فسانۂ عجائب/بیانِ حال اُس غَریق بحر ملال کا
بیانِ حال اُس غَریق بحر ملال کا یعنی ملکہ مہر نگارِ جگر فِگارِ خوش خِصال کا۔ اور آنا اُس سبز پوشِ ذی ہوش کا مکتوبِ محبت اُسلوب لے کے؛ پھر توتے کی رُخصت، ملکہ کی رِقّت اور مِل جانا انجمن آرا اور شہزادۂ با اقبال کا
نظم:
اے جنوں تو دلِ شوریدہ کی امداد کو آ
تا لکھوں حال مَیں اک اور ستم دیدہ کا
چین دُنیا میں نہیں عشق کے بیماروں کو
نِت نیا رنج فلک دیتا ہے بے چاروں کو
بارِ فُرقت کبھی معشوق جو دھر جاتے ہیں
جیتے جی دب کے یہ اُس بوجھ سے مر جاتے ہیں
زیست بے لطف گزر جاتی ہے بے چاروں کی
کیا کہانی مَیں کہوں تم سے دل اَفگاروں کی
نِگارِندۂ حالِ غریقِ شَطِّ فُرقَت و کشتی شکستۂ لُجّۂ محبت، بادباں گُسِستۂ صرصرِ دوری و لنگر بُریدۂ کاردِ مہجوری، طوفاں رسیدہ، کنارِ کام یابی نہ دیدہ، یعنی ملکہ مہرنگار، خامۂ جگر اَفگار یوں رقم کرتا ہے کہ جب جہاز تباہ ہوا تھا؛ یہ بھی ایک تختے کے ٹکڑے پر، دل ٹکڑے ٹکڑے، ڈوبتی تِرتی چلی جاتی تھی۔ اُدھر سے کوئی بادشاہِ عالی جاہ جہاز پر سوار سَیر دیکھتا آتا تھا۔ دور سے تختہ بہتا دیکھا۔ جب قریب آیا، آدمی اُس پر پایا۔ خَوفِ خدا سے جلد پَنسو ہی دوڑا جہاز پر منگوایا۔ ملکہ کو تلاطُمِ آب نے بے تاب کیا تھا اور جان عالم ، انجمن آرا کے صدمۂ جُدائی سے جی ڈوب گیا تھا، یعنی غش تھا؛ لیکن صورتِ رعنا، چہرۂ زیبا میں فرق نہ ہوا تھا۔ بادشاہ بہ یک نگاہ والہ و شیدا ہو گیا۔ جلد جلد عِطر سنگھا، بازو باندھا اور تدبیریں کیں۔ دو تین گھڑی میں ملکہ کی غش سے آنکھ کھلی، دیکھا کہ نہنگِ اجل کے منہ سے تو بچی، آفتِ لَطمَہ و لُجّہ سے بَرکِنار جہاز پر سوار ہوں؛ مگر شخصِ غیر سے دوچار ہوں۔ شرم سے سر جھکایا، تمام جسم میں پسینا آیا۔ بادشاہ نے پوچھا: اسمِ شریف؟ گو باعثِ حجاب بولنا گوارا نہ تھا، لیکن بے جواب دیے چارہ نہ تھا، آہستہ سے کہا: محروم، ناکام، آفت کی مبتلا، ذلیل و خوار، فلک دَر پئے آزار، پُر آلام، جِگر خوں، دل خستہ و محزوں، کشتی تباہ، گُم کردہ راہ، ناخُدا گُم، فُتادۂ تلاطُم۔
اِس کی فصاحت و بلاغت، چہرے کی شان و شوکت سے ثابت ہوا کہ یہ شہزادی ہے، اور کلامِ دردناک نے گریبانِ صبر و شکیب چاک کیا، بادشاہ نے رو دیا۔ پھر خاصہ طلب فرمایا۔ ملکہ نے انکار کیا، نہ کھایا۔ اُس نے بہت اِصرار کیا، لَجاجَت سے کہا: آپ کھانا نوش فرمائیں، وطن کا پتا بتائیں؛ جب تاب و توانائی تم میں آئے گی، وہاں بھجوا دیں گے۔ ملکہ نے کہا: ہم جن کے دامنِ دولت سے اُلجھے تھے؛ وہ تو گَردِ راہ کی صورت، خارِ صحرا کی طرح جھاڑ، اِس دریائے ناپیدا کنار میں ڈوبے، خدا جانے کیا ہوئے، کدھر گئے، جیتے ہیں یا مر گئے۔ اگر سوئے عدم ہمیں روانہ کرو؛ بکھیڑا چھٹے، غم و اَلَم سے نَجات ملے، بڑا احسان ہو۔ اُس نے کہا، مولّف:
