فسانۂ عجائب/وطن آوارہ ہونا نو گرفتارِ محبت کا


وطن آوارہ ہونا نو گرفتارِ محبت کا اٹھانا ایذائے غربت کا۔ نیا نیا سفر، راہ معلوم نہیں، رہ بر بجز ذات حَیٌّ قَیُّوم نہیں، ایک رفیق، وہ انیلا۔ دوسرا جانور، یہ بے چارہ بے پر۔ پھر ہرن کا ملنا، ان سب کا چھوٹنا، جادوگرنی کا سدِّ راہ ہو کے مزے لوٹنا


بادیہ پیمایانِ مرحلۂ محبت و صحرا نوردانِ منزلِ مودّت، رہ روانِ دشتِ اشتیاق و طے کنندگانِ جادۂ فراق، مسافرانِ بارِ ناکامی بر دوش، بجز راہ کوچۂ یار دین و دنیا فراموش، عشق سر پر سوار، خود پیادہ، زیست سے دل سیر، مرگ کے آمادہ لکھتے ہیں کہ جب بہ ایں ہیئت کذائی، وہ پروردۂ دامنِ ناز و آغوشِ شاہی، گھر سے نکلا اور درِ شہر پناہ پر پہنچا، پھر کر عمارات سلطانی، بسے ہوئے شہر کو بہ نظر پریشانی دیکھ، آہ سرد دل پر درد سے کھینچی۔ بیاباں مد نظر کر، غریب الوطنی پر کمر ہمت چست کی اور فراق یاران وطن میں دل کھول کے وہ خستہ تن خوب رویا۔ پھر فاتحہ خیر پڑھ، آگے بڑھ، توتے کو پنجرے سے کھول دیا۔ گھوڑوں پر شہ زادہ اور وزیر زادہ، سَمَندِ صبا پر میاں مِٹّھو پیادہ، نیا دانہ کھاتے، نیا پانی پیتے روانہ ہوئے۔

بَعدِ طَىِّ مَنازِل وَ قَطعِ مَراحِل، ان کا گزر ایک دشتِ عجیب، صحرائے غریب میں ہوا۔ ہر تختہ جنگل کا بہ رَوشِ باغ تھا۔ جو پھول پھل تھا، تازہ کُنِ دل، مُعطَّر نُمَائے دماغ تھا۔ جہاں تک پَیکِ نگاہ جاتا، بجز گُل ہائے رنگین و یَاسمن و نسرین اور کچھ نظر نہ آتا۔ شہ زادہ شِگُفتہ خاطِری سے صَنّاعی باغبان قَضا و قَدر کی دیکھتا جاتا تھا۔ ناگاہ ایک سمت سے دو ہرن برق وَش، صبا کردار، سبک جَست، با چشمِ سِیہ مست، تیز رفتار سامنے آئے۔ زَربَفت کی جھولیں پڑیں، جَڑاؤ سِنگوٹیاں جَڑیں، گلے میں مُغرّق ہیکلیں، مثل معشوق طَنَّاز، عَربَدہ ساز، سَرگرمِ خِرام ناز، چھم چھم کرتے، چَوکڑِیاں بھرتے۔ جان عالم بے چین ہوا، وزیر زادے سے کہا: کسی طرح ان کو جیتا گرفتار کیجیے، جانے نہ دیجیے۔ اس سعی میں گھوڑے ڈالے۔ یا تو وہ اپنی وضع پر چلے جاتے تھے، جب گھوڑوں کی آمد دیکھی، سنبھل، کَنَوتِیاں بدل، چوکڑی تیز با جَست و خیز بھرنے لگے۔ اِنھوں نے گھوڑے ڈپٹائے۔ ان کا گھوڑے دوڑانا، وہ طَائرِ فرزانہ، چَوکڑی بھول کے پکارا: ہاں ہاں، اے نوجواں! کیا غضب کرتا ہے! یہ دشت پُر سحر ہے۔ بے ہودہ، کیوں قدم دھرتا ہے! ہر چند پکارا، مگر سناٹے میں کسی نے نہ سنا، توتے نے لاکھ سر دھنا۔ آخر مجبور ایک ٹہنی پر بیٹھ رہا، وہ چلے گئے۔

دو چار کوس دونوں ہرن ساتھ بھاگے؛ پھر ایک اور سمت، دوسرا اور طرف چلا۔ ایک کے ساتھ شہ زادہ، دوسرے کے تعاقب میں وزیر زادہ۔ یہ بھی جدا ہوئے۔ القصہ تا غروب آفتاب وہ شمس سپہرِ سَلطنت گھوڑا بگٹٹ پھینکے گیا۔ دفعتاً ہرن نظر سے غائب ہوا۔ اس نے باگ روکی۔ گھوڑا عَرَق عَرَق، خود پسینے میں غرق، سر سے پا تک تَر، بہ حال مضطر، حیران و پریشاں، نادم و پشیماں، یکا و تنہا، وزیر زادہ نہ توتا، آپ یا دشتِ پُر خطر، گھبرا کر ادھر ادھر بہت دیکھا، بوئے انسان و حیواں مشام جاں تک نہ آئی، طبیعت سخت گھبرائی۔ جب کسی کو نہ دیکھا، بہ صد یاس یہ کہا، شعر:

اُڑے یہ ترنگ جوانی کی، کیا جس نے مجھ کو جلا وطن

ہوا ایسا پیش ازیں کاہے کو، میں نکل کے گھر سے خراب تھا

اور کبھی جو یادِ یارانِ ہمراہی جی میں آتی تو یہ شعرِ درد ناکِ میر سوزؔ با دِلِ صد چاک و آہِ جگر دوز پڑھتا، میر سوزؔ:

کہیو اے باد صبا بچھڑے ہوئے یاروں کو

راہ ملتی ہی نہیں دشت کے آواروں کو

کچھ آگے بڑھا، چشمۂ آب نظر پڑا۔ گھوڑے سے کود، ہاتھ منہ دھویا، اپنی تنہائی پر خوب رویا۔ اِسی حالِ گریہ و زاری میں دَستِ دعا بہ جناب باری اٹھا، پکارا کہ اے کَسِ بے کَسان، و اے مددگارِ رَہ گم کَردَگَاں! مجھ خستہ و پریشاں، دور فُتادۂ یار و دِیار کی رہ بری کر۔ تیرے بھروسے پر سلطنت کو خاک میں ملا، گھر سے ہاتھ اٹھا، آوارۂ صحرائے غربت، مبتلائے رنج و مصیبت ہوا ہوں۔ لا اعلم:

مونسے، نہ رفیقے، نہ ہمدمے دارم

حدیثِ دل بکہ گویم، عجب غمے دارم

تیری ذات ہے یا یہ جنگل وحشت انگیز، دشت بلا خیز، جہاں بوئے عِمرانات نہیں آتی ہے، دھڑکے میں جان جاتی ہے۔ یہ کہہ کے زار زار، مانند ابر نو بہار رونے لگا، دامن و گریباں بھگونے لگا۔ فریاد و زاری، تڑپ اور بے قراری اس کی بہ درگاہ مُجیبُ الدَعَوات قبول ہوئی۔ تیر دعا، ہَدَفِ اِجَابت سے لَبِ معشوق ہوا۔ ایک پیر مرد سفید ڈاڑھی والے، سبز عمامہ سر پر، عبائے عنّابی کندھے پر ڈالے، ہاتھ میں عصا، خضر صورت، بزرگ سیرت، پارسا، وارد ہو پکارے: السلام علیک اے نَو بادۂ چَمنِ سلطنت و اے گرفتارِ محنتِ محبت! شہ زادے نے آنسو پونچھ سلام کا جواب دیا۔ پیر مرد نے فرمایا: اے عزیز! کیا حاجت رکھتا ہے، بیان کر۔ یہ سن کے ایسا خوش ہوا کہ رنج، راہ بھولنے کا، بھولا۔ وزیر زادے اور توتے کی جدائی بھی یاد نہ آئی، کہا: آپ کو قسم اسی کی جس نے میری رہ بری کو بھیجا ہے، جلد نشانِ ملکِ زرنگار دکھا دیجیے یا درِ دل دار تک پہنچا دیجیے۔ وہ ستودہ صفات ہنسا اور کہا: اللہ رے بے خود ی! ابھی بلائے ناگہانی، آفت آسمانی جس میں آپ پھنسے ہیں، اسی سے نجات نہیں پائی، معشوقہ یاد آئی! جان عالم نے کہا: کوئی آفت و ستم و بلا ہجرِ جاناں اور مُفارَقَتِ دوست سے سِوا نہیں ہے۔ میر سوزؔ:

نہ لگے دردِ جدائی کو قیامت کا رنج

روز محشر کو نہ میری شب ہجراں سے ملا

اس صاف باطن نے فرمایا: صاحب زادے! یہ صحرائے غَضب، دشت پُرتعَب ہے۔ ہر تختہ اس کا دام ستم، گل اور بوٹا نرا خارِ غم و الم ہے۔ یہاں کا پھنسا، الجھا، حشر تک نہیں چھٹتا۔ یہ سب کارخانۂ طلسم ہے۔ شہ زادے نے کہا: ہم سحر محبت میں گرفتار ہیں، ہمیں جینا، مرنے سے فزوں ہے دل کا حال دِگرگوں ہے۔ شیفتہؔ:

ہمیشہ آگ نکلتی ہے اپنے سینے سے

الٰہی! موت دے، گزرا میں ایسے جینے سے

اس کریم النفس کو اس کے حال پر رحم آیا، فرمایا: بد حواس نہ ہو، نظر بہ خدا رکھ کہ وہ چارہ ساز عالمیں، جَامِعُ المُتَفَرِّقِین ہے۔ شہ زادے نے کہا: فی الحقیقت، مگر برائے خدا ایک نظر ملک زرنگار اور وہ معشوق طرح دار اگر نظر آئے، جان زار بچ جائے۔ زیست کا کیا اعتبار ہے، مرگ ہم دم ہم کنار ہے، حسرت دید تو نکل جائے۔ اس خدا پرست نے فرمایا: آنکھ بند کر۔ پلک سے پلک شہ زادے کی لگی، ملک زرنگار میں گزار ہوا، آفت تازہ سے دو چار ہوا اور صورت اس حور کردار کی نظر پڑی۔ بہ مجرد نگاہ، دل سے آہ کی۔ بے ہوشی ساری، غشی طاری ہوئی۔ مرد بزرگ نے سمجھایا: اس امر لا طَائل سے کیا حاصل! زندگی درکار ہے، ایک روز دوست بھی ہم کنار ہے۔ سمجھانے سے اتنی تسکین ہوئی کہ آنکھ کھولی۔ رات ہو گئی تھی، پیر مرد نے کچھ کھلا، لب چشمہ سلایا۔

جس وقت افق چرخ سے، راہ گم کردہ مسافر مغرب، یعنی آفتاب عالم تاب، جلوہ افروز ہو حصۂ چہارم آسماں پر آیا، شہ زادے کى آنکھ کھلی۔ وہاں آپ کو پایا، جہاں سے ہرن کے پیچھے گھوڑا اٹھایا تھا، سجدہ شکر ادا کر سرگرمِ رَہِ دوست ہوا۔ راہ کا پتا اس رہبر خَیلِ سبز پُوشاں سے پوچھ لیا تھا۔ قدم بڑھایا۔ جاتے جاتے، ایک روز آفتاب کی تمازت بدرجۂ اتم تھی، پیاس کی شدت ہوئی۔ آب وہاں گوہر نایاب تھا۔ خضر تک اس دشت میں لا علاج، پانی کا محتاج تھا۔ زبان میں کانٹے پڑے، ریت کی گرمی سے تلوے جلتے تھے، دو گام قدم نہ چلتے تھے۔ لوں کا شعلہ یہ سرگرمِ آزارِ جگر سُوختگاں تھا کہ پرندے پتوں میں منہ چھپاتے تھے۔ کوسوں دَوِندے نظر نہ آتے تھے۔ دشت کورہ آہَنگراں تھا۔ ہر طرف شعلہ جوّالہ دواں تھا۔ ریگِ صحرا کیفیتِ دریا دِکھاتی تھی، پیاسوں کی دوڑ دھوپ میں جان جاتی تھی۔ صدائے زَاغ و زَغن سے سناٹا، دھوپ کا تڑاقا۔ دشت کا پتھر تپنے سے انگارا تھا۔ جانور ہر ایک پیاس کا مارا تھا۔ وہ تابشِ شمس جس سے ہرن کالا ہو، مذکور سے زبان میں چھالا ہو، بادِ سموم سے وحشیوں کے منہ پر سیہ تاب تھا۔ لُوں سے گاوِ زمیں کا جگر کباب تھا۔ سیپیوں نے گرمی کے مارے لب کھولے تھے۔ حبابِ دریا کی چھاتی میں پھپھولے تھے۔ ہر ذی حیات حرارت سے بے تاب تھا۔ سوا نیزے پر آفتاب تھا۔ مچھلیاں پانی میں بھنتی تھیں، جل جل کر کنارے پر سر دھنتی تھیں۔ سرطانِ فلک جلتا تھا۔ کیکڑا لب دریا ابلتا تھا۔

ایسے موسم کے سفر میں مَفَر کیوں کر ہو۔ مسافر خواب میں بَرّاتے: چُلّو بھر پانی دو۔ درخت خشک، سوکھے پتے کھڑکھڑاتے تھے۔ جانور پر کھولے پھڑپھڑاتے تھے۔ چار پائے ایک سمت ہانپتے تھے، گرمی کے خوف سے کانپتے تھے۔ یہ حرارت مستَولی تھی کہ دوستوں کی گرمی سے جی جلتا تھا۔ مسافرِ وہم پائے گماں سے راہ نہ چلتا تھا۔ خورشیدِ حشر کی طرح آفتاب تاباں تھا۔ صحرائے قیامت وہ بیاباں تھا۔

اسی حال خراب میں شہ زادہ سَر گشتہ، دل بَرِشتہ، حیران پریشان، ایک طرف درخت گنجان، سایہ دار دیکھ کر آیا۔ وہاں حوض مُصَفّیٰ پانی سے مُلَبَّب بھرا پایا۔ پانی دیکھ کے جان رَفتہ تن میں آئی۔ آنکھوں نے لہروں سے ٹھنڈک پائی۔ گھوڑے سے اتر، پانی پینے کو جھکا، چَرخِ کہن نے نیرنگی نئی دکھائی۔ وہی معشوقۂ مرغوبۂ مطلوبہ، جس کے سَیل تلاش میں غریق مُحیطِ الم، گرفتارِ لطمۂ غم، مِثلِ پَرِکاہ بہا بہا پھرتا تھا، حوض میں نظر آئی۔ آنکھ چار ہوتے ہی وہ بولی: اے شِناورِ بحر محبت و اے غَوّاصِ چشمۂ الفت! دیر سے تیری منتظر تھی، للہ الحمد تو جلد پہنچا۔ تَامُّل نہ کر، کود پڑ۔ اِنھیں تو وہ آنکھ بند کرنے کا نقشہ ہر پل مد نظر تھا، بے تَاَمُّل نِہَنگِ آفت کے منہ میں کود پڑا؛ زیست سے سیراب ہو، یہ کہتا، شعر:

کودا کوئی یوں گھر میں ترے دھم سے نہ ہو گا

جو کام ہوا ہم سے، وہ رستم سے نہ ہو گا

کُودتے ہی سر تلے، ٹانگیں اوپر، غَلطَاں پیچاں تَحت الثَّریٰ کو چلا۔ گھڑی بھر میں تہہ کو پاؤں لگا۔ آنکھ کھولی نہ حوض نظر آیا نہ اس دُرِ شہوار کو پایا، مگر صحرائے لق و دق، جسے دیکھ کے رستم اور اِسفندِ یار کا رنگ فق ہو، دیکھا۔ اس وقت سمجھا دوسری زَک اٹھائی، توتے کی بات آگے آئی، ؏

وای برما و گرفتارىِ ما

یہ کہہ کے آگے چلا۔ دور سے چار دیواری معلوم ہوئی۔ جب قریب آیا، باغ اور عمارت مُفَصَّل دیکھی۔ دَرِ باغ بَسانِ آغُوشِ مشتاق وا۔ سرد سرد ہَوا۔ یہ تو گرمی کا مارا، وطن آوارہ تھا، بے تکلف اندر قدم رکھا، باغ میں آیا۔ قطعۂ دلچسپ پھولا پھلا پایا۔ تختہ بندی معقول، پیڑ خوش قطع، خوب صورت پھول۔ رَوِشیں صاف، نہریں شفاف۔ چشمے ہر سمت جاری، نئی تیاری۔ درختوں پر جانورانِ نغمہ سرا۔ برگ و بار و گُل سے بالکل باغ بھرا۔ بَاغبانِیانِ پَری وَش ہر رَوِش پر بہ رَوَشِ دل بَری خِراماں۔ شاخوں پر بلبلیں غزل خواں۔ بیچ میں بارہ دری عالی شان، سب تکلف کا سامان۔ اس کے مُتَّصِل چبوترا سنگ مرمر کا، بادلے کا سائبان کھنچا، مسند مُغرَّق بچھی۔ ایک عورت خوب صورت عجب آن بان سے اس پر بیٹھی، خواصیں دست بستہ گِرد و پیش، وہ مغرور بہ حسن و جمالِ خویش۔

شہ زادے کو دیکھ کر ایک خَواص پکاری: اے صاحب! تم کون ہو؟ جان نہ پہچان، بے دھڑک پرائے مکان میں چلے آئے! یہ تو زیست سے بیزار، مرگ کا طلبگار تھا۔ اسے جواب نہ دیا، بے تامُّل مسند پر برابر جا بیٹھا یہ شعر پڑھتا، استاد:

بھڑ بیٹھے ہو دو زانو، وضعِ مُؤدَّب اس سے

وضعى جو تھا، تو ہم کو دابِ ادب نہ آیا

وہ تو فَریفتۂ قدیم تھی، ہنس کے چپ ہو رہی۔ پوچھا: آپ کہاں سے تشریف لائے ہیں؟ شہ زادہ مُتَحیّر باغ کو دیکھ رہا تھا۔ جو پیڑ تھا، پردار جانور کی صورت۔ پھول کھلے، پھل تیار، آپس میں سرگرمِ گفتار۔ جس میوے پر رغبت ہو، اس درخت کا جانور سامنے آ رقص کرے، پھل بے ہاتھ لگائے منہ کے پاس آئے۔ جتنا اسے کھاؤ، ثابت پاؤ۔ جب طبیعت سیر ہو، اسی درخت میں دیکھ لو۔ یہ حرکتیں اس کی خواصیں شہ زادے کے دکھانے کو، درِ پردہ ڈرانے کو کرتی تھیں۔ اس قرینے سے جان عالم کو یقین ہوا کہ یہ سب جادو کا ڈھکوسلا ہے۔ پیر مرد سچ فرماتا تھا۔ افسوس، برے پھنسے!

یہ تو ان خیالوں میں تھا، اس نے مُکرَّر پوچھا۔ شہ زادے نے جواب دیا کہ ہمارا آنا جانا تمھی خوب جانتی ہو۔ اجنبی ہیں، مگر تم پہچانتی ہو۔ وہ مسکرائی، خواصوں سے کہا: آپ مہمان ہیں، مروت شرط ہے۔ انھوں نے کچھ اشارہ کیا۔ کشتیاں شراب کی، قابیں گَزک کو کباب کی، مع جام و صراحی خود بہ خود آئیں اور مینائے بے زباں، پُنبَہ دہاں، رقصاں یہ بولی، حافظؔ:

اگر شراب خوری، جُرعۂ فِشاں بر خاک

ازاں گناہ کے نفعے رسد بغیر، چہ باک

پھر دفعتاً جامِ لبریز، بِریز بِریز کہتا، خندہ زناں، جان عالم کے قریب آ کے بولا، حافظؔ:

بنُوش بادہ کہ ایامِ غم نخواہد ماند

چنان نماند و چنیں نیز ہم نخواہد ماند

شہزادے نے انکار میں مصلحت نہ دیکھی۔ ڈرا کہ اگر عذر کروں اور اسی طرح یہ شراب بے قصد حلق میں اترے، تو کیا لطف رہے، مگر صاحب خانہ سے آنکھ ملا، بصد حسرت یہ شعر پڑھا، لا اَعلَم:

یار سے ہے لطف مے کا، آہ یہ ہو، وہ نہ ہو

یہ کوئی صحبت ہے ساقی! واہ یہ ہو، وہ نہ ہو

پھر اس جام کو ناکام ہاتھ میں لے کے، لہو کے سے گھونٹ، گلا گھونٹ گھونٹ پیے۔ وہ دورۂ بے سَر انجام، پُر آلام گردش میں آیا۔ جب دو چار ساغَر مُتَواتِر جادوگرنی نے پیے، کاسۂ دماغ سے عقل دور، ولولۂ مستی سے معمور ہو، چھیڑ چھاڑ کرنے لگی۔ شاہ زادہ اس کا اختلاط، کج بحثی سے بد تر جانتا تھا۔ مجبور، گردشِ گردونِ دوں دیکھ کر، کچھ ہاں ہوں کر دیتا۔ سچ ہے جسے جی پیار کرتا ہے، اس کی گالی، بَدرُچی کے بوس و کنار سے زیادہ مزہ دیتی ہے۔ اسی صحبت میں آدھی رات گزری۔ خاصہ طلب کیا۔ دو چار نِوالے جان عالم نے بہ جبر، پانی کے سہارے سے، اگل اگل، حلق کے نیچے اتارے۔ اس مر بھُکّی نے قرار واقعی ہتھے مارے۔

کھانا زہر مار کر، شہ زادے کا ہاتھ پکڑ، بارہ دری میں لے گئی۔ جَواہِر نِگار مسہری پر بٹھایا۔ ایک تو شراب کا نشہ، دوسرے عالم تنہائی، بیٹھتے ہی، شرم و حجاب کا پردہ اٹھا، لپٹ گئی۔ وہ سَرکا۔ پھر تو خفیف ہو کے بولی: تو نے سنا ہو گا شَہپال جادو شَہنشاہِ ساحران جہاں، فخرِ سامری و جَیپال کا نام، میں اس کی بیٹی ہوں۔ تمام باغ، بلکہ نواح اس کا، سب سحر کا بنا ہے۔ برسوں سے تیری فَریفتہ و شَیدا ہوں۔ بہ تمنائے وصال خراب حال جیتی تھی۔ کوفت کے سوا کچھ نہ کھاتی نہ پیتی تھی۔ آج لات، منات کی مدد سے تو میرے اختیار میں آیا، دل کا مطلب بھر پایا۔ جس چیز کا شائق و طلب گار ہو، جو چیز تجھے درکار ہو، بجز ملاقات انجمن آرا، جہان کا سامان مہیا ہے، بہ شرطِ اطاعت و اظہارِ محبت، وگرنہ خدا جانے تیرا مآلِ کار کیا ہو او بے مروت!

جان عالم پہلے ڈرا، پھر جی مضبوط کر کے بولا: یہ سچ ہے جو تو نے کہا، مگر تیری تقریر سے ثابت ہوتا ہے کہ تو رَہ و رسمِ محبت سے آشنا ہے، نوشِ وَصل، نیشِ فصل کا مزا چکھا ہے۔ انصاف کر، جس کے واسطے خانماں آوارہ، غربت کا مارا، سر گرداں ہوا ہوں، تو اسی کے نام کی دشمن، میں تیری دوستی پر کیوں کر اعتماد کروں؟ دنیا میں تین طرح کے دشمن ہوتے ہیں: ایک تو وہ جو اپنا صریح عدو ہو، دوسرا: دشمن کا دوست، تیسرا: دوست کا دشمن۔ یہ سب سے بُرا ہے، اس سے کنارا اچھا ہے یا یہی شرط محبت ہے کہ ایک شخص کا نام خراب کر کے، جہاں آسائش ملے وہاں بیٹھ رہے؟ فکر سلطنت، جستجوئے دولت میں سَر بہ صحرا نہیں ہوا ہوں، جو تیری جَاہ و ثَروت پر اکتفا کروں۔ تجھے معلوم ہو گا اللہ کی عنایت سے گھر کی حکومت، چین کرنے کو کافی تھی، مگر میرا تو یہ حال ہے، میر تقی:

اک مدت پائے چَنار رہے، اک مدت گلخن تابی کی

برسوں ہوئے ہیں گھر سے نکلے، عشق نے خانہ خرابی کی

یہ سن کے، وہ کھسیانی کتیا سی جھنجھلائی، کہا: قدرت سحر میری سن لے: مغرب و مشرق کا فاصلہ گردِشِ چشم ہے، زَر نِگار جانا کیا پَشم ہے! ادھر پَلَک جھپکائی، اتنے عرصے میں زر نگار گئی اور آئی۔ خیر، اگر میری ہم صحبتی کَریہہ جانتا ہے، تیری امید بھی قطع کر دیتی ہوں، ابھی انجمن آرا کو لا، تیرے رو بہ رو جلا، اپنا دل ٹھنڈا کرتی ہوں۔ جان عالم بد حواس ہوا کہ رنڈی کے غصے سے ڈرا چاہیے۔ سخت غَضَب میں گرفتار ہوئے۔ انکار میں قَتلِ معشوق مدِّ نظر، اوراقرار کرنے میں اپنی جان کا ضَرَر۔ دونوں طرح مشکل ہے۔ حیران ہو مآل کار سوچنے لگا، منہ نوچنے لگا۔ واقعی یہ مُقَدَّمہ بہت پیچ دار ہے، جس پر گزرا ہو، وہ جانے۔ دل کا حال یہ ہوتا ہے: جدھر آیا، آیا، جس سے پھرا، پھرا اور یہ کیا عذاب عظیم ہے: فراق محبوب، وصال نا مرغوب۔

آخر کار شہ زادے کو بَجُز اِطاعت، مَصلَحت نہ بَن پڑی۔ دل کو تسلی دے کہا: اگر اس سے مُوَافقَت کرو گے، انجمن آرا کی اور اپنی زندگی ہو گی۔ خَالق رَحمَةُ لِّلْعَالَمِین، جَامِعُ المُتَفَرِّقِین ہے، کوئی صورت نکل آئے گی کہ اس بلا سے رہائی، درِ دل دار تک رسائی ہو جائے گی۔ اِلَّا، حیلہ شرط ہے۔ یہ خیال کر، ساحرہ سے کہا: ظالم! ہم تیرا جی دیکھتے تھے۔ ہم نے سنا تھا: عاشق، معشوقوں کے ناز بَردار ہوتے ہیں، مگر یہ جھوٹ تھا۔ دھمکاتے ہیں، ڈراتے ہیں۔ عاشقی میں حکومت کسی نے کانوں سے نہ سنی ہو گی، ہم نے آنکھوں سے دیکھی۔ تو یہ نہ سمجھی، ایسا کون احمق ہو گا جو تجھ سا معشوقِ عاشق خِصال اور یہ سَلطنتِ لازوال چھوڑ کے اَمرِ نَادِیدَہ کی جستجو کرے۔ اُمِّیدِ مُوہوم پر جنگل جنگل ڈھونڈتا پھرے۔ یہ فقط اختلاط تھا۔ یہ کہہ کے گردن میں ہاتھ ڈال دیا، بات کو ٹال دیا۔ وہ قَحبہ تو اِزار کھولے بیٹھی تھی، لیٹ گئی۔ نا چار بَا خَاطِرِ فِگار پہلے تو ٹالا کیا، پھر اس تیٖرَہ بَخت کا منہ کالا کیا۔ پھر ہاتھ منہ دھو، اس کے ساتھ سو رہا۔ وہ چُڑ مَرانی، بَد مست لیٹتے ہی جہنم واصل ہوئی۔ دل کی تمنا حاصل ہوئی۔

یہاں نیند کہاں، جی سینے میں بے قرار، پہلو میں وہ خار۔ ہر دم آہِ سرد دلِ پر درد سے بلند۔ چشمۂ چشم جاری، فریاد و زاری دو چَند۔ جگر میں سُوزِ فِراق نِہاں، لب سے دوُدِ پِنہاں عَیاں۔ سینہ مجمر، دل و جگر سِپَند، یہ رُباعی بَر زباں، لا اَعلَم:

کسی کی شبِ وصل سوتے کٹے ہے

کسی کی شبِ ہجر روتے کٹے ہے

ہماری یہ شب کیسی شب ہے الٰہی!

نہ سوتے کٹے ہے، نہ روتے کٹے ہے

مگر جب وہ کروٹ لیتی، اس کی جان خوف سے نکلتی، دَم بہ خود ہو جاتا، جھوٹ موٹ سو جاتا۔ اسی حال سے، بہ ہزار خرابی و مشاہدۂ بے تابئ جان عالم گریبانِ سحر چاک ہوا۔ رات کا قصہ پاک ہوا۔ جادوگرنی اٹھی، شہ زادے کو حمام میں لے گئی۔ وہاں اور عجائبات سحر دکھائے۔ نہا کے دونوں باہر آئے۔ خاصہ چُنا۔ ناچ دیکھا، گانا سنا۔ بَعدِ فراغِ صحبت و جلسۂ طعام اس نے یہ کلام کیا کہ میرا معمول ہے اس وقت سے تا شام علی الدَّوام شَہپال کے دربار میں حاضر رہتی ہوں؛ تیری اجازت ہو تو جاؤں، دربار کا رنگ دیکھ آؤں۔ جان عالم نے دل میں کہا: للہِ الحَمد جو دم تیری صورت پُر کُدورَت نہ دیکھیے، غنیمت ہے، مگر ظاہر میں زمانہ سازی سے کہا: فرقت تمھاری گوارا نہیں، روکنے کا یارا نہیں، جلد آنا۔ ساحرہ اس کلمے سے بہت خوش ہو، چل نکلی۔ اس کے جانے سے باغ سنسان، ویران، وحشت انگیز، ہُو کا مکان ہوا۔ تنہا شاہ زادہ با خیال دل بَر پھر تو بے تکلف ہو، جی کھول کے، میرؔ:

غمِ دل کو زبان پر لایا

آفتِ تازہ جان پر لایا

کہا: ہم سا بھی بد نصیب، دور اَز حبیب دوسرا نہ ہو گا، جس کا یار نہ مددگار، جس سے دل کا درد کہیے، تا تسکین ہو۔ صحبت ان کی ملی ہے، جنھیں دیکھ چپ رہیے کہ عشق اَور کا نہ ان کے ذہن نشیں ہو۔ ایک جانور جو رَہ بَر تھا، یوں اُڑا۔ وزیر زادہ، جو لڑکپن سے جاں نثار اور یاور تھا، ووُں چھٹا۔ ہوسؔ:

سوائے اندوہ و یاس و حِرماں، ہُوا نہ حاصل جہاں سے ہم کو

اٹھائیں کاندھے پہ بارِ ہستی، سفر ہے بہتر یہاں سے ہم کو

نہ رفیق ہے نہ شفیق، حیران و پریشاں، بے سر و ساماں ہوں۔ خیالِ دوست ہے اور میں نیم جاں ہوں۔ شعر:

بھیج دیتا ہے خیال اپنا، عوض اپنے مُدام

اس قدر یار کو غم ہے مری تنہائی کا

اسی سوچ میں چھ گھڑی دن باقی رہا، جادوگرنی چمکی چمکائی آئى۔ جان عالم کو اس کی صورت دیکھ کے رونا آیا۔ لیکن ڈر کے مارے جو ہنسنے لگا، نالہ گلے میں پھنسنے لگا۔ پھر وہی اَکل و شُرب کا چرچا مچا۔ جب نِصف شب گزری، لَہو لَعب سے فرصت ملی۔ وہ تو سو رہی، اِن کو بیداری، اَختر شُماری نصیب ہوئی۔ فَرْد:

شاہد رہیو تو اے شبِ ہجر

جھپکی نہیں آنکھ مصحفی کی

اسی انداز سے دو مہینے گزرے۔ جان عالم کا روز کی کُوفت سے یہ عالم ہوا کہ سوکھ کے کانٹا ہو گیا۔ بدن، ڈھانچا ہو گیا۔ استاد:

ہوں کاہ سے کاہیدَہ، بس زار اسے کہتے ہیں

عیسیٰ سے نہ ہو اچھا، بیمار اِسے کہتے ہیں

بن ہاتھ لگے دس کے، جا سے نہیں ہلتا میں

لاغَر اِسے کہتے ہیں، تیار اسے کہتے ہیں

تصویر مُرَقَّع ہوں، سکتے کا سا عالَم ہے

جنبش ہی نہیں، نقشِ دیوار اسے کہتے ہیں

قَضا را، ایک روز وقت رخصت، ساحرہ بولی: جان عالم! تیری تنہائی کا اکثر خیال، بلکہ مجھے ملال رہتا ہے۔ تو اکیلا تمام دن گھبراتا ہو گا، باغ خالی کاٹے کھاتا ہو گا۔ مجبور ہوں، کوئی تیرے دل بہلانے کی گوں نہیں، جسے چھوڑ جاؤں۔ یہ رنڈیاں بد سلیقہ ہیں، ان کو کہاں تک آدمیّت سکھاؤں۔ ہنوز انھیں نشست و بَرخاست کا قَرینَہ نہیں آیا، ان سے تو اور بَرخاستہ خاطِر ہو گا۔ شہ زادے نے کہا: ہم کیا گھبرائیں گے! دل بہلانے والا کہاں سے لائیں گے! تنہا پیدا ہوئے، تمام عمر اکیلے رہے۔ ہماری قسمت میں دوسرا لکھا نہیں۔ ہم صحبت ہمارا خدا نے خَلق کیا نہیں۔ لیکن یہ اندیشہ ہمیشہ رہتا ہے: کوئی ہمیں مار ڈالے تو دن بھر مفت مِٹّی خراب رہے، تم سے کون جا کر کہے۔ ہنسی کی جا ہے، رونے والا نا پیدا ہے۔ وہ بولی: یہ مکانِ طلسم ہے، بادِ مُخَالِف کا گزر مُحال ہے، تیرا کدھر خیال ہے! شہ زادے نے کہا: اگر کوئی جادوگر یہ قَصد کرے، اسے کون روکے؟ فَریفْتَہ بہ شِدَّت تھی، بند ہوئی۔ وہم یہ ہوا کہ میرے بعد کوئی جادوگرنی آئے اور اس پر عاشق ہو جائے، مار ڈالنا کیسا، یہاں سے اُڑائے، تو تُو کہاں پائے! سب محنت برباد جائے! فرطِ مَحَبَّت، نَشَۂ اُلفَت میں انجامِ کار نہ سوچی، بے تَامُّل نقشِ سلیمانی، جو بزرگوں کی امانت اور نشانی تھی، صندوق سے نکال، اس کے بازو پر باندھا، کہا: اب نہ تاثیر سحر، نہ دیو کا گزر، نہ پری سے ضَرَر ہو گا۔ دل کا کھٹکا مِٹا، مزے اُڑَا۔ یہ کہہ کے وہ تو بہ دستور چلی گئی، جان عالم کے سر پہ خرابی آئی، وہی بِلبِلانا، شور مچانا، باغ کو سر پر اٹھانا اور گاہ انجمن آرا کے تَصَوُّر سے یہ کہنا، مُؤَلِّف:

لکھا ہوا یہی قسمت کا تھا، سو جان، ملا

کہ میری، خاک میں، محنت دے آسمان، ملا


ہزار صدمے پہ دل نے ہمارے اف بھی نہ کی

جو اک رفیق ملا، وہ بھی بے زبان ملا


نہ ہم نے چَین بہ زیرِ فلک کبھی پایا

عنایت اَزَلی سے عجب مکان ملا


تری تلاش میں دَر دَر بھٹکتے پھرتے ہیں

ملا نہ تو ہی، تو جُوتی سے، گو جہان ملا


نہ کہہ تو پیرِ فلک! پر کہے گی ساری خلق

کہ خاک میں ترے جَوروں سے کیا جوان ملا


بہت جہان کی کی سَیر اے سُرورِؔ حَزِیں

یہ بے خزاں نہ ہمیں کوئی بوستان ملا

ایک دن عَالَمِ تنہائی میں جان عالم کو یہ خیال آیا: اس نقش کی تعریف اس نے بہت کی تھی، کھولو تو شاید عُقدۂ کارِ بَستَہ کھلے۔ یہ سوچ کے اسے کھولا۔ اس کا یہ نقشہ تھا: بِست دَر بِست کا نقش، ہر خانے میں اَسمَائے اِلٰہی مع ترکیب و تاثیر تحریر تھے۔ دیکھتے دیکھتے خانۂ مطلب میں نظر پڑی۔ لکھا تھا کہ کوئی شخص اگر کسی ساحر کی قید میں ہو، یہ اسم پڑھے، نَجات پائے۔ یا مکانِ طِلسم میں پھنسا ہو، اسے پڑھتا، جدھر چاہے، چلا جائے۔ اور جو کوئی سحر کرتا ہو، اس پر دَم کر پھونک دے، اُسی دم اِس کی برکت ساحر کو پھونک دے۔

یہ سَانِحَہ اُس میں دیکھ کے، قریب تھا شہ زادہ شادی مَرگ ہو۔ جلد جلد وہ سب اِسم یاد کر، نقش بازو پر باندھا۔ اس عرصے میں جادوگرنی موجود ہوئی، جان عالم کے تیوَر بُرے دیکھے۔ پوچھا:

مزاج آج کیسا ہے؟ وہ بولا اَلحَمْدُ لِلّٰہِ بہت اچھا ہے۔ دیر سے تیرا منتظر تھا۔ لے تجھے شیطان عَلیہِ الَّلعْن کو سونپا، ہمارا اللہ نگہبان ہے۔ یہ سنتے ہی روح قالِب سے نکل گئی۔ سمجھی پیچ پڑا۔ جان عالم چل نکلا۔ سحر سے روکنے لگی، تاثیر نہ کی۔ سر پیٹ کر کہا، سعدیؔ:

کس نیا موخت علم تیر ازمن

کہ مرا عاقبت نشانہ نکرد

یہ کہہ کے ناریل زمین پر مارا، وہ پھٹا، ہزار ہا اژدھا شعلہ فِشاں پیدا ہوا۔ شہ زادے نے کچھ پڑھا، وہ سب کے سب پانی ہو گئے، ہستی سے فانی ہو گئے۔ پھر تو مِنَّت کرنے لگی، پاؤں پر سر دھرنے لگی۔ جادوگرنیاں سمجھانے لگیں کہ یہ شرطِ مُرَوَّت نہیں، جو اپنا والِہ و شَیدا ہو اس سے دَغا کیجیے۔ شہ زادے نے کہا: گریبان میں منہ ڈالو، سوچو تو ہم بھی کسی کے عشق میں خود رَفتہ، وحشی، عزیزوں سے جدا، مصیبت کے مبتلا، سَر بہ صحرا ہوئے تھے، ہمیں جبر سے قید کیا، ہزار طرح کا الَمِ مُفَارَقَتْ دیا۔ یہ احسان کچھ کم ہے، ہم نے طلسم دَرہم و بَرہم جو نہ کیا۔ وہ سمجھیں، یہ نہ ٹھہرے گا۔ عاشقی کا کام نصیحت و پند، قید و بند سے نہیں ہوتا۔ اور جبر کا کام اگر اختیار کیا، حباب آسا نا پائیدار ہے، اس کا کیا اعتبار ہے۔ حَسَنؔ:

سدا ناؤ کاغذ کی بہتی نہیں

اور یہ قضیہ اِتِّفَاقیہ ہے، مصر؏:

ہر روز عید نیست کے حلوا خورد کسے

حسنؔ:

کبھی یوں بھی ہے گردشِ روزگار

کہ معشوق، عاشق کے ہو اختیار

لیکن سوچو تو، لاکھ طرح کا راحت و آرام ہو، جہان کا چَین صبح و شام ہو، جو جی نہ لگے تو کیا کرے۔ استاد:

دولتِ کونین حاصل ہو تو اٹھیے لات مار

پھر نہیں لگتا ہے جی، جس جا سے ہو جس کا اُچاٹ

الغَرض وہ سر پیٹتی رہیں۔ جان عالم نے بہ برکتِ اسمائے الٰہی اس طِلسم سے رہائی پائی، اپنی راہ لی۔ چند روز میں پھر اُس حوض پر وارد ہوا۔ دیکھا اسپِ وفا دار، پتھر سے سر مار مار، مر گیا تھا۔ اس کی لاش دیکھ کے دل پاش پاش ہوا، خوب رویا۔ اب اور رنج پیادہ پائی کا قدم بوس ہوا۔ پاؤں اٹھانا کالے کُوس ہوا۔ سبحانَ اللّٰہ! کہاں وہ شہ زادہ پروردۂ نعم و ناز، کہاں یہ پیادہ پائی کا سفرِ دور و دراز! ہر قدم خار، ہر گام آزار، مگر تصورِ یار پیشِ نظر۔ ہر قطرۂ اشک میں سَو سَو لختِ جگر۔ آہ و نالہ در دہاں، یہ شعر ہر ساعت بَر زبان، ناسخ:

مانعِ صحرا نَوَردی، پاؤں کی ایذا نہیں

دل دُکھا دیتا ہے لیکن ٹوٹ جانا خار کا


کیوں نہ کھٹکوں آسماں کو رات دن مَیں نَاتَواں

آبلے کی شکل اس میں، مجھ میں عالَم خار کا


رنگِ رو فق، دل میں قَلَق۔ سینہ فِگار، پا آبلہ دار۔ چھاتی غمِ دوری سے شق۔ کبھی حکایتِ شکایتِ بیر، گاہ نالۂ قیامت خیز۔ اور یہ غزل مُؤلّف کی درد آمیز پڑھتا چلا جاتا تھا، مُولِّف:

توڑ کر خُم اور پٹک کر آج پیمانے کو ہم

سوئے مسجد جاتے ہیں زاہد کے بہکانے کو ہم


شمع رو! محفل میں کب دیں بار پروانے کو ہم

ایک کیڑے سے بھی کیا کچھ کم ہیں جل جانے کو ہم


خواب سا کرتے ہیں ہم ایامِ عشرت کو قیاس

دھیان میں لاتے ہیں جس دم گزرے افسانے کو ہم


پر تلک تھا جس مکاں پر شمع رویوں کا ہجوم

چھانتے ہیں اب وہاں پر خاکِ پروانے کو ہم


اشک گل گوں کے نشاں چھٹ، کچھ پتہ ملتا نہیں

جب خزاں میں ڈھونڈھتے ہیں اپنے کاشانے کو ہم


جرم کچھ صیاد کا اپنی اسیری میں نہیں

روتے ہیں کُنج قفس میں آب اور دانے کو ہم


رشکِ زلفِ یار سب عُقدے ہیں میرے اے سُرورؔ

اور الجھ اٹھتے ہیں، بیٹھیں جب کہ سلجھانے کو ہم


چشم تر، رنگ زرد، آہ سرد، دل میں درد۔ پاؤں کہیں رکھتا، آبلہ پائی سے کہیں اور جا پڑتا۔ نہ راہ میں بستی نہ گاؤں۔ نہ میل نہ سنگ نشان، راہ کا سر نہ پاؤں۔ دلِ صفا منزل میں عزم درِ دلدار۔ آبلوں کو اُنسِ خار۔ سخت بد حواسی تھی۔ کانٹوں کی زَبان تلووں کے خون کی پیاسی تھی۔ نہ کوچ کی طاقت، نہ یارائے مقام۔ گھبرا کے وہ ناکام یہ کہتا، مُولِّف:

بدل دے اور دل اِس کے بدلے

الٰہی، تو تو ربُ العالمیں ہے

اور اُس پر نقدِ جاں دے کر، بدل لیتا سرورؔ

گر دلِ بے رنج چڑھ جاتا کسی کا دھیان میں

اور جب ولولہ شوق سے جوشِ جنوں ہوتا، آنکھوں سے موج زن دریائے خوں ہوتا، تو یہ غزل مُولِّف کی پڑھتا، مُولِّف:

قرار پاتی نہیں جانِ زار بِن تیرے

ستا رہا ہے دلِ بے قرار، بِن تیرے


گھمنڈ تھا مجھے جن جن کا، سب وہ بھاگ گئے

حواس و ہوش، شکیب و قرار، بِن تیرے


سرورِؔ کشتۂ محبوب، خاک شَرْح کرے

بَسر جو کرتا ہے لیل و نہار بِن تیرے


خُلاصۂ کار یہ کہ اسی حالِ خراب اور دلِ بے تاب سے ہر روز سرگرمِ منزل تھا، دیٖدَۂ دیٖدار طَلَب سے رواں خونابۂ دِل تھا۔