فسانۂ عجائب/بیانِ جلسۂ شادی اُس وطن آوارہ کا


بیانِ جلسۂ شادی اُس وطن آوارہ کا انکار کرنا اُس مہر سیما، ماہ پارہ کا۔ ماں کا سمجھانا، اس کا شرما کے سر جھکانا۔ پھر سامان برات کا، مزہ لوٹنا پہلی رات کا


کدھر ہے تو اے ساقیِ گُل عِذار

مرا، غم سے، دل ہو گیا خار خار


پلا دے کوئی ساغرِ لالہ رنگ

جوانی کی لائے جو دل میں ترنگ


کہے کتنے صحرا نَوَردی کے رنج

بھلا کچھ تو شادی کا ہوں نغمہ سنج

سُرود سرایانِ بزمِ شادی و نغمہ پَردازانِ محفلِ عَروسی و دامادی، انجمنِ بیاں میں یہ زَمزَمَہ سَنْج ہوئے ہیں کہ جب جلسۂ عیش و طَرب سے فرصت سب کو ہوئی؛ ایک روز بادشاہِ جَم جاہ محل سرائے خاص میں جلوہ بخش تھا؛ بی بی سے خَلوت میں فرمایا کہ حُقوق اور اِحسان جیسے جان عالم کے ہمارے ذِمۂ ہمت پر ہیں، تمام عالَم جانتا ہے اور یہ بھی نزدیک و دور مشہور ہے کہ عشقِ انجمن آرا میں نا دیدَہ مبتلا ہو، سلطنت کھُو، یہاں آیا ہے اور کس مردانگی سے جادوگر کو مار، اُس کے پھندے سے چھُڑایا ہے۔ اِس کے قطعِ نظر، صورت، سیرت، خُلْق، مُروّت، ہمّت، جُرأت؛ یہ جتنی صفتیں ہیں، سب خالق نے عطا کی ہیں۔ حسب: عالی، نَسَب: والا۔ حُسن میں مہر و ماہ سے نِرالا۔ مُناسب کیا، ضَرورت ہے کہ جلد سامانِ شادی درست کر، مُنْعَقِد کرو۔ خدا جانے آج کیا ہے، کل کیا ہو! کارِ اِمروز را بہ فردا مَگُذار۔ اُس نے عرض کی: جو رائے اَقْدَس میں گُزرا، یہی میراعین مطلب تھا۔ بادشاہ نے فرمایا: آج انجمن آرا سے یہ مُقَدَّمہ اِظہار کر کے، جوابِ باصَواب حاصل کر لو؛ کل سے سَرگَرمِ سامانِ شادی ہو۔

یہ کہہ کے بادشاہ دیوانِ عام میں رَونق اَفزا ہوا۔ انجمن آرا کو ماں نے طلب کیا اور دو چار مُغلانِیاں، آتو سِن رَسیدَہ، محلداریں جہاں دیدہ، قدیم جو تھیں، انھیں بُلایا۔ شہزادی کی جلیسیں بھی یہ خبرسُن کر بے بُلائے آئیں۔ اُس نے پہلے بیٹی کو گلے سے لگایا، پِیار کیا، پھر کہا: سُنو پِیاری! دُنیا کے کارخانے میں یہ رَسم ہے کہ بادشاہ کے گھر سے فقیر تک، بیٹی کسی کی، ماں باپ پاس ہمیشہ نہیں رہتی۔ اور غَیرت دار کے گھر میں لڑکی جوان، ہر وقت رنج کا نشان، خِفَّت کا سامان ہے۔ اور خُدا ورسول کا بھی حکم یہی ہے کہ جوان کو بِٹھا نہ رکّھو، شادی کر دو۔ وَرائے اِن باتوں کے ایک شخص نے تمھارے واسطے گھربار چھوڑا۔ سلطنت سے ہاتھ اُٹھا، کسی آفت سے منہ نہ موڑا۔ جی پر کھیل گیا، کیا کیا بلائیں جھیل گیا۔ سر کھپی اور جان جوکھوں کی؛ جب تم نے ہم کو دیکھا، ہم نے تمھاری صورت دیکھی۔ شکل میں پری شَمائِل، فَرخُندَہ خٗو، فرشتہ خَصائِل۔ تمام شہر عاشق زار ہے۔ چھوٹا بڑا اُس پر فریفتہ و نثار ہے۔ ہر چند، تم پارۂِ جگر، نورِ نَظَر ہو؛ مگر واری، جو انصاف ہاتھ سے نہ دو تو تم میں اُس میں بڑا فرق ہے! تمھیں اللّہ نے عورت بنایا ہے، وہ مردِ میدانِ نَبَرد ہے۔ رنڈی، مرد کا بہت تَفاوُت مشہور ہے۔ آگاہ نادان و ذی شَعور ہے۔ اِلّا، جانی! ہمارا کہنا، آرسی مُصحف میں نظر پڑے گا۔ دیکھیے گا، جو دکھائی دے گا۔

انجمن آرا نے یہ سُن کر سر جھکا لیا، رونے لگی۔ کہا: حضرت! صورت شکل کا مذکور یہاں کیا ضرور تھا۔ یہ اللّہ کی قدرت ہے: کسی کو بنایا، کسی کو بگاڑا۔ بہت سے لٗولے لنگڑے، کانے کھُدرے، گٗونگے بہرے ہیں؛ وہ، چاہیے نہ جِییں۔ کہیں نور ہے، کہیں نار ہے؛گُل کے پہلو میں خار ہے؛ یہ سب صَنعتِ پروردگار ہے، دنیا میں کون سی شے بے کار ہے۔ بلکہ بُروں سے اچھوں کی تمیز ہے؛ یوں تو بادشاہِ مصر، غلامِ عزیز ہے۔ اور جو بارِ احساں سے دب کر فرماتی ہو کہ ایسا کرو تو دُنیا عالمِ اسباب ہے؛ ایک کا کام دوسرے سے ہوتا آیا ہے۔ یہ شخص نہ آتا اور میرے مُقدَّر میں رہائی ہوتی؛ کچھ ایسا سامان نکل آتا اور کوئی اللہ کا ولی پیدا ہو جاتا، میری بند چھڑاتا۔