تم سلامت رہو زمانے میں
ایسی باتیں زبان سے نہ کہو
غرض کہ مجبور کچھ کھایا۔ دو چار دن میں تاب و طاقت بھی گونہ آئی اور جہاز دارُ السلطنت میں پہنچا۔ ملکہ کے واسطے مکانِ عالی شان خالی ہوا۔ لونڈیاں، پیش خدمت، آتو، محل دار؛ جو کہ قرینہ شاہ اور شہریاروں کا ہوتا ہے اور جس طرح شہزادیاں رہتی ہیں، سب سامان مہیا کر دیا۔ ایک روز وہ بادشاہ آیا، کہنے لگا: تم اپنا حَسَب و نَسَب چھپاتی ہو، مگر ہمیں معلوم ہوا تم شاہ زادی ہو، ہماری تمھاری ملاقات اِس حیلے سے ہونی تھی؛ لازم ہے کہ مجھے فرماں روا نہ جانو، فرماں برداروں میں قبول فرماؤ، میری بات مانو۔ ملکہ نے جواب دیا: میں نے تمام عُمر سلطنت کا نام نہیں سنا؛ اِلّا، آپ کو خالق نے بادشاہ کیا ہے۔ اِنصاف شرطِ فرماں روائی ہے، اُس کو ہاتھ سے نہ دے۔ میں ظُلم رَسیدہ، آفت کشیدہ، فلک کی ستائی ہوں۔ خدا جانے کون ہوں اور کس طرح یہاں تک آئی ہوں۔ بہ قول استاد:
دیکھتے آنکھوں کے کیا کیا لوگ اٹھے پیشِ چشم
ہوں لبِ حیرت بہ دَنداں رنگِ دنیا دیکھ کر
اگر بے گناہ کا خون گردن پر لینا گوارا ہے؛ مختار ہے، مجھے کیا چارہ ہے۔ اور جو خوشی سے یہ اَمر منظور ہے تو بَرَس روز کی مہلت مجھ کو دے۔ اِس عرصے میں کوئی ڈوبار تِرا، میرے وارِثوں کا پتا مِلا، کوئی مُوا جیتا پھرا تو خیر؛ نہیں، میں تیرے قبضۂ اختیار میں ہوں۔ جبر کرنا کیا ضرور ہے، عدالت سے دور ہے۔ بادشاہ دل میں سوچا: آج تک ایسے غرق ہوئے، اُبھرتے نہیں۔ وہاں کے گئے، پھر اِدھر قدم دھرتے نہیں۔ اِتنے دنوں کی فرصت دو، حکومت نہ کرو۔ آنکھ بند کرنے میں سال تمام ہو جائے گا، پھر کون سا حیلہ پیش آئے گا۔ کہا: بہت خوب، لیکن جو تمھیں ناگوار نہ ہو تو جی چاہتا ہے گاہ گاہ آنے کو، تمھارے دیکھ جانے کو۔ ملکہ نے یہ اَمر مُغتَنَم جانا، کہ حاکم محکوم کا فرق سب کو معلوم ہے۔ اب یہ انداز ٹھہرا: پانچویں چھٹے روز پہلے خواجہ سَرا آکے اطلاع کرتا، پھر بادشاہ قدم دھرتا۔ دو چار گھڑی کی نشست ہوتی۔ قصہ ہر شہر و دیار کا، تازہ اخبار دربار کا بیان کر کے اٹھ جاتا۔
یہاں سے دو کلمے یہ سنیے، مُسبِّب الاسباب کی کار سازی کے سامان دیکھیے: وہ محل جو ملکہ کے رہنے کو ملا تھا، اُس میں مختصر سا پائیں باغ بہت کیفیت کا تھا۔ طرح طرح کا میوہ دار درخت، باغ بہار کا۔ یک لخت نئے نئے رنگ ڈھنگ کے وہ گُل بوٹے، جو بادِ خِزاں سے جھڑے نہ ٹوٹے۔ پھل قصد سے منہ میں آ جائے، ہاتھ بڑھانے کی بار نہ آئے۔ رَوِشیں مورت کی صورت کی سالم۔ آبِ رواں میں پری کا عالَم۔ بھدّے نہ بد قُوارے؛ سُڈول، سانچے کے ڈھلے، نازک، سبُک فوّارے۔ کیاریاں پیچ دار، اُن میں آبشار۔ پختہ ہر ایک رَوِش۔ جو کیاری تھی پیاری تھی، سراسر گُل کاری تھی۔ چمن بندی قطع دار، جا بہ جا چبوترے معقول؛ گُلِ پیادہ و سوار پُر بہار، مُساوی عرض و طول۔ باغبانیاں خوب صورت، نوجوان، تکلف کے سامان۔ طِلائی نُقرئی کھُرپیاں، مُرصّع کار بیلچے ہاتھوں میں۔ غمزہ چال میں، ادا دیکھ بھال میں، لگاوٹ باتوں میں۔ کسی طرف کنویں کی جَگَت پر کیلی والی لال بے رنج و ملال ہو رہی۔ کوئی کچھ اُکھاڑتی، کوئی بو رہی۔ کوئی پھول چُنتی، پھل اُٹھاتی، گھانس کھُرپی سے چھیل ڈالتی۔ کوئی ٹوٹا جھَڑا پتّا، گرا پڑا کانٹا کیاری سے نکالتی۔ سَرِ شاخِ ہر گلِ رعنا بُلبُلوں کا غُنچہ۔ سَرو و شمشاد پر جوبن، صدائے قمری طوق در گردن۔ ایک طرف طاؤسوں کا رَقصِ پُر ناز، ہر ایک خوش آواز۔ باغ کے گرد مُلَبّب جھیل۔ غُنچوں کا چٹکنا کوسِ رحیل۔ کہیں لالہ پیالہ دَر دَست۔ کسی جا نرگسِ شہلا با چشمِ مست۔ تاکِ انگور پر مَے خواروں کی تاک۔ عنبر بیز صحنِ گُلشن کی خاک۔
ملکہ گہ و گاہ، شام و پَگاہ؛ رفعِ پریشانی، دَفعِ سرگرانی کو وہاں آ کے، نظّارۂ صحبتِ گرم جوشیِ گل و بلبل سے رشک کھا کے، بہ صد حسرت و افسوس سوئے گردونِ دوں سر اٹھا کے یہ پڑھتی، میر سوزؔ:
وہ دن خدا کرے کہ خدا بھی جہاں نہ ہو
میں ہوں، صنم ہو اور کوئی درمیاں نہ ہو
گُل ہو شِگفتہ خاطر و گلزار خندہ رو
بادِ صبا بھی ہووے، ولے باغباں نہ ہو
گلشن ہو اور یارِ دل آرام اور مَیں
اپنا ہو قصہ، غیر کی واں داستاں نہ ہو
کبھی پیچ و تابِ زُلف اور گیسوئے مُعَنبَر کی پریشاں حالی جَعدِ سُنبُل کو دکھاتی۔ گاہ سِیاہیِ داغِ جگر لالے کی لالی سے لڑاتی۔ غنچۂ فَسُردہ سے جو کچھ دل گرِفتگی کی تسکین ہوتی؛ تو گُل کی ہنسی پر پھوٹ پھوٹ کے خوب روتی اور اِس غزل سے دل کو سمجھاتی، مولّف:
لازم ہے سوزِ عشق کا شعلہ عیاں نہ ہو
جل بجھیے اِس طرح سے کہ مطلق دھواں نہ ہو
زخمِ جگر کا وا، کسی صورت، دہاں نہ ہو
پَیکانِ یار اُس میں جو شکلِ زباں نہ ہو
اللہ ری بے حسی کہ جو دریا میں غرق ہوں
تالاب کی طرح کبھی پانی رواں نہ ہو
گُل خندہ زن ہے، چہچہے کرتی ہے عندلیب
پھولی ہوئی چمن میں کہیں زعفراں نہ ہو
بھاگو یہاں سے، یہ دلِ نالاں کی ہے صدا
بہکے ہو یارو، یہ جَرسِ کارواں نہ ہو
ہستی، عدم سے ہے مری وحشت کی اک شَلَنگ
اے زُلفِ یار! پاؤں کی تو بیڑیاں نہ ہو
لینا بجائے فاتحہ، تُربت پہ نامِ یار
مرنے پہ یہ خیال ہے، وہ بد گماں نہ ہو
ناقہ چلا ہے نجد میں لیلیٰ کا بے مُہار
مجنوں کی بن پڑے گی، اگر سارباں نہ ہو
چالوں سے چرخ کی، یہ مرا عزم ہے سُرورؔ
اُس سرزمیں پہ جاؤں جہاں آسماں نہ ہو
