فسانۂ عجائب/فسانۂ سلطانِ یمن


فسانۂ سلطانِ یمن سائل کو سلطنت دے کے غریب دِیار ہونا، سوداگرکے فریب سے شہ زادی کا کھونا۔ پھر بیٹوں کی جدائی، اپنی دشت پیمائی۔ آخر سلطنت کا مل جانا، بیٹوں کا آنا، بی بی کا پانا، پھر سوداگر کا قتل کرنا


بندر نے کہا: سَر زمین یَمَن میں ایک بادشاہ تھا۔ مُلک اُس کا مالا مال، دولت لازَوال۔ بخشندۂ تاج و تَخت، نیک سیرت، فَرخُندہ بَخت۔ جس دم سائل کی صدا گوشِ حق نِیوش میں دَر آئی، وہیں اِحتیاج پکاری: میں بَر آئی۔ یہاں تک کہ لَقَب اُس کا نزدیک و دور ’’خُدا دوست‘‘ مشہور ہوا۔ ایک روز کوئی شخص آیا اور سوال کیا کہ اگر تو خدا دوست ہے، تو للہ تین دن کو مجھے سلطنت کرنے دے۔ بادشاہ نے فرمایا: بِسمِ اللہ۔ جو اَراکینِ سلطنت، مسند نَشینِ حکومت حاضِر تھے؛ بہ تاکید انھیں حکم ہوا کہ جو اس کی نافرمانی کرے گا، مَورِدِ عِتاب سُلطانی ہو گا۔ یہ فرما، وہ فرماں رَوا تَخت سے اُٹھا، سائِل جا بیٹھا، حکم رانی کرنے لگا۔

چوتھے روز بادشاہ آیا، کہا: اب قصد کیا ہے؟ وعدہ پورا ہو چکا ہے۔ سائل بولا: پہلے تو فقط اِمتِحان تھا، اب بادشاہت کا مزہ مِلا، برائے خُدا یہ تاج و تَخت یک لخت مجھے بخش دے۔ بادشاہ نے فرمایا: بہ رضائے خدا یہ حکومت آپ کو مُبارَک ہو، مَیں بہ خوشی دے چکا۔ بادشاہت دے کر کچھ نہ ہیہات لیا؛ فقط لڑکوں کا ہاتھ میں ہاتھ، بی بی کو ساتھ لیا۔ دل کو سمجھایا: اِتنے دنوں سلطنت، حکومت کی؛ چَندے فقیری کی کیفیت، فاقے کی لذّت دیکھیے۔ گو جاہ و حَشَم مَفقُود ہے، مگر شاہی بہر کیف موجود ہے؛ اِلّا اِس شہر میں سے کہیں اور چلنا فَرض ہے۔ حکمِ خُدا قُل سِیرُوْا فِیْ الاَرْضِ ہے۔ دُنیا جائے دید ہے۔ عِنایتِ خالق سے کیا بَعید ہے جو کوئی اور صورت نکلے۔ ایک لڑکا سات برس کا، دوسرا نو برس کا تھا۔ غَرض کہ وہ حق پرست شہر سے تہی دَست نکلا؛ بلکہ تکلُّف کا لباس بھی وہ خدا شَناس بار سمجھا، نہ لیا؛ جامۂ عُریانی جسم پر چست کیا اور چل نکلا۔ نیرنگیِ سپہرِ بوٗقَلَموٗں، دُنیائے دوٗں کا یہ نقشہ ہے، مصر؏:

کہ ایں عَجوزہ عَروسِ ہزار داماد است

کل وہ سلطنت، ثَروَت، کَرّ و فَر، اَفسر و تاج؛ آج یہ مصیبت، اَذِیَّت، در بہ در، پیادہ پا سفر، محتاج۔ کبھی دو کوس، گاہ چار کوس، بے نَقّارہ و کُوس، بہ ہزار رنج و تَعَب چلتا۔ جو کچھ مُیَسَّر آیا، تو روزی ہوئی؛ نہیں تو رُوزہ۔ یوں ہی ہر رُوز راہ طَے کرتا۔ جب یہ نوبت پہنچی، چند روز میں ایک شہر ملا، مسافر خانے میں بادشاہ اترا۔ اتّفاقاً ایک سوداگر بھی کسی سمت سے وارِد ہوا۔ قافلہ باہَر اُتار، تنہا گھوڑے پر سوار، سَیر کرتا مہمان سرا میں وارِد ہوا۔ شہ زادی گو کہ گردِ راہ، صعوبتِ سفر کی مبتلا تھی؛ لیکن اچّھی صورت کبھی چھپی نہیں رہتی۔ سعدیؔ:

حاجتِ مَشّاطہ نیست روی دلآرام را

سوداگر کی آنکھ جو پڑی؛ بہ یک نگاہ اَز خود رَفتَہ ہوا، سانس سینے میں اَڑی۔ بادشاہ کے قریب آ سلام کیا۔ یہ بیچارے اللہ کے ولی، وہ وَلَدُ الِزنا شقی۔ بادشاہ نے سلام کا جواب دیا۔ اِس عرصے میں وہ غدّار حیلہ سوچا، بہت فَسُردہ خاطر ہو کر کہا: اے عزیز! میں تاجِر ہوں، قافلہ باہَر اُترا ہے۔ میری عورت کو دردِ زِہ ہو رہا ہے۔ دائی کی تلاش میں دیر سے گدائی کر رہا ہوں، ملتی نہیں۔ تو مردِ بزرگ ہے، کج ادائی نہ کر، اس نیک بخت کو للہ میرے ساتھ کر دے؛ تا اِس کی شِراکَت سے اُس کو رنج سے نَجات ملے؛ وگرنہ بندۂ خدا کا مُفت خون ہوتا ہے، آدمی کا مر جانا زَبوٗں ہوتا ہے۔ یہ اللّٰہ کا نام سُن کر گھبرائے، بی بی سے کہا: زِہِے نصیب! جو محتاجی میں کسی کی حاجت بر آئے، کام نکلے۔ بسمِ اللّٰہ، دیر نہ کرو۔ اُس نے دَم نہ مارا، کھڑی ہو گئی، سوداگر کے ساتھ روانہ ہوئی۔ دروازے سے باہَر نکل اُس غریب سے کہا: قافلہ دور ہے، مجھے آئے ہوئے عرصہ گزرا ہے؛ آپ گھوڑے پر چڑھ لیں تو جلد پہنچیں۔ وہ فَلک سَتائی فریب نہ جانتی تھی، سوار ہوئی۔ سوداگر نے گھوڑے پر بِٹھا، باگ اُٹھائی۔ قافلے کے پاس پہنچ کے کوچ کا حکم دیا، آپ ایک سمت گھوڑا پھینکا۔ اُس وقت اُس نیک بخت نے داد بے داد، فریاد مچائی۔ تڑپی، روئی پیٹی، چِلّائی۔ آہ و زاری اِس کی، اُس بے رَحم، سنگ دل کی خاطر میں نہ آئی۔

بادشاہ پَہَر بھر مُنتَظِر رہا، پھر خیال میں آیا: خود چلیے، دیکھیے وہاں کیا ماجرا ہوا۔ بیٹوں کا ہاتھ پکڑے سرا سے نکلا۔ ہر چند ڈھونڈھا؛ نشان کے سوا قافلے کا سُراغ نہ ملا۔ دور گردِ سیاہ اُڑتی دیکھی، جَرَس اور زَنگ کی صدا سُنی۔ نہ پاؤں میں دوڑنے کی طاقت، نہ بی بی کے چھوڑنے کی دل کو تاب؛ سب طرح کا عذاب۔ نہ کوئی یار نہ غم گُسار۔ نہ خدا تَرس، نہ فریاد رَس۔ بہ حسرت و یاس قافلے کی سمت دیکھ یہ کہا، مصحفی:

تو ہمرہانِ قافلہ سے کہیو اے صبا

ایسے ہی گر قدم ہیں تمھارے، تو ہم رہے

لاچار، لڑکوں کو لے کر اُسی طرف چلا۔ چند گام چل کر اضطراب میں راہ بھول گیا۔ ایک ندی حائل پائی، مگر کشتی نہ ڈُونگی نہ مَلّاح۔ نہ راہ سے یہ آشنا، نہ وہاں سَیّاح کا گُزارا۔ کَنارے پر دریا کے خاک اُڑا کے ایک نعرہ مارا اور ہر طرف ماہیِ بے آب سا واہی تباہی پھرا، رَہ برِ کامل کو پُکارا؛ ساحِلِ مطلب سے ہَم کِنارنہ ہوا، بیڑا پار نہ ہوا۔ مگر کچھ ڈھَب ڈھَبانے کا ڈھَب تھا، گو گھاٹ کُڈھب تھا؛ ایک لڑکے کو کنارے پر بِٹھا، چھُوٹے کو کندھے پر اُٹھا، دریا میں در آیا۔ نِصف پانی بہ صَد گرانی طَے کیا تھا؛ کَنارے کا لڑکا بھیڑیا اُٹھا لے چلا۔ وہ چِلّایا، بادشاہ آواز سُن کر گھبرایا۔ پھِر کر دیکھنے لگا جو لگا، کندھے کا لڑکا پانی میں گر پڑا۔ زیادہ مُضطَرِب جو ہُوا، خود غُوطے کھانے لگا، لیکن زندگی باقی تھی، بہرکیف کَنارے پر پہنچا۔ دل میں سمجھا: بڑے بیٹے کو بھیڑیا لے گیا، چھُوٹا ڈوب کے مُوا۔ نَیرنگیِ فلک سے عالَمِ حیرت، بی بی کے چھُٹنے کی غیرت۔ بیٹوں کے اَلَم سے دل کباب، سلطنت دینے سے خستہ و خراب۔

اِسی پریشانی میں شُکر کرتا پھر چلا۔ سہ پَہَر کو ایک شہر کے قریب پہنچا۔ دَرِ شہر پناہ پر خلقت کی کثرت دیکھی، اُدھر آیا۔ اُس مُلک کا یہ دستور تھا: جب بادشاہ عازِمِ اِقلیمِ عَدَم ہوتا؛ اَرکانِ سلطنت، روسائے شہر وہاں آ کر باز اُڑاتے تھے۔ جس کے سر پر بیٹھ جاتا، اُسے بادشاہ بناتے تھے۔ چُنانچہ یہ روز وہی تھا۔ باز چھوڑ چکے تھے، ابھی کسی کے سر پر نہ بیٹھا تھا۔ اس بادشاہِ گدا صورت کا پہنچنا، باز اِس کے سر پر آ بیٹھا۔ لوگ معمول کے مُوافِق حاضر ہوئے، تخت رو بہ رو آیا۔ ہر چند یہ تخت پر بیٹھنے سے باز رہا، کہا: مَیں گُم کردہ آشِیاں سلطنت کے شایاں نہیں ہوں۔ میں نے اِسی عِلَّت سے اپنے مَرز بومِ شوم کو چھوڑا ہے، حکومت سے منہ موڑا ہے۔ مگر وہ لوگ اِس کے سر پر باز کا بیٹھنا، عَنقا سمجھ، نہ باز رہے۔ جو جو شاہیں تھے تاڑ گئے، پَر بیں پہچان گئے کہ یہ مُقَرَّر ہُمائے اَوجِ سلطنت ہے۔ قصّہ مختصر، رَگَڑ جھگڑ تختِ طاؤس پر بِٹھا نَذریں دیں، تُوپ خانے میں شلّک ہوئی۔ بڑے تُزک، حَشمت سے آشِیانۂ سلطنت، کاشانۂ دولت میں داخل کیا۔ تمام قلمرو، نقد و جِنس، اَشیائے بَحری و بَرّی اِن کے تَحتِ حکومت، قبضۂ تَصرُّف میں آیا۔ گَز، سکّے پر نام جاری ہوا۔ مُنادی نے نِدا دی، دُہائی پھِر گئی کہ جو ظُلم و جَور کا بانی ہو گا؛ وہ لَٹُورا، گردن مارا جائے گا، سزا پائے گا۔ سوز:

پَل میں چاہے تو گدا کو وہ کرے تخت نشین

کچھ اچنبھا نہیں اِس کا کہ خدا قادِر ہے

کارخانۂ قدرت عجیب و غریب ہیں؛ نہ اِعِتمادِ سلطنت، نہ قِیامِ غُربت و عُسرت۔ مرزا رفیع:

عَجَب نادان ہیں، جن کو ہے عُجبِ تاجِ سُلطانی

فلک بالِ ہُما کو پَل میں سَونپے ہے مگس رانی

یہ سلطنت تو کرنے لگا مگر فُسُردَہ خاطِر، پَژمُردَہ دِل۔ بہ سَبَبِ شرم و حیا مُفَصَّل حال کسی سے نہ کہتا تھا، شب و روز غمگین و اَندُوہ ناک پڑا رہتا تھا۔ جب وہ بُلبُلِ ہزار داستان یعنی فرزند، شمع دوٗدماں یاد آتے تھے؛ دن کو پیشِ چشم اندھیرا ہو جاتا، ظِلِّ سبحانی کوٗ کوٗ کر کے نالہ و فریاد مچاتے تھے۔

اب اُن لڑکوں کا حال سُنیے۔ جس کو بھیڑیا لیے جاتا تھا، اُدھر سے کوئی تیر اَندازِ سبک دَسْت آتا تھا؛ اُس نے چھُڑایا۔ دوسرا جو غُوطے کھاتا تھا، بِلبِلاتا تھا؛ اُس کو ماہی گیر نے دامِ مَحبّت میں اُلجھایا، کَنارہ دکھایا۔ وہ دونوں لا وَلَد تھے، اُسی شہر کے رہنے والے جہاں اِن لڑکوں کا باپ بادشاہ ہوا تھا۔ وہ اپنے اپنے گھر میں لا، بہ قَدَرِ مَقدوٗر لڑکوں کو پرورش کرنے لگے۔ جَلَّ جَلالُہٗ! کیا سنگِ تَفرِقَہ فلک نے پھینکا کہ ایک دوسرے کے سنگ نہ رہا، جُدا ہو گیا۔ چند عرصے تک بادشاہ نے ضبط کیا، آخر بیٹوں کی مُفَارَقَت نے بے چین کیا؛ وزیر سے فرمایا: دو لڑکے قومِ شریف سے ہماری صحبت کے قابل ڈھونڈھ لاؤ، ہمارا دل بہلاؤ۔ وزیر نے تمام شہر کے لڑکے طلب کیے۔ حکم حاکم مرگِ مُفاجات! وہ دونوں بھی آئے۔ سبحانَ اللہ! جامِعُ الْمُتَفَرِّقین بھی اُسی کا نام ہے، بچھڑے مِلانا اُس کے روبہ رو کتنا کام ہے! بس کہ صورت و سیرت دونوں کو خالق نے عطا کی تھی، شاہ زادے تھے؛ وہی وزیر کو پسند آئے، رو بہ رو لایا۔ بہ سَبَب طوٗلِ زَمانِ مفارَقَت اور تکلیف و عُسرت نقشے بدل گئے تھے، قَطع اَور ہو گئی تھی؛ نہ بادشاہ نے پہچانا، نہ تقاضائے سِن سے لڑکوں نے باپ جانا اور نہ یہ سمجھ آئی کہ ہم دونوں بھائی ہیں۔ یہ بھی قدرت نُمائی ہے، بہم ہوئے مگرجُدا رہے؛ لیکن جوشِ خوں سے بادشاہ کا حال دِگرگوٗں ہوا؛ دونوں پر بہ مَحبّتِ تمام مصروفِ عنایت عَلَی الدوام رہا۔ سب نے سُنا ہے، کامل کا یہ نکتہ ہے: کُلُّ اَمْرٍ مَرْھوْنٌ بِاَوْقَاتِہٖ۔ تھوڑے دن میں معتمد و مقرب ہوئے۔

اور وہ سوداگر جَو فَروشِ گَندُم نُما، دغا کا پُتلا یہاں کے پہلے بادشاہ سے رَسائی، عَمْلے سے شَناسائی رکھتا تھا؛ اِس نظر سے وہ بھی اُس عورتِ ناراض کو لے کر وہاں واِرد ہوا۔ خبر مَرگِ بادشاہ سُن کر مَلوٗل ہوا کہ مطلب نہ حُصوٗل ہوا۔ لوگوں نے کہا: بادشاہِ تازہ اُس سے زیادہ خلیق و غریب پَروَر ہے۔ بہ وَساطَتِ وزیر اعظم تحفہ تحفہ تَحائِف لے کے حُضور میں حاضر ہوا، نذر گُزرانی، شَرَفِ عَتْبہ بوس حاصل ہوا۔ ایک نظر تو دیکھا تھا، بادشاہ نے نہ پہچانا، نہ سوداگر نے حریف جانا؛ مگر بادشاہ اُس کو ذی اِعِتبار، سَیّاحِ دِیار دِیار سمجھ بیش تر اَطراف و جَوانِب کا مذکور سُنتا تھا۔

ایک دن قریبِ شام حُضور میں حاضر تھا، بادشاہ نے فرمایا: آج کی شب گھر نہ جا، کچھ دیٖدہ و شَنیدہ حکایت ہم کو سُنانا۔ وہ بیٹھا تو مگر مُکَدر، پریشان۔ بادشاہ نے تَرَدُّد کا سبب پوچھا۔ یہ بَاعِثِ عنایت فِی الجملہ گستاخ ہو چلا تھا، دست بَسْتہ عرض کی: خانہ زاد کے پاس ایک عورتِ ناراض ہے، اُس کو فِدوی سے اِغماض ہے؛ اُس کی نگہ بانی، حفاظت بہ ذاتِ خود کرتا ہوں۔ بہ مرتبہ ڈرتا ہوں ایسا نہ ہو، نکل کے رازِ پِنہاں فاش کرے، حِمایتی تلاش کرے۔ حکم ہوا یہ مقدمہ آج ہمارے ذمے ہے۔ وہی لڑکے بس کے معتمد تھے؛ خاص دستہ ان کے ہمراہ کر، پاسبانی کی تاکید اَکید کی۔ لڑکے آداب بجا کے، سوداگر کے مکان پر گئے۔ باغ میں خیمہ برپا تھا، درِ خیمہ پر کرسی بچھا دونوں بیٹھے تھے۔ پاسبان آس پاس پھرنے لگے۔ جب آدھی رات ہوئی، ایک کو نیند آنے لگی، دوسرے نے کہا: سونا مناسب نہیں؛ ایسا نہ ہو کوئی فتنۂ خوابیدہ جاگے، خیمے سے کوئی چونک بھاگے۔ وہ بولا: تو ایسا فسانہ کہو جو نیند اچٹنے کا بہانہ ہو۔ اس نے کہا خیر، آج ہم اپنی سر گذشت کہتے ہیں؛ اگر غور سے سنو گے؛ نیند کیا، کئی روز بھوک پیاس پاس نہ آئے گی، عبرت ہو جائے گی۔ اے عزیز با تمیز! میں بادشاہ یمن کا لعل ہوں۔ میرا باپ للہ سلطنت سائل کو دے؛ مجھے اور میرا چھوٹا بھائی کہ وہ تم سے بہت مشابہ تھا، اس کو اور اپنی بی بی کو ہمراہ لے کر، غریب الوطن ہوا تھا۔ راہ میں ایک سوداگر فریب سے شہ زادی کو لے گیا، ہم دونوں بھائی ساتھ رہے۔ آگے چل کر دریا ملا۔ ناؤ بیڑا کچھ نہ تھا۔ بادشاہ مجھ کو کنارے پر بٹھا چھوٹے کو کنارِ شفقت میں اٹھا، کندھے پر چڑھا پار چلا۔ مجھے بھیڑیے نے پکڑا، میرے چلانے سے بادشاہ جو بد حواس ہوا، بھائی دوش پر سے آغوش دریا میں کھسک پڑا۔ خود غوطے کھانے لگا۔ پھر نہیں معلوم کیا گزرا۔ مجھے تیر انداز نے دہنِ گرگ سے چھڑایا، اب فلک اس بادشاہ پاس لایا۔

وہ رو کر لپٹ گیا، کہا: بھائی دریا میں ہم گرے تھے، مچھلی والوں کے باعث ترے تھے۔ پھر تو بغل گیر ہو ایسے چلائے کہ وہ عورت نیند سے چونک پڑی۔ پردے کے پاس آ کے حال پوچھنے لگی۔ انھوں نے ابتدا سے انتہا تک وہ داستانِ مصیبت بیان کی۔ وہ پردہ الٹ جھٹ پٹ لڑکوں سے لپٹ گئی، کہا: ہم اب تک سوداگر کی قید میں مجبور ہیں، سب سے دور ہیں۔ اسی دم یہ خبر بادشاہ کو پہنچی۔ سواری جلد بھیجی، رو بہ رو طلب کیا۔ اس وقت باہم دگر سب نے پہچانا۔ فوراً سوداگر کو قید کیا۔ باقی رات مفارقت کی حکایت میں گزر گئی۔ صبح دم جلادِ سپہر یعنی بے مہر مہر جب شمشیر شعاع کھینچ کر ہنگامہ پرداز عالم ہوا، سوداگر کو کاروان عدم کا ہم سفر کر کے بار ہستی سے سبک دوش کیا۔

یمن میں اخبار نویسوں نے یہ حال لکھا۔ وہاں عجب ہڑبونگ مچا تھا۔ وہ سائل ستم شعار بہ درجہ ظلم پیشہ و جفا کار نکلا۔ رعیت نالاں، ارکانِ سلطنت ہراساں رہتے تھے، ہزاروں رنج رات دن سہتے تھے۔ جب یہ خبر وہاں پہنچی، وزیر نے بہ صلاح رئیسانِ شہر زہر دے کر اسے مارا۔ تلخ کامی سے سب کو نجات ملی اور عرض داشت اپنے بادشاہ کو لکھی، تمنائے قدم بوس تمام شہر کی تحریر کی۔ بادشاہ کے بھی محبتِ وطن دل میں جوش زن ہوئی۔ سفر کی تیاری ہونے لگی۔ قطعہ:

حب وطن از ملک سلیماں خوشتر

یوسف کہ بہ مصر بادشاہی میکرد

خار وطن از سنبل و ریحاں خوشتر

میگفت گدا بودنِ کنعاں خوشتر

القصہ یمن میں آیا۔ دونوں سلطنتیں قبضے میں رہیں۔

جب بندر نے فسانہ تمام کیا، پھر کہا کہ اے نیک بخت! مطلب اس کہانی سے یہ تھا کہ جو بادشاہ عاشقِ اللہ، خدا پر شاکر تھا، ایک سلطنت دی، دو پائیں۔ یہ دونوں بد بَخْت جو لالچی تھے، انھوں نے جانیں گنوائیں۔ قِیامت تک مَطْعونِ خَلائِق رہیں گے۔ جتنے نیک ہیں؛ یہ قِصّہ سُن کر، بد کہیں گے۔ رنڈی اِن باتوں سے بَر سَر رحم ہوئی، بندر کی تسکین کی، کہا: تو خاطر جمع رکھ، جب تک کہ جیتی ہوں، تجھے بادشاہ کو نہ دوں گی، فاقہ قبول کروں گی۔ پھر اُسے رُوٹی کھلا، پانی پِلا، کھنڈری میں لِٹا، سو رہی۔

صبح کو چِڑی مار اُٹھا، بندر کے لے جانے کا قَصْد کیا۔ عورت نے کہا: آج اَور قسمت آزما، پھر جانور پکڑنے جا۔ جو رُوٹی مُیسّر آئے تو کیوں اِس کی جان جائے؛ ہم پر ہَتیا لگے، بد نامی آئے۔ نہیں تو کل لے جانا۔ وہ بولا: تو اِس کے دَم میں آ گئی۔ بندر نے کہا: ماشاء اللہ! رنڈی تو خدا پر شاکِر ہے، تو مرد ہو کر مُضْطَر ہے؟ پاجی تو زَن مُرید ہوتے ہی ہیں، پھر وہ پٹک جھٹک؛ جال، پھٹکی اُٹھا؛ لاسا، کَمپالے؛ ٹَٹّی کندھے سے لگا گھر سے نِکلا۔ یا تو دن بھر خراب ہو کر دو تین جانور لاتا تھا؛ اُس رُوز دو پَہَر میں پچاس ساٹھ ہاتھ آئے، پھٹکی بھر گئی۔ خوش خوش گھر پھرا۔ کئی روپے کو جانور بیچے۔ آٹا، دال، نُون، تیل، لکڑی خرید، تھوڑی مٹھائی لے، بھٹی پر جا کے ٹکے کا ٹھرّا پیا۔ ہاتھ پاؤں پھول گئے۔ جھومتے، گیت گاتے گھر کا رستہ لیا، مُفلسی کا غم بچہ بھول گئے۔ جُورو سے آتے ہی کہا: اَری! ہَنومان جی کے کدم بڑے بھاگوان ہیں۔ بھگوان نے دَیا کی، آج رُپیّا دلوائے، اِتنے جانور ہاتھ آئے۔ وہ گھر بَسی بھی بہت ہنسی۔ پہلے مٹھائی بندر کو کھلائی؛ پھر روٹی پکا، آپ کھا، کچھ اُسے کھلا، پڑ رہی۔ بندر بچارا سمجھا: چَندے پھر جان بچی، جو فلک نہ جل مرے اور اِس کا بھی رشک نہ کرے۔ مُؤلِّف:

کیا شاخِ گُل پہ پھول کے بیٹھی ہے عَنْدلیب

ڈرتا ہوں مَیں، نہ چشمِ فلک کو بُرا لگے

جب لایا، بارِ یاس ہی لایا یہ، اے سُرورؔ

گاہے نہ نَخلِ غم میں ثَمَر اِس سِوا لگے

اب روز بہ روز چِڑی مار کی ترقّی ہونے لگی۔ تھوڑے دنوں میں گھر بار، کپڑا لَتَّہ، گہنا پاتا درست ہو گیا۔ قَضارا، کوئی بڑا تاجِر سَرا میں اُس بھٹیاری کے گھر میں اُترا، جس کی دیوار تلے چِڑی مار رہتا تھا۔ ایک روز بعد نمازِ عِشا سوداگر وظیفہ پڑھتا تھا؛ نا گاہ آوازِ خوب، صدائے مرغوب، جیسے لڑکا پیاری پیاری باتیں کرتا ہے، اُس کے کان میں آئی۔ بھٹیاری سے پوچھا: یہاں کون رہتا ہے؟ وہ بولی: چِڑی مار۔ سوداگر نے کہا: اُس کا لڑکا خوب باتیں کرتا ہے۔ بھٹیاری بولی: لڑکا بالا تو کوئی بھی نہیں، فقط جُورو خَصَم رہتے ہیں۔ سوداگر نے کہا: اِدھر آ، یہ کس کی آواز آتی ہے؟ بھٹیاری جو آئی، لڑکے کی آواز پائی۔ وہ بولا: اِس صدا سے بوئے درد پیدا ہے؛ اِس کو میرے پاس لا، باتیں کروں گا۔ کچھ لڑکے کو دوں گا اور تیرا بھی مُنہ میٹھا کروں گا۔

بھٹیاری چِڑی مار کے گھر گئی۔ دیکھا: بندر باتیں کرتا ہے۔ اِسے دیکھ چُپ ہو رہا۔ وہ دونوں بھٹیاری کے پاؤں پر گر پڑے، مِنّت کرنے لگے، کہا: ہم نے اِسے بچّوں کی طرح پالا ہے، اپنا دُکھ ٹالا ہے۔ شہر پُر آشُوب ہو رہا ہے، بندر کُش بادشاہ اُترا ہے، ایسا نہ ہو، یہ خبر اُڑتے اُڑتے اُسے پہنچے؛ بندر چھن جائے، ہم پر خرابی آئے۔ وہ بولی: مجھے کیا کام جو ایسا کلام کروں۔ سَرا میں آ کے سوداگر سے کہا: وہاں کوئی نہ تھا۔ اُس نے کہا: دیوانی! ابھی وہ آواز کس کی تھی؟ بہ غَور سُنیے کہ کیا معقول جواب وہ نامعقول دیتی ہے: بَلَیّاں لوں، بھلا مجھے کیا غَرض جو کہوں: بندر بولتا ہے۔ سوداگر خوب ہنسا، پھر کہا: تو سِڑن ہے، اری بندر کہیں بولا ہے! پھر بولی: جی گریب پَروَر! صد کے گئی؛ اِسی سے تو مَیں بھی نہیں کہتی ہوں کہ بندر بولتا ہے، اور چِڑی مار کی جورو نے بتانے کو منع کیا ہے۔ سوداگر کو سخت خَلْجان، بہ مرتبہ خَفْقان ہوا کہ یہ کیا ماجرا ہے! مکان قریب تھا، خود چلا گیا۔ دیکھا تو فِی الحقیقت ایک عورت، دوسرا مردِ مُچھنْدَر، تیسرا بندر ہے۔ یقینِ کامل ہوا یہی بندر بولتا تھا۔ بھٹیاری سچّی ہے، گو عقْل کی کچّی ہے۔ وہ سوداگر کو دیکھ کے بندر کو چھپانے لگے، خوف سے تھرّانے لگے۔ اِس نے کہا: بھید کھل گیا، اب پوشیدہ کرنا اِس کا لا حاصل ہے۔ مَصلَحت یہی ہے، بندر ہمیں دو۔ جو اِحتِیاج ہو، اِس کے جِلدو میں لو۔ نہیں تو بادشاہ سے اِطّلاع کروں گا، یہ بے چارہ مارا جائے گا، چھپانے کی علّت میں تمھارا سر اُتارا جائے گا، میرا کیا جائے گا۔ وہ دونوں رُونے پیٹنے لگے۔ بندر سمجھا: اب جان نہیں بچتی، اِتنی ہی زیست تھی؛ چِڑیمار سے کہا: اے شخص! فلکِ کج رفتار، گَردونِ دَوّار نے اِتنی جفا پر صبر نہ کیا، یہاں بھی چَین نہ دیا؛ مناسب یہی ہے رَضائے اِلٰہی پر راضی ہو، مجھے حوالے کر دو۔ قضا آئی، ٹلتی نہیں۔ تقدیر کے آگے کسی کی تدبیر چلتی نہیں۔ فَردِ بَشَر کو حکم قضا و قَدَر سے چارہ نہیں، اِس کے ٹال دینے کا یارا نہیں۔ إِذَا جَآءَ أَجَلُہُمْ فَلَا یَسْتَأخِرُونَ سَاعَةً وَلَا یَسْتَقْدِمُونَ۔

چِڑیمار نے کہا: دیکھو بندر کی ذات کیا بے وفا ہوتی ہے! ہماری محنت و مشقت پر نظر نہ کی، توتے کی طرح آنکھ پھیر لی، سوداگر کے ساتھ جانے کو راضی ہو گیا۔ بڑا آدمی جو دیکھا، ہمارے پاس رہنے کا مطلق پاس نہ کیا۔ بندر نے کہا: اگر نہ جاؤں، اپنی جان کھوؤں، تم پر خرابی لاؤں۔ آخر کار بہ ہزار گریہ و زاری سوداگر سے دونوں نے قسم لی کہ بادشاہ کو نہ دینا، اچھی طرح پَروَرِش کرنا۔ یہ کہہ کر بندر حوالے کیا۔ سوداگر نے اِس کے عوض بہت کچھ دیا۔ بندر کو سَرا میں لا پیار کیا، بہ دل داری و نرمی حال پوچھا۔ بندر نے یہ چند شعر حَسْبِ حال، سودا کے، سوداگر کے رو بہ رو پڑھے، مرزا رفیع:

نے بلبلِ چمن، نہ گُل نَو دَمیدہ ہوں

میں مَوسَمِ بہار میں شاخِ بُریدہ ہوں


گریاں بہ شکل شیشہ و خَنداں بہ شکلِ جام

اِس مَے کدے کے بیچ عَبَث آفریدہ ہوں


میں کیا کہوں کہ کون ہوں سودا! بہ قولِ دردؔ

جو کچھ کہ ہوں سو ہوں، غرض آفت رسیدہ ہوں

اے عزیز! آتَشِ کارواں، نقشِ پاے یارانِ رَفتَگاں ظاہر ہوں؛ مگر پنہاں ہوں بلبلِ دور اَز گُلزار، گُم کردہ آشِیاں؛ صیّاد آمادۂ بیداد، گھات میں باغباں؛ کیوں کر نہ سرگرمِ فغاں ہوں۔ حضرتِ عشق کی عِنایت ہے، احبابِ زمانہ کی شکایت ہے، طُرفَہ حکایت ہے کہ حاجت رَوائے عالَم، محتاج ہے۔ تخت ہے نہ اَفسر ہے، نہ وہ سر ہے نہ تاج ہے۔ غریب دِیار، چرخ موجِدِ آزار۔ شفیق و مہرباں نہیں، حالِ زار کا کوئی پُرساں نہیں۔ حیرت کا کیوں نہ مبتَلا ہوں، اپنے ہاتھ سے اَسیرِ دامِ بَلا ہوں۔ خود گرفتارِ پنجۂ ستم ہوا؛ کبھی مجھے جِن کا اَلَم تھا، اب انھیں میرا غم ہوا۔ مرنے سے اِس لیے ہم جی چھپاتے ہیں کہ ہمدم میرے فراق میں موئے جاتے ہیں۔ مجھے دامِ مکر میں اُلجھایا، دوستوں کو میرے دشمن کے پھندے میں پھنْسایا، گردشِ چرخِ ستم گار سے عجیب سانِحۂ ہُوش رُبا سامنے آیا۔ میر تقی:

سخت مشکل ہے، سخت ہے بیداد

ایک مَیں خوں گرِفتہ، سَو جلّاد


کوئی مشفق نہیں جو ہووے شفیق

بے کَسی چھٹ، نہیں ہے کوئی رفیق


آہ، جو ہمدمی سی کرتی ہے

اب تو وہ بھی کمی سی کرتی ہے


اب ٹھہرتا نہیں ہے پائے ثَبات

ایک مَیں اور ہزار تَصْدیعات

مصر؏:

گویم، مشکل و گر نگویم، مشکل

مگر آج خوش قسمتی سے آپ سا قَدْر داں ہاتھ آیا ہے، اِنتِشارِ طبیعت بَر طَرف ہو تو بہ دِل جَمْعِیِ تمام، آغاز سے تا انجام اپنی داستانِ غم، سانحۂ ستم گُزارِش کروں گا۔ سوداگر کے، اِس مضمونِ درد ناک سے، آنْسو نکل پڑے، سمجھا: یہ بندر نہیں، کوئی فَصیح و بَلیغ، عالی خاندان، والا دودمان سحر میں پھنس گیا ہے، کہا: اطمینانِ خاطر رکھ، تیری جان کے ساتھ میری جان ہے، اب زیست کا یہی سامان ہے۔ بندر کو تسکینِ کامل حاصل ہوئی۔ غزلیں پڑھیں، نَقْل و حِکایات میں سَرگرم رہا، اپنا حال پھر کچھ نہ کہا۔ تمام شب سوداگر نہ سویا، اِس کے بیانِ جاں کاہ پر خوب رُویا۔

اب بہت تعظیم و تکریم سے بندر رہنے لگا۔ مگر اَمرِ شُدنی بہر کیف ہُوا چاہے۔ راز فاش ہو، اگر خُدا چاہے۔ سوداگر کا یہ انداز ہوا: جو شخص نیا اِس کی ملاقات کو آتا، اُسے بندر کی باتیں سُنواتا۔ اُس کو اِستِعجاب سے فِکر ہوتا، اِس کا ہر جگہ ذِکر ہوتا۔ آخِرَش، اِس کی گویائی کا چرچا کوچہ و بازار میں مچا اور یہ خبر اُس کُور نمک، مُحسن کُش کے گوش زَد ہوئی۔ سُنتے ہی سمجھا یہ وہی ہے، بعد مُدّت فلک نے پتا لگایا، اب ہاتھ آیا۔ فوراً چوبدار بندر کے لینے کو، سوداگر کے پاس بھیجا۔ یہ بہت گھبرایا۔ اَور تو کچھ بَن نہ آیا، بہ صَد عجز و نِیاز عرضْداشت کی کہ غلام صاحبِ اَولاد نہیں، اِس اَندوہ میں دل مُضطر شاد نہیں۔ طبیعت بہلانے کو اِسے بچّہ سا لے کر فرزندوں کی طرح بڑی مَشقّت سے پالا ہے، رات دن دیکھا بھالا ہے۔ بندر ہے، مگر عَنْقا ہے۔ مُفارَقت اِس کی خانہ زاد کی جان لے گی، آئندہ جو حضور کی مرضی۔

چوبدار یہاں سے خالی پھرا، وہ ظالِم اَظْلَم غَضَب میں بھرا، وہاں کے بادشاہ کو لکھا کہ اگر سلطنت اور آبادیِ مَمْلکَت اپنی منظور ہو، سوداگر سے جلد بندر لے کر یہاں بھیج دو۔ نہیں تو اینٹ سے اینٹ بجا دوں گا، نام و نشاں مِٹا دوں گا۔ یہ خبرِ وحشت اَثَر سُن کے غَضَنْفر شاہ مُتردِّد ہوا۔ مُشیرانِ خوش تدبیر، امیر وزیر سمجھانے لگے کہ خُداوندِ نعمت! ایک جانور کی خاطر آدمیوں کا کُشْت و خوں زَبوں ہے۔ حکم ہوا: کچھ لوگ سرکاری وہاں جائیں؛ جس طرح بَنے، سوداگر سے بِگڑ کر، بندر اُس کی ڈیوڑھی پر پہنچائیں۔ جب بادشاہی خاص دستہ سَرا میں آیا؛ بندر دست بَسْتَہ یہ زبان پر لایا کہ اے مونسِ غم گُسار، وفا شِعار! اِس اَجَل رَسیدَہ کے باب میں کَد و کوشش بے کار ہے، سَراسَر بیجا ہے۔ قضا کا زمانہ قریب پہنچا، دَرِ ناکامی وا ہے۔ مَبادا، کسی طرح کا رنج میری دوستی میں تمھارے دشمنوں کو پہنچے؛ تو مجھے حَشْر تک حِجاب و نَدامت رہے، خلقِ خُدا یہ ماجرا سُن کے بُرا بھلا کہے۔ سوداگر نے کہا: اسْتَغْفِرُ اللّٰہ یہ کیا بات ہے! جو کہا، وہ سر کے ساتھ ہے۔

جب بادشاہ کے لوگوں کا تقاضائے شَدید ہوا اور دن بہت کم رہا؛ بعد رَدّ و قدح، بہ مَعذِرَتِ بِسیار و مِنَّت بے شُمار، ہزار دینار دے کے اُس شب مُہلت لی اور صُبْح کے چلنے کی ٹھہری، بہ موجِبِ مثل، مصر؏:

زر بر سَرِ فولاد نہی، نرم شود

اِس عرصے میں یہ حال تباہ، ماجرائے جان کاہ گلی کوچے میں زبان زَدِ خاص و عام ہوا کہ ایک بندر کسی سوداگر کے پاس باتیں کرتا تھا، وہ بھی کل مارا جائے گا۔ بہ حَدِّے کہ اُس کشتہ اِنتِظار، مایوسِ دل فِگار یعنی ملکہ مہر نگار کو بھی معلوم ہوا۔ وہ شیدائے جان عالم سمجھی کہ یہ بندر نہیں، شہ زادہ ہے۔ افسوس! صد ہزار افسوس! اب کون سی تدبیر کیجیے جو اِس بے کس کی جان بچے! دل کو مَسُوس، وزیر زادے کو کوس، لوگوں سے پوچھا: دَمِ سحر کدھر سے وہ سوداگر جائے گا؟ یہ تماشا ہمارے دیکھنے میں کیوں کر آئے گا؟ لوگوں نے عرض کی: حضور کے جھروکے تلے شاہراہ ہے، یہی ہر سمت کی گزرگاہ ہے۔ یہ سُن کے تمام شب تڑپا کی، نیند نہ آئی۔ دو گھڑی رات سے برآمدے میں برآمد ہوئی اور ایک توتا پنْجرے میں پاس رکھ لیا۔ گَجَر سے پیشتر بازار میں ہُلّڑ، تماشائیوں کا میلا سا ہو گیا۔ جس وقت تاجِرِ ماہ نے مَتاعِ انجم کو نِہاں خانۂ مغرب میں چھپایا اور خُسروِ رنگیں کُلاہ نے بندرِ مشرق سے نکل کر تختِ زَنگاری پر جُلوس فرمایا؛ سوداگر نمازِ صُبْح پڑھ کر ہاتھی پر سوار ہوا۔ کمر میں پِیش قَبض رکھ، گود میں بندر کو بِٹھا، مرنے پر کمر مضبوط باندھ کر مجبور چلا۔ بندر سے کہا: پریشان نہ ہو، جب تقریر سے اور اِصرافِ کثیر سے کام نہ نکلے گا؛ جو کچھ بَن پڑے گا، وہ کروں گا۔ اپنے جیتے جی تجھے مرنے نہ دوں گا۔ قولِ مَرداں جان دارد۔ اور، مصر؏:

بعد از سَرِ من کُن فَیَکوْں شُد، شُدہ باشد

سوداگر کا سَر اسے سَراسیمَہ آگے بڑھنا کہ خلقت نے چار طرف سے گھیر لیا۔ بندر لوگوں سے مُخاطِب ہو کے یہ کہنے لگا، میر سوز:

برقِ تَپیدہ، یا شَرَرِ بَر جہیدہ ہوں

جس رنگ میں ہوں مَیں، غرض از خود ر میدہ ہوں


اے اہلِ بزم! مَیں بھی مُرَقّع میں دَہْر کے

تصویر ہوں، وَلے لَبِ حسرت گزیدہ ہوں


صیاد! اپنا دام اُٹھا لے کہ جوں صبا

ہوں تو چمن میں، پر گُلِ عشرت نچیدہ ہوں


اے آہ و نالہ! مجھ سے نہ آگے چلو کہ مَیں

بچھڑا ہوں کارواں سے، مسافر جَریدہ ہوں


غم ہوں، الم ہوں، درد ہوں، سوز و گداز ہوں

سب اہلِ دل کے واسطے مَیں آفریدہ ہوں

صاحِبو! دُنیائے دوں، نیرنگیِ زمانۂ سِفْلَہ پَروَر، بو قَلموں عبرت و دید کی جا ہے۔ گرما گرم آئندہ رَوِندہ کا بازار ہے۔ کَس و ناکَس جِنْسِ نا پائیدار، لَہْو و لَعب کا خریدار ہے۔ اپنے کام میں مصروف قضا ہے۔ جو شَے ہے، ایک روز فنا ہے۔ مُعاملاتِ قضا و قَدَر سے ہر ایک ناچار ہے، یہی مسئلہ جبر و اِختیار ہے۔ کوئی کسی کی عداوت میں ہے، کوئی کسی کا شیدا ہے۔ جسے دیکھا، آزاد نہ پایا؛ کسی نہ کسی بکھیڑے میں مبتَلا ہے۔ ایک کو اتنا سوجھتا نہیں کیا لین دین ہو رہا ہے۔ سُود کی اُمّید میں سَراسَر زِیاں ہے؛ سِڑی ہونے کا سودا ہے۔ اُس کی قُدرتِ ناطِقَہ دیکھو: مجھ سے نا چیز، بے زَباں کو یہ تکلُّفِ گویائی عنایت کیا؛ تم سب کا سامِعُوں میں چہرہ لکھ دیا، باتیں سُننے کو ساتھ چلے آتے ہو۔ جُدائی میری شاق ہے، جو ہے وہ مشتاق ہے، حالِ زار پر رحم کھا آنسو بہاتے ہو۔ یہ رَحیمی کی صفت ہے؛ شانِ قہاری دیکھو: اُسی تقریر کی دھوم سے، ایک ظالِم شوم سے مجھ مظلوم کا مُقابلہ ہوتا ہے۔ یقینِ کامل ہے کہ وہ قتل کرے گا، بے گُناہ کے خون سے ہاتھ بھرے گا۔ سَوَادُ الْوَجْہِ فَی الدَّارَین ہو گا، تب اُسے آرام اور چَین ہو گا۔ یہ گویائی، گویا پیامِ مرگ تھا۔

دُنیا جائے آزمائش ہے۔ سَفیہ جانتے ہیں یہ مُقام قابلِ آرام و آسائش ہے۔ دو رُوزہ زیست کی خاطر کیا کیا ساز و ساماں پیدا کرتے ہیں۔ فرعونِ با ساماں ہو کے زمین پر پاؤں نہیں دھرتے ہیں۔ جب سر کو اُٹھا آنکھ بند کر کے چلتے ہیں، خاکساروں کے سر کُچلتے ہیں۔ آخِر کار حسرت و ارماں فقط لے کر مرتے ہیں۔ جان اُس کی جُستُجو میں کھوتے ہیں جو شَے ہاتھ آئے ذِلّت سے، جمع ہو پریشانی و مَشقّت سے، پاس رہے خِسَّت سے، چھوٹ جائے یاس و حسرت سے۔ پھر سر پر ہاتھ دھر کر رُوتے ہیں۔ صُبح کو کوئی نام نہیں لیتا ہے، جو کسی اور نے لیا تو گالیاں دیتا ہے۔ ناسخ:

دُنیا اک زالِ بِیسوا ہے

بے مہر و وفا و بے حیا ہے


مَردوں کے لیے یہ زن ہے رہِ زن

دنیا کی عدو ہے، دیں کی دشمن


رہتی نہیں ایک جا پہ جم کر

پھرتی ہے بہ رنگِ نَرْد گھر گھر

انجامِ شاہ و گدا دو گز کفن اور تختۂ تابوت سے سوا نہیں۔ کسی نے اَدھَر سا، یا محمودی کا دیا، یا تحریرِ کربلا؛ کسی کو گَزی گاڑھا مُیسّر ہوا بہ صد کرب و بَلا۔ اُس نے صندل کا تختہ لگایا، اِس نے بیر کے چَیلوں میں چھپایا۔ کسی نے بعد سنگِ مَرمَر کا مقبرہ بنایا، کسی نے مَرمَر کے گور گڑھا پایا۔ کسی کا مزار مُطَلّا، مُنَقّش، رنگا رنگ ہے۔ کسی کی، مانِندِ سینۂ جاہِل، گور تنگ ہے۔ حسرتِ دنیا سے کفن چاک ہوا، بستر دونوں کا فرشِ خاک ہوا۔ نہ امیر سَمْور و قاقُم کا فرش بچھا سکا، نہ فقیر پھٹی شَطْرنْجی اور ٹوٹا بُوریا لا سکا۔ بعد چَنْدے، جب گردشِ چرخ نے گُنبد گرایا، اینٹ سے اینٹ کو بجایا تو ایک نے نہ بتایا کہ دونوں میں یہ گورِ شاہ ہے، یہ لحدِ فقیر ہے۔ اِس کو مَرگِ جوانی نصیب ہوئی، یہ استخوانِ بوسیدۂ پیر ہے۔ سو یہ بھی خوش نصیب، نیک کمائی والے گور گڑھا، کفن پاتے ہیں؛ نہیں تو سیکڑوں ہاتھ رکھ کر مر جاتے ہیں، لوگ ’’دَر گور‘‘ کہہ کر چلے آتے ہیں۔ کُتّے بِلّی، چیل کوّے بُوٹیاں نوچ نوچ کر کھاتے ہیں۔ دامنِ دَشتِ عُریاں کفن، گور بے چراغ، صحرا کا صحن ہوتا ہے۔ یاس و حسرت کے سوا کوئی نہ سِرہانے روتا ہے۔ تمنّا چھٹ کوئی پائِنْتی نہ ہوتا ہے۔

سالہا مَقْبروں کی عِماراتِ عالی اور ساز و ساماں کی دیکھا بھالی میں سریع السَّیر رہے، ہزاروں رنج گورِ بے چراغِ غَریباں کی دید میں بیٹھے بِٹھائے سہے؛ طُرفہ نَقْل ہے کہ والی وارث اُن کے سَریرِ سلطنت، مسندِ حکومت پر شب و رُوز جلوہ اَفروز رہے، مگر تنبیہ غافِلوں کو، قُدرتِ حق سے، گُنبدوں میں آشِیانۂ زاغ و زغن، میناروں پر مَسکَنِ بومِ شُوم، قبروں پر کُتّے لُوٹتے دیکھے۔ میر:

مزارِ غریباں تَاَسّف کی جا ہے

وہ سوتے ہیں، پھرتے جو کل جا بہ جا تھے

رنگِ چمن صَرفِ خِزاں دیکھا۔ ڈھَلا ہوا حُسنِ گُل رُخاں دیکھا۔ اگر گُلِ خنداں پر جوبن ہے، بہار ہے؛ غور کیا تو پہلوئے نازنیں میں نشتر سے زیادہ خَلشِ خار ہے، گریاں اُس کے حال پر بُلبلِ زار ہے۔ دُنیا میں دن رات زَق زَق بَق بَق ہے۔ کوئی چہچہے کرتا ہے، کسی کو قَلَق ہے۔ نُوش کے ساتھ گزندِ نیش ہے۔ ہر رہ رَو کو کڑی منزل در پیش ہے۔ ایک فقیر کے اِس نکتے نے بہت جی کُڑھایا، مگر سب کو پسند آیا کہ بابا! دن تھوڑا، سَر پر بوجھ بھاری، منزل دور ہے؛ مسافر کے پاؤں میں حرص کے چھالے، ہوس کی بیڑیاں، غفلت کا نشہ، راہ بے دیکھی، راہ بر ناپیدا؛ لیکن چلنا ضرور ہے۔ مؤلف:

بلبل کو خزاں میں جان کھوتے پایا

صیاد کو سر پٹک کے روتے پایا

گل چیں کی بھی نیند اڑ گئی، لیک سُرورؔ

جو اہل دَوَل تھے، ان کو سوتے پایا

مدتوں صدائے مُرغِ سحر کے رنج اٹھائے؛ کبھی دم نہ مارا، شکوہ لب پر نہ لائے۔ برسوں ندائے اللہ اکبر کے صدمے سہے؛ شُکر کیا، چُپ رہے۔ مہینوں گجر کی آواز نے دم بند کیا: قلق جی پر لیا، نالہ نہ بلند کیا۔ سوچے تو وصلِ مہ رویاں خواب شب تھا۔ لطف ان کا عین غضب تھا۔ تمام عالم کی خوب سیر کی؛ کبھی حرم محترم میں مسکن رہا، گاہ دھونی رمائی کنشت و دیر کی۔ عالم سے آیہ، فاضل سے حدیث، ناصح سے پند سُنا۔ ناقوسِ برہمن سُن سُن بُت ہو گئے، سر دھُنا۔ وہ بد کیش: مانع ملتِ صنم، لُطفِ زیست، حظِ نفس کا دشمن تھا۔ یہ کوتہ اندیش: رخنہ پردازِ اہل ایماں، دین کا رہ زن تھا۔ تامُل کیا تو ان دونوں سے دور حسد، بُغض، بیر ہونا معلوم۔ اپنے نزدیک ان کا انجام بہ خیر ہونا معلوم۔ واللہ اعلم یہ لوگ کیا سمجھے! خود اچھے ٹھہرے، اور کو بُرا سمجھے۔ مطلب کی بات ہیہات دونوں کی سمجھ میں نہ آئی۔ افراط تفریط نے گوں گا بہرا کیا۔ لوگوں کو بے بہرہ کیا، ذلت دلوائی۔ سب سے بہتر نظر آیا کنج تنہائی۔ مؤلف:

اچھے کو بُرا، بُرے کو اچھا سمجھے

کتنی یہ بُری سمجھ ہے، اچھا سمجھے

دُنیا فقط راہ گُذر ہے۔ ہردم مثالِ تارِ نَفَس درپیش سفر ہے تا زیست ہزاروں مفسدے ہیں، ڈر ہے۔ مرنے کے بعد باز پُرس مدِ نظر ہے۔ کسی طرح انسان کو مفر نہیں۔ کون سا نفع ہے، جس کی تلاش میں بے سود ضرر نہیں۔ حاصل کار یہ ہے: دُنیا کی محبت دل سے کم کرے، کسی کے جینے کی خوشی نہ مرنے کا غم کرے، تا مقدور خاطرِ فردِ بشر نہ برہم کرے؛ وگرنہ، شعر:

نیم شبے آہ زند پیر زال

دولتِ صد سالہ کند پایمال

دل شکستہ کی دل داری، پافُتادہ کی مدد گاری کرے۔ ہوا و ہوس جو دل سے دور ہو جائے، تو مال سے یا کمال سے عُجب و نخوت نزدیک نہ آئے۔ عنایت ایزدی پر قانع ہو۔ شکرِ ہر نعمت، سپاس خدمت کر کے، منہیات کا مانع ہو۔ رنج کا حامل رہے، سب رنگ میں شامل رہے۔ زمانے کے مکروہات سے گھبرائے نہیں، صحبت غیر جنس سے نفرت کرے، تو بدنامی پاس آئے نہیں۔ دولت کا اعتبار کیا، مُفلسی سے ننگ و عار کیا۔ ایک دن مرنا ہے، جینا مُستعار ہے، اس پر کس کا اختیار ہے۔ نیک عمل کا خیال رکھے کہ قید ہستی زیست کا نام ہے۔ رہائی ایک دن یہاں سے انجام ہے۔ باہمہ بے ہمہ رہنے میں مزہ ہے، باقی بکھیڑا ہے۔ شعر:

کسی کی مرگ پر اے دل نہ کیجے چشم تر ہر گز

بہت سا روئیے اُن پر جو اس جینے پہ مرتے ہیں

عُمر خضر کی تمنا اور حشمتِ خسرو، خزانہ قاروں کی فکر میں ہر ایک صباح و مسا ذلیل و خوار ہے۔ تحصیل لا حاصل ہے، کوشش اسامر میں سراسر بے کار ہے۔ بہ قول ناسخ:

ہاتھ آتی ہے کب علم و ہنر سے دولت

ملتی ہے قضا اور قدر سے دولت

جو علم و ہنر رکھتے ہیں، وہ ہیں محروم

مانوس ہے بل احمق و خر سے دولت

روپے کا جمع ہونا، جواہر کی تلاش میں ہیرا کھانا، دن کا جاگنا، چاندی سونے کی امید میں رات کا نہ سونا، سیمیں تن۔ لعل لبوں سے بہم ہونا جنھیں میسرہر بار ہے، انھیں مفارقتِ دنیا ناگوار ہے اور یہ کلام ہے، مولّف:

یاں کے جانے سے جی الجھتا ہے

کیا ہی دلکش سرائے فانی ہے

لیکن کبھی صبحِ عشرت، گاہ الم کی شام ہے، دنیا عجب مقام ہے۔ نہ امیر ہوتے عرصہ لگتا ہے، نہ فقیر بنتے کچھ دیر ہے، اس کارگاہِ بے ثبات میں یہ اندھیر ہے۔ سلف سے اہل کمال دنیا کے مال سے محروم رہے۔ جو سزاوارِ حکومت تھے، وہ محکوم رہے۔ شعر:

اسپ تازی شدہ مجروح بزیر پالاں

طوق زرّیں ہمہ در گردنِ خر می بینم

یہاں کی نیرنگیوں سے فارغ البالوں پر عرصہ تنگ رہا۔ مگر گردش چرخ کا وہی ڈھنگ رہا۔ سوداؔ:

ہے چرخ جب سے ابلق ایام پر سوار

رکھتا نہیں یہ ہاتھ عناں کا بہ یک قرار


جن کے طویلے بیچ، کئی دن کا ذکر ہے

ہر گز عراقی و عربی کا نہ تھا شمار


اب دیکھتا ہوں میں کہ زمانے کے ہاتھ سے

موچی سے کفش پا کو گٹھاتے ہیں وہ ادھار

اور جب وعدہ آ پہنچا تو نہ روپیہ کام آتا ہے، نہ فوج ظفر موج سے کچھ ہو، نہ تہمتنِ جرّار بچاتا ہے۔ نہ کوئی آشنا دوست آڑے آئے، نہ کوئی عزیز و اقربا پنجۂ ملک الموت سے چھڑائے۔ اگر یہی امر مانع قضا و قدر ہوتے؛ جمشید و کاؤس، دارا و سکندر بہ صد حسرت و افسوس جان نہ کھوتے۔ نیک عمل کرے تو وہ ساتھ جاتا ہے۔ برے وقت میں احتیاج کسی کی بر لائے، یا للہ کسی کو کچھ دے؛ یہ البتہ کام بناتا ہے۔ اگر اپنے حال کو سوچے، تو منہ نوچے۔ بین العَدَمَین آدمی ہے، دنیا یہ بیچ کی سرا ہے؛ وگرنہ دنیا سراب، نقش برآب، زندگی بد تر از حباب ہے۔ پابند اس کا خراب، ترک کرنے والا نایاب ہے۔ ناسخ:

ترک دنیا کا سوچ کیا ناسخ

کچھ بڑی ایسی کائنات نہیں

شعر:

اس گلشن ہستی میں عجب سیر ہے لیکن

جب آنکھ کھلی گل کی تو موسم ہے خزاں کا

قطعہ:

دنیا خوابیست، کش عدم تعبیر است

صید اجل است گر جواں ور پیر است

ہم روی زمیں پُر است و ہم زیر زمیں

ایں صفحۂ خاک ہر دو رو تصویر است

اِلّا، مُقتضائے عقل یہ ہے کہ عالم اسباب میں کسی اسباب کا پابند نہ ہو، تعلقِ خاطر نہ رکھے۔ ہمیشہ اس نے بھلے سے بُرائی کی ہے۔ جو گیا یہاں سے، یعنی جہانِ گذراں سے، اس کا شاکی تھا بادشاہ سے فقیر تک، جوان سے پیر تک۔ حقیقت میں یہ نفسِ امارہ سخت ناکارہ ہے، اس کو بہر کیف زِیر کرے، زبردستی پچھاڑے۔ گردِ ہوا و ہوس سے دامنِ ہمت جھاڑے۔ شعر:

دیوانہ باش تا غمِ تو دیگراں خورند

آنرا کہ عقل بیش، غمِ روزگار بیش

یہاں کوئی ایسی بات خدا کی عنایات سے پیدا کرے تا صفحۂ روزگار پر چندے بہ نیکی نام یاد رہے۔ شعر:

اس طرح جی کہ بعد مرنے کے

یاد کوئی تو گاہ گاہ کرے

دُنیا میں کسی سے دل نہ لگائے کہ یہ کارخانہ بہت بے ثبات ہے۔ وصل سے فرحت، ہجر کی مصیبت اپنے سر پر نہ لائے کہ مر جانے کی بات ہے۔ معشوقِ باوفا عنقا کی طرح ناپیدا ہے اور پُر دغا ہرجائی ہر جا مہیا ہے۔ خواہش کا انجام کاہش ہے۔ تمنا دل سے دور کرنے میں جان کی آسائش ہے۔ مُؤلف:

کبھی نہ چین سے رہنے دیا تمنا نے

خراب و خستہ مَیں اس دل کی آرزو سے ہوا

مگر وائے غفلت، ہائے نادانی! کہ جب نشۂ جوانی کا موسم پیری میں خمار اُتار ہوتا ہے، اُس وقت آدمی سر پر ہاتھ دھر کر روتا ہے۔ وقتِ از دست رفتہ و تیر از شست جستہ کب ہاتھ آتا ہے۔ ناچار ہو، کفِ افسوس مل کے پچھتاتا ہے۔ گُذشتہ را صلوات کہہ کے دل کو سمجھاتا ہے۔

آدمیوں کو بندر کی تقریرِ دل خراش، پُر اثر سے عبرت و حیرت حاصل تھی۔ کبھی نصیحت و پند، گاہ کلامِ رنگین و دل چسپ با دلِ درد مند، کبھی سخنان وحشت افزا سُناتا چلا جاتا تھا۔ اہل دل، طبیعت کے گُداز روتے ساتھ آتے تھے۔ ہر فقرۂ پُر درد پر ضبط نہ ہو سکتا تھا، چلاتے تھے۔ خلقِ خدا، جنازے کی طرح ہاتھی کے ہمراہ تھی۔ ایک عالم کے لب پر نالے تھے، فُغان و آہ تھی۔ اسی سامان سے ملکہ کے جھروکے تلے پہنچے۔ وہ منتظر تمام شب، نالہ بہ لب، سوداگر سے فرمانے لگی ایک دم ٹھہر جا، میں بھی اس اسیر پنجہ تقدیر کی تقریر کی مشتاق ہوں۔ سوداگر نے ہاتھی روکا۔ ملکہ نے کہا: اے مُقرر بے زباں، وطن آوارہ، گُم کردہ خانُماں! اگرچہ اب ہم کس لائق ہیں، مگر تیرے داستانِ ظُلم و جور کے شائق ہیں۔ بندر نے آواز پہچانی۔ پہلے تو خوب رویا، پھر جی کو ٹھہرا کر کہنے لگا، شعر:

ہرکس از دستِ غیر نالہ کند

سعدیؔ از دستِ خویشتن فریاد

میر:

کیوں کے کہیے، کوئی نہیں آگاہ

کچھ چھپا اب نہیں رہا، یہ راز


بس تغافُل نہ کر، تَرَحُّم کر

اک قیامت بپا ہے یاں سر راہ


ہے جہاں اِس سے سب سخن پَرداز

گوشِ دل جانِبِ تکلم کر

شعر:

قسمت تو دیکھنا کہ کہاں ٹوٹی ہے کمند

دو تین ہاتھ جب کہ لبِ بام رہ گیا

افسوس! یار نے عیّاری کی، دغا سے یہ نوبت ہماری کی۔ جس کا رُونا ہمیں ناگوار تھا؛ وہ ہمارے لہو کا پیاسا، قتْل کا رَوا دار تھا۔ یہ مثل سچ ہے: تیرھویں صَدی ہے، نیکی کا بدلا بدی ہے۔ محبو بوں کی تمنا دل میں رہی۔ وطن جانے کی حسرت آب و گِل میں رہی۔ دوستوں کا کہا نہ مانا؛ وہ آگے آیا، پچھتانا پڑا۔ بے اَجَل جلّاد کے فَریب سے ذَبح ہوئے۔ طالِب و مطلوب جان جوکھوں میں پھنسے، زندہ دَر گور ہوئے۔ اَلْحَقّ، دنیا دم مارنے کی جا نہیں۔ راز کسی سے کہنا اچھا نہیں۔ منصور حَلّاج نے کلمۂ حق کہاتھا، نا حق لوگوں نے دار پر کھینچا۔ غَرض جو بولا، وہ مارا گیا، جان سے بے چارہ گیا۔

کہتے تو کہا، پَر کچھ سوچ کر بات بنائی۔ جی میں دہشت آئی کہ مَبادا یہ خبر اُس اَکفر کو پہنچے تو یقینِ کامل ہو، جان دَشنَۂ ظلم سے نہ بچے۔ کہا: اے ملکہ! کوئی کسی کمال سے دُنیا میں نِہال ہوتا ہے؛ یہ بے گناہ، گویائی کے سبب، ناحق حرام زادے کی بدولت حلال ہوتا ہے۔ مُؤلِّف:

کمالِ شَے، زَوالِ شَے ہے، اِس پر لاکھ حاسد ہوں

بھلا نازاں نہ ہوں کیوں کر میں اپنی بے کمالی کا

خدا جانے کہ دیکھا، دیکھ کر یہ چاند، مُنْہ کس کا

ہوئی ہے عید غیروں کو، ہمیں ہے چاند خالی کا

میں نے دانستہ اپنے ہاتھ سے پاؤں میں کُلھاڑی ماری، فلک نے بنا کر بات بگاڑی۔ مصر؏:

اے روشنیِ طبع! تو برمن بلا شدی

شعر:

گُل و گل چیں کا گلہ بلبلِ خوش لہجہ نہ کر

تو گرفتار ہوئی اپنی صدا کے باعث

اب سَرِ دست کچھ تدبیر بن نہیں آتی ہے۔ صورتِ مَرْگِ آئینۂ چشم میں مَدِّ نظر ہے، ہماری ہمیں کو خبر ہے، کوئی گھڑی میں مُفت جان جاتی ہے۔ جو جانتا ہے، وہ دیکھتا ہے، جسے خبر نہیں، اُس سے کہہ دو: تمھارے واسطے غَریبِ دِیار ہوئے اور تمھارے سبب سے قتل کے سزا وار ہوئے۔ شعر:

بجرمِ عشقِ توام می کُشند و غَوغائیست

تو نیز برسَرِ بام آ کہ خوش تماشائیست

اِن باتوں سے رہے سہے شک ملکہ کے بَرطَرَف ہوئے، سمجھی جان عالم یہی ہے۔ جواب دیا کہ جو جانتے تھے، اُن سے کیا ہو سکا، اَن جان کو تکلیف دینے سے کیا فائدہ! اور توتے کی گردن مڑوڑ، پنْجرہ باہر نِکالا۔ بندر کی نگاہ پنْجرے پر پڑی، سمجھا: ملکہ پہچان گئی، یہی فرصت کا وقت ہے۔ ہنگامہ و تَلاطُم تو مچا تھا، کسی نے دیکھا نہ بھالا؛ بندر سوداگر کی گود میں لیٹ کر توتے کے قالب میں پرواز کر آیا۔ توتا پھڑکا، ملکہ کا خوشی سے دِل دھَڑکا، پنْجرہ اندر کھینچ لیا۔

سوداگر نے دیکھا: بندر مر گیا۔ چاہا: ہلاک ہو جائے، بد نامی کا قصّہ پاک ہو جائے۔ جو شخص خَواصی میں بیٹھا تھا، سمجھانے لگا: بندہ پرور شکر کرنے کی جا ہے، شکایت کا موقع کیا ہے۔ حُرمت رہی، جان بچی۔ مرگِ فرزند سے ماں باپ کو چارہ نہیں۔ مر جانا، بجُز حُمَقا عقْل مند کو گوارا نہیں۔ اگر بادشاہ جبر سے بندر کو چھین کر مار ڈالتا، جان کھونے کی جگہ تھی۔ صبر کیجیے، جو خدا کی مرضی۔ اُس کی رَضا میں مجبوری ہے، جائے صَبوری ہے۔ صابِروں کا مرتبہ بڑا ہے، اُن کے حق میں اللہ فرماتا ہے، تم نے سُنا ہے کہ نہیں: اِنَّ اللّٰہَ مَعَ الصّٰبِرِیْنَ۔

تماشائیوں پر یہ حال کھلا، رُونے پیٹنے کا دونا شُور و غُل مچا۔ سب نے متفق یہی کہا: بس کہ بندر عَقیل تھا، یہ پیامِ طَلَب، کُوسِ رَحیل تھا۔ سامنے جانے کی نوبت نہ آئی، سوداگر کی گود خالی کر کے جان گنوائی۔ اپنا قتل جو ثابت ہوا، خوف سے مر گیا، داغِ تقریر ہمارے صَفْحۂ دل پر دھَر گیا۔ یہ خبر اُس کافِرِ اکفر کو پہنچی۔ اِس پر بھی چَین نہ آیا؛ لاش منْگا، جلا کے دل ٹھنڈا کیا۔ خاک تک برباد کی، جب تسکین ہوئی۔

وہاں ملکہ مہر نگار پنجرہ لے بیٹھی، لوگوں کو پاس سے سَرکا دیا۔ میاں مٹھو نے ھوَ ھوَ ابتدا سے انتہا تک مفصل سب حال سنا دیا کہ اِس طرح نشے کی حالت میں اُس کے رونے پر عمل بتایا، وہ ہمیں پر عمل میں لایا، بندر بنایا۔ پھر چڑیمار کے جال میں پھنسے، دوست روئے، دشمن ہنسے۔ وہاں سے سوداگر مَتاعِ خوبی سمجھ کر، اپنے پاس لایا۔ فلک نے بعد خرابیِ بِسیار آج تم سے مِلایا۔ ملکہ نے کہا: خاطِر پریشاں جمع رکھیے، اِنْشاءَ اللّٰہ تعالیٰ جلد کوئی صورت ہوئی جاتی ہے۔ یہاں یہ گفتگو تھی کہ اُس نُطفَۂ شیطاں کی آمد ہوئی۔ ملکہ باہر نِکل آئی، تعظیم و تَواضُع کرنے لگی۔ ہمیشہ یہ معمول تھا: جب وہ آتا، ملکہ بات نہ کرتی مدارات نہ کرتی؛ طیش میں آتا، خفیف ہو کر اُٹھ جاتا۔ اُس روز جو گفتگو ہوئی، وہ مَردَک سمجھا: بندر کا مرنا بہ چشم ملکہ نے دیکھا، اِس سے دب گئی، بے اِعتنائی کی بات اب گئی۔ جلدی نہ کرو، اِمْروز فَردا مُقَدَّمہ درست ہو جائے گا؛ لیکن پہلے اِسی سے فیصلہ شرط ہے۔ ملکہ کے باپ کا بہت ڈر تھا، اِس باعِث ملکہ کا پاس کرتا تھا کہ اُن کے باپ سے ہِراس کرتا تھا۔ جب رخصت ہونے لگا، ملکہ نے کہا: ایک بکری کا بچّہ خوب صورت سا ہمیں بھیج دو، پالیں گے، رنج کو ٹالیں گے۔ یا تو چُپ رہتی تھی، آج بچّہ مانگا؛ یہ بچہ بہت خوش ہوئے۔ اُسی وقت ایک بَربَری کا بچّہ تُحفہ بھجوا دیا۔ دوسرے روز جو آیا، ملکہ کو زیادہ مُتوجِّہ پایا۔ اُس کے رو بہ رو بچّے سے کھیلا کی۔ دو تین روز یہی صحبت رہی۔

ایک روز ملکہ نے بچّے کو دبا کر اَدھ مُوا کر دیا اور چُوبدار دوڑایا کہ شہ زادے کو جلد بُلا لا، عرض کرنا: اگر دیر لگاؤ گے، جیتا نہ پاؤ گے۔ یہ خبر سُن کر وہ محل سَرا کا عازِم ہوا۔ ملکہ نے پنجرہ اُس ہُمائے اَوجِ سلطنت کا پلنگ کے پاس رکھ لیا۔ جب وہ نابکار رو بہ رو آیا، ملکہ نے بچّہ گود میں اُٹھا کے اِس زُور سے دبایا کہ وہ مر گیا۔ اُس کا مرنا، اِس کا نالہ و فریاد کرنا۔ گریباں چاک کرنے کی، بکھیڑا پاک کرنے کی تدبیر کی۔ وہ بے قرار ہو کر بہ مِنّت بولا: ملکہ! ہزار بچّہ اِس سے اچھا ابھی موجود ہوتا ہے، تم کیوں روتی ہو، جی کھوتی ہو۔ ملکہ نے اُسی حالت میں کہا: میں کچھ نہیں جانتی، تم اِسے ابھی جِلا دو، جو میری خوشی چاہتے ہو۔ وہ بولا: مُردہ کہیں جِیا ہے؟ کبھی کسی نے، سِوائے مسیح، ایسا کیا ہے؟ ملکہ نے رُو کر کہا: واہ! تم نے میری مَینا جو جِلائی تھی، جب میں بِلبِلائی تھی۔ یہ دل میں سمجھا: شاید شہ زادے نے یہ حرکت کی ہو گی! کارخانے مُسَبّب الاسباب کے مشہور و معروف ہیں۔ دُنیا میں، مثل ہے: کہ کرد کہ نیافت۔ جس نے جیسا کیا، ویسا پایا۔ ہر فرعونے را موسیٰ۔ رُباعی:

اے یار! جو کوئی کسی کو کلپاوے گا

یہ یاد رہے، وہ بھی نہ کل پاوے گا

اِس دارِ مُکافات میں، سُن اے غافل!

بیداد کرے گا آج، کل پاوے گا

وہ بد حواس پوچھنے لگا: ہم نے مَینا کیوں کر جِلائی تھی؟ ملکہ بولی: تم پلنگ پر لیٹ رہے تھے، وہ جِی اُٹھی تھی۔ یہ پتا بھی درست پایا اور قضا کا زمانہ قریب آیا، کہا: بچّہ گود سے رکھ دو۔ ملکہ نے پھینک دیا۔ وہ پلنگ پر لیٹا، اپنی روح بچّے کے قالِب میں لایا، وہ اُٹھ کر کودنے لگا۔ ملکہ مہر نگار نے گود میں لیا، پیار کیا۔ وہ سُوچا، دو گھڑی ملکہ کی طبیعت بہل جائے، پھر روح قالِب میں لے جاؤں گا، مطلب تو نکل آئے۔ یہ نہ سمجھا فلک کی گھات ہے، فریب کی بات ہے؛ چرخ کو کچھ اور چکّر منظور ہے، اب اُس جسم کے نزدیک جانا بہت دور ہے۔ شہ زادہ جان عالم یہ سب معاملے پنجرے سے دیکھ، سُن رہا تھا؛ قالب کو خالی پایا، فوراً اپنی روح اپنے جسم میں لایا، مُنْہ سے اِلّا اللّٰہ کہا، اُٹھ کھڑا ہوا۔ وہ بزدلا جان عالم کو دیکھ کہ تھرَّا گیا، خوف چھا گیا۔ سمجھا قسمت اب بُری ہے، کوئی دم کو گلا ہے اور چھری ہے۔ ملکہ نے جلد دو اَنچھر وہ پڑھ کر پھونک دیے کہ وہ اَور کے قالِب میں روح لے جانا بھول گیا۔

پھر انجمن آرا کو بلایا، کہا: لُو صاحِب مبارک ہو! اللّٰہ تعالیٰ نے تمھاری ہماری حُرمت و آبرو کو بچایا، بچھڑے سے مِلایا۔ یہ آپ کا اَحْمَقُ الَّذی شہ زادہ ہے۔ وہ بکری کا بچّہ؛ بے دین، حرام زادہ وزیر زادہ ہے۔ یہ کہہ کر تینوں عاشق و معشوق گلے مِل مِل خوب روئے۔ جو جو مَحرمِ راز تھیں، دوڑیں، مبارک سلامت کی دھوم ہوئی، بَشَّاش ہر ایک مغموم ہوئی۔ جان عالم نے اُسی وقت سوداگر کو طلب کیا، اپنی سَرگزشت سے آگاہ سب کیا۔ بعد ادائے شکرِ نعمت، خِلعتِ مُکلَّف اور انعام ہر اقسام کا مع ہاتھی، پالکی عنایت کیا۔ وطن آنے کا وعدۂ حَتْمی لیا۔ پھر چڑیمار اور اُس کی جورو کو بلایا۔ روپیہ اشرفی، زر و جواہِر دے کر فِکرِ دُنیا سے بری کر دیا اور بہ مَشورَہْ غضنفر شاہ اُس مملکت کے چڑیماروں کا چودھری کر دیا۔ پھر لشکرِ ظَفَر پَیکر کو حکم تیّاریِ سامانِ سفر فرمایا، آپ رخصت ہونے کو غضنفر شاہ پاس آیا۔ آخِر کار بہ دِقّتِ تمام و طولِ کلام، درازِیِ ایامِ مُفارَقَتِ والِدَین کہہ کر اُسے راضی کیا۔ پیش خیمہ اُسی دن لَد گیا۔ دو چار دن رخصت کی دعوتوں میں گُزرے۔ اخیر جلسے خوب دھوم دھڑکّے کے ہوئے۔ اپنے عمل تک غضنفر شاہ ساتھ آیا۔ تمام لشکر نے اس کی سرحد تک پکّا پکایا پایا۔ پھر رُخصت ہوئے۔ وہی دو چار کوچ، ایک دو مُقام کرتے بہ راحت و آرام چلے۔