لِمُوَلِّفہ:

نیک و بدِ زمانہ نہیں اِختیار میں

ہوتا وہی سُرورؔ ہے، جو سَر نَوشت ہو

میری قسمت کم بخت بُری ہے؛ ایک مصیبت سے چھڑا، دوسری آفت میں پھنسایا۔ ہر دم کے طعنے اپنے بیگانے کے سُننے پڑے کہ یہ آیا، مجھے قید سے چھُڑایا۔ خُدا جانے وہ کون ہے، کہاں سے آیا ہے! اپنے مُنہ سے میاں مٹھو، شہ زادہ ہونے کا سب میں غُل مچایا ہے۔ مَیں آپ کی لونڈی ہوں، بہرصورت فرمانبردار؛ اگر کنویں میں جھونک دو، چاہ سے گر پڑوں، اُف نہ کروں؛ مگر جو آپ اس کی صورت شکل پر رِیجھ، محنت اور مشقت کو سمجھ بوجھ یہ مُقَدَّمہ کیا چاہتی ہیں تو میں راضی نہیں۔ اگر مزدوری کی اُجرت، خدمت کا انعام منظور ہے؛ کہ بادشاہوں کے نزدیک احسان کسی کا اٹھانا، بہت دور ہے؛ تو روپیہ، اشرَفی، جاگیر عنایت کرو کہ اُس کا بھلا ہو، کام ہو، آپ کا نام ہو۔

یہ فقرہ سن کے وہ بہت ہنسی، کہا: شاباش بچّی! اُس کی جاں فِشانی کی خوب قدر دانی کی! واقعی وہ بے چارہ تمھارے ملک کا یا روپے پیسے کا محتاج ہے! اری نادان! وہ تو خود صاحبِ تخت و تاج ہے۔ اِس بات پر ہم سِنوں نے قہقہہ مارا، کہا: حُضور! بس اِن کا یہ شعور ہے۔ اِن کے نزدیک وہ شاہ زادہ نہیں، مزدور ہے۔ انجمن آرا نے جھنجھلا کے کہا: روپیہ وہ شے ہے اور مُلک وہ چیز ہے کہ اِس کے واسطے اِسفَندِیار سا روئیں تن مارا گیا، فریدون و افراسیاب کا سر اتارا گیا۔

وہ جو دائی، ددا، آتو، مُغلانیاں پُرانی پُرانیاں حاضر تھیں، بولیں: قُربان جائیں، واری، ماں باپ کی عُدول حکمی میں خدا و رسول کی نافرمانی ہوتی ہے؛ تمھیں انکار مناسب نہیں۔ اور خُدا نخواستہ یہ کیا تمھاری دشمن ہیں، جو راہ چلتے کے حوالے، کسی کے کہے سُنے سے بے دیکھے بھالے کر دیں گی۔ آدمی روز بہ روز عقل و شعور سیکھتا ہے۔ نشیب و فراز، بات کا محل موقع سوچتا سمجھتا ہے۔ تم، سلامتی سے، ابھی تک وہی بچپنے کی باتیں کرتی ہو۔ کھیلنے کودنے کے سِوا قدم نہیں دھرتی ہو۔

انجمن آرا نے جواب نہ دیا، سر زانو پر رکھ لیا؛ لیکن وہ جو امیر زادیاں اُس کی ہم نشیں، جلیس تھیں؛ جن سے راتوں کو اِسی دن کے روز مشورے رہتے تھے، بولیں: ہے ہے، لوگو تمھیں کیا ہوا ہے! آتو جی صاحب! بے ادَبی معاف، آپ نے دھوپ میں چونڈا سفید کیا ہے۔ خیر ہے صاحبو! دلھن سے صاف صاف کہوایا چاہتی ہو! دُنیا کی شرم و حیا نِگوڑی کیا اُڑ گئی! اتنا تو سمجھو، بھلا ماں باپ کا فرمان کسی نے ٹالا ہے، جو یہ نہ مانیں گی۔ الخاموشی نیم رضا۔ بوڑھے بڑے کے روٗ بہ روٗ اور کہنا کیا۔ یہ سن کے آتو قدیم جس نے انجمن آرا کو ہاتھوں پر کھلایا تھا، پڑھایا لکھایا تھا، بِسمِ اللّہ کہہ کے اٹھی، انجمن آرا کی ماں کو نَذر دی، مبارک باد کہہ کے ہنسنے لگی۔ محل میں قہاقے مچے، شہ زادی بناوٹ سے رونے لگی۔ نواب ناظِر، بیگم کی نذر لے کر بادشاہ کے حضور میں حاضر ہوا۔ نذر دی، خِلعَت مَرحَمَت ہوا۔ یہاں تو ارکانِ سلطنت اسی دن کے روز منتظر رہتے تھے؛ یہ مژدۂ فرحت افزا دریافت کر کے اٹھے، بہ مَراتب نذریں گزریں۔ توپ خانوں میں شَلَّک کا حکم پہنچا۔ نوبت خانوں میں شادیانے بجنے لگے۔ تمام شہر آگاہ ہوا کہ اب بیاہ ہوا۔ مبارک سلامت کی صدا زمین و آسماں سے پیدا ہوئی۔ شعر:

فلک پر یہ مبارک باد ہے اب کس کے ملنے کی

یہ ایسا کون بختاور ہے، جس کا بخت جاگا ہے

بادشاہ نے وزیرِ اعظم سے ارشاد کیا: جان عالم یہاں مسافِرانہ وارِد ہے؛ تم اُموراتِ محل میں مُستَعِد رہو، ہم اس کا سامان سر انجام کریں۔ وزیر آداب بجا لایا؛ خلعتِ فاخرہ ملا، ہاتھی، پالکی سے سرفراز ہوا۔ جان عالم کا یہ نقشہ تھا: چہرے پر بَشاشَت سے سُرخی، باچھیں تا بُنا گوش کھلیں، فرحت کے باعث بندِ قبا ٹوٹے جاتے تھے، پھولے نہ سماتے تھے؛ مگر شرم کے باعِث آپ سر نہ اٹھاتے تھے۔

بادشاہ نے رَمّال، نجومی، پنڈت، جفرداں؛ جو جو علمِ ہیئت اور ہندسہ اور نجوم میں طاق، شُہرہ آفاق تھے؛ طلب کیے اور ساعتِ سعید کا سوال کیا۔ کسی نے قُرعہ پھینکا، زائچہ کھینچا، شکلیں لکھیں۔ کسی نے پوتھی کھولی۔ کوئی حرفِ مُفرد لکھ کر حساب کرنے لگا۔ کوئی تُلا، بِرچھک، دھَن، مَکَر، کُمبھ، مین، میکھ، بِرَکھ، مِتھُن، کَرک، سِنگھ، کَنِّیاں گن کر بچار کرنے لگا۔ کوئی مُشتری، مریخ، شمس، زُہرہ، عطارد، قمر، زحل کا حال مع گردشِ بُرج کہہ کے؛ حمل، ثور، جوزا، سرطان، اسد، سنبلہ، قوس، عقرب، جدی، دلو، حوت، میزان کی میزان دے کر شمار کرنے لگا۔ کہا: بعد مدت قمر اور مشتری کا، بہ طرزِ خلاف، حمل میں قِران ہے؛ اس ہفتے کا دن رات سَعدِ اکبر ہے اور بِالاِتفاق ایک روز مقرر کیا۔ حضور سے بہ قدرِ علم و کمال، خلعت اور انعام عنایت ہوا اور بعد جلسۂ شادی، بہ امید دیگر و امدادِ وافِر امیدوار کیا۔

القصہ بہ مَوجِبِ اَحکامِ اختر شَناسانِ بلند بیں، فلک سیر، ماضی مستقبل کے حال داں، باریک خیال و مُنجِّمان صدر نشینِ مسندِ کُنِشت و دَیر، حکم روایانِ خوش فال؛ مانجھے کا جوڑا دلھن کے گھر سے چلا۔ مزدور سے تا فِیل نشیں، زن و مرد فرد فرد با لباسِ رنگیں۔ پُکھراج کی کشتیوں میں زعفرانی جوڑے۔ سنہرے خوانوں میں پینڈیاں: مقوّی، مفرّح، ذائقہ ٹپکتا، خوان تک بسا۔ اور دودھ کے واسطے اشرفیوں کے گیارہ توڑے، طلائی چوکی، جواہر جڑا زمرد نگار کٹورا بٹنا ملنے کا۔ کنگنا بہ از عقد ثریا، دُرّ یکتا بڑا بڑا۔ لنگی ملتان کی تھی، بیل بوٹے میں گلستاں کی تھی۔ بٹنا اور تیل بے میل، جو عطر کشمیر پر خندہ زن ہو، معطر دماغِ انجمن ہو۔ کنٹروں میں عطر سہاگ، مہک پری ایجاد نصیر الدین حیدری، ارگجۂ محمد شاہی۔ فتنے کی بو چار سو۔ زعفران کا سا تختہ کھلا، کوسوں تک خوان سے خوان ملا۔ نوبت نشان۔ گھوڑوں پر شہنا نواز، نقّارچی جوان جوان۔ سکھپال اور چنڈولوں میں زنانی سواریاں، ان کے بناؤ کی تیاریاں۔ کہاریاں پری چھم، برقِ درخشاں کا عالم، باہم قدم قدم۔

اس سامان سے وہ سب مانجھا لے کے، در دولت نوشاہ پر جو بس گئے؛ شہر کے کوچہ و بازار بس گئے۔ وہاں دولھا، یہاں دلھن نے مانجھے کے جوڑے پہنے، مبارک سلامت سب لگے کہنے۔ منادی نے ندا کی: جو سفید پوش نظر آئے گا، اپنے خون سے سرخ ہو گا، یعنی گردن مارا جائے گا۔ بادشاہ نے خود ملبوس خاص رنگین زیب جسم کیا، رنگ کھیلنے لگا۔ تمام خلقت ہولی کی کیفیت بھولی۔ شہر میں شہاب اور زعفران کے سرخ و زرد نالے بہے۔ گلیوں میں عبیر، گلال کے ٹیلے ٹیکرے رہے۔ کوچہ ہر بازار کا زعفراں زارِ کشمیر تھا۔ ایک رنگ میں ڈوبا امیر و فقیر تھا۔

