فسانۂ عجائب/کیفیت شہر بے نظیرکی (بیان لکھنؤ)


کیفیت شہر بے نظیرکی (بیان لکھنؤ)


تقریر مورخِ دلپذیر کی، کیفیت شہر بے نظیر کی، ذکرِ صنعتِ کاملینِ علم و فن، واقفانِ رموزِ سخن، و تذکرۂ اہلِ حرفہ، دکان دار بہ طرزِ یادگار


یہ پُنبہ دَہاں، ہیچمداں، محرّر داستاں، مقلّد گذشتگاں، سراپا قصور مرزا رجب علی، تخلص سرور، متوطن خِطۂ بے نظیر، دل پذیر، رشک گلشنِ جِناں، مَسکَنِ حور و غِلماں۔ جائے مردمِ خیز، باشِندے یہاں کے ذکی، فہیم، عقل کے تیز۔ اگر دیدۂ انصاف و نظرِ غَور سے اِس شہر کو دیکھے تو جہان کی دید کی حسرت نہ رہے، ہر بار یہ کہے، شعر:

سنا، رِضواں بھی جس کا خوشہ چیں ہے

وہ بے شک لکھنؤ کی سر زَمیں ہے

سُبحَانَ اللہِ وَ بِحَمدِہ! عجب شہر گلزار ہے۔ ہر گلی دلچسپ؛ جو کوچہ ہے، باغ و بہار ہے۔ ہر شخص اپنے طور کا با وَضع، قَطع دار ہے۔ دو رویہ بازار کس انداز کاہے! ہر دکان میں سرمایہ ناز و نِیاز کاہے۔ گو ہر محلے میں جہان کا ساز و ساماں مُہیا ہے، پر اکبری دروازے سے جِلو خانے اور پکے پُل تک، کہ صراط مستقیم ہے، کیا جلسہ ہے! نان بائی خوش سلیقہ۔ شیر مال، کباب، نان، نہاری، بلکہ جہان کی نعمت اِس آب داری کی، جس کی بو باس سے دل طاقت پائے، دماغ معطر ہو جائے۔ فرشتہ گزرے تو سونگھے، مست ہو جائے، غُنودگی میں اونگھے۔ کیسا ہی سیر ہو، ذرا نہ دیر ہو، دیکھنے سے بھوک لگ آئے۔ وہ سرخ سرخ پیاز سے نہاری کا بگھار، سریلی چھنکار۔ شیرمال شَنگَرف کے رنگ کی خستہ، بھربھری، ایک بار کھائے، نان نعمت کا مزہ پائے، تمام عمر ہونٹ چاٹتا رہ جائے۔

کباب اس آب و تاب کے کہ مُرغانِ ہوا، ماہیانِ دریا کا دل سیخِ آہ پر مُتصل حسرتِ محرومی سے کباب۔ ادرک کا لچھا میاں خیرُ اللہ کی دکان کا بال سے باریک کَترا، ہاضم، نایاب۔ حسینی کے حلوا سُوہن پر عجیب جوبن۔ اس کی شیرینی کی گفتگو میں لب بند، جہان کو پسند۔ پپڑی لذیذ، دبیز، بسی بسائی، پستہ و بادام کی ہوائی، ہونٹ سے چبائے، دانت کا اس پر تمام عمر دانت رہے، لگانے کی نوبت نہ آئے۔ جوزی خوب۔ حبشی اہل ہند کو مرغوب۔ دودھیا شیر خوارہ نوش کر جائے۔

ہر کنجڑن کی وہ تیکھی چتون آدمی صورت دیکھتا رہے، رعب حسن سے بات نہ کر سکے۔ سُنکَرنِیں پری زاد، سرو قامت، رشکِ شمشاد۔ دکانوں میں انواع اقسام کے میوے قرینے سے چنے۔ روزمرے محاورے ان کے دیکھے نہ سنے۔ کبھی کوئی پکار اٹھی، بیٹھے بٹھائے قہقہہ مار اٹھی کہ ٹکے کو ڈھیر لگا دیا ہے۔ کھانے والو زور مزہ ہے! کوئی مَوزوں طبیعت یہ فقرۂ برجستہ سناتی، جوبن کی جھمک دکھاتی: مزہ انگور کاہے رَنگتَروں میں! کسی طرف سے یہ صدا آتی گنڈیریاں ہیں یہ پونڈے کی! ایک طرف تنبولی سرخ روئی سے یہ رمز و کنایہ کرتے، بولی ٹھولی میں چبا چبا کر ہر دم یہ دم بھرتے: مگہ کا منہ کالا، مَہُوبا گَرد کر ڈالا! کیا خوب ڈھولی ہے، ابھی کھولی ہے۔ عبیر ہے نہ گلال ہے، اَدّھی میں مکھڑا لال ہے۔

گلیوں میں گَجَر دَم یہ آواز آتی: شیرمال ہے گھی اور دودھ کی! مفلس کا دل اچاٹ ہے، ٹکوں کی چاٹ ہے۔ کدھر لینے والے ہیں، نَمَش کی قُفلِیاں، کھیر کے پیالے ہیں! کیا خوب بھنے، بھربھرے ہیں؛ چنے، پَرمَل اور مُرمُرے ہیں! جیٹھ بیساکھ کی وہ گرمی جس میں چیل انڈا چھوڑتی، دو پیسے کو برف کی قفلی جمی دو کھائے، بدن تھرّائے۔ زیادہ ہَوکا کرے، لَقوے، فالج میں مرے۔

