۔

صرف سوا پہر کی مہلت ہے سامان تو بدقسمتی سے ایسا جمع ہوا ہے کہ اب آبروبچتی ہوئی نظر نہیں آتی اور جب آبرو پر بنی تو سب سے پہلے شخص جو جان دینے میں دریغ نہ کرے میں ہوں۔

دیکھو تو کتنے آدمی ہم لوگوں کے ملاقاتی ہیں مگر ہمدردی اور مدد تو درکنار۔ مرد عورت کوئی آکر بھی جھانکا، سچ کہا ہے گاڑی بھرآشنائی کام کی نہیں اور رتی بھرنا تاکام آتا ہے۔ بڑے سخت افسوس کی بات ہے کہ جب ناتے سے کام لینے کا وقت آیا تو تم لوگ آپس ہی میں لڑنے لگے۔ جس طرح پر تم دونوں میں لڑائی شروع ہوئی۔ میں سب سن چکا ہوں تم میں سے کسی کو مجھ سے توقع نہیں رکھنی چاہیے کہ میں ایک کو ملزم ٹھہراؤں اور دوسرے کو بری۔

جس طرح تالی ایک ہاتھ سے نہیں بجتی۔ اسی طرح لڑائی کبھی ایک کے لڑنے سے نہیں لڑی جاتی۔ میں تم دونوں کو برابر الزام دیتا ہوں لیکن رشتہ داروں میں اگر کسی بات پر چخ بھی ہو جاتی ہے تاہم ان کے خون ملے ہوئے ہیں وہ ظاہر میں جدا ہیں اور باطن میں ایک۔ غیرت بیگم کا افیون کھا لینا سن کر مبتلا بھائی کو منہ سے الحمدللہ کہہ دینا بہت آسان تھا لیکن جب غیرت بیگم کی مدت حیات پوری ہو اور خدا کرے کہ مبتلا بھائی اس کو اپنے ہاتھوں سے مٹی دیں تو دنیا میں سب سے بڑھ کر رنج کرنے والے بھی یہی ہوں گے۔

گھر کس کا برباد ہو گا ان کا۔ اولاد کس کی بے ماں کی ماری ماری پھرے گی، ان کی۔ کنبے والوں کا میل ملاپ کس سے چھوٹ جائے گا، ان سے بھلے مانسوں میں جو خانہ داری کے ساتھ ہوتی ہے یعنی تمدنی عزت وہ کن کی جاتی رہے گی ان کی۔ اس میں شک نہیں چھوٹی بھاوج کی وجہ سے دلوں میں بڑے فرق پڑ گئے ہیں اور پڑنے ضرور تھے مگر پھر بھی غیرت بیگم کی ناموس کا پاس ہمیں چھٹانک بھر تو مبتلا بھائی کو سیر بھی ہو گا۔

میں جانتا ہوں کہ مبتلا بڑے ضبط کے آدمی ہیں منہ سے نہیں کہتے مگر ان کے تلوؤں سے لگی ہے۔ ناظر کیا تم سے کوئی خیر کی توقع کرے گا جب تم ایسی مصیبت میں مبتلا بھائی کی مدد نہ کروں۔ ہزاروں مقدموں میں تم بہ طمع صلہ پیروی کرتے ہو اس ایک مقدمے میں صلہ رحم کو صلہ سمجھو اور میری خاطر سے اپنی بہن کی خاطر سے بھانجی کی خاطر سے غصے کو تھوک کر بچاؤ کی کوئی صورت نکالو اور تم، مبتلا بھائی! ازبرائے خدا رحم کرو۔

اپنے چھوٹے چھوٹے بچوں پر، بزرگوں کے نام پر، خاندان کی عزت پر، تم کو معاملات مقدمات کا کبھی اتفاق نہیں پڑا۔ کوتوالی والے مدت سے تم پر دانت لگائے ہیں۔ خدا جانے کس بلا میں تم کو پھنسا دیں گے۔ ناظر تمہارا خورد ہے۔ اگر اس نے بے تمیزی کی تو بہت بُرا کیا۔ جھک مارا۔ میں اس کی طرف سے معذرت کرتا اور تمہاری تھوڑی میں ہاتھ ڈالتا ہوں۔ جانے دو۔ معاف کرو۔ اس کے بعد ناظر کو پکڑ کر مبتلا کے پیروں میں گرایا اور ناظر اور مبتلا دونوں کو گلے لگوایا وہ دونوں بھی ایک دوسرے سے مل کر روئے۔ حاضر بہن کی تباہی کا تصور کر کے مغموم تو پہلے سے تھا۔ اب ان کو روتا ہوا دیکھ کر آپ بھی رونے لگا۔ جب سب کے دلوں کی بھڑاس نکل چکی تو حاضر نے ناظر سے پوچھا کہ کیوں بھائی اب کرنا کیا چاہیے؟