پھر بہ تاکید تمام خاص و عام کو حکم ہوا کہ آج سے چوتھی تک سوائے اہل حِرفہ اپنے اُمورِ ضروری موقوف کر، گھروں میں ناچ دیکھو، جشن کرو۔ جو کچھ احتیاج ہو، سرکار سے لو۔ اور ہر رئیسِ محلہ، سردارِ قوم سے فرمایا: جو جو تم سے مُتعلق ہوں اُن کی فرد درست کر، حُضور میں گزرا نو، سب کو ہمارا مہمان جانو۔ اُن کے کھانے پینے کا سامان، خواہ ہندو ہو یا مسلمان، حُضور سے ملے گا۔ اور اربابِ نشاط کے داروغہ کو احکام مِلا: جس کی جیسی لِیاقت ہو، یا جس کا جو شائق ہو، بہ شرطے کہ اُس کے لائق ہو؛ بہ رضا مندیِ طرفین، وہ ویسا طائِفہ وہاں بھیج دو۔

دکانداروں کو ارشاد ہوا: دن رات دکانیں کھلی رہیں؛ قریب قریب ناچ ہو۔ ان کے کھانے کا صَرف، تصرّفی باورچی خانے میں ٹھہرا۔ ہندو کو: پوری، کچوری، مٹھائی، اچار۔ مسلمان کو: پُلاؤ، قلیہ، زردہ، قُورمہ؛ ایک آبی، دوسری شیر مال؛ فِرنی کا خوانچہ؛ تشتری کباب کی، بہت آب و تاب کی۔ شہر میں گلی گلی عیش و طرب، خوشی میں چھوٹے بڑے سب، نہ کسی کو کسی سے غرض نہ مطلب۔ پکا پکایا کھانا کھانا، دُکانوں میں بیٹھے ہر وقت ناچ دیکھنا، سرکار کا کام بنانا، بغلیں بجانا۔ بیت:

بہشت آنجا کہ آزارے نباشد

کسے را با کسے کارے نباشد

اور اِس سے پہلے بہ تعیُّنِ روزِ شادی؛ نامے بادشاہوں کو، فرمان راجا بابو کو، صوبے دار وں کو شُقّے، عاملوں کو پروانے جا چکے تھے۔ دو چار منزل گرد پیش، سرِراہ دو دو کُوس کے فاصلے سے باورچی اور حلوائی کھانا، مٹھائی گرماگرم تیار کیے بیٹھے رہتے تھے کہ اس عرصے میں جو مسافر گزرے یا طلبیدۂ بادشاہ آئے؛ بھوکا نہ جائے۔ اور مُژدۂ شادی راہ چلتوں کو سُنا، شہر میں بھیج دیتے تھے کہ یہ جلسہ قابلِ دید ہے۔

غرض کہ دو منزل، چار منزل بلکہ دس بیس دن کی راہ سے، تماش بین بے فِکرے لکھنؤ والوں سے، سیر دیکھنے کو آئے اور ساچق کا دن آیا۔ اگر سب سامان بیان کروں، کہانی ناتمام رہ جائے؛ مگر وہی مشتے نمونہ از خروارے۔ پچاس ہزار چوگھڑے: رُپہلے، سنہرے، جواہر نگار، نُقل اور میوے سے لبالب۔ لاکھ خوان: بہ حُسن و خوبیِ بِسیار، پُر تکلف سب؛ پچاس ہزار میں مِصری کے کوزے، باقی میں میوہ۔ اور قند کی چھبڑیاں مُرصع کاری کی، بڑی تیاری کی۔ نُقرئی دہی کی مٹکی، گلے میں مچھلیاں ناڑے سے بندھیں۔ آرائش کے تخت بے حساب، اس روش کے جن کے دیکھنے سے صناعی صانِعِ حقیقی کی یاد آئے۔ گُل بوٹا اس سج دھج کا جو نقل کو اصل کر دکھائے۔ آتش بازی کے ٹوکرے قطار در قطار، بے پایاں۔ سرو، جھاڑ، درختِ میوہ دار ہزار در ہزار، لا بیان۔ بہت تُزک، بڑا سامان۔ آرائش کے گلدستوں سے چمنِ رواں ساتھ تھا۔ سرِدست یہ باغ ہاتھوں ہاتھ تھا۔

اس انداز سے ساچق گئی۔ منہدی کی شب ہوئی۔ وزیرِ درست تدبیر نے خوب تیاری کی۔ نارنول کی منہدی ہزارہا من، بو باس میں دُلھن پن۔ وہ رنگین جس کی دید سے دستِ نظارہ مِثل پنجۂ مرجاں رشکِ عقیقِ یمن ہو جائے، سُرخ رو ہمہ تن ہو جائے۔ ایک بار لگائے، لال ہو؛ تمام عمر کف افسوس ملتا رہے۔ نہ ہاتھ لگنے کا ایسا ملال ہو۔ بہ ظاہر سرسبز، ہری؛ جگر میں سُرخی کوٹ کوٹ کے بھری۔ جڑاؤ سینیوں میں حِنا، شمع مُومی و کا فوری اُس پر روشن۔ ملیدے کے خوانوں پر جوبن۔ آرائش اور آتش بازی ہمراہ۔ سب کے لب پر واہ واہ۔ بہت چمک دمک سے منہدی لایا اور یہ رنگ ڈھنگ حُسنِ تدبیر سے دکھایا کہ تمام ہم چشموں میں سُرخ رو ہوا۔

