فسانۂ عجائب/جَولانی سَمَندِ تیز رفتار ِقلم کی
جَولانی سَمَندِ تیز رفتار قلم کی میدانِ بیانِ سواریِ شہ زادۂ جان عالم میں، اور خریدنا توتے کا، اور کج بحثی ماہ طلعت کی توتے سے۔ پھر کیفیتِ حُسنِ انجمن آرا توتے سے سننا، شہ زادے کا نادیدہ عاشق ہونا، وحشت سے سر دھُننا
بُلبلِ نَوا سَنجِ ہزار دَستاں، طوطیِ خامۂ زَمزَمہ ریزِ خوش بیاں گلشنِ تقریر میں اِس طرح چہکا ہے، صفحۂ فسانہ مہکا ہے کہ بعد رسمِ شادی، سیر و شکار کی اجازت، سواری کا حکم شاہِ ذَوِی الاقتدار سے حاصل ہوا۔ گاہ گاہ شام و پگاہ جان عالم سوار ہونے لگا۔ سیر و شکار کی طرف مائل ہوا۔ ایک روز گزر اُس کا گُذری میں ہوا۔ اَنبُوہ کثیر، جَمِّ غَفیر نظر آیا اور غُلغُلۂ تحسین و آفریں از زمیں تا چرخِ بَریں بلند پایا۔ شہ زادہ اُدھر متوجہ ہوا، دیکھا ایک مردِ پیر، نحیف، ستَّر اَسِّی برَس کا سِن، نہایت ضعیف، پنجرہ ہاتھ میں لیے کھڑا ہے۔ اُس میں ایک جانور، مانندِ ساکنانِ جِناں سبز پُوش، طائرِ بے مُروّت، خانہ بدوش، با مِنقارِ گلنار لطیفے لطیف، رنگین اور نقطے قابلِ تعریف، نمکین، مثالِ طوطیِ پسِ آئینہ بیان کر رہا ہے۔ تماشائیوں کی کثرت سے بازار بھر رہا ہے۔ لا اَعلم:
در پس آئینہ طوطی صِفَتَم داشتہ اند
اُنچہ اُستادِ ازل گفت، ہَماں می گویم
شہ زادے کے دیکھتے ہی توتا مالک سے بولا: اے شخص! کَوکَبِ بَخت تیرا افلاس کے بُرجِ تِیرَہ سے نکلا، نصیب چمکا۔ طالع بر سرِ یاری و زمانہ آمادۂ مددگاری ہوا۔ دیکھ! ایسا شہ زادۂ حاتِم شِعار، ابرِ گُہر بار متوجّہ اِس مُشتِ پَر، ذرَّۂ بے مقدار پر ہوا ہے۔ وہ بے کار شے کارگاہِ بے ثبات میں ہوں، جس کا طالب نہیں کہیں۔ بہ حدّے کہ جانور ہوں، اور بِلّی کا کھاجا نہیں، مگر جو یہ نظرِ عنایت کرے: ابھی تیرا ہاتھ پُر زَر ہو، دامن گُہر سے بھرے۔
جان عالم نے یہ سخنِ ہوش رُبا، کلمۂ حیرت افزا کو سُن، توتے عقل کے اُڑا، پِنجرہ اُس طائِرِ ہَمَہ داں، جانورِ سحر بَیاں کا ہاتھ میں لے کے مالک سے قیمت پوچھی۔ توتے نے کہا، مُؤَلِّف:
کب لگاتا ہے کوئی اِس دلِ بے حال کا مول
سب گھٹا دیتے ہیں مُفلس کے غرض مال کا مول
مگر جو حُضور کی مرضی! جان عالم نے لاکھ روپے، خلعت کے سِوا، عِنایِت کیے اور پِنجرہ ہاتھ میں لیے دَولت سَرا کو روانہ ہوا۔ گھر میں جا، ماہ طلعت کو توتا دِکھا یہ مصرع اِنشؔا کا پڑھا، اِنشؔا:
بازار ہم گئے تھے، اک چوٹ مول لائے