سَرِ چَوک ہمیشہ شانے سے شانہ چھِلا، نسیم و صبا کو سیدھا رستہ نہ ملا۔ شیخ کولی کی مٹھائی جس نے کھائی جہان کی شیرینی سے دل کھٹا ہوا، بنارس کا کھجلا بھولا، متھرا کے پیڑے کا ٹھٹھا ہوا۔ برفی کی نَفاست، بو باس، کھوئے نے ہوش کھوئے۔ وہ اس کا دَردَرا پن، نُقرئی ورق کا جوبن، کسی اور شہر کا رَکاب دار اگر دیکھ پائے، یا ذائقہ لب پر آئے زندگی تلخ ہو، جب تک جیتا رہے، ہاتھ کاٹ کاٹ کر کھائے۔ اِمَرتیِ مسلسل کا ہر پیچ ذائقہ کو پیچ تاب دیتا، یاقوتئ مُفَرّح کا جواب دیتا۔ جب منہ میں رکھا اصل تو یہ ہے عسلِ مُصَفی جنت کی نہر کا حلق سے اترا۔ پراچیوں کی گلی کا کھجور: لذت ٹپکتی، ذائقے میں چور، بہتر از انگور، نہایت آب و تاب، ہم خرما ہم ثواب۔

نورا کی دکان کی بالائی جب نظر آئی، بلور کی صفا سے دل مُکدر ہوا، نورٌ علیٰ نور کہہ کر، بے قند و شکر، شُکرِ خدا کر کر چھری سے کاٹی اور کھائی۔ مداریے حقے وہ ایجاد ہوئے، کسگر ایسے استاد ہوئے کہ جب تڑاقا ان کا سنا، پیچوان کا دم بند ہوا، سب کو پسند ہوا۔ پیسے کا مداریا کہیں دنیا میں مدِ نظر نہ ہو، دو روپے کو میسر نہ ہو۔ پٹھانا کا تنباکو مشک و عنبر کی خوش بو، جس نے ایک گھونٹ کھینچا، اسی کا دم بھرنے لگا۔ آغا باقر کے امام باڑے سے متصل جو تنباکو کی دکان ہے، شائق اس کا سب جہان ہے۔ محمدی اس کا نام ہے، تبرک سمجھ کر لے جاتے ہیں، زبان زَدِ خاص و عام ہے۔

رنگ ریز سبک دست، طبیعت کے تیز۔ جو پھول دکھایا، انھوں نے کپڑے پر اس سے ڈہڈہا گُل کھلایا، نقل کو اصل میں ملایا۔

علی الخصوص مرد تماش بیں کے واسطے یہ شہر خَراد ہے، ہر فن کا یہاں استاد ہے۔ سیکڑوں گھامڑ، بد گِل، کُندۂ نا تراش زعم باطل میں عیاش، اطراف و جوانب سے آ، ہفتے عشرے میں چھل چھلا وضع دار ہو گئے۔ گومتی میں غوطہ لگایا، دیہاتی پن کے دھبے دھو گئے، آدمی ہو گئے۔ ابو تراب خان کے کٹرے میں جا، میاں خیراتی سے کسی کی خیرات میں خط بنوایا، بارہ برس کے سِن کی گالوں میں لوچ آئی، گو گردن میں موچ آئی۔ چار پہر کھونٹی ٹٹولی، پتا نہ پایا۔ کاتبِ قدرت کا لکھا مٹاتا ہے، ایسا خط بناتا ہے۔

سید حسین خاں کے کٹرے کے دروازے پر عبد اللہ عطر فروش کی دکان، جائے نشست ہر وضع دار جوان ہے۔ دو پیسے میں بیلے، چنبیلی یا حنا کا تیل، ریل پیل، فتنہ بپا کرنے والا ایسا مَلا کہ سہاگ کا عطر گرد ہو گیا، جون پور سے دل سرد ہو گیا۔ عطر کی روئی رکھی کان میں، جا بیٹھا کس افیونی کی دکان میں۔ سفید سفید چینی کی پیالیاں خوبصورت رنگتیں نرالیاں۔ افیون فیض آبادی گلاب باڑی والے لالے کی وہ رنگین جس نے تریاک مصر کے نشے کِرکِرے کیے۔ جھمکڑا بادہ ارغوانی و زعفرانی کا پیدا، یاقوت رشک سے ہیرا کھاتا۔ تبدیلِ ذائقے کو فرنی کے خونچے، نقرئی ورق جمے، پستے کی ہوائی پر بادام کا دل دو ٹکڑے ہو کر پستا۔ یا بنبئی کا پونڈا نرم، گُندہ، قند و شہد کا سینچا۔ اگر پوپلا مسوڑھوں سے چبائے، شربت کا گھونٹ حلق سے اتر جائے۔ ادھر چسکی پی، یا اشک بلبل کا دور تسلسل ہوا، آنکھوں میں گل کھلا۔ پھر ایک دم کے بعد حقے کا دم کھینچا، حجاب کا پردہ اٹھ گیا۔ وہاں سے بڑھا، کان میں آواز آئی: بیلے کے ہار ہیں شوقین البیلے کو، پہن لے، چلا جا فرنگی کے میلے کو! جب یہ سج بنی، بگڑا، پنجوں کے بل چلا۔ یہ پھولا، وطن کی چال ڈھال، رہ و رسم بھولا۔ اکثر باہر سے آ، یہ دھج بنا، جون پور کے قاضی ہونے کو مفتی میں راضی ہو گئے ہیں۔ جمع پونجی، پریشان ہو کے کھو گئے ہیں۔

