فسانۂ عجائب/حمد

حمد


الْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِيْ خَلَقَ مِنَ الْمَــــآءِ بَشَرًا فَجَعَلَهٗ نَسَبًا وَّصِہْرًاؕ وَکَانَ رَبُّكَ قَدِیْرًا۝

سزا وارِ حمد و ثنا خالقِ اَرض و سَما، جَلَّ وَ عَلا، صانِعِ بے چون و چِرا ہے، جس نے رنگِ بے ثَباتی سے، بہ ایں رنگارنگی، تختۂ چمنِ دنیا پُر از لالہ و گل جُزو کُل بنایا۔ اور باوجودِ تَرسِ باغبان و بیم صیاد، وَلوَلہ رُخِ گُل بلبل کو دے کر دامِ محبت میں پھنسایا۔ اور عاشقِ با وفا و معشوقِ پُر دغا کو ایک آبِ گِل سے خمیر کر کے، پردہ غیب سے بہ عرصۂ شہود لایا۔ ایک خلقت سے دو طرح کا جلوہ دکھایا اور انسانِ ضعیف بُنیان کو اشرف المخلوقات فرمایا۔

جلوۂ حُسنِ بُتاں بخدا شیفتگی کا بہانہ ہے۔ نالۂ بلبلِ شیدا گوشِ گلِ رعنا کا ترانہ ہے۔ اُس کی نیرنگیوں کے مشہور فسانے ہیں، ہم اس کی قدرتِ کامِلہ کے دیوانے ہیں۔ صفت اس کی محال ہے، زبان اس تقریر سے لال ہے۔ جس کی شان میں مخبر صادقؑ یہ فرمائے، دوسرا اِس عُہدے سے کب بَر آئے: مَا عَرَفنَاك حَقَّ مَعرِفَتِك۔