توتے نے شہ زادے کو سخنانِ دل چسپ، قِصَصِ عجیب، حِکایاتِ غریب، شعرِ خوب، خمسہ ہائے مَرغوب سُنا اپنے دامِ مَحبّت میں اَسیر کیا۔ یہ نَوبت پہنچی کہ سوتے جاگتے، دربار کے سِوا، ایک دم جُدا نہ ہوتا۔ جب دربار جاتا، پِنجرہ بہ تاکیدِ حِفاظت ماہ طلعت کو سونپ جاتا اور دربار سے دیوانہ وار، بہ شوقِ گفتار بے قرار جلد پھر آتا۔
ایک دن شاہ زادہ دربار گیا، توتا محل میں رہا۔ اُس روز ماہ طلعت نے غُسل کیا اور لِباسِ مکلف سے جِسم آراستہ، زیورِ پُر تکلف سے پَیراستہ ہو، جَواہِر نِگار کرسی پر بیٹھی۔ ہَوا جو لگی، آئینے میں صورت دیکھ خود مَحوِ تماشا ہوئی۔ بحرِ عُجب و نَخوَت میں آشنا ہوئی۔ خَواصُوں سے، جلیسوں سے، جو جو دَم ساز، مَحرمِ راز تھیں، اپنے حُسن و صورت کی داد چاہی۔ ہر ایک نے مُوافقِ عقل و شعور تعریف کی۔ کسی نے کہا: ہِلالِ عید ہو۔ کوئی بولی: خُدا جانتا ہے، دید ہو نہ شنید ہو۔ اللّٰہ تعالیٰ نے، بہ ایِں کثرتِ مخلوقات، تمھارا ہمسر اَز قِسمِ جِن و بَشَر بنایا نہیں۔ پری نے یہ قَد و بالا، حور نے یہ حُسن کا جھمکڑا پایا نہیں۔
جب وہ کہہ چکیں، ماہ طلعت نے کہا: توتا بہت عقل مند، ذی شعور، سَیاحِ نزدیک و دور ہے، اُس سے بھی پوچھنا ضَرور ہے۔ مُخاطب ہوئی کہ اے مُرغِ خوش خو و طائِرِ زَمرد لباسِ سُرخ رو، بَذلَہ سَنجِ بے رنج! سچ کہنا، اِس سَج دھج کی صورت کبھی تیرے طائِرِ وہم و خیال کی نظر سے گزری ہے؟
نَیرَنگیِ چَرخِ کج رفتار، فِتنہ پَردازِیِ گَردونِ واژوں عَیاں ہے۔ آگاہ سب جہاں ہے۔ اُس وقت توتا رنجیدہ دل، کَبیدَہ خاطِر، مضمحل بیٹھا تھا، چُپ ہو رہا۔ شہ زادی نے پھر پوچھا۔ توتے نے بے اِعتنائی سے کہا: ایسا ہی ہو! یہ رنڈی معشوق مزاج، طُرہ یہ کہ شہ زادے کی جُورو، وہ شر مالکِ تخت و تاج، بَرہَم ہو کے بولی: میاں مٹھو! جینے سے خفا ہو جو ہمارے رو بہ رو چَبا چَبا کر گفتگو کرتے ہو؟ توتے نے کہا: سوال و جواب اور، دھمکانا اور حکومت سے ڈرانا، غُصے کی آنکھ دِکھانا اَور ہے۔ کیوں اُلجھتی ہو، شاید تمہی سچّی ہو! پھر تو شُعلۂ غَضَب کا نونِ سینۂ شہ زادی میں مُشتَعِل ہوا، کباب دل ہوا، کہا: کیوں جانورِ بد تمیز، ناچیز، تیری مَوت آئی ہے؟ کیا بیہودہ ٹیں ٹیں مچائی ہے! واہی بک رہا ہے! ہمارا مرتبہ نہیں سمجھتا ہے! توتے کے مُنہ سے نکلا: کیوں اِتنی خفا ہوتی ہو، اپنا منہ ملاحظہ کرو، صاحب تم بڑی خوب صورت ہو!