اگر برسات کا موسم ہے تو شہر کا یہ عالم ہے: ادھر مینہ برسا، پانی جا بہ جا سے بہہ گیا، گلی کوچہ صاف رہ گیا۔ ساون بھادوں میں زر دوزی جوتا پہن کر پھرے، سلیقہ شرط ہے، کیچڑ تو کیا مٹی نہ بھرے۔ باغ بہار کے صنعت پروردگار کے۔ رضوان جن کا شائق، دیکھنے کے لائق۔ روز عیش باغ میں تماشے کا میلا، ہر وقت چَین کا جلسہ۔ موتی جھیل کا پانی چشمہ زندگانی کی آب و تاب دکھاتا، پیاسوں کا دل لہراتا۔ سڑک کے درختوں کی فضا، جدھا، کھجوا موجیں مارتا۔ ہار سنگار کے جنگل میں لوگوں کا جمگھٹا۔ رنگارنگ کی پوشاک، آپس کی جھانک تاک، تختہ لالہ و نافرمان جن پر قربان۔ بندہ ہائے خاص کی سبک روی، خِرامِ ناز۔ ہر قدم پر کَبْکِ دَری، چال بھول کر جَبینِ نیاز رگڑتے۔ شاخِ سَرو شمشاد قامتوں کے رو بہ رو نہ اکڑتی۔ شائق ہزار در ہزار، شمع پروانوں کا عالم، غول کے غول باہم۔ آم کے درختوں میں ٹَپکا لگا، خاص جھولا وہیں پڑا۔ جھولنے والوں پر دل ٹپکا پڑتا۔ محبت کے پینگ بڑھتے، دیکھنے والے درود پڑھتے۔ باغ میں کوئل، پپیہے، مور کا شور۔ جھولے پر گھٹا رہی اوٗ بھی گھنگھور۔ ساون بھادوں کے جھالے، وہ رنگین جھولنے والے!

دشت غربت میں یہ جلسہ جو یاد آ جاتا ہے، دل پاش پاش ہو کر کلیجا منہ کو آتا ہے۔ نہ کہ کان پور کی برسات، ہیہات! ہیہات! دخل کیا دروازے سے باہر قدم رکھے اور پھسل نہ پڑے۔ گلی میں پاؤں رکھا، کیچڑ کا چھپکا سرپر پہنچا۔ دو اس فصل میں باہم نہ دیکھے، مگر چہلے کے پھنسے۔ اور جنھیں سواری کا مقدور نہیں، دخل کیا جو وہ جائیں کہیں۔ ان کے حق میں ناحق برسات: حوالات، گھر: جہل خانہ۔ کیچڑ کے مُقیّد، کہیں جانا نہ آنا۔ اگر خواب میں کہیں نکل گئے تو چونک پڑے کہ پھسل گئے۔ اور جو بازاری، کاروباری، ان کا یہ نقشہ دیکھا ہاتھ میں جوتیاں، پائینچا چڑھا، کیچڑ میں لت پت، یہاں گرے، وہاں گرے، خدا خدا کر جیتے گھر پھرے۔ اور جو شیخی کے مارے ننگے پاؤں نہ نکلے تو، شعر:

دیکھی ہے یہ رسم اس نگر میں

جوتا ہے گلی میں، آپ گھر میں

پھر بر سر مطلب آیا: خاص بازار کہ شہر وسیع و خوش قطع ہے، اس کے نقشے سے مانی و بہزاد نے خار کھایا۔ شبیہ کشی تو کیا، خاکہ خاک نہ کھنچا، ہاتھ تھرّایا۔ کوٹھیاں فرح بخش و دل کشا۔ برج ہر ایک جہاں نما، سلطان منزل اور اِستری منجن نشاط افزا، توبہ شکن۔ انسان کو، دیکھ کر سکتہ ہو جائے۔ کام ان کا وہم و قیاس میں نہ آئے۔ سر راہ کی بارہ دری جواہر سے جڑی۔ پری کی صورت کے قریب نہر جاری، تکلف کی تیاری، پائیں باغ اس کا جس نے دیکھا، باغِ ارم سمجھا، سُوسن نَمَط ہزار زبانیں بہم پہنچیں، تعریف نہ کر سکا، گونگے کا سپنا ہوا۔

رومی دروازہ اس رفعت و شان کاہے، گذر گاہ ایک جہان کاہے۔ اگر اس پر چڑھ جائے، بامِ فلک پست معلوم ہو، فرشتوں کا مشورہ کان میں آئے۔ سپہر اولیں اس کی زمیں ہے۔ شش جہت میں دوسرا نہیں ہے۔ مسجد انتخاب ہے۔ امام باڑہ لا جواب ہے۔ مقبرے عالیشان، وہ نادر مکان کہ فلک بہ دیدۂ انجم نگراں ہے، ان کے نظیر کی جستجو میں، مشعلِ مہ و خورشید روز و شب روشن کیے، کوٗ بہ کوٗ سرگرداں ہے، اگر پاؤں پھیلانے کی جگہ ان میں ہاتھ آئے، سر دست مر جانے کو جی چاہے۔ گومتی کے انداز سے نہر کی کیفیت نظر آتی ہے، طبیعت لہراتی ہے، دو رویہ آبادی، عمارت۔ کہیں رَمنے، کسی جا باغ بنے، صبح و شام وہ بہار ہے کہ شامِ اودھ اور بنارس کی سحر نثار ہے۔