بَرات کی رات کا حال سُنو: دیوانِ خاص سے دلھن کا مکان چار پانچ کوس تھا۔ یہاں سے وہاں تک دونوں طرف بلور کے جھاڑ آدمی کے قد سے دوچند، سو سو بتی کے سر بلند، پانچ چھے گز کے فاصلے سے روشن۔ اور دس گز جُدا نُقرئی، طلائی پنج شاخہ جلتا۔ اُن سے کچھ دور ہزاروں مزدور، ٹھاٹھروں پر روشنی کرتے۔ جھاڑ رشکِ سروِ چراغاں، چمکتے۔ جابہ جا تِر پولِیے اور نوبت خانے بنے؛ کتھک اتھک اُن پر ناچتے، نوبت بجتی، مُغرق شامیانے تنے۔ اس کے قریب دورویہ آتش بازی گڑی، خلقتِ خدا تماشا دیکھنے کو کھڑی۔ روشنی یہ روشن تھی کہ چیونٹی سوار کو بہ ہیئتِ مجموعی مفصل معلوم ہوتی تھی۔

غرض نوشہ سوار ہوا۔ شور و غُل یک بار ہوا۔ کسی نے کہا: سواری جلد لانا! کوئی پٹکا، شملہ سنبھال خدمت گار کو پُکارا کہ ہاتھی بٹھِانا! پلٹنیں آگے بڑھیں، عربی باجے بجنے لگے۔ کُوس و کور گرجنے لگے۔ نوبت و نشان، ماہی مراتِب، جلوس کا سامان۔ سواروں کے رِسالے دو رویہ باگیں سنبھالے۔ خود اسپے، اِکے، بیش قرار درما ہے دار۔ پھر ہزار بارہ سے تختِ رواں، تمام تمامی سے منڈھا۔ اُن پر رنڈیاں جوان جوان، شادی مبارک گاتیں؛ سج دھج دِکھا، طبلے بھڑبھڑاتیں۔ بہت سے سانڈنی سوار تیز رفتار۔ خاص بردار: خاصِیاں کندھوں پر، دولھا کے برابر۔ اُن کے قریب، برچھے والے، بان دار، چُوبدار۔ روشن چوکی والے: شہنائیں پُر تکُلف، سُر نرالے۔ ہزاروں غلام زریں کمر، سنہری رُپہلی انگیٹھیاں ہاتھوں میں؛ جھُولی میں عنبرِ سارا، عود غرقی بھرا، سارا شہر مہکتا۔ گرد ہزارہا پنج شاخہ پھُنکتا، سونے چاندی کی دستیاں روشن، مُہتمموں پر جوبن۔ قُورمیں چالیس بادشاہ پُرشوکت و جاہ۔ پیچھے بارہ ہزار ہاتھیوں پر امیر وزیر، ارکانِ سلطنت، ترقی خواہ۔ خواصی میں انجمن آرا کا بھائی، جان عالم کا سالا بجائے شہ بالا۔ آہستہ آہستہ، قدم قدم خوش و خُرم چلے۔ کوچہ و بازار بو باس سے معطر تھا۔ چرخِ گرداں دیدۂ دیدبانِ چارُم سے تماشائی تھا، یہ سامان تھا۔ دشت کا وحش و طیر حیران تھا۔

پہر رات رہے دُلھن کے دروازے پر پہنچے۔ ماما، اصیلیں دوڑیں؛ پانی کا تشت ہاتھی کے پاؤں تلے پھینکا۔ کسی نے کچھ اور ٹُوٹکا کیا۔ دولھا اتر کر مجلس میں داخل ہوا۔ بارہ سے طائفہ رنڈیوں کا؛ سوائے بھانڈ، بھگتیے، ہیجڑے، زنانے، کشمیری قوال، بین کار، ربابیے، سرودِیے کے؛ حاضر تھا۔ ناچ ہونے لگا۔ قریبِ صُبح قاضی طلب ہوا۔ بہ ساعتِ معین کئی سلطنت کے خِراج پر مہر بندھا۔ طالب و مطلوب کو سِلکِ ازدِواج میں مُنسلک کیا۔ مُبارک سلامت کا غُل مچا۔ میر سوزؔ:

فلک، شب کتخدائی دیکھ اُس کی، سوزؔ! یوں بولا

تجھے یہ رات، اے رشکِ مہِ انور مبارک ہو

سب طائفے ساتھ کھڑے ہو، ایک سُر میں مبارک باد گانے لگے۔ حوصلے سے زیادہ انعام پانے لگے۔ دولھا زنانے میں طلب ہوا: وہاں رسمیں ہونے لگیں۔ وہ بھی عجب وقت تھا: آرسی مصحف رو بہ رو، محبوبِ دل خواہ دو بہ دو؛ سورۂ اِخلاص کھُلا، آئینہ رو نُمائی مزے لوٹتا، سلسلۂ محبت مُستحکم ہو رہا۔ ڈُومنیوں کا سِٹھنِیاں گانا، دولھا دُلھن کا شرمانا۔ کبھی ٹُونے، گاہ اچھے بنے سلُونے۔ ہمجولیوں کا پوچھنا: ٹُونا لگا؟ دولھا کا ہنس کے کہنا: عرصہ ہوا۔ کوئی دُلھن کی جُوتی، دولھا کے شانے میں چھُوا گئی۔ کوئی اُسی کا کاجل پارا ہوا لگا گئی۔ ہم سِنُوں کی چھیڑ چھاڑ، اُن کے جوبن کی بہار، فقط ململ اور شبنم کے دوپٹوں کی آڑ۔ جس دم یہ رسمیں ہو چکیں، نو بات کی نوبت آئی؛ اِس طرح چُنی کہ دیکھی نہ سُنی۔ میر حسن:

