296976فسانہء مبتلا1885ڈپٹی نذیر احمد

چھبیسواں باب: مبتلا کی حالت زار اور موت

جس شخص کی پینسٹھ کی آمدنی جا کر ستائیس کی رہ جائے اور وہ بھی غیرمقرر۔ اسی کے دل سے پوچھنا چاہیے کہ اس پر کیا گزرتی ہو گی۔ مسلسل مصائب اور ہجوم افکار نے مبتلا کو اس قدر تنگ مزاج کر دیا تھا کہ دنیا کی کوئی چیز اس کو بھلی نہیں لگتی تھی۔

اس کو ہریالی کی لڑائی کا ایک بہانہ مل گیا اور اس نے دونوں گھروں کا جانا موقوف کر دیا سارے دن رات اٹوانٹی کھٹو انٹی لیے اکیال مردانے میں پڑا رہتا تھا نہ خود کسی کے پاس جاتا اور اپنے پاس کسی کے آنے کا روادار ہوتا۔ اگر اتفاق سے کوئی آنکلتا تو اس کی طرف مطلق ملطفت نہ ہوتا۔ اس رنج نے اس کو رہا سہا اور بھی رنجور کر دیا کہ دو دشمن اس کے اور تیار ہوئے۔

ناظر سے بڑھ کر معصوم اور غیرت بیگم سے زیادہ بتول۔ مبتلا اپنی طرف سے بہتیرا دونوں کو لپٹتا تھا مگر یہ دونوں اتنا بھی نہیں جانتے تھے کہ ہمارا باپ ہے جب سے ہوش سنبھالا کو سنا ہی سنا تھا، پس دونوں کے ذہن میں اس کی برائی ایسی راسخ ہو گئی تھی کہ ابا یا باپ کہنا کیسا۔ دونوں خاص طرح نام لیتے تھے۔ معصوم گالی کے اور بتول کوسنے کے ساتھ۔ مبتلا نے جب دونوں گھروں سے ملول ہو کر مردانے میں رہنا اختیار کیا تو اس نے یہ خاصی تدبیر سوچی تھی کہ اگر ہو سکے تو معصوم اور بتول دونوں کو ورنہ اکیلے معصوم کو خالی بیٹھا ہوا پڑھاؤ اور اسی طرح اپنا جی بہلاؤں مگر معصوم پٹھے پر ہاتھ تو دھرنے ہی نہیں دیتا تھا۔

مردانے مکان میں بے رونقی تو ہریالی کے ساتھ آچکی تھی۔ اب تھوڑے ہی دن میں خاک اڑنے لگی جس مکان میں عمدہ اسباب کے اٹم کے اٹم لگے پڑے تھے اب اس میں کیا رہ گیا ۔ چند جھلنگے، ایک کی چول ٹوٹی ہوئی ہے تو دوسرے میں ادوان نہیں، کسی کی پٹی لچکی ہوئی ہے تو کسی کے سیروے میں جان نہیں، شاید چھوٹی بڑی ملا کر چار یا پانچ چوکیاں وہ بھی بے جوڑا بوسیدہ بے مصرف۔

نوکروں میں صرف ایک وفادار سو وہ بھی کس طرح کہ یہاں سے تو اس کو کھانا تک نہیں ملتا تھا اور ملے کہاں سے۔

سو یہاں بے چارے کے پلے ٹکا نہیں، دن کو مزدوری کرتا اور رات کو یہاں کی پانیتی آکر پڑا رہتا۔ دنیا کا کوئی کام یا دین کا روزہ نماز ہو تو صبح و شام کا تفرقہ اور دن رات کا امتیاز ہو۔ مبتلا کو سب وقت یکساں تھے۔ اس کے سونے جاگنے کھانے پینے کسی بات کا کوئی وقت ہی مقرر نہ تھا۔

جب دیکھو منہ اوندھا کیے چارپائی پر پڑا ہے۔ معلوم نہیں سوتا ہے یا جاگتا ہے۔ اپنی تباہی کا خیال ہے کہ کسی وقت دل سے نہیں جاتا۔ جاگتا ہے تو اس کی سوچ ہے اور سوتا ہے تو اس کا خواب دیکھ رہا ہے۔ وہ کبھی اپنے پچھلے وقتوں کو یاد کرتا اور اس کے چہرے پر ایک طرح کی بشاشت آجاتی تھوڑی دیر بعد خودبخود یکایک چونک کر ادھر اُدھر دیکھنے لگتا اور پھر اس کے منہ پر مردنی سی چھا جاتی۔

غیرت بیگم اور اس کے علاقہ داروں سے یہاں تک کہ اپنے بچوں سے تو اس کو مطلق ناامیدی تھی۔ وہ خوب سمجھ چکا تھا کہ اب کسی حالت میں جیتے جی ان لوگوں سے صفائی کا ہونا ممکن نہیں۔ رہ گیا قطع تعلق اس کے لیے چاہیے ہمت جرأت اور یہی باتیں اگر مبتلا میں ہوتیں تو یہاں تک نوبت ہی کیوں پہنچتی۔ قاعدہ ہے کہ جس پر پڑتی ہے۔ اسی کی طبیعت خوب لڑتی ہے۔ رنجوں سے بچنے کا کون سا پہلو تھا جو مبتلا نے نہیں سوچا مگر جدھر جاتا تھا راہ نجات کو مسدود پاتا تھا۔

مارے غم کے وہ اس قدر نحیف و ناتواں ہو گیا تھا جیسے کوئی برسوں کا بیمار۔ شاید چھینکنے سے اس کو غش آتا اور کھانسی کے ساتھ اس کا سانس اکھڑ جاتا۔ اللہ رے غیرت بیگم عورت ذات ہو کر اس قدر سخت دلی اور اس بلا کا غصہ کہ مبتلا گھلتے گھلتے چارپائی سے لگ گیا اور اس نے بھول کر بھی خبر نہیں کی۔ ہریالی تھی تو رزالی پر خیر دکھاوا ظاہر داری جو چاہو سمجھو، بیسیوں بار تو اپنی ماما کو بھیجا اور آخر خود گئی ہر چند منت خوشامد کی مگر مبتلا تو اپنی زندگی سے ہاتھ دھوئے بیٹھا تھا ذرا نہ تپتایا۔

مبتلا خوب سمجھتا تھا کہ میں اس رنج سے جان بر نہیں ہو سکتا۔ اختلاج قلب تو اس کو مہینوں سے تھا۔ اب کسی وقت میں ایک طرح کا ہلکا ہلکا درد بھی اٹھنے لگا۔ تدبیر کچھ ہوئی نہیں لہٰذا دورے متواتر اور شدید ہونے لگے۔ آخر ایک دن ادھر آفتاب ڈوبتا تھا ادھر یہ بے کس و بے نصیب دل کے درد سے کھردری چارپائی پر نہ تکیہ نہ بچھونا، تڑپ کر سرد ہو گیا۔