شہر نفیس، مجمع رئیس، ہر فن کا کامل یہاں حاصل ہے۔ خوش نویس حافظ ابراہیم صاحب سا۔ اس قطع کا قطعہ لکھا، جو میر علی یا آغا جیتے ہوتے، اپنے لکھے کو روتے، اشکِ حسرت سے وَصلیاں دھوتے۔ مرزائی صاحب کی مشق کا کوئی پرچہ اگر نظر پڑ جاتا، نَیریز بِرِیز بِرِیز کہتا، یاقوت رقم ہیرا کھاتا۔

مرثیہ خواں جناب میر علی صاحب نے وہ طرز نَو مرثیہ خوانی کا ایجاد کیا کہ چرخ کہن نے مُسَلّمُ الثبوت استاد کیا۔ علم موسیقی میں یہ کمال بہم پہنچایا، اس طرح کا دھُرپَت، خیال ٹپّا گایا اور بنایا کہ کبھی کسی نائک کے وہم و خیال میں نہ آیا۔ ایک رنگین احاطہ کھینچا ہے، جو اس میں آیا، پھولا پھلا، وہ ان کا پَیرو ہوا۔ اور جس نے ڈھنگ جدا کیا، وہ ٹکسال باہر، بد رنگ ہوا۔ اگر تان سین جیتا ہوتا، ان کے نام پر کان پکڑتا، بھیک مانگ کھاتا، مگر نہ گاتا۔ ہزاروں شاگرد، جَگت اُستاد ہوا، مولوی سب میں پری زاد ہوا۔ امیروں میں حُسین علی خاں بلبلِ ہزار داستاں، خوش اِلحاں۔ مرثیہ گو بے نظیر میاں دلگیرؔ۔ صاف باطن، نیک ضمیر، خلیق، فصیح، مردِ مِسکیں۔ مَکروہاتِ زمانہ سے کبھی اَفسُردہ نہ دیکھا۔ اللہ کے کرم سے ناظمِ خوب، دبیرِ مرغوب۔ سکندر طالع، بہ صورت گدا۔ بارِ احساں اہلِ دَوَل کا نہ اٹھایا۔ عرصۂ قلیل میں مرثیے، سلام کا دیوانِ کثیر فرمایا۔ شہر میں جتنے رئیس تھے، اُن کے انیس، جلیس تھے۔

طبیب ہر ایک مسیحائی کرتا ہے، قُم بِإذنی کا دم بھرتا ہے۔ جسے دیکھا بُقراط، سُقراط، جالینوسِ زماں ہے۔ اِس معنی میں یہ خِطّہ، رشکِ زمینِ یونان ہے۔ میرکؔ جان صاحب پَیرنے کے فن سے ایسے آشنا ہوئے کہ مَردُمِ برّ و بَحر سَرگرمِ ثَنا ہوئے۔ شاعر، زبان داں ایسے کہ عُرفی و خاقانی کی غلطی بتائی، فِردوسی و اَنوری کی یاد بھلائی۔ شیخ امام بخش ناسخ نے یہ ہندی کی چِندی کی اور روزمرے کو ایسا فصیح و بلیغ کیا کہ کلامِ سابقیں منسوخ ہوا۔ فُصحائے شیراز و اِصفہاں اِس سیف زبان کا جوہر دیکھ کے لوہا مان گئے۔ اپنے قبح پر منفعل ہوئے، اس زبان کا حُسن جان گئے۔ زمینِ شعر کو آسمان پر پہنچایا، سیکڑوں کو اُستاد بنایا۔ خواجہ حیدر علی کی آتش بیانی، شرر افشانی سے دل جلوں کے سینے میں سوز و گداز ہے۔ مردِ قانع، شاعرِ مُمتاز ہے۔

فَرنگی محل کا حال کیا لکھوں! کہاں زبان و دست کا یارا، جو شِمّہ لکھتا۔ مولوی، فاضل، عدیم المثال۔ ہر شخص جمیع علوم کا استاد۔ کتبِ درسی ابتدا سے انتہا تک یاد۔ منقول و معقول میں دقیقہ باقی نہ رہا۔ رِیاضی کے رِیاض سے آسمان کو زمین کر دیا۔ مولوی انوار کی تجلی اور پَرتَوِ فیض سے جہاں روشن۔ مولوی مبین دور بیں، سِراج انجمن، بحرُ العلوم۔ مولوی سید مخدوم جامع ہر علوم۔ مولوی ظہور اللہ سبحان اللہ! ایسے فقیہ، محقق کہاں ہوتے ہیں! یہی لوگ نادِرُ الزّماں ہوتے ہیں۔

اُدھر رُکنِ دیں بِلا کَد میر سید محمد مجتہد مستند۔ مرزا کاظم علی متقی۔ آخوند محمد رضا رَضائے خُدا کا جویا۔ حاملِ قرآں، ہمہ داں، کسی علم میں عاری نہیں، روئے زمیں پر آقا محمد تبریزی سا قاری نہیں۔