گاہ لبِ جو کسی سرو کے پاس یادِ قامتِ جان عالم میں مثلِ فاختہ کو کو کرتی، دلِ بے تاب کو تڑپا کر لہو کرتی۔ غور کرو تو دنیا میں کسی چیز کو قرار نہیں۔ اِس کا سب کارخانہ، پیدا ہے کہ پائیدار نہیں۔ کبھی تو روزِ روشن ہے، گاہ اندھیری رات ہے۔ یہ کائنات کی کائنات بے ثَبات ہے۔ گُلشن میں اگر بہار ہے، تو خِزاں دَرپئے آزارہے۔ بُلبل کو ہزار چہچہے یاد ہیں؛ پر، باغباں آشیاں اجاڑنے کی فکر میں ہے، دام بَردوش صیّاد ہیں۔ نوش کے ساتھ گَزندِ نیش ہے۔ کوئی دل شاد، کسی کا سینہ ریش ہے۔ عاشق اَزَل سے غم کا مبتلا ہے۔ مَثل مشہور ہے کہ معشوق کی ذات بے وفا ہے۔ اور جو کبھی کسی قسمت کے زبردست کو اتفاقاً غم خوارِ وفا دار ہاتھ آتا ہے؛ تو سرِ دست کسی نہ کسی پیچ سے فلکِ تفرقہ پسند رشک کھا کے چھُڑاتا ہے۔ اِسی سہارے پر لوگ جان دیتے ہیں، جی بیچ کر یہ روگ مول لیتے ہیں؛ اتنا نہیں معلوم کہ القلیل کالمعدوم۔
یہ جملہ تو مُعترضہ تھا، پھر وہی قصہ شروع ہوا۔ ایک روزِ فَرَح اندوز ملکہ بہ دستورِ قدیم، بے یار و ندیم باغ میں گئی۔ شہ زادے کی صحبت کا خیال اور انجمن آرا کی گرم جوشی کا ملال، تنہائی میں اپنا خراب حال دیکھ کر یہ شعر مولّف کا پڑھا، مولّف:
ایک انقلابِ چرخ سے، افسوس! دیکھنا
وہ صحبتیں رہیں، نہ تو وہ ہم نشیں رہے
پھر ایسا روئی کہ ہچکی لگی۔ شام کا وقت تھا، جانور درختوں پر بسیرا لیتے تھے۔ جس درخت کے تلے ملکہ کھڑی تھی، ایک توتا اُس پر آ بیٹھا۔ گریہ و زاری اِس غم کی ماری کی دیکھ کر بے چَین ہوا، پوچھنے لگا: شاہ زادی! کیا حال ہے، کونسا ملال ہے؟ اور کون سا صدمہ ایسا جاں کاہ ہے جو اِس طرح لب پر نالہ و آہ ہے؟ ملکہ نے کہا: سبحان اللہ! قسمت کی گردش سے یہ حال بَہَم پہنچا کہ جانور ہم پر رحم کھاتے ہیں، احوال پوچھنے کو اُڑ کر آتے ہیں۔ زیادہ بے قرار اور اَشک بار وہ سوگوار ہوئی۔ یہ قاعدۂ کلیہ ہے: جب کسی دل شکستہ کی کوئی دل داری کرتا ہے تو بے شک اُسی کا دل امنڈ آتا ہے۔ ملکہ نے بے اختیار ہو کر کہا، آصف الدولہ:
جو دو شخص خَنداں بَہم دیکھتے ہیں
فلک کی طرف رو کے ہم دیکھتے ہیں
اے جانورِ خوش بیاں، سخن سَنج مہرباں! کیا بتاؤں! گھر بار سے جُدا، بے کسی میں مبتلا، عزیز و اقربا سے الگ، جینے سے خفا ہوں۔ بَسانِ آئینہ حیراں، مِثلِ زلف سِیہ بخت، پریشاں، نے کی طرح نالاں، مَورِدِ صد اندوہ و بلا ہوں۔
شعر:
بے کسی سوخت، کسے می خواہم
نَفَسے ہم نَفَسے می خواہم
شامِ تیرہ بختی کی سیاہی میں بے قرار، صُبحِ قیامت کی صورت دامن چاک، گریباں تار تار۔ شعر:
کس اب زیرِ فلک طاقتِ رُسوائی ہے
کاش شَق ہووے زمیں اور سما جاؤں میں
دل میں الم سے خار خار، غیر جِنسوں کے دام میں گرفتار، سخت و مجبور و ناچار ہوں۔ طائرِ رنگ پَریدہ، ہزاروں جَور و ستم میں جریدہ، روئے راحت، کوئے آشیاں نہ دیدہ؛ شبِ غم کے اندھیرے میں سوجھتا نہیں، خوں بار ہوں۔ ناسخ:
صبح سے کرتے ہیں معمار مرے گھر کو سفید
شام سے کرتی ہے فرقت کی شبِ تار، سیاہ
توتے نے کہا: مجھے تم سے بوئے محبت آتی ہے، تمھاری باتوں سے چھاتی پھٹی جاتی ہے؛ برائے خدا جلد اپنے رازِ سربستہ سے مجھے آگاہ کرو، للہ مفصل حال کہو۔ ملکہ نے قصۂ عشقِ جان عالم، انجمن آرا کا آنا، وزیر زادے کی برائی، جادوگرنی کی کج ادائی، جہاز کی تباہی، اپنا یہاں آنا، اوروں کا پتا نہ پانا، جان عالم کا چھُٹ جانا؛ سب بیان کر کے کہا: وہ شاہِ گردوں بارگاہ ہمیں منجدھار میں ڈوبتا چھوڑ، اپنا بیڑا پار لگا، منہ موڑ خدا جانے کیا ہوا! ہم ہیں اور رنجِ تنہائی میں بے تابی انیس ہے؛ پریشانی ہمدم، خانہ ویرانی جَلیس ہے۔ جو دم ہے، دمِ شمشیر ہے۔ سانس، ناوَک کا تیر ہے۔ جیتے جی صبر و قرار نہیں، بڑی مجبوری یہ ہے کہ مر جانے کا اختیار نہیں۔ شعر:
گئے دونوں جہاں کے کام سے ہم، نہ ادھر کے ہوئے نہ ادھر کے ہوئے
نہ خدا ہی ملا نہ وصالِ صنم، نہ ادھر کے ہوئے نہ ادھر کے ہوئے
توتے کو اِن باتوں سے سکتہ سا ہو گیا، سوچنے لگا۔ سنبھلا تو زمین پر گر پڑا، پر نوچنے لگا۔ ملکہ مہرنگار گھبرائی کہ یہ کیا ماجرا ہوا۔ افسوس:
دیکھ کر مجھ کو وہ حاضر ہوا مر جانے کو
وہی غم خوار جو یاں بیٹھا تھا سمجھانے کو
گھڑی بھر میں جب حواس و ہوش اُس سبز پوش کے درست ہوئے، بولا کہ اے ملکہ مہرنگارِ باوقار! میں وہی توتا کم بخت، سحر گرفتار، جفا شِعار ہوں جس نے اُس رشکِ قمر کو دربدر کیا۔ مجھ سے انجمن آرا کا ذکر سن کر آوارہ ہوا تھا۔ باقی حال تو آپ نے سب سنا ہو گا۔ پھر تو ملکہ اُسے گود میں اٹھا یہاں تک روئی کہ بے ہوش ہو گئی۔ شہ زادے کے بَین بہ صد شور و شَین کرنے لگی۔ باغبانیاں دوڑیں، خدمت گُزار جھپٹیں کہ آج ملکہ پر کیا حادثہ پڑا۔
جب دونوں کے ہوش و حواس پاس آئے، طبیعت ٹھہری؛ توتے نے سمجھایا کہ آپ دل کو تسکین دیں، خاطِر مُبارک جمع رکھیں، جان عالم اور انجمن آرا دونوں خیریت سے زندہ ہیں۔ میں نے یہ مُقدمہ مُنجّموں اور کاہِنوں سے دریافت کیا تھا۔ بالاتفاق سب کا قول ہے کہ سوائے رنجِ مُفارقت، سفرِ غربت؛ جان کی خیر ہے، سب آ ملیں گے۔ بس اب مجھے رخصت کرو۔ صبح کو خدا جانے کس وقت بیدار ہو۔ ملکہ نے کہا: واہ! بعد مدت ایک غم خوار، مَحرمِ اَسرار ہاتھ آیا تھا، وہ بھی اتنا جلد چلا۔ طالع بَرسَرِ کجی ہے، بے لطف زندگی ہے۔ دیکھیں یہ برے دن کب جاتے ہیں اور اچھے کیوں کر آتے ہیں! استاد:
ایک عالم کو آزما دیکھا
جس کو دیکھا، سو بے وفا دیکھا
حالِ بد کا شریک، دنیا میں
