فسانۂ عجائب/وجہِ تالیف اس قصۂ بے نظیر کی


وجہِ تالیف اس قصۂ بے نظیر کی اور کیفیت صاحبِ فرمائش کی تقریر کی۔ حکیم صاحب کی تحریک، سفر کانپور کا، لکھنا سُرور کا


حسب اتفاق ایک روز چند دوست صادق، محب موافق باہم بیٹھے تھے، مگر نیرنگیِ زمانہ، نا ہنجار اور کج رویِ فلکِ سِفلَہ پرور، دوں نواز، جفا شعار سے سب بادِل حزیں و زار اور ہجومِ اندوہ و یاس سے اور کثرت حرمان و افکار سے کہ ہر دم یہ پاس تھے؛ دل گرفتہ، سینہ ریش، اور اداس تھے؛ یہ ذکر بر زباں آیا کہ شعبدہ بازیِ چرخ چنبریِ نیلی فام از آدم علیہ السلام تا این دم یوں ہی چلی آئی ہے۔ اور تفرقہ پردازی، رنج و محن سے سِوا آزار دیتی ہے، یہ ادنیٰ اس ظالم کی کج ادائی ہے۔ اب یہی غنیمت جانیے، اس کا احسان مانیے کہ تم ہم اس دم باہم تو بیٹھے ہیں۔ اُستاد:

جو ہم تم پاس بیٹھے ہیں، سُنو، یہ دم غنیمت ہے

یہ ہنسنا بولنا رہ جائے، تو کیا کم غنیمت ہے

اور واقعی شِدتِ رنج و اَلَم میں دوستِ صادق، یارِ مُوافق ہَم پہلو ہو تو کچھ خیال میں نہیں آتا ہے، دل بہل جاتا ہے۔ اور صحبتِ غیر جِنس میں تختِ سلطنت، تختۂ تابوت سے بدتر ہو کے کاٹے کھاتا ہے۔ سعدیؔ:

پای در زنجیر پیشِ دوستاں

بِہ کہ با بیگانگاں در بوستاں

لیکن زمانے کی عادت یہی ہے کہ باوجودِ کثرتِ غم و شِدتِ اَندوہ و اَلَم، دو شخص باہم نہیں دیکھ سکتا۔ مرزا:

پھینکے ہے مَنجنیقِ چرخ، تاک کے سنگِ تَفرِقَہ

بیٹھ کر ایک دم کہیں، ہوویں جو ہم کلام دو

جب سلسلۂ سخن یہاں تک پہنچا، اُس زمرے میں ایک آشنائے با مزہ بندے کے تھے، انھوں نے فرمایا: اِس وقت تو کوئی قصہ یا کہانی بہ شیریں زبانی ایسی بیان کر کہ رفعِ کُدورَت و جَمعِیّتِ پریشانیِ طبیعت ہو اور غُنچۂ سَر بستۂ دل، جو سَمومِ حوادِث سے مضمحل ہے، بہ اہتزازِ نسیمِ تکلم کھِل جائے۔ فرماں بردار نے بجز اقرار، اِنکار مناسب نہ جانا، چند کلمے گوش گُزار کیے۔ اگرچہ گریہ کردن را ہم دلِ خوش می باید، مگر اس نظر سے، مصر؏

ہر چہ از دوست میرسد، نیکو ست

وہ باتیں انھیں بہت پسند آئیں، کہا: اگر بہ دل جَمعیِ تمام تو اِس پَراگَندہ تقریر کو، از آغاز تا انجام، قصے کے طور پر زبانِ اردو میں فراہم اور تحریر کرے تو نہایت منظورِ نظرِ اہلِ بصر ہو، لیکن تقصیر معاف ہو، لغت سے صاف ہو۔ بندے نے کہا: طبیعتِ ابنائے روزگار بیش تر متوجہِ عیب جوئی و ہُنر پوشی ہے، بہ قولِ دِلگیرؔ، شعر:

قُبح کے دیکھنے والے تو بہت ہیں دلگیرؔ

اور یہاں حُسن شَناسانِ سُخَن تھوڑے ہیں

وہ بولے: چَشمداشتِ صلہ، طَلَبِ اُجرت کسی سے مُتَصوِّر نہیں، فقط ہماری خوشی مَدِّ نظر رکھ۔ جیسا رَطب و یابس کہے گا، ہمیں پسند ہے؛ بہ شرطے کہ جو روزمرہ اور گفتگو ہماری تمھاری ہے، یہی ہو۔ ایسا نہ ہو کہ آپ رنگینیِ عبارت کے واسطے دِقّت طلبی اور نکتہ چینی کریں، ہم ہر فقرے کے معنی فَرنگی محل کی گلیوں میں پوچھتے پھریں۔ نِیاز مند نے کہا: یہ تو مُقدمۂ تحریر ہے، اگر سر سرکار کے کام آئے، جائے تقریر نہیں، مگر جلدی نہ کرنا، بہ وقتِ فرصت لکھوں گا۔ وہ تو یارِ شاطِر، نہ بارِ خاطِر تھے؛ قبول کیا۔

اُسی دن سے ہمیشہ اِس کا خیال رہتا تھا، عدمِ فرصت سے نہ کہتا تھا۔ آخِر الاَمر بہ مقتضائے عادت، تلاشِ مَعاش کے حیلے میں فلکِ تَفرِقہ پرداز، گردون عَربَدہ ساز نے صورت مُفارَقت کی دکھائی، مُہاجَرت وطن آوارہ کے استقبال کو آئی۔ مَسرّتؔ:

بوقتِ لقمہ خوردن اے مسرتؔ! گفت لبہایم

کہ روزی میکند از ہم جدا یارانِ ہمدم را

ربیع الثانی کے مہینے میں کہ سنہ ہجری نبَوی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم بارہ سَے چالیس تھے، آنے کا اتفاق مجبور، کوردِہِ کان پور میں ہوا۔ بس کہ یہ بستی ویران، پوچ و لَچَر ہے۔ اَشراف یہاں عَنقا صفت نا پیدا ہیں اور جو ہوں گے تو گوشہ نشیں، عُزلَت گُزیں، مگر چھوٹی اُمّت کی بڑی کثرت دیکھی۔ یہ طَور جو نظر آیا، دلِ وحشت منزل اِس مَقام سے سخت گھبرایا۔ قریب تھا جُنون ہو جائے، تیرہ بختی روزِ سیاہ دکھائے، لیکن بہ شربتِ عنایت و معجونِ شَفقتِ ارَسطو فِطرت، بُقراط حِکمت، حار و بارِدِ زمانہ دیدہ، تجربہ رسیدہ حکیم سید اسد علی صاحب شیرِ بیشۂ علم و کمال، سخن فہم، ظریف، خوش خِصال؛ طبعِ سودا خیز اور سرِ جُنوں انگیز کو آرام و تسکیں حاصل ہوئی۔ اکثر حالِ فقیرِ دل گیر پر اَلطاف و کرم فرماتے تھے۔ تدبیریں نیک و اَحسَن، دافِعِ رنج و محن بتاتے تھے۔

ایک روز بعد اظہارِ حالِ مُکلِّفِ فسانۂ دوستانہ، یہ بھی کہا کہ حسبِ وعدہ ایک کہانی لکھا چاہتا ہوں۔ سُن کے فرمایا: بیکار مَباش، کچھ کیا کر۔ میرؔ:

میرؔ! نہیں پیر تم، کاہلی اللہ رے

نامِ خدا ہو جواں، کچھ تو کیا چاہیے

اُس وقت یہ کلمہ تَوسَنِ طبع کو تازیانہ ہوا، تحریر کا بہانہ ہوا۔ اگرچہ اِس ہیچ مَیرَز کو یہ یارا نہیں کہ دعویِ اردو زبان پر لائے یا اِس فسانے کو بہ نظَرِ نَثّاری کسی کو سنائے۔ اگر شاہ جہاں آباد کہ مَسکَنِ اہلِ زباں، کبھی بیت السلطنتِ ہندوستاں تھا، وہاں چَندے بود و باش کرتا، فصیحوں کو تلاش کرتا، اُن سے تحصیلِ لا حاصل ہوتی، تو شاید اِس زبان کی کیفیت حاصل ہوتی۔ جیسا میر امّن صاحب نے قصہ چار درویش کا باغ و بہار نام رکھ کے خار کھایا ہے، بکھیڑا مچایا ہے کہ ہم لوگوں کے دہَن، حصے میں یہ زبان آئی ہے؛ مگر بہ نسبت مولفِ اول عطا حسین خاں کے، سو جگہ منہ کی کھائی ہے۔ لکھا تو ہے کہ ہم دلی کے روڑے ہیں، پر مُحاوروں کے ہاتھ پاؤں توڑے ہیں۔ پتھر پڑیں ایسی سمجھ پر۔ یہی خیال انسان کا خام ہوتا ہے۔ مفت میں نیک بد نام ہوتا ہے۔ بشر کو دعویٰ کب سزا وار ہے۔ کامِلوں کو بیہودہ گوئی سے انکار بلکہ ننگ و عار ہے۔ مُشک آنست کہ خود بوید، نہ کہ عطّار گوید۔ یہ وہی مَثل سننے میں آئی کہ اپنے منہ سے دھنّا بائی۔ لیکن تحریر اِس کی، ایفائے تقریر ہے۔ قصہ یہ دل چسپ، بے نظیر ہے۔

امید ناظرین پُر تمکیں سے یہ ہے کہ بہ چشمِ عیب پوشی و نظرِ اصلاح مُلاحظہ فرما، جہاں سَہو یا غلَطی پائیں، بہ اصلاح مُزَیّن فرمائیں۔ کیسی ہی طبیعتِ عالی ہو، ممکن نہیں جو بشر خطا سے خالی ہو۔ اِس کے مُطالعے سے خاطرِ خطیر اگر شاد ہو، عاصی دعائے خیر سے یاد ہو۔ نیاز مند کو اس تحریر سے نَمودِ نظم و نثر، جَودَتِ طبع کا خیال نہ تھا۔ شاعری کا احتمال نہ تھا۔ بلکہ نظر ثانی میں جو لفظ دِقَّت طَلَب، غیر مستعمل، عربی فارسی کا مشکل تھا، اپنے نزدیک اُسے دور کیا۔ اور جو کلمہ سَہلِ ممتنع، مُحاورے کا تھا، رہنے دیا۔ دوست کی خوشی سے کام رکّھا، فسانۂ عجائب اِس کا نام رکھا۔ اِنّہُ المُبدِءُ وَ اِلَیہِ المَآب۔ عِنایتِ ایزَدی سے تمام ہوئی کتاب۔