مگر وہ جو مَثل ہے نیک اندر بد، یہ اصل ہے۔ لبِ معشوق مولویوں سے، یعنی ہم پہلو لُعبَتانِ مَہ رو، پری شَمائل، زُہرہ جبیں، ہر زَن رہزَنِ دیں، مشتری خصائل۔ ستم ناز، غضب انداز، سحر کرشمہ، طلسم غمزہ، آفت عوہش، قہر ادا، قیامت گات، کرامت بات کی، کہ ہاروت و ماروت تو کیا، مَعاذ اللہ! اگر سب فرشتے عرش سے فرشِ خاک پر آئیں، اُن کی چاہ میں لکھنؤ کے کنویں بھر جائیں۔ گھڑی بھر اُن سے زانو بہ زانو بیٹھے، توبۂ نَصوحا ٹوٹے، اُن کا دروازہ نہ چھوٹے۔ لولیِ چرخ بلا گَرداں، اُن پر نثار ہے۔ ہر ایک حور وَش، آفتِ روزگار ہے۔ خوش مزاج، مردُم شناس۔ روزمرہ شستہ۔ دمِ تقریر رَمز و کِنایہ۔ اِسی کوچے کے فیض سے انسان آدمیت بَہَم پہنچاتا ہے۔ تَراش خَراشِ اَثَرِ صحبت سے کچھ کا کچھ ہو جاتا ہے۔

کَلانوَت، قَوال بے مثال۔ چھجّو خاں، غلام رسول، سب کو موسیقی میں کمال حصول۔ شوری کے زور شور کی دنیا میں دھوم ہے۔ ٹپّے کا موجِد ہوا، سب کو معلوم ہے۔ بخشو اور سَلاری نے طبلہ ایسا بجایا کہ پَکھاوَج کو شرمایا۔

پتنگ ایسا بنا، ایسا لڑا کہ نزدیک و دور مشہور ہے۔ ستّر پچہتّر تار ڈور، اس کا پتنگ خیراتی یا چھنگا کے ہاتھ کا، لڑائی کی گھات کا، رُستم کی عافیت تنگ کرنے والا، مُنحَنی ہاتھ پاؤں پر مولوی عَمدو نے ایسا لڑایا، عَمداً اِتنا بڑھایا کہ کَرّوبِیوں سے اِس پیچ میں عِبادت چھوٹی، دوڑ دوڑ کر ڈور لوٹی۔ آنکھ بچا کر پیٹا توڑا، فرشتے خان کا پتنگ نہ چھوڑا۔ مرزا نظر علی نے ہاتھ اور نظر میں یہ زور بَہَم پہنچایا کہ ساٹھ تار کا پتنگ، مُڈھا پھینک کر بڑھایا۔ چھ سات سیر ڈور پر گھٹ بَڑھ دیکھی، کَنّا کسی کے ہاتھ نہ آیا۔ مَردان بیگ مانجھا دینے والا دیکھا نہ سنا۔

غرض یہ کہ جو چیزیں یہاں نئی بنیں اور ایجاد، طبیعت سے کاریگروں نے نکالی، سلف سے آج تک نہ ہوئی تھی۔ زَر دُوزی ایسی بنی، یہ باریکی چھنی کہ بَاہر بَندو، اَورگی کی پَنِّی جو پائیں، بجائے جیغہ و سَرپیچ، اپنے سر پر لگائیں۔ انتہائے حیرت کی بات ہے، ستّر اسّی روپے کی سادی کلابتوں کی اَورگی۔ اور جوتا گھیتلا خُرد نوک کا ببر علی نے اِس نوک جھوک کا بنایا کہ جہان کو پسند آیا۔ آرام پائی جس کے ہاتھ آئی، دل نے چَین پایا۔ پانچ اشرفی دھنیا کہاری نے دے کر جوتا سجوایا۔

چالیس سال جہان کی دیکھ بھال کی؛ ایسا شہر، یہ لوگ نظر سے نہ گزرے چنانچہ میاں محمد اشرف، نواب معتمد الدولہ بہادر کے زمانے میں باورچی خانے کے داروغہ تھے۔ آدمیت، مروت، ہمت۔ ہزاروں مرد آدمی ان کی ذات سے فیض پاتا تھا، جہان کی نعمت کھاتا تھا۔ کاریگر ایسے: معتمد الدولہ بہادر کے دستر خوان پر سَو امرا ہوتے تھے؛ چھ مہینا تک جو چیز ایک دن رو بہ رو آئی، دوسرے دن تکرار نہ ہونے پائی۔ پُلاؤ سے قَلیہ، روٹی تک روز نئی صورت کی تمام شے دستر خوان پر چُنی، ذائقے میں دیکھی نہ سنی۔ اور یہ قول تھا: جو ارشاد ہو، برس دن تک ہر روز جو چیز رو بہ رو آئے، دوسرے دن ممکن نہیں جو اس کی بو آئے۔ کاریگر ایسے تھے؛ ہمت میں امیر نہ ہوں گے، جیسے تھے۔

اور تو اور؛ شہدا پیر بخارا کا، ٹِمّا سا، سید الشہدا کا شیدا؛ برس روز میں جو پیدا کیا، عشرہ محرم میں محتاجوں کو نذر حسین کھلا دیا۔ یہ اک رنگی مزاج میں سمائی تمام سِن جُوا کھیلا، دُوِے کے داؤں پر ادّھی نہ لگائی۔ ایک روپیہ ہوا خواہ سو، کہہ دیا: پَو۔ سیکڑوں داؤں منجے گئے، منہ سے نہ پنجے گئے، وہاں بھی ایک چَوک لگا رہتا ہے، آدمی کے چھکّے چھٹ جاتے ہیں۔ جب وہ لوگ نظر آتے ہیں۔

مَشائخ، فقیروں کے مزار خوب۔ خواب راحت میں آسودہ سالک و مجذوب۔ شاہ مینا، شاہ پیر محمد، شاہ خیر اللہ، ایک سے ایک سبحان اللہ۔ بہ ظاہر مُردہ، حقیقت میں جیتے ہیں۔ اشیائے لطیف کھاتے پیتے ہیں۔ مولوی عبد الرحمٰن برگزیدہ یزداں، عالم با عمل، درویشِ کامل۔ خواجہ باسط اور میر نصیر، جن کا عدیل نہ نظیر۔ خواجہ حُسین و حَسَن سرگروہ انجمن۔ طبیعت بس کہ مصروف بہ اختصار ہے، ایک ایک فقرہ لکھا ہے، وگرنہ اِن بزرگواروں کی صفت میں کتابیں تحریر کرے تو بجا ہے۔ مگر، شعر:

کارِ دنیا کسے تمام نہ کرد

ہرچہ گیرید، مختصر گیرید

اِس پر عمل کیا، مُنصِف سے انصاف طَلَب ہیں، ہَٹ دھرم سے کیا کہیں، جھوٹے کے رو بہ رو سچا رو دیتا ہے، بالفرض معترض کہے یہ لوگ کہاں کے تھے؟ تو یہ جواب شافی کافی ہے کہ یہ شہر ایسا تھا، جیتے جی یہاں سے نہ نکلے، مر گئے پر یہیں رہے۔ اور یوں تو ؏

کس نگوید کہ دُوغِ من تُرش است

جو گفتگو لکھنؤ میں کو بہ کو ہے، کسی نے کبھی سنی ہو سنائے۔ لکھی دیکھی ہو، دِکھائے۔ عہدِ دَولتِ بابر شاہ سے تا سلطنتِ اکبر ثانی کہ مَثل مشہور ہے: نہ چولھے آگ، نہ گھڑے میں پانی؛ دہلی کی آبادی ویران تھی، خَلقت مُضطر و حیراں تھی۔ سب بادشاہوں کے عَصر کے روزمَرّے، لہجے، اردوئے مُعلّیٰ کی فصاحت تصنیفِ شعرا سے معلوم ہوئی۔ یہ لطافت اور فصاحت و بلاغت کبھی نہ تھی، نہ اب تک وہاں ہے۔

قَطع نظر اِس سے، لوگ اِس خلقت کے گرہ سے کھوئیں اور جلسہ کریں۔ چنانچہ ایک بندے کے شفیق، جَگَت آشنا جناب مرزا محمد رضا، مجمع خوبی از پا تا فَرق، تخلص برق۔ فی الحقیقت کلامِ بلاغت نظام اُن کا صاعِقۂ خِرمنِ ہستیِ حاسِد ہے۔ بھائی بند شاعروں کا بازار اُن کے رو بہ رو کاسِد ہے۔ جوانِ خوش رو، بہادر، آشنائے با مزہ، نیک خو، شبِ ماہ صحبت مشاعرہ بہ دولت خانۂ مرزا مُعیّن ہے۔ رئیس، امیر، صغیر و کبیر تشریف لاتے ہیں۔ اُس مکان وسیع میں آدمیوں کی کثرت سے جگہ کی قلت ہوتی ہے۔ ہوا کشمکش سے بار پاتی ہے، جب پنکھے کی سعی اٹھاتی ہے۔ سخن سنجِ بے رنج، خوش گو، نازک فہم، باریک بیں، نیک خو جمع ہوتے ہیں۔ لوگ اُن سے، وہ لوگوں سے لطف اٹھاتے ہیں۔ تلامذۂ مرزائے ممدوح خدمت کو حاضر۔ کورے کورے مداریے دم بہ دم۔ گِلوریاں ورق لگی، کتھا بسا، چونا سنگ مرمر کا متواتر۔ قبل از غزل خوانی افیون کا چرچا ہو جاتا ہے، کوئی پیتا ہے، کوئی کھاتا ہے۔ اگر چاہ کسی کو چائے کی ہوئی، دودھ پیتے بچے تک شیر چائے موجود کر دی۔ ہمیشہ صبح اُس شام کے جلسے کی ہو جاتی ہے۔ طبیعت گھبراتی نہیں۔ گھر جانے والوں کو صدائے مُرغ سحر، ندائے اَللّٰہُ اَکبَر آتی ہے۔ ہرچند سب لوگ یہاں کے قَہر ہیں مگر یہ بزرگوار زینتِ شہر ہیں۔

اور لکھنؤ کے جیسے بازاری ہیں، کسی شہر کے ایسے ہَفت ہَزاری ہیں۔ دَلال مُرفَّہ حال، خوش پُوشاک، چمکے چمکائے۔ اور ملکوں کے سیٹھ، کروڑ پتی لاکھ اَلسِیٹھ سے گانّڑ میں لنگوٹی یا دھوتی۔ جب بڑا تکلّف کیا گاڑھے کا مِرزائی پہن لیا۔ کلمۂ حق کہنے والے کا مَدار دار پر ہوتا ہے، منصور نگر اُس کا محلّہ ہے۔ یہ نکتہ بہ گوشِ دل و جان سُن: اَلحَقُّ مُرٌّ۔ حاسِدوں کے خوف سے یہ مذکور، مختصر کیا۔ اگر زیادہ لکھتا، قصہ ہوتا۔ کُوتَہ بیں لکھنؤ کے نام سے چِڑ جاتے ہیں، رشک کھاتے ہیں، اِفتِرا پَردازی کرتے ہیں، کھپ کر جَل مرتے ہیں۔

اچّھے آغاز کا انجام بہ خیر ہوتا ہے۔ اللّٰہ تعالیٰ مشقت کسی کی بے کار نہیں کھوتا ہے۔ یہ فسانہ شُروع زمانۂ غازی الدّین حیدر بادشاہ میں ہوا۔ اور تمام عَصرِ سُلطان بن سُلطان، اَبو النَّصر نصیر الدّین حیدر دَامَ مُلکُہ کے ہُوا۔

اللّٰہ اللّٰہ! یہ عجب شاہِ جمَ جاہ اَریِکہ نَشیِن ہوا کہ حاتِم کا نام، صَفحۂ سَخا سے مثلِ حرفِ غَلَط مِٹا دیا۔ فقیروں کو امیر بنا دیا۔ عیش و نَشاط کی طرف طبیعت جو آئی، ایک ایک ادنیٰ کُنجڑن، ہَفت ہزاریوں سے اعلیٰ بنائی۔ شہ زادیوں کو کہاریوں پر رشک آیا۔ خَواصوں کو صاحبِ نَوبت کیا، چَنڈول، سُکھپال میں چڑھایا۔ ہاتھی، پالکی کو جِلَو میں پھرایا۔ ہزار بارہ سَے جلسے والی حور وش، برق کِردار کَبْک رفتار، نَغز گُفتار، اَز پا تا فَرْق دریائے جواہِر میں غَرْق، ہر دم دست بَستہ رو بہ رو کھڑی رہی۔ جہان کی نعمت اُن کے سامنے پڑی رہی۔ اَصیلوں کو کروروں روپے دیے۔ پیش خدمتوں نے بادشاہت کے چَین کیے۔ قدسیہ محل پر طبیعت جو آئی، مَعاً رِفعت و شان فلکِ ہَفتُم پر پہنچائی۔ کئی کروڑ روپے اس منظورِ نظر نے صَرْف کیے۔ خزانے خالی کر، محتاجوں کے گھر بھر دیے۔ تجربہ کاروں کا قول تھا کہ ان کے بعد یہ شہر ویران اور تباہ ہو گا۔ نہ اس ہمت کی بیگم نہ اس حوصلے کا بادشاہ ہو گا۔ ہر وقت راجا اِنْدَر کی صحبت سے بہتر جلسہ رہا۔ نہروں میں عِطْر بہا۔ مکان اِس طرح کے بنوائے کہ فلکِ گرداں نے صدقے ہو کر چکّر کھائے۔ اِندراسن، گلشنِ اِرم، کس کس کا نام لوں! یہ باغ، یہ کوٹھیاں چشم و گوشِ سِنمار نے دیکھیں نہ سنیں۔ دُوازْدَہ اِمام کی درگاہ ایسی بنائی کہ چرخِ گرداں کو اور خواب میں نظر نہ آئی۔ اِندراسن میں عِطْر کا حوض چھلکتا رہا، تمام شہر مہکتا رہا۔

مُغلانیوں نے گوٹے کناری کی کَتْرَنوں سے چاندی سونے کے محل اُٹھائے۔ خاصے والیوں نے لَونگ، اِلائچی زعفران کے اپنے گھروں میں خاصے ڈھیر لگائے۔ مَکّا خَیّاط مالِ دنیا سے مالا مال ہے، اِستغنا کا دم بھرتا ہے سینا تو کیا، ٹانکا کم بھرتا ہے۔

بجز غمِ حسین، شہر یار کو اندُوہ و غم نہیں۔ کون ہے جو اِس زمانے میں شاد و خُرّم نہیں۔ اَربعین تک عَزَا داری ہوتی ہے۔ خَلقِ خدا ماتم حسین میں روتی ہے۔ لاکھوں روپیہ اس راہ میں صرف ہوتا ہے۔ چالیس شب نہیں سوتا ہے۔ تخمِ عملِ نیک مَزرعۂ آخرت میں بوتا ہے۔ روزِ تولُّدِ ہر امام و شبِ وفاتِ جگر بندانِ خیرُ الانام لاکھ لاکھ روپے کا صَرف ہے۔ اِس ہمت کے آگے فیاضانِ گُذشتہ پر حرف ہے۔ حسنِ صورت، شوکت و حشمت، جاہ و ثروت، جتنی دنیا کی خوبیاں ہیں، اللہ نے سب دی ہیں۔ ہر شب شبِ برات، روز عیدَین کے ہیں۔ سیرِ دریا کی دفعتاً جو لہر آئی، گنگا سے نہر منگائی۔ اِس میں بھی غُرَبا نہال، کارِندے مالا مال ہو گئے۔ بس کہ خامۂ مؤلِّف اختصار رقم ہے، مگر جتنا اُس کی صفت میں لکھیے، بہت کم ہے۔ لہٰذا اِس غزل پر مطلب کو اِختتام دیا۔ یہ داستان وہ نہیں جو لکھی جائے، ناچار تمام کیا۔ غزل:

تا ابد قائم رہے فرماں روائے لکھنؤ

یہ نصیر الدین حیدر بادشائے لکھنؤ


گو ملے جنت بھی رہنے کو بجائے لکھنؤ

چونک میں اٹھتا ہوں اس پر کہہ کے ہائے لکھنؤ


رشک کھا کھا، گو فلک مجھ سے چھڑائے لکھنؤ

تب میں جانوں، دل سے جب میرے بھلائے لکھنؤ


یا تو ہم پھرتے تھے اُن میں یا ہوا یہ انقلاب

پھرتے ہیں آنکھوں میں ہر دم کوچہ ہائے لکھنؤ


اِستغنا سے کیا کیا آرزو کرتی ہے رشک

جامِ جم پر تُف نہیں کرتے گدائے لکھنؤ


کیوں گمانِ زاغ بلبل کے ترانے پر نہ ہو

یاد آ جائیں جو وہ نغمہ سرائے لکھنؤ


ہر محلے سے بچانا جی، ہے عیسیٰ کو محال

چھوڑتے جیتا نہیں معجز نمائے لکھنؤ


جن و انس و وحش و طائر کیوں نہ سب محکوم ہوں

ہے سلیماں ان دنوں فرماں روائے لکھنؤ


دشت غربت میں کیا برباد وحشت نے تو کیا

دل سے اڑتی ہے کوئی اپنے ہوائے لکھنؤ


یہ رہے آباد یارب تا بہ دَورِ مشتری

میں کہیں ہوں، مانگتا ہوں پر دعائے لکھنؤ


بلبل شیراز کو ہے رشک ناسخ کا سرورؔ

اِصفہاں اِس نے کیے ہیں کوچہ ہائے لکھنؤ


الٰہی! بہ حُرمت سید ابرار احمد مختار و بہ تصدّقِ ائمۂ اطہار، لکھنؤ کو آباد رکھ۔ والیِ ملک کو یہاں کے کار فرما، رعیت پرور، سریر حکومت پر دل شاد رکھ۔ جب تک گنگا جمنا میں پانی بہے، یہ خطہ دلچسپ، فرح افزا آباد رہے۔ فَرد:

الٰہی! لکھنؤ بستا رہے دور قیامت تک

سُرورِ دشت پیما کا کبھی وہ شہر مَسکَن تھا

اور مقلد یہاں کے، موجد سے بہتر ہوتے ہیں۔ شاگرد ہو کر استاد کے ہمسر ہوتے ہیں۔ مَطبع اِس شہر میں اکثر سنگ کے ہیں، نمونے نیرنگ کے ہیں، مگر ہمارے شفیق و مہربان، یک رنگ حاضر و غائب یکساں جناب مولوی محمد یعقوب صاحب مدظلہ عزیزِ دِلہا، ہمہ صفت موصوف ہیں۔ دور دور مشہور و معروف ہیں۔ سابق ازیں فرنگی محل میں چھاپہ خانہ تھا، العاقِل تکفیہ الإشارة، رشکِ اَبنائے زمانہ تھا۔ اخبار کا پرچہ چھپتا تھا، اِن کا پتہ نہ چھپتا تھا۔ خوش نویس ایسے جمع ہوتے تھے اور محرر اپنے لکھے کو روتے تھے۔ اپنے اپنے انداز پر بے نظیر، یادگار آغا، ہم پہلوئے میر۔ کلیں ولایتی دل کو بے کل کرتیں۔ یہ تکلف کہ بے پاؤں اشاروں پر چلتیں۔ کانپی کو دیکھ کر جی کانپتا۔ کیسا ہی زبردست جوان ہو، بے فرمائے، ایک فرما نکالنے میں ہانپتا۔ پتھروں پر ایسی جلا کہ دمِ نظارہ پَیکِ نگاہ کا پاؤں پھسلتا۔ یہ صفا اگر بہ غور دیکھو تو قلم مو سے یہ لکھا ہے کہ ہر پتھر پر طور کا جلوہ ہے۔ کتب پارینہ کے واسطے احیائے اموات کا نقشہ تھا، معجزۂ عیسیٰ کے اثبات کا نقشہ تھا۔ شائقوں سے اَرِنی کی جب صدا آتی، بیلن سے بے لَن تَرَانی اور نہ ندا آتی۔ گو تحریر کا مقدّمہ زمانے میں ہے، سیاہی میں روشنائی کا جلوہ اسی کارخانے میں ہے۔ جو کتاب چھپی، وہ مرقّع مانی کی تصویر تھی۔ حرف مٹنے کا کیا حرف، مثلِ نوشتۂ تقدیر تھی۔

شہروں میں اس چھاپے کی دھوم تھی، گردش تقدیر کسے معلوم تھی! دفعتاً فلک نے یہ چکر کھایا۔ حرف غلط کی طرح رگڑ کے شہر کو مٹایا۔ پرویں سے بناتُ النعش کی صورت نظر آئی۔ ایسا تفرقہ پڑا کہ پھر نہ کسی کی خبر پائی۔ فقیر حسب الطلب مہاراج ایسری پرشاد ناراین سنگھ بہادر راج بنارس دام حشمتہم بنارس میں آیا۔ شکر صد شکر کