فسانۂ عجائب/عزمِ وطن شاہ زادۂ جانِ عالم کا


عزمِ وطن شاہ زادۂ جان عالم کا، حال بادشاہ کے رنج و غم کا۔ تیاریِ سامانِ سفر بہ صد کرّ و فر۔ بادشاہ کا دور سے نظارہ، ترقیِ اندوہ سے گریبانِ صبر پارہ پارہ۔ اہلِ شہر کی گریہ و زاری، آمدِ سواری


نظم:

چل اے توسنِ خامہ چالاک و چُست

کہ اب بیٹھے بیٹھے، بہت جی ہے سست


جگہ بیٹھ رہنے کی دُنیا نہیں

یہاں خاک بیٹھے کوئی دل حزیں


سفر ہر نفس سب کو رہتا ہے یاں

سرائے فنا بھی عجب ہے مکاں


نہ بیٹھا کبھی جم کے اک جا سُرورؔ

قریبوں سے اپنے رہا دور دور

طے کُنندگانِ مُلکِ معانی و سیاحانِ اقلیمِ خوش بیانی؛ بادیہ پیمایانِ بے تُوشہ، بارِ محبت بر سر؛ راہ نوردانِ ہُوش باختہ، بے راہ بر؛ یادِ دل دار در دل، دین و دُنیا فرامُوش؛ الم ہمراہ، ہر گام نالہ و آہ، تصوُرِ یار ہم آغُوش لکھتے ہیں کہ اُس عازمِ سمتِ معشوقِ عاشق خصال کو چلہ وہیں گزرا، سامانِ سفر تیار ہوا، اب صُبح کو اُس چلہ نشینِ حُجرۂ محبت کی رُخصت ٹھہری۔ سرِ شام با دلِ ناکام، بادشاہ دامنِ سحر کی صورت گرِیبان چاک کر، مع ارکانِ سلطنت دو کوس شہر سے باہر سرِ راہ دامنِ کُوہ پر جا بیٹھا۔ وزیرِ خوش تدبیر سے فرمایا: تم شہ زادے کو رُخصت کرو؛ ہم یہاں سے جُلوسِ سواری، سامان سفر دیکھ لیں گے۔

یہ خبر اہلِ شہر کو معلوم ہوئی۔ تمام خلقت، پانچ برس کا لڑکا، پچانوے برس کا بوڑھا، رنڈی، مرد؛ دوسرے ٹیکرے پر جمع ہوا۔ جھُٹپُٹے وقت جان عالم نے سواری طلب کی۔ ہر کاروں نے حُضور میں عرض کی۔ بادشاہ راہ کی طرف مُتوجہ ہوا۔ روشنی نمود ہوئی۔ پلٹنیں آئیں سجی سجائیں۔ تُوپ خانہ گزرا۔ پھر بارہ ہزار ہاتھی سواری کا، ہودج و عماری کا، ہزار بارہ سَے جنگی، گاڑھا، مست؛ ایک سے ایک زبردست، چاروں بھٹیاں ٹپکتیں، بان، پٹے سونڈوں میں چڑھے، بھسونڈے رنگے، جواہر نگار چوڑی دانتوں پر، طلائی نقرئی زنجیریں کھنکتیں، جھولیں زربفت کی نئی نئی، رسّے کلابتون کے، ہیکلیں جَڑاؤ، مُغرق گجگاہیں پڑیں؛ سری سلمے ستارے کی، پنکھے کا جوبن، ہوا پر دیکھنے والوں کی نگاہیں لڑیں؛ دو رویہ اس انداز کے کہ اگر اصحابِ فیل انھیں دیکھتا؛ خوف کھاتا، کبھی کعبہ ڈھانے نہ آتا۔

فیل بان زربفت کی قبا یا کمخواب کی پہنے، جوڑے دار پگڑیاں باندھے۔ کمر میں پیش قبض یا کٹار، ہاتھوں میں گجباگ جواہر نگار۔ مستوں کے ساتھ دو بوڑی بردار۔ ایک چرکٹا سنڈا، ہاتھ میں ڈنڈا۔ دو برچھے والے، دیکھے بھالے، آگے۔ پیچھے تریَل، قریب سانٹھ مار، برابر دو سوار۔

پھر کئی لاکھ سواروں کے پرے، ہاتھیوں سے پرے پرے۔ سر سے تا پا لوہے کے دریا میں ڈوبے۔ بیس اکیس برس کا ہر شخص کا سِن۔ شباب کی راتیں، جوانی کے دن۔ خود ، بکتر، زِرہ پہنے، بائیں دہنے۔ چار آئینۂ فولادی میں ہر دم روئے مرگ مُعائنہ کرتے، بل سے قدم دھرتے۔ ہاتھوں میں داستانے، خانہ جنگوں کے بانے۔ دو تلواریں: ایک قاشِ زین میں، دوسری ڈاب میں، سیلِ فنا آب میں۔ تپنچے کی جُوڑیاں قُبور میں۔ نشۂ بہادری سے سُرور میں۔ کمر میں قرولی یا کٹار آب دار، سِپر پُشت پر، برچھا ہاتھ میں، تیکھا پن ہر بات میں۔ مثلِ نہنگانِ بحرِ ہیجا و شیرانِ کُنامِ وغا، موچھوں کو تاؤ دیتے، ہر بار نُوک کی لیتے۔ گھوڑے وہ خوش خرام کہ سمندِ سبز فام جن کا قدم دیکھ کے آج تک چال بھولا ہے۔ دیکھنے والے کہتے تھے: چمنِ رواں کیا پھلا پھولا ہے۔ دو صفیں باندھے ہوئے، بیچ میں پنج شاخے روشن: گھوڑے کُداتے، جوبن دکھاتے چلے گئے۔

پھر ہزار بارہ سے سانڈنی سوار خوش رفتار۔ زرد زرد قبائیں در بر، سُرخ پگڑیاں سر پر، آبی بانات کے پاجامے پاؤں میں۔ ہتھیار لگائے، مُہاریں اُٹھائے ستاروں کی چھاؤں میں۔ سانڈنیوں میں دو دو سے کُوس کا دم، ہر قدم گھنگرو کی چھم چھم۔ بُختیِ فلک اب تلک بلبلاتا ہے، جب اُن کا دھیان آتا ہے۔ قدم قدم یہ جب بڑھے تو سواری کے خاص خاصے نظر آئے: عربی، تُرکی، تازی، عراقی، یمنی اور کاٹھیا وار کا دکھنی۔ وہ وہ گھوڑا جو ابلقِ لیل و نہار کی نظر سے نہیں گزرا۔ سبُک رو ایسے کہ جو دریا میں در آئیں: سوار بجرے کا مزہ لوٹیں، سُم کے تلے حباب نہ ٹوٹیں۔ ہڈا نہ مُوترا، نہ رس کا خلل، ڈنک اُجاڑ نہ کھونٹا اُکھاڑ، سانپن نہ ناگن، عقرب نہ ارجل، شب کور نہیں، منہ زور نہیں، کم خُور، نہ مٹھا نہ کھُوٹا، بال بھونری سے صاف۔ حشری نہ کمری، کہنہ لنگ نہیں، سینے کا تنگ نہیں، ہمہ تن اوصاف۔ کسی پر جڑاؤ زین بندھا، الماس، زمُرد کے ہرنے؛ کسی پر چار جامہ دو الگو کسا۔ بنا بنا کر زمین پر پاؤں دھرتے، کودتے پھاندتے، لمبیاں بھرتے۔ کسی کی فقط گردنی اُلٹی، موتیوں کی جھالر لٹکتی۔ گنڈا، پٹا، ساز، یراق جواہر نگار۔ دُمچی طرح دار۔ پرِ ہُما کی کلغی لگی۔ پاکھر پُر تکلف پُٹھوں پر پڑی۔ دوگاما، گام، شہ گام، یرغا، ایبِیا، رہوار، دُلکی کا منجا، اُلیل کرتا۔ جِلو دار چنور لیے مشغول مگس رانی میں۔ ہم رکاب تپائی بردار معقول سر گرم جاں فشانی میں۔ باگ ڈُوریں پُر زر سائیس لے کر نکلے۔

اُن کے بعد نوبت نشان، ماہی مراتب، میگھ ڈَمبَر۔ آگے عَلمِ اژدہا پیکر، جلو میں نُصرت و ظفر۔ بڑا جلوس، نہایت کرّ و فر۔ نوبت کی ندا، جھانجھ کی جھانجھ سے صدا۔ قرنا کا شُور و غُل، شہنا میں بھیرُوں، بِبھاس کے سُر بالکل۔ نقیب اور چوبداروں کی آواز پُر سوز و گُداز۔ عجب کیفیت کا عالم تھا۔ اُدھر نقارہ ہائے شُتری اور فیلی سے گوشِ کرّ و بیاں کَر ہوا جاتا تھا۔ ایک طرف شہر کے لڑکوں کا غول ’’بجا دے بجا دے‘‘ کا غُل مچاتا چلا آتا تھا۔ میر سوزؔ:

کہے تو، مہر و مہ لے کر عصائے نور ہاتھوں میں

یہی کہتے تھے گردوں پر: ادب سے اور تفاوُت سے

پھر شکار کا سامان میر شکار لائے۔ بازِ آہنی چَنگال، باز بچے تیز بال۔ بحری، باشے کے تماشے۔ شاہینِ فولاد مِخلَب، عُقابِ فلک سیر، جہان کے طیر سب۔ ان کے قریب ولایتی کُتے بودار، گُلڈانک، تازی، جاں بازی کرنے والے۔ چیتے، جو دشمنوں کا بُرا چیتے، بلکہ لہو پیتے۔ سیاہ گوش در آغوش۔ ہرن لڑنے والے، خانہ زاد، گھر کے پالے۔ ان کے بعد ہزار ہا سَقّا، خواجہ خضر کا دم بھرتا، چھڑکاؤ کرتا۔ کمر میں کھارُوے کی لنگیاں، شانوں پر بادے کی جھنڈیاں۔ مشکوں میں بیدِ مُشک بھرا، دہانے میں ہزارے کا فوارہ چڑھا، آب پاشی کرتا۔

مُتعدد غُلام بادلہ پوش، حلقہ بہ گوش، ہاتھوں میں ہیرے کے کڑے پڑے؛ مَنقَل، انگیٹھیاں سونے چاندی کی لیے، عنبر و عود جھونکتے نکلے۔ پھر تو کُوسُوں تک جنگل رشکِ خُتن و تاتار مثلِ طبلۂ عطار ہو گیا۔ اُن کے مُتصل دو ہزار لالٹین والے کم سِن، بلور کی صاف صاف شفاف لالٹینیں لیے، شمع مُومی و کافوری روشن، وہ سب غُنچہ دہن، زیبِ انجمن، بڑھے۔ پھر صدائے اہتمامِ نقیبانِ خوش گُلو چار سو بلند ہوئی اور صبح صادق نے جلوہ دکھایا، ہاتھ کو ہاتھ اور اپنے بیگانے کا مُنہ صاف نظر آیا۔ سُلطانِ اریکۂ زنگاری بھی دریچۂ مشرق سے سر نکال مشغولِ نظارہ ہوا، حسرت میں وطن آوارہ ہوا۔

وہ دمِ سحر نسیم و صبا کی فر فر۔ شمع کا جھلملا جھلملا اُداس جلنا، سواری کا آہستہ آہستہ چلنا۔ پہاڑی جانوروں کی سیر، ذِکر حق میں کہیں وحش، کسی جا طَیر۔ سرسبز درخت لہلہے، پھول رنگ برنگ کے ڈہڈہے۔ سقُوں کی آب پاشی۔ صدائے نالۂ مُرغِ خوش الحاں سے دل خراشی۔ خُسروِ انجم کا مع ثابت و سیارہ چھپتے جانا، سورج کی کرن کا جگمگانا۔ پھولوں کی بو باس، چشمۂ سرد و شیریں آس پاس۔ خلق کا مجمع دامنِ کوہ پر؛ سب کی نگاہ کبھی اُس کیفیت پر، گاہ اس انبُوہ پر۔ ادھر مسافروں کی کثرت، اُدھر بادشاہ پُر ارمان۔ خلقِ خدا با حسرت بہ چشمِ انتظار، اُمید وارِ آمدِ پیادہ و سوار، محوِ تماشائے عجیبِ روزگار تھی۔

یکایک غول خاص برداروں کا آیا: کمخواب کے مرزائی، انگرکھے، گُجراتی مشروع کے گھُٹَنّے، دلی کے ناگوری پاؤں میں، سر پر گُلنار اینٹھے طرح دار۔ خاصیوں کے غلاف باناتی، سَقِرلاتی، باغ و بہار۔ گرد پُوش ململ کے۔ سینکڑے اور ساز مُطلا، جھلا جھل کے۔ رفل: چقماق، تُوڑے دار۔ قرابین، شیر بچے؛ جس سے شیر زندہ نہ بچے: جواہر نگار۔ اور برچھے بردار، بان دار، کُتے والے، یکے، بیش قرار دَرما ہے دار، راکب و مرکب جھمکڑے کا عالم؛ گردا گرد۔ بیچ میں شہ زادہ جان عالم اسپِ باد رفتار پر سوار۔ برابر انجمن آرا کا سُکھپال پری تمثال۔ ہزار پان سے کہاریاں حوروش، پیاری پیاریاں، کم سن، جسم گدرایا، شباب چھایا؛ زربفت و اطلس کے لنہگے، مسالا ٹکا؛ ململ کے دوپٹے باریک، بَنَت گوکھرو کی کُرتی انگیا، کاشانی مخمل کی کُرتیاں کندھوں پر؛ کچھ سُکھپال اُٹھائے، باقی پرا جمائے اِدھر اُدھر۔ جڑاؤ کڑے مُلائم ہاتھوں میں پڑے، پاؤں سُونے کے تین تین چھڑے، کانوں میں سادی سادی بالیاں، نشۂ حُسن میں متوالیاں۔ رُخساروں کا عکس جو پڑ جاتا تھا، شرم سے کُندن کا رنگ زرد نظر آتا تھا۔ کسی کا کان جوالا تھا تو حُسن کی دُکان میں ناز و انداز کا نرخ دوبالا تھا، اندازِ ناز نرالا تھا۔ وہ آہستہ تیوری چڑھا کے پاؤں رکھنا۔ کبھی سسکی، جھجکی۔ بڑی سَیر تھی۔

کئی سَے سواری کا دوڑنے والا خواجہ سرا، عجیب عجیب طرح کا نس کٹا۔ حبشنیں، قِلماقنیں، تُرکنیں سر گرمِ اہتمام، کبک خرام۔ خواجہ سرایان ذی لیاقت، معقول؛ نواب ناظر، داروغہ سب حاضر؛ عُمدہ پُوشاک پہنے گھوڑوں پر سوار بند و بست میں مشغول۔ جریب زمین پر پڑتی، کُوس کا پہیا ساتھ؛ ہاتھوں ہاتھ زمین کی پیمائش، سواری کی آرائش۔ خلاصہ یہ کہ بہ مرتبہ کر و فر، نہایت دھوم دھام۔ اشرفی، روپیہ تصدُق ہوتا، شہدوں کا ازدِحام۔ اس صورت سے بادشاہ کے پاس آ پہنچے۔ جان عالم نے دیکھا: ظِلِ سبحانی کے چشمۂ چشم سے جوئے خوں جاری، ہچکی لگی، بے قراری طاری ہے؛ گھوڑے سے کود کر آداب تسلیمات بجا لایا۔ بادشاہ نے بہ قسم فرمایا: اس وقت ہمارے پاس نہ آؤ۔ خُدا کو سونپا، چلے جاؤ۔ مجبور، شہ زادہ مُجرا کر کے سوار ہوا۔ جس دم جان عالم نے گھوڑا بڑھایا، تمام خلقت کا جی بھر آیا۔ علی الخصُوص بادشاہ کی بے قراری، امیر اُمرا کی نالہ و زاری اور انجمن آرا کے بین سے، تمام تماشائی شُور و شین سے واویلا مچا کہنے لگے: آج رونقِ شہر کی رُخصت ہے، زینتِ سلطنت کی فرقت ہے۔ ایسے مہر و ماہ کے جانے سے شہر میں غدر پڑے گا، اندھیر ہو جائے گا۔ ان کا الم جُدائی و رنجِ دشت پیمائی ہزار رُوزِ سِیہ، شامِ غم دکھائے گا۔ کہتے ہیں: سیکڑوں مرد و رنڈی بے کہے سُنے ہمراہ ہوئے۔ غریبُ الوطنی اختیار کی، وہاں کی بود و باش گوارا نہ ہوئی۔

ان کے بعد چھ ساتھ سے پالکی، نالکی، چنڈُول، مُحافہ امیر زادیوں کا۔ اور انیسوں، جلیسوں کی تین چار سَے کھڑ کھڑیا اور فنس قیمت کا بڑھیا۔ آتو اور محل داروں کے چو پہلے سے پہلے مُغلانیوں کی منجھُولیاں۔ خاص خواصوں کے پیچھے پیش خدمتوں کا دو تین سو میانہ۔ ہزار نو سے رتھ اکبر آبادی: دو بُرجے، سائبان دار، نئے مُغرق پردے چمکتے؛ ناگوری بیل، جو ثورِ فلک نے نہ دیکھے تھے، جُتے؛ مخمل کی جھولیں پڑیں؛ لونڈیاں، باندیاں، انا، چھُو چھُو، چھٹی نویس، باری دارنیاں اُن پر چڑھیں۔

جب یہ آگے بڑھیں، پھر چھکڑے اور اونٹ، ہاتھی خزانے اور اسباب کے؛ ڈِیرے، پیش خیمے لدے لدائے، کسے کسائے، جکڑے نظر آئے۔ غرض کہ تا شام بہیر بُنگاہ، بازاری سرکاری سب لوگ چلے گئے۔ لکھا ہے کہ روپے اور اشرفیاں امام ضامن کی دمِ رُخصت اتنی آئیں کہ بازوؤں پر بندھ نہ سکیں، تمام راہ سید مسافروں نے پائیں۔ اور کُلچُوں کا یہ حال ہوا کہ اُن کا لے چلنا مُحال ہوا۔ راتب کے سوا، ہاتھیوں کو ملے اور اہلِ لشکر کو بانٹ دیے۔ کھجوریں جو بٹ نہ سکیں، راہ میں پھینک دیں۔ وہ اُگیں؛ اُس کے درخت آگے کم تھے، اُس دن سے جنگل ہو گئے۔

اُس وقت بادشاہ سراسیمہ و بدحواس با حالِ یاس دولت سرا میں پھر آیا۔ وہ بسا بسایا شہر لُٹا، اُجڑا، ویران نظر آیا۔ بازار میں جا بہ جا چراغ گُل، سرِ شام پگڑی غائب، اندھیرا بالکل۔ جس طرف دیکھا، لوگ تھکے ماندے پھر کر پڑے تھے۔ بازار میں تختے لگے، ٹٹر جڑے تھے۔ لوگ سُوزِ مُفارقت سے درد مند، دُکانیں بند۔ جو جہاں پڑا تھا، شہ زادے کی رُخصت کا ذِکر کر رہا تھا۔ دو شخص اگر باہم تھے، با دلِ پُر غم تھے۔ کوئی سُوتا تھا، کوئی چُپکا پڑا روتا تھا۔ بستی سُنسان، بازار میں سناٹا، خلقِ خدا اندُوہ کی مبتلا۔ بادشاہ کو دونا قلق ہوا، رنگ فق ہوا، دل سینے میں شق ہوا۔ محل سرا میں آیا، وہاں بھی چھوٹے بڑے کو غمگین پایا۔ لوگوں کے عزیز جدا ہو گئے، سب اُس یوسفِ رفتہ کے زندانِ فراق میں اسیرِ بلا ہو گئے۔ علی الخُصوص انجمن آرا کی ماں، جس کی نظر سے وہ چاند سورج چھپ گئے؛ زمانہ آنکھ میں تیرہ و تار، دل غم سے خار خار، حیرت میں نقشِ دیوار ہو رہی تھی۔ آنکھوں پر زور تھا، زار زار رو رہی تھی۔ بادشاہ نے سمجھایا، ہاتھ مُنہ دھُلوایا، کچھ کھلایا۔

یہ تو سب نالہ بہ لب، آہ در دل؛ جان عالم اور انجمن آرا رو بہ منزل۔ پانچ پانچ کوس کا کوچ، دو چار دن کے بعد ایک دو مُقام بہ راحت و آرام کرتے چلے۔ فوجِ ظفر موج ساتھ۔ اُردوئے مُعلیٰ کا عجب عالم تھا۔ ایک شہر رُوز ہمراہ، جہان کی نعمت تیار شام و پگاہ۔ صراف، بزاز، جوہری: روپیہ پیسہ، اشرفی کھری سے کھری؛ ڈھاکے کا ریزہ، بنارس کا گُلبدن، گجرات کا کمخواب؛ الماس و زمُرد، یاقوتِ احمر؛ جو چاہو سو لُو، موجود۔ ایک طرف قصاب اورنانبائی؛ وہ کچا گوشت لیے، یہ پکی پکائی، میوہ فروش خانہ بدُوش۔ حلوائی طرح طرح کی مٹھائی درست کیے۔ مینا بازار باغ و بہار۔ جُدا جُدا ہر گنج کا جھنڈ گڑا، ہر ایک منڈی کا پتا ملتا، چوپڑ کا بازار پڑا۔ جلو خانے کے رو بہ رو نصف شب گُزرے تک دُکانیں کھلیں، اَکاسی دِیا جلتا، بھولا بچھڑا اُس کی روشنی میں آ ملتا۔ کُوتوال سر گرمِ پاسبانی، بازاریوں کی نگہبانی، نرسنگا روند میں پھونکتا۔ غرض کہ سب خُرم و شاداں رواں تھے؛ مگر جان عالم گاہ گاہ جذبِ محبتِ ملکہ سے یہ کہتا، شعر:

بسامانِ سفر باخود دلِ رنجیدۂ دارم

بکف چیزیکہ دارم، دامنِ برچیدۂ دارم