وہ جب پاؤں پر کی اُٹھاتے اَڑا

نہیں اور ہاں کا عجب غُل پڑا

جس دم یہ رسمیں ہو چکیں؛ پھر ڈُومینوں نے پاہنی گائی، سب کی چھاتی بھر آئی۔ دُلھن سے رُخصت ہونے لگے، رو رو جی کھونے لگے۔ سواری تیار ہو کے دروازے پر آئی۔ دولھا نے سہرا سر سے لپیٹ دُلھن کو گود میں اُٹھایا؛ سب کا دل اُمنڈ آیا، شُور و غُل مچایا۔ دُنیا کے کارخانے قابلِ دید ہیں، بلکہ دید ہیں نہ شنید ہیں۔ شادی میں غم سلف سے توام ہے؛ مگر ثبات بجز ذاتِ باری کسی کو نہیں۔ مُقدماتِ جہانِ گُذراں خوابِ پریشاں ہیں، اس میں سب حیراں ہیں۔ مُؤلف:

اک وضع پر نہیں ہے زمانے کا طَور، آہ

معلوم ہو گیا مجھے لیل و نہار سے

غرض کہ دلھن کو سُکھپال میں سوار کیا۔ بادشاہ نے اسبابِ ضروری، سامانِ ظاہری کے سِوا، مُلک و سلطنت و خزانہ جہیز میں لکھ دیا۔ برات رُخصت ہوئی۔ وہ اِہتِمام، تجمّل، سواری کا سامان۔ ہر شخص خُرم و خنداں۔ جہیز کا آگے بڑھنا، لوگوں کا دولھا پر دُعائیں پڑھنا۔ نسیمِ سحر کا چلنا، شمع کا جھلمِلا جھِلمِلا کے جلنا۔ شہنا میں بھیرُوں، بِبھاس، اَلَیّا، للت، رام کلی کا پھونکنا۔ نقیب اور چوبداروں کا کوئل کی طرح کوکنا۔ نوبت کی ٹکور، جھانجھ کا جھانجھ سے شُور۔ جھُٹ پُٹا وقت، نور کا تڑکا۔ کڑکیتوں کا سو میل کڑکا۔ کچھ کچھ تاروں کی چمک۔ نقاروں کی صدا، دھونسے کی گُمک۔ چاند کے مُنہ پر سفیدی، دُلھن والوں کی یاس و نا اُمیدی۔ عطر کی ہر سو لپٹ، پھولوں کی مہک۔ سب کو نیند کا خُمار، کوئی پیادہ کوئی سوار۔ فرش باسی ہار پھولوں سے رشکِ صحنِ چمن؛ کہیں جھُول، کہیں شِکن۔ کسی جا پکھروٹے اور بیڑوں کے پتے کھُلے پڑے، کہیں لوگ حیران و ششدر کھڑے۔ مجلس کے فِراق میں، اہل محفل کے اِشتِیاق میں، شمع کی زاری، اشک باری۔ لگن میں پروانوں کی بے قراری، خاکساری۔ دولھا کے لوگوں کی خوش بشاش تیاری، دُلھن کے گھر میں نالہ و زاری۔ کوئی کہیں نیند کی جھونک میں پڑا، کوئی یہ سامان بہ چشمِ عبرت دیکھ، تاسُف میں کھڑا۔ شمع فانوس میں گُل۔ گُل، گُل گیر میں۔ زِیر انداز پر پروانوں کے پر، فرّاش فرش اُٹھانے کی تدبیر میں۔ بیٹھی ہوئی ہر ایک کی آواز؛ کہیں سوز، کہیں ساز۔ یہ وقت دیکھنے کے قابل ہوتا ہے، راہ چلتا بھی دیکھ کر روتا ہے۔ اِس کی لذت وہ جانے، جس کی نظر سے یہ ہنگامہ گزرا ہو۔ کسی کی برات دیکھی ہو، گو بیاہ نہ کیا ہو۔

قصہ مختصر، دولھا شِگُفتہ خاطِر، خنداں۔ چہرے پر شباب کی چمک، عارِضِ تاباں سے حُسن کی بہار عیاں۔ ہاتھی پر سوار، گرد شاہ و شہریار۔ زرِ سُرخ و سفید نِثار ہوتا۔ سرِ چوک پہر بجے دیوانِ خاص میں داخل ہوا۔ اب گھر پہنچنے کی ریت رسم ہونے لگی۔ دولھا دلھن جب اُترے؛ بکرا ذبح کیا انگوٹھے میں لہو لگا دیا، پھر کھیر کھلائی۔ رسموں سے فرصت پائی۔ اب یہ منتظر ہوئے کہ شام ہو، وصل کا سر انجام ہو۔ اُس دن جان عالم کا گھبرانا، گھڑی گھڑی گھڑیالی سے دِن کی خبر منگوانا دیکھنے کی گوں تھا۔ بدحواس پھرتا تھا کہ کہیں جلد رات ہو، بے تکلفی کی ملاقات ہو۔ کبھی کہتا تھا: واہ، قسمت کی خوبی! پہر بھر کا عرصہ ہوا، گھڑی نہیں ڈوبی! ہُوش کہاں بجا تھا، مکرر پوچھتا: ابھی کیا بجا تھا؟ اُدھر انجمن آرا بھی جمائِیاں لیتی تھی، تکیے پر سر دھر دیتی تھی۔ جب یہ بھی تدبیر بن نہ آتی تھی؛ لوگوں کے چونکانے کو اونگھ جاتی تھی۔

غرض کہ خدا خدا کر وہ دن تمام ہوا، نمود وقتِ شام ہوا۔ عروسِ شب نے مَقنَعۂ مہتاب سے روپوشی کی، مشتاقوں کو فرصت ملی گرم جُوشی کی۔ لوگ آنکھ بچا کر جا بہ جا کنارے ہوئے، دولھا دُلھن چھپر کھٹ میں ہم کِنار بے تابی کے مارے ہوئے۔ شادی کا روز، شباب کا عالم؛ مُشتاقوں کا بیٹھنا باہم۔ آنکھوں میں خُمار نیند کا، دل میں اِشتِیاق دید کا۔ عِطرِ سُہاگ اور فِتنے کی خوش بو۔ بُٹنے اور تِیل کی عجب میل کی مہک ہر سو۔ پھولوں سے پلنگ بسا، ادقچہ کسا۔ خود نشۂ عشق سے باختہ حواس، تمنائے دل پاس، نہ کچھ دغدغہ نہ وسواس۔ ہنگامۂ صحبت طرفین سے گرم؛ اُدھر شوق، اِدھر شرم۔ ایک طرف ولولۂ گرم جوشی، ایک سمت کثرتِ حیا سے مُنہ پر مُہرِ خموشی۔ بیان کرنا گُذشتہ حال کا، خیال لوگوں کی دیکھ بھال کا۔ یہ معمول ہے: اُس رُوز ہم سِنیں تاکتی جھانکتی ہیں؛ لیکن اِن ڈروں پر چُپ نہ رہے، آہستہ آہستہ دونوں نے دُکھڑے کہے۔

جان عالم نے توتے سے ذِکر سُن کر در بہ در خراب خستہ ہو کر آنا، توتے کا بیٹھ رہنا، وزیر زادے کا صدمۂ فِراق سہنا؛ پھر طلسم کا پھنس جانا، جادوگرنی کا ستانا؛ بعد اِس کے نقشِ سلیمانی لینا، وہاں سے چل دینا؛ بہ کُشادہ پیشانی و خوش بیانی بیان کیا۔ مگر ملکہ مِہر نگار کی ملاقات، جگت رنگی کے حرف و حِکایات؛ اُس کی طبیعت کا آ جانا، اپنا بے اِعتنائی سے چلے آنا؛ کچھ شرما کے، بات کو مطلب کی جا سے چبا چبا کے بیان کیا۔ یہ اکثر ہوا ہے کہ معشوق کے رو بہ رو، جو اِس پر کبھی کوئی عاشق ہوا ہے، اُس کا ذکر کرتا ہے شیخی بگھارتا ہے، کچھ جھوٹ اپنی طرف سے جوڑتا ہے، دل کے پھپھولے توڑتا ہے۔ اِس کی شرح، گو طول طلب ہے؛ پر عاشق مزاجوں پر منکشف سب ہے۔

انجمن آرا نے جادوگرنی کے قصے پر تاسُف کیا۔ ملکہ کے مذکور پر بناوٹ سے ہنس دیا۔ پھر روکھی صورت بنائی، ناک بھوں سمیٹی، تیوری چڑھائی؛ مگر چلے آنے کے سہارے پر مسکرائی۔ اپنا بھی اِشتِیاق، لیے دیے، از روزِ ملاقات، محنت و مشقت کی قدر دانی سے، جادوگر کی لڑائی میں جاں فِشانی سے بیان کر کے کہا: اَلاِنسانُ عَبِیدُ الاِحسانِ۔ جب اِس طرح کے دو دو انچھر ہو چکے، دل کے ارمان کھو چکے؛ پھر دونوں بے ساختہ ہو، شرم و حیا کھو ہم آغوش ہوئے۔ رنج درکنار، غم و دردِ مُہاجرت فراموش ہوئے۔ مُؤلف:

یہ ہم کناریِ جاناں سے تازہ لطف اُٹھا

گلے سے ملتے ہی، سب رنج درکنار ہوا

سینے سے سینہ، لب سے لب، ہاتھ پاؤں؛ بلکہ جتنے اعضائے جسم ہیں، سب وصل تھے۔ مثل ہے: ایک جان دو قالِب؛ وہ ایک جان ایک ہی قالِب، غالب ہے کہ ہو گئے۔ اُستاد:

ایامِ وصل میں ہم لپٹے ہیں جیسے اُس سے

یوں وصلی کے بھی کاغذ چسپاں بہم نہ ہوں گے

خواہش کو اِضطرار، حیا مانِعِ کار، شرم بر سرِ تکرار۔ دونوں کے دم چڑھ گئے تھے، انداز سے بڑھ گئے تھے۔ دست بُردی، ہاتھا پائی تھی، چوریاں تھیں۔ جنگ زرگری، گاؤ زوریاں تھیں۔ شہ زادی موقع پر ہاتھ نہ لگانے دیتی تھی۔ جب بے بس ہو جاتی تو چٹکیاں لیتی تھی۔ گاہ کہتی تھی: اے صاحب! اِتنا کوئی گھبراتا ہے! دیکھو تو کون آتا ہے! کبھی خود اُٹھ کے دیکھتی بھالتی تھی، کوئی دم یوں ٹالتی تھی۔ آخر کار جب غمزہ و ناز کی نوبت بڑھ گئی، تھک کے ڈھب پر چڑھ گئی۔ غنچۂ سر بستۂ تمنائے دراز، بہ حرکتِ نسیم وصل شِگُفتہ و خنداں ہوا۔ دُرِ ناسُفتۂ دُرجِ شہر یاری؛ رشکِ عقیقِ یمنی، غیرت دِہِ لعلِ بدخشاں ہوا؛ جیسا پیر دِہقاں، فردوسیِ سخن داں نے کہا ہے، شعر:

چناں بُرد و آورد و آورد و بُرد

کہ دایہ زحسرت پسِ پردہ مُرد

رشک و حسرت سے جگرِ صدف چاک ہوا، قطرۂ نیساں صدف میں گرا، دشمن کم بخت در پردہ ہلاک ہوا۔ تقاضائے سِن، الھڑ پنے کے دن؛ سیر تو یہ ہوئی اُس وقت دونوں ناتجربہ کار، بادۂ اُلفت کے سرشار کیا کیا گھبرائے، ہزاروں طرح کے نئے نئے خیال آئے، کیفیت سب بھولی؛ جب دامنِ شب میں چادرِ پلنگ پر شفقِ صُبح پھولی۔ غرض کہ شرما کے اِستِراحت فرمائی، دلِ بے تاب نے تسکین پائی۔

ہنُوز پلک نہ جھپکی تھی، صُبح کا غُلغُلہ ہوا، نمودِ سحر ہوئی، خاص و عام میں شب کی خبر ہوئی۔ دمِ صُبح ایک سُرخ رو، دوسرا ژُولیدہ مو حمام میں داخل ہوئے۔ جو جو محرمِ راز، شریکِ ناز و نیاز تھیں؛ رات کی باتوں کے پتے رمز و کِنایے میں دینے لگیں۔ کوئی شرمایا، کوئی جھنجھلایا۔ غمزہ و ناز ہر انداز میں رہا۔ اُس وقت قہقہے کا شور آسمان پر پہنچایا، جب خوانوں میں پنجیری اور شیشوں میں تنبول آیا۔ الغرض نہا دھو خاصہ نوش فرمایا۔ جان عالم بادشاہ کے حُضور میں آیا، خِلعتِ فتح پایا۔ اب اُموراتِ سلطنت بہ مشورۂ شاہ زادہ ہونے لگے۔

بعد رسم چوتھی چالے کے؛ لبِ دریا ایک باغ بہت تکلف کا، نشاط افزا نام، بادشاہ نے رہنے کو عِنایت کیا۔ اگر اُس باغ کی تعریف رقم کروں، شاخِ زنبق و نرگس کی ٹہنی کو لاکھ بار قلم کروں۔ اِلّا، خِضر کی حیات، رِضواں کا ثبات درکار ہے؛ نہیں تو ناتمام رہے، لکھنا بے کار ہے۔ سو بار خِزاں جائے، بہار آئے؛ ایک پٹری کی روِشِ صفا تحریر نہ ہو سکے، خامۂ مانی پھسل جائے۔ رشکِ گُلزارِ جِناں، ایک تختۂ فِردوس سا کئی کوس کا باغِ بے پایاں۔ برگ و بار، گُل اُس کے جورِ خزاں سے آزاد بِالکل۔ نہ بلبل پر ستمِ باغباں، نہ خوفِ صیاد؛ عجائِب غرائِب چہچہے، نئے رنگ ڈھنگ کے ترانے یاد۔ جتنے دُنیا کے مِیوے ہیں، تر و تازہ ہمیشہ تیار۔ سرسبز پتے، خوش رنگ پھول، پھل مزے دار۔ گُل تکلیفِ خار سے بری۔ جہان کی نعمت ہر تختے میں بھری۔ روِش کی پٹریوں پر منہدی کی ٹٹیاں کتری ہوئی برابر۔ چمن میں وہ وہ درخت پھلے پھولے، جسے دیکھ کر انسان کی عقل بھولے۔ پھولوں کی بوئے خوش سے دل و دِماغ طاقت پائے۔ جو پھل نظر سے گزرے، بارِ خاطِر نہ ہو؛ ذائِقہ زبان پر، مُنہ میں پانی بھر آئے۔

نہریں ہزار در ہزار، پُر از آبشار۔ گرد چرِند و پرنِد خوب صورت، قطع دار۔ باغبانِیاں پری زاد، حور وش، کم سِن، مہر لِقا۔ بیلچے جواہر نِگار ہاتھوں میں۔ ہر ایک آفت کا پرکالہ، دل رُبا، مہ سیما۔ کنویں پختہ، جڑاؤ چرخی، رسے کلابتون کے۔ ڈول وہ کہ عقل دیکھ کر ڈانواں ڈول ہو۔ چرسے پر نزاکت برسے۔ بیل کے بدلے نیل گائے کی جوڑیاں۔ آہو جن کے رو بہ رو چِہ کارہ، باغبانِیاں مہ پارہ۔ زربفت کے لنہگے قیمت کے منہگے۔ شبنم کے نفیس دوپٹے مُغرق۔ مسالے کی کُرتی، انگیا۔ چھڑے پاؤں میں: طِلائی، واچھڑے۔ کان کی لو میں ہیرے کی بِجلی: برق دم، سب کی آنکھ جس پر پڑے۔ کوئی ڈول کو سنبھال ٹپا، خیال گاتی۔ کوئی شعرِ برجستہ یا ہندی کا دوہا اُس میں مِلاتی، چھیڑ چھاڑ میں چُٹکی لے کے اُچھل جاتی۔

ایسے باغِ پُر بہار میں جان عالم اور انجمن آرا ہاتھ میں ہاتھ، پریوں کا اکھاڑا ساتھ، دین و دُنیا فرامُوش، ہر دم نُوشا نُوش، با عیش و نشاط اوقات بسر کرنے لگا۔ جہان کا ساز و ساماں ہر دم مُہیا۔ شراب و کباب، چنگ و رباب کا جلسہ۔ خدمت گُزاریں پری طلعت، ماہ پیکر سب کام کو حاضر۔ جیسے کنھیا شامِ عشرت سحر کرنے لگا۔ نہ خیال اپنے شہر و دیار کا، نہ خوفِ نیرنگیِ فلک، نہ بیم و ہِراس گردشِ روزگار کا، نہ ماں باپ سے مطلب۔ یار آشنا بھولے سب۔ نہ کچھ دھیان اُس جگر فِگار، کُشتۂ انتظار ملکہ مہر نگار کا۔