نہ برادر، نہ آشنا دیکھا
کیوں دِلا! ہم نہ تجھ سے کہتے تھے
جی لگانے کا کچھ مزا دیکھا
مِٹ گیا ایک دم میں مثلِ حباب
یاں ذرا جس نے سر اٹھا دیکھا
سچ ہے، دنیا مریض خانہ ہے
رنج میں سب کو مبتلا دیکھا
کیف میں، کم بہت نوازشؔ ہے
عشقِ خوباں میں جو نشا دیکھا
آخر کار وہ رات باتوں میں کٹی، صبح ہوئی، پَو پھٹی۔ توتا رخصت ہوا۔ چلتے وقت ملکہ نے تھوڑا حال اپنا پرچے پر تحریر کر دیا، کہا: جہاں شاہ زادے سے ملاقات ہو، یہ خط نشانی دے کر، جو کچھ دیکھا ہے، زبانی بیان کرنا۔ توتا وہ رَقیمۂ شوق لے کر راہی ہوا۔ شہر بہ شہر خستہ جگر ڈھونڈھتا پھرتا تھا۔ ایک روز قریبِ شام وہ سَرگشتہ، ناکام تھک کر؛ لبِ چشمہ کچھ درخت تھے، اُن پر بیٹھ کر سَیلِ سَرشک چشمِ پُر نم سے بہاتا تھا۔ اُسی دن حَسبِ اتفاق جان عالم اور انجمن آرا توتے کی صورت بنائے اُسی درخت پر آئے۔ یہ توتا، ہم جنس سمجھ دیکھنے لگا۔ وہ دونوں مُضطربُ الحال، پُر ملال ایک ٹہنی پر بیٹھ گئے۔ توتا سمجھا کہ یہ مِنقار بَستہ میری طرح سے دل خَستہ ہیں، پھر رونے لگا۔ انجمن آرا نے کہا: جان عالم دیکھنا! یہ توتا روتا ہے؛ شاید ہماری صورت مصیبت دیدہ، مصائب کشیدہ ہے۔ توتا باتیں تو سمجھتا تھا، پھر بیٹھا اور بولا: خدائے رحیم تمھیں وہ رنج نہ دے، عدو بھی تمھارا یہ ستم نہ دیکھے؛ مجھے وہ غم ہے اور دل پر ایسا الم ہے کہ ہر دم یہ دُعا ہے دشمن کا دشمن یہ صدمۂ جاں کاہ اور ایسے روزِ سیاہ نہ دیکھے۔ میر سوزؔ:
جو دم لیتا ہوں تو شعلہ جگر کا، جی جلاتا ہے
جو چپ رہتا ہوں تو اندر ہی اندر جان کھاتا ہے
جو کچھ احوال کہتا ہوں تو سننے والے، روتے ہیں
نہیں کہتا ہوں تو کوہ الم سینہ دباتا ہے
جو جنگل میں نکل جاتا ہوں تو سب دشت پھنکتا ہے
کبھی جو شہر میں آتا ہوں تو گھر بھول جاتا ہے
پہاڑوں میں اگر پھرتا ہوں، ٹکڑے ہو کے اُڑتے ہیں
جو دریا پر کبھی جاتا ہوں، سر پر خاک اُڑاتا ہے
مجمع رنج و مِحَن، غریق شَطِّ خِفّت ہمہ تن ہوں۔ مُحسن میرا خانماں آوارہ ہوا، یہ نَدامت ہے۔ مُفارَقت اُس کی ظلم ہے، قیامت ہے۔ اِس کے وَرائے، تازہ حال یہ دیکھا ہے کہ ایک عاشقِ صادق اپنے معشوق سے جُدا ہے، غیر جِنسوں میں اسیر بلا ہے۔ اُس کے ناوکِ آہ سے چھاتی سوراخ دار ہے۔ سِنانِ نالہ سینے کے پار ہے۔ اگر گریہ و زاری یا تڑپ اور بے قراری اُس کی بیان کروں؛ پتھر، پانی ہو کر بہہ جائے۔ سیماب کی چھاتی خَجلت سے پارہ پارہ ہو؛ راہ چلتے، ان جان کو رحم آئے۔
جان عالم یہ سن کر پھر بیٹھا، پوچھنے لگا: وہ کون تھا جو سرگشتہ و آوارۂ دشتِ اِدبار ہوا؟ اور وہ کون ہے جو ناجِنسوں میں گرِفتار ہوا؟ توتے نے اِن کی داستانِ گُذشتہ اور ملکہ کا حال بیان کیا۔ انجمن آرا ملکہ کا نام سن کر شِگفتہ خاطر ہوئی۔ دونوں نے درخت سے اتر کے صورت بدلی۔ توتا، پہچان کر پاؤں پر گرا۔ شہ زادہ گلے سے لگا کر خوب رویا، کہا: اے ہمدم! تم سے جو ہم جدا ہوئے، کس کس رنج و مصیبت میں مبتلا ہوئے۔ دَشت بہ دشت، کوہ بہ کوہ خراب و خستہ، در بہ در محتاج پھرے؛ تم اُس دن کے گئے آج پھرے۔ پھر ملکہ کا حال پوچھا۔ اُس نے خط حوالے کیا۔ پہلے انجمن آرا نے آنکھوں سے لگایا، دل نے قرار پایا۔ مضمونِ اضطراب، بد حواسی کا مطلب سَرنامے سے کھلا کہ جان عالم کی جگہ ’’ملکہ‘‘ اور ملکہ مہرنگار کی جا ’’رقیمہ شوقِ جان عالم ‘‘ لکھ دیا تھا۔ اس انتشارِ طبیعت کو سوچ کے شہ زادے کے ہوش گُم ہوئے۔ بس کہ نامۂ شوقیہ پیچ و تابِ دل اور اشتیاقِ ملاقات میں تحریر تھا؛ جان عالم جب اُس کو کھولتا تھا، کاغذ بولتا تھا۔ اور اثرِ شوقِ ہم آغوشی سے ہر بار خط ہاتھ میں لپٹا جاتا تھا۔ مضمونِ مکرر سو سو حسن طلب دکھاتا تھا۔ مولّف:
نامۂ شوقیہ جب میں نے رقم اُس کو کیا
سو جگہ مضمون تب اُس میں مُکرر ہو گیا
آنسو دمِ تحریر، یعنی لکھنے کے وقت جو خط پر ٹپکے تھے؛ دھبے اور نشان اُس کے دیدۂ منتظِر، چشمِ حیرت زدہ کی طرح ہر سطر پر کھلے تھے، اور سرخ ہالہ ہر حرف نے نکالا تھا۔ ایک جَدوَلِ خونی ہُوَیدا تھی، لہو رونے کی کیفیت پیدا تھی۔ لکھا تھا، حافظ:
از خونِ دل نوشتم نزدیکِ دوست نامہ
إنّی رأیتُ دھَراً مِن ھجرِک القِیامَة
شعر:
سوادِ دیدہ حل کردم، نوشتم نامہ سوی تو
کہ تا ہنگامِ خواندن چشمِ من افتد بروی تو
اے یارِ وفا دار، صادِقُ الاقرار! اللہ تجھے سلامت رکھے۔ شرحِ اشتیاق، داستانِ فراق قصۂ طول و طویل ہے؛ زندگی کا بکھیڑا، عرصہ قلیل ہے۔ اگر ہماری زیست منظور ہے، جلد آؤ، صورت دکھاؤ۔ نہیں تو تاسُّف کرو گے، پچھتاؤ گے۔ تم نے آنے میں اگر دیر کی، تو ہم نے صدمۂ ہجر سے تڑپ کر جان دی؛ مٹی کے ڈھیر پر رو رو کے خاک اُڑاؤ گے۔ مولّف:
شکل اپنی ہم کو دکھلاؤ خدا کے واسطے
جان جاتی ہے، اجی آؤ خدا کے واسطے
کوئی دم کا سینے میں دَم مہمان ہے، نام کو جسم میں جان ہے۔ فلک نے ہماری صحبت کا رشک کھایا، بے تفرقہ پَردازی ظالم کو چین نہ آیا۔ روز و شب رنجِ جُدائی سے جان کو کھوتے ہیں۔ اِتنا کبھی کاہے کو کسی دن ہنسے تھے، جیسا بِلک بِلک کر فرقت کی راتوں میں روتے ہیں۔
میر:
بے تابیِ دل کسے سنائیں
یہ دیدۂ تر کسے دکھائیں
تمھاری تقریرِ دل پذیر ہر دم بر نوکِ زباں ہے، بے تصوّر سے باتیں کیے چین آرام کہاں ہے۔ استاد:
یہ جانتے، تو نہ باتوں کی تجھ سے خو کرتے
ترے خیال سے پہروں ہی گفتگو کرتے
ہمارے تڑپنے سے ہمسایہ سخت تنگ ہے۔ دولت سَرا زِنداں سے تیرہ و تنگ ہے۔ میر:
گر یوں ہی رہے گی بے قراری
تو ہو چکی زندگی ہماری
وحشت پیرامونِ حال ہے۔ ہر گھڑی فرقت کی، ماہ ہے۔ جو پَہَر ہے وہ سال ہے۔ میر:
دل کوئی دم میں خون ہووے گا
آج کل میں جنون ہووے گا
تمھاری صورت ہر پَل رو بہ رو ہے۔ جس طرف دیکھا، تو ہی تو ہے۔ چشمِ فُرقت، دیدۂ دریابار ہے۔ آنکھ نہیں، چشمۂ آبشار ہے۔ افسوس تو یہ ہے جن آنکھوں کو تم پُرنم نہ دیکھ سکتے تھے، اُن سے خون کے دریا بہہ گئے۔ مولّف:
تم نے نہ ہماری، پر، خبر لی
چھاتی پتھر کی، کیوں جی، کر لی
دن رات کی وہ صحبت تمھارے ساتھ کی جب یاد آتی ہے؛ نیند اُچٹتی ہے، بے چینی کی رات پہاڑ ہو جاتی ہے، کاٹے نہیں کٹتی ہے۔ چارپائی تنہائی میں پلنگ بن کر کاٹے کھاتی ہے، بالِش پر نیند اڑاتی ہے۔ خواب میں سونے کا خیال نہیں۔ کھانا پانی ہجر میں حرام ہے، حلال نہیں۔ وہ سر، جو اکثر آپ کے زانو پر رہا ہے، اُس کو سو سو بار بالِش و بالیں پر دے پٹکا ہے۔ مولّف:
جس میں بانھیں تری حَمائل تھیں
طوقِ حسرت میں اب وہ گردن ہے
میرے جاگنے کے، اے پیارے! ستارے شاہد ہیں۔ گواہِ شرعی زاہد ہیں۔ مُرغِ سحر کو بے قراری سے چونکاتی ہوں۔ موذن کی نیند آہ و زاری سے اُڑاتی ہوں۔ شبِ وصل یہ ہمیں جگاتے تھے، ستاتے تھے؛ اب ہجر کی رات ہم انھیں سونے نہیں دیتے ہیں، مَن مانتے بدلے لیتے ہیں۔ دل ہر ساعت گھڑی سے زیادہ نالاں ہے، ہر پَہر گَجَر سے فزوں شور و فُغاں ہے۔ چشمِ ثوابتِ و سیّار معائنۂ حالِ زار، پُر ملال سے بہ صد حیرت وا ہے۔ چرخِ گرداں میری گردش دیکھ کر چکّر کر رہا ہے۔ استاد:
کھا لیجے تھوڑا زہر منگا، ہم اور کہیں تم اور کہیں
کیا لطف ہے ایسے جینے کا، ہم اور کہیں تم اور کہیں
اِفشائے حال باعثِ ندامت، موجِب دشمنوں کی خوشی کا، سبب دوستوں کے ملال کاہے۔ لا اعلم:
دلِ من داند و من دانم و داند دلِ من
اگر جیتے جی کبھی مل جائیں گے، رنجِ فُرقت کے دکھڑے مفصل زبانی کہہ سنائیں گے۔ اور جو فلک کو یہ نہیں منظور ہے تو انسان بہ ہر عُنوان مجبور ہے؛ یہ حسرت بھی در گور، گور میں لے جائیں گے۔ سعدی:
اے بسا آرزو کہ خاک شدہ
بہ خدا نمازِ پنجگانہ میں یہ دعا ہے، جامعُ المُتَفَرّقین سے یہی التجا ہے کہ تم سے جلد ملاقات ہو، باہم شکوہ و شکایت ہو۔ دلِ بے قرار تسکین پائے، جانِ زار کو چین آئے۔ زیادہ دیکھنے کا اشتیاق ہے، اشتیاق ہے۔ شام و پَگاہ جدائی کا صدمۂ جاں کاہ سخت شاق ہے، شاق ہے۔ خوگرِ وصل، ہجر کے الم کا مُبتدی ہے یا مَشّاق ہے۔
یہ خط کا مضمون جو پڑھا، دونوں نے رو دیا۔ از سرِ نو مع سرنامہ سراسر وہ نامہ بھگو دیا۔ اُس رات کو تو چار و ناچار وہاں مقام کیا؛ صبح ہوتے ہی صورت بدلی، کوچ کا سر انجام کیا۔ آگے آگے توتا رہ بَر، پیچھے پیچھے وہ دونوں تیز پَر۔