یہاں تو یہ حیص بیص تھی، جان عالم تشریف فرما ہوا۔ عجب صحبت دیکھی کہ شہ زادی بہ چشمِ پُر آب و با دلِ کباب، غیظ میں آ، تھرّا تھرّا توتے سے بحث رہی ہے۔ شہ زادے نے فرمایا: خیر باشد! توتا بولا: آج نِرا شَر ہے، خیر بہ خیر۔ مگر چندے حیاتِ مستعار اِس وحشی کی اور آب و دانہ قَفس میں پینا کھانا باقی تھا۔ اگر آپ اور گھڑی بھر دیر لگاتے، تشریف نہ لاتے، تو میرا طائرِ روح، گُربۂ غضبِ شہ زادی سے مجروح، پرواز کر جاتا، ہرگز جیتا نہ پاتے، مگر پنجرہ خالی دیکھ مزاجِ عالی پریشان ہوتا، بہ حسرت و افسوس یہ فرماتے، انشؔا:
توتا ہمارا مر گیا کیا بولتا ہوا
ماہ طلعت ان باتوں سے زیادہ مکدر ہوئی، شہ زادے سے کہا: اگر میری بات کا توتا جواب صاف نہ دے گا، تو اِس نِگوڑے کی گردن مڑوڑ، اپنے تلووں سے اِس کی آنکھیں مَلوں گی، جب دانہ پانی کھاؤں پیوں گی۔ جان عالم نے کہا: کچھ حال تو کہو۔ توتے نے گزارش کی: حضور! یہ مقدمہ غلام سے سنیے۔ آج شہ زادی صاحب اپنی دانست میں بہت نکھر، بقؔا:
دیکھ آئینے کو، کہتی تھی کہ اللہ ری مَیں!
پھر مجھ سے فرمایا: تو نے ایسی صورت کبھی دیکھی تھی؟ مجھ اجل رسیدہ کے منہ سے رَو میں نکلا: خدا نہ کرے! اِس جرم قبیح پر شہ زادی کے نزدیک کشتنی، سُوختَنی و گردن زَدنی ہوں۔ بہ قول میر تقی، شعر:
بے جرم تہ تیغ ہی رکھا تھا گلے کو
کچھ بات بری منہ سے نہ نکلی تھی بھلے کو
جان عالم نے کہا: تم بھی کتنی عقل سے خالی، حُمق سے بھری ہو! تم تو پری ہو۔ اور جانور کی بات پر اتنا آزردہ ہونا! گو گویا ہے، پھر طائِر ہے، نادانی اس کی ظاہر ہے۔ میاں مٹھو کو ان باتوں کی تاب نہ آئی۔ آنکھ بدل کے روکھی صورت بنائی اور ٹیں سے بولا: خداوندِ نعمت! جھوٹ جھوٹ ہے، سچ سچ ہے۔ ہمسر جس کا کوئی نہیں، وہ ذات وَحْدَہٗ لَا شَرِیْکَ لَہٗ کی ہے۔ اُس کے سوا ایک سے ایک بہتر و برتر ہے۔ سب کو یہ خبر ہے: فَضَّلْنَا بَعْضَکُم عَلیٰ بَعْضٍ۔ میں نے جھوٹ اور سچ دونوں سے بچ کر ایک کلمہ کہاتھا۔ اگر راستی پر ہوتا، گردن کج کیے سیدھا گور میں سوتا۔ یہ سن کے وہ اور مُجوِّز ہوئی۔ مثل مشہور ہے: راج ہٹ، تِریا ہٹ، بالک ہٹ۔ جان عالم نے مجبور ہو کے کہا: جو ہو سو ہو، مٹھو پیارے! سچ کہہ دو۔ توتے نے بہ منت عرض کی: دروغ مصلحت آمیز، بہ از راستیِ فتنہ انگیز۔ مجھے سچ نہ بلوائیے، میرا منہ نہ کھلوائیے۔ نہیں، انجامِ راستی حضور کے دشمنوں کو دشت نَوردی، بادِیہ پیمائی، غریب الوطنی، کوچہ گردی نصیب ہو گی۔
شہ زادے نے کہا: یہ جملہ تم نے اور نیا سنایا۔ اب جو کچھ کہنا ہے، کہا چاہیے، باتیں بہت نہ بنائیے۔ اس نے کہا: میں نے ہر چند چاہا کہ آپ رنجِ سفر، مصائبِ شہر بہ شہر، ایذائے غربت سے باز رہیں کہ سفر اور سقر کی صورت ایک ہے، اِس سے بچنا نیک ہے مگر معلوم ہوا حضور کے مقدر میں یہ امر لکھا ہے، میرا قصور اس میں کیا ہے۔ رفیع سوداؔ:
چاک کو تقدیر کے ممکن نہیں کرنا رفو
سُوزنِ تدبیر ساری عمر گو سیتی رہے
سنیے قبلۂ عالم! یہاں سے برس دن کی راہ، شمال میں ایک ملک ہے عجائب زرنگار۔ ایسا خطہ ہے کہ مرقعِ خیالِ مانی و بہزاد میں نہ کھنچا ہو گا اور پیر دِہقانِ فلک نے مزرعۂ عالم میں نہ دیکھا ہو گا۔ شہر خوب، آبادی مرغوب۔ رنڈی، مرد حسین، طرح دار۔ مکان بِلّور کے بلکہ نور کے، جواہر نگار۔ عقلِ باریک بیں مشاہدے سے دنگ ہو۔ خلقت اِس کثرت سے بستی ہے کہ اُس بستی میں وہم و فکر کو عرصہ تنگ ہو۔ خورشید ہر سحر اُس کے دروازے سے ضِیا پاتا ہے۔ بدرِ کامل وہاں دو دن نہیں رہتا، غَیرت سے کاہیدہ ہو، ہلال نظر آتا ہے۔
وہاں کی شہ زادی ہے انجمن آرا۔ اُس کا تو کیا کہنا! کہاں میری زباں میں طاقت اور دَہاں میں طلاقت جو شِمّہ مذکورِ شکل و شمائل اُس زہرہ جبیں، فخرِ لُعبتانِ لندن و چیں کا سناؤں۔ اُستاد:
ایک میں کیا، خوب گر دیکھے اسے حسن آفریں
اپنی صناعی پہ حیراں خود وہ صورت گر رہے
لیکن سات سو خواصِ زرّیں کمر، تاجِ دل بر سر، ماہ رو، عنبریں مو، سرگروہ خوبانِ جہاں، جانِ جاں، آرامِ دلِ مشتاقاں، اُس کی خدمت میں شب و روز سرگرمِ خدمت گزاری، بڑی تیاری سے رہتی ہیں۔ اگر ان کی لونڈیوں کو شہ زادی صاحب بہ چشمِ انصاف دیکھیں اور کچھ غیرت کو بھی کام فرمائیں، یقین تو ہے چلو بھر پانی میں محجوب ہو کے ڈوب جائیں۔ ماہ طلعت یہ سن کے سن ہوئی، سر جھکا لیا۔ جان عالم کو کچھ اور ہی دھن ہوئی، پنجرہ اٹھا لیا، دیوان خانے میں لے جا مفصل حال دریافت کرنے لگا۔ جی کا حال کچھ اور ہی ہو گیا، ہر دم آہِ سرد دلِ نیم بسمل سے بھرنے لگا۔ مولوی جامیؔ:
نہ تنہا عشق از دیدار خیزد
بسا، کیں دولت از گفتار خیزد
در آید جلوۂ حسن از درِ گوش
زجاں آرام بر باید،ز دل ہوش
زدیدن ہیچ اثر نے درمیانہ
کند عاشق کساں را غائبانہ
توتے کو شہ زادے کے طرزِ گفتگو، رنگِ رو، آنکھ کی تری، ہونٹ کی خشکی، دل کی دھڑک، کلیجے کی پھڑک سے کہ یہ نشانِ عشق، گمانِ خبط سب ہیں؛ ثابت ہوا کہ شہ زادے کا دل پُرزے پُرزے اور دِماغ کا ایاغ بادۂ عقل سے خالی ہوا، خیالِ محالِ وصالِ انجمن آرا بھرا، خوب حالی ہوا۔ سخت نادمِ و خجل ہو کے دل سے کہا: کم بخت زبان نے، حسن کے بیان نے غضب کیا، منتر کارگر ہوا، پڑھا جن سر چڑھا، حضرتِ عشق کا گزر ہوا۔ چاہا کہ بہ لَطائفُ الحِیَل اِس عزم بیجا سے باز رکھے، عقل اور عشق میں امتیاز رکھے، کہا: اے ناداں، دشمنِ جاں! یہ قصد لا حاصل ہے۔ عمداً اس کوچے میں پاؤں نہ دھر، اپنے خون سے ہاتھ نہ بھر، بہ قولِ مؤلف:
خدا کو مان، نہ لے نام عاشقی کا سرورؔ
کہ منفعت میں بھی اس کی، ہیں سو ضرر پیدا
بیان اِس کا مُحال ہے، مگر مختصر سا یہ حال ہے: عقل اِس کام میں دور ہو جاتی ہے، وحشت نزدیک آتی ہے۔ لب خشک، چہرہ زرد، دل خون ہوتا ہے۔ بھوک پیاس مر جاتی ہے، خواب میں نیند نہیں آتی ہے۔ جانِ شیریں تلخ ہو، کلیجے میں درد، آخر کو جنون ہوتا ہے۔ لختِ جگر کھاتا ہے، خونِ دل پیتا ہے، مر مر کے جیتا ہے۔ رقیبوں کے طعنوں سے سینہ فگار ہوتا ہے۔ لڑکوں کے پتھروں سے سر کا رنگ گلنار ہوتا ہے۔ دن کو ذلت و خواری، شب کو انتظار میں اختر شُماری۔ بے قراری سے قرار رہتا ہے۔ اپنے بیگانے کی نظر میں ذلیل و خوار رہتا ہے۔ جنگل میں جی لگتا ہے، بستی اُجاڑ معلوم ہوتی ہے۔ در بہ در پھرنے میں دن تو کٹ جاتا ہے، تنہائی کی رات پہاڑ معلوم ہوتی ہے۔ سینہ آتشِ غم سے جل کے تنور ہوتا ہے۔ آنکھوں سے دریا ابلتے ہیں، طوفان کا ظہور ہوتا ہے۔ عقل کا چراغ گُل، تَپِ فراق سے دل جلتا ہے۔ شجرِ تمنا بے برگ و بار رہتا ہے، پھولتا ہے نہ پھلتا ہے۔ جوانی کا گھن، پیری تک اُڈھیڑ بُن رہتی ہے۔ گوں گا بہرا بن جاتا ہے، ہر دم طبیعت سن رہتی ہے۔ ابھی پہلی بسم اللہ ہے، ٹھنڈی سانسیں بھرتے ہو، لب پر آہ ہے۔ دیکھا نہ بھالا ہے، سینے کے پار عشق کا بھالا ہے۔ آئینہ ہاتھ میں لے منہ تو دیکھو، نقشہ کیا ہے۔ معشوقِ با وفا گو گردِ سرخ، لعلِ سپید سے نایاب سِوا ہے، کہاں ملتا ہے۔ خاک میں، ڈھونڈتے ڈھونڈھتے خواہاں ملتا ہے۔ یہ جو زمانے میں مشہور با مِہر و وفا ہیں، بے وفا، بانی صَد جَور و جفا ہیں۔ عشق کم بخت بے پیر ہے، او نوجواں! یہی ٹیڑھی کھیر ہے۔ سنا نہیں کوہ کن نے جانِ شیریں کس تلخی سے کھوئی، یوسف کی چاہ میں زلیخا نے کیسے کنویں جھانکے، کیا کیا روئی! مجنوں کو اِس دشت میں جنون ہوا، لیلیٰ کا کیا بگڑا؟ پرویز کا اِس کوچے میں خون ہوا، شیریں نے کیا کیا؟ افسوس تو یہ ہے کہ اِتنا بھی کوئی نہ سمجھا، جامیؔ:
غمِ چیزے رگِ جاں را خراشد
کہ گاہے باشد و گاہے نباشد
ذِلت اِس کام میں عین عزت ہے۔ درد کا نام یہاں راحت ہے۔ دل اِس کشمکش میں ٹوٹ جاتا ہے۔ رُستم کا اِس معرکے میں جی چھوٹ جاتا ہے۔ اِسفَندِ یار سا روئیں تن ہو تو موم کی طرح پگھل کر بہہ جائے، حسرت ہی حسرت رہ جائے۔ لوگوں نے ہزاروں رنج، صدمے اِس کام میں اٹھائے، بعد خرابیِ بِسیار نا تجرِبہ کار کہلائے۔ یہ وہ برا کام ہے، ناکامی جس کا آغاز، بدنامی انجام ہے۔ مُبتدی ہو یا مَشّاق ہے، دونوں کی رائے ایک سی ہوتی ہے۔ صدمۂ دوری، المِ حُضوری شاق ہے۔ مرضِ عشق میں کوئی دوست گرفتار نہ ہو۔ مولّف:
دوست تو دوست ہے، دشمن کو یہ آزار نہ ہو
مُسدّس:
کیا میں اِس کافرِ بد کیش کا احوال کہوں
یہی خوں خوار، پِیا کرتا ہے عاشق کا خوں
زار کر دیتا ہے انسان کو یہ اور زَبوں
رفتہ رفتہ یہی پہنچاتا ہے نوبت بہ جنوں
یہی خوں ریز تو خوں خوار ہے انسانوں کا
دین کھوتا یہی کافر ہے، مسلمانوں کا
یہی کرتا ہے ہر اک شخص کو رسوا، ظالم
یہی کرتا ہے ہر اک چشم کو دریا، ظالم
کوہ دکھلاتا ہے گاہے، گہے صحرا، ظالم
کیا بتاؤں تمھیں، کرتا ہے یہ کیا کیا ظالم
در بہ در، خاک بہ سر، چاک گریباں کر کے
جان لیتا ہے، ولے بے سر و ساماں کر کے
یہی بانی تو زلیخا کی بھی تھا خواری کا
یہی باعث دَمَن و نَل کی ہُوا یاری کا
یہی فرہاد کی، حامی تھا، تَبَر داری کا
عشق کہیے نہ اِسے، قہر ہے یہ باری کا
تلخ کامی ہوئی شیریں کو اسی سے حاصل
کیے بے پردہ و برباد ہزاروں مَحمِل
اِس نے مجنوں سے بنائے ہیں بہت دیوانے
اِس نے خود رفتگی میں، اپنے کیے بیگانے
گو کہ مشہور جہاں اِس کے ہیں سب افسانے
پر، جو اِس کام کا مشّاق ہو، وہ ہی جانے
کبھی معشوق کے پردے میں نِہاں ہوتا ہے
کبھی سر چڑھ کے یہ عاشق کے، عیاں ہوتا ہے
ناقۂ لیلیِ مُضطر کا شُترباں یہ تھا
نجد میں قیس سے پہلے ہی حُدی خواں یہ تھا
چاہ میں ڈال کے، یوسف کا نگہباں یہ تھا
جان ہر شیر کی لینے کو، نیستاں یہ تھا
حُسن بن جاتا ہے، انداز کہیں، ناز کہیں
دردِ دل ہے یہ کہیں، سوز کہیں، ساز کہیں
مثلِ فرہاد بہت مر گئے سر پھوڑ، حزیں
دی ہے شیریں کی طرح کتنوں نے جانِ شیریں
پاس عذرا کے گیا اور کوئی وامق کے قریں
اِس سے آوارہ بچا اور نہ بچا گوشہ نشیں
اِس سے ملتا ہے جسے، رنج و مِحَن ملتا ہے
گور ملتی ہے کسی کو نہ کفن ملتا ہے
طور کو نور کے جلوے میں جلایا اِس نے
کبھی آتش کو ہے گُلزار بنایا اِس نے
جان چھوڑی نہیں، جیتا جسے پایا اِس نے
اور نیرنگ جہاں اپنا دکھایا اِس نے
کام مُردوں سے لیا، زندوں کو ناکام رکھا
درد کا نام بھی بے درد نے آرام رکھا
اِس کے افسانے ہیں دنیا میں بہت طول و طویل
جس کا ہمدم یہ ہوا، ہو گیا وہ خوار و ذلیل
اِس کا بیمار، پڑا رہتا ہے بستر پہ علیل
دھونس دے دے کے بجا دیتا ہے یہ کوسِ رحیل
رنج و ماتم کے سوا، اور یہ کیا دیتا ہے
وصل کی شب سحرِ ہجر دکھا دیتا ہے
یہی اِخفا ہے بہ صد زیب رگِ ہر گُل میں
سوز و نالہ یہ اِسی کاہے دلِ بلبل میں
یہی ہے جُز میں، اگر دیکھو، یہی ہے کُل میں
گر فرشتہ ہو، تو آ جاتا ہے اِس کے جُل میں
خون بے جرم زمانے کا بہاتے دیکھا
مَیل چِتون پہ کبھی اِس کی نہ آتے دیکھا
ایک شِمّہ ہے، لکھا حال جو میں نے اِس کا
جس پہ اِس دیو نے اَلطاف کا سایہ ڈالا
دشتِ غربت میں وہ آوارہ و سرگشتہ ہوا
دوست بھی چھوٹتے ہیں، شہر بھی چھوڑے اپنا
پاس جس کے یہ گیا، خلق سے وہ دور ہوا
کون سا شیشۂ دل تھا کہ نہ وہ چور ہوا
ہجر کے رنج میں کتنوں کا ہوا اس میں وصال
لے گئے سینے میں فرقت کا سبھی درد و ملال
اِس کی گردش سے ہر اک ماہ ہوا بدرِ ہلال
کس کی طاقت ہے کہ تحریر کرے اس کا حال
زیست کرتا غمِ ہجراں سے یہ ہے سب کی شاق
جان دے دیتے ہیں کہہ کہہ کے یہی ہائے فراق!
وصل میں گو مزہ ہے، ہجر کا رنج وَلے جاں گُزا ہے۔ چاہ، کُنویں جھکواتی ہے۔ یہ وہ بیماری ہے جو جان کے ساتھ جاتی ہے۔ ہمیشہ سے اس کام والے آہ و نالہ بَر لَب، خاک بہ سَر، چاک گریباں سب رہے ہیں۔ اگر عاشق کی عزت و توقیر ہوتی تو دنیا میں اس سے بہتر کوئی شَے نہ تھی۔ جستہ جستہ اِن لوگوں کے مرتبہ شَناس، قدر داں ہیں، مگر ہر جگہ کہاں ہیں! اور یہ قصہ جو میں نے کہا، فقط بات کی پَچ کا جھگڑا تھا، ورنہ کہاں ملکِ زر نِگار، کجا شہ زادیِ عالی تَبار! جان عالم نے کہا: استغفر اللہ! اگر وہ جھوٹ تھا، تو یہ فقرہ کب سچ ہے۔ یہ تو نِری کھڑ پچ ہے۔ سوز:
خدا ہی کی قسم ناصح! نہ مانوں گا کہا اب تو
نہ چھوٹے گا ترے کہنے سے، میرا دل لگا اب تو
اِسی تقریر میں یہ حال ہوا کہ دل میں درد، چہرہ زرد ہونے لگا۔ لب پر آہِ سرد، گرفتار رنج و تعب، عشق کے آثار سب ظاہر ہوئے۔ شاہ زادے صاحب جامے سے باہر ہوئے۔ ضبط کا پردہ درمیان سے اٹھا۔ شور فُغاں سے اٹھا۔ جنون پیرامونِ عقل۔ بے چارہ نَو گرفتار سلسلۂ محبت میں اسیر بہ قول میرؔ ہو گیا۔ طالعِ بیدار دفعتاً سویا، فتنہ چونک کر جاگا۔ دل، بَر سے نکل کر بھاگا۔ میر:
طبع نے ایک جنوں کیا پیدا
اشک نے رنگِ خون کیا پیدا
ہاتھ جانے لگا گریباں تک
بے قراری نے کج ادائی کی
چاک کے پاؤں پھیلے داماں تک
تاب و طاقت نے بے وفائی کی
توتا یہ حال دیکھ کر محجوب ہوا کہ ناحق، رنڈی کی کج بحثی سے شہ زادے کو مرگ کا مستعد کیا۔ بیٹھے بٹھائے خونِ بے گناہ اپنی گردن پر لیا۔ اب اس طرح کا سمجھانا، مانع ہونا ابھارنا، بھڑکانا، بلکہ نرا جلانا ہے۔ گھبرا کر تسکین و تشفی کرنے لگا اور زخم شمشیر عشق کو مرہم مژدۂ وصال سے بھرنے لگا۔ کہا: آپ ہوش و حواس بجا رکھیے۔ اگر مجھے ایسا سچا جانا کہ میرا جھوٹ سچ مانا، اس شرط سے آپ کو لے چلوں گا جو میرا کہا نہ مانو گے، زک اٹھاؤ گے، دھوکا کھاؤ گے، پھر مجھ کو نہ پاؤ گے، پچھتاؤ گے۔
جان عالم نے فرمایا: اے رہ بر کامل، رنج کے غم گسار، راحت کے شامل! تیرے جادۂ اطاعت سے ہر گز قدم باہر نہ دھروں گا۔ جو تو کہے گا، وہی کروں گا مگر جلد حال مُفَصّل اور بعُدِ منَازِلِ و سمت شہرِ دوست سے نشان کامل دے، وگرنہ یہ دلِ بے تاب خجلت دِہِ بے قراریِ سیماب کہ قطرۂ خوں سے فزوں نہیں، تڑپ کر از راہ چشمِ نادیدہ روئے دوست نکل جائے گا۔ پھر بجز حسرت و افسوس تیرے کیا ہاتھ آئے گا۔ میرؔ:
دل تڑپتا ہے متصل میرا
مرغ بسمل ہے یا کہ دل میرا
توتے نے کہا اضطراب کا کام خراب ہوتا ہے۔ ناحق حجاب ہوتا ہے۔ اتنی جلدی موقوف کیجیے۔ آج کی رات اس شہر میں کاٹ، صبح ادھر کی راہ لیجیے۔ اگر کشش صادق اور طالع بھی موافق ہے، منزل مقصد کا سفر درپیش ہو گا، ہمراہ رکاب یہ خیر اندیش ہو گا۔ عزم بالجزم درکار ہے۔ درِ شہر پناہ پر خانۂ دل دار ہے۔
جان عالم یہ خوشخبری سن کر بشاش ہوا۔ پھر کہا، استاد:
مژدۂ وصل ہے کل، رات کی نیت ہو حرام
دیں اگر طالع برگشتہ نہ تدبیر الٹ
اُس رات کی بے قراری، گریہ و زاری، اختر شماری شہ زادے کی کیا کہوں! ہر گھڑی بہ حالِ پریشاں۔ سوئے آسماں مضطر نگراں تھا کہ رات جلد بسر ہو، نمایاں رخ سحر ہو، تا عزم سفر ہو۔ اور یہ کہتا تھا،
سعدیؔ:
سعدیا! نوبتی امشب دُہل صبح نکوفت
یا مگر صبح نباشد شب تنہائی را!
آخرش تاثیر دعائے سحری، اثر نالۂ نیم شبی سے ظلمت شب، بہ نور روز منور ہوئی۔ وزیر زادے کو، باوجود خود فراموشی، یاد فرمایا۔ لڑکپن سے تا زمانۂ عشقِ انجمن آرا اس سے بھی الفت رکھتا تھا۔ جب وہ حاضر ہوا، حکم کیا: دو گھوڑے صبا رفتار، برق کردار، جن کی جھپٹ نسیم تند رَو کو کھُندل ڈالے، ان کے قدم سے کمیتِ صرصر کی ڈپٹ پاؤں نہ آگے نکالے۔ جلد لا۔ وہ بہ مجرد ارشاد اصطبل خاص میں جا، گھوڑے لایا۔ کچھ اسباب ضروری، وہ بھی بہ مجبوری لے کے دونوں خستہ تن، بقول میر حسنؔ چل نکلے۔ میر حسنؔ:
نہ سدھ بدھ کی لی اور نہ منگل کی لی
نکل شہر سے، راہ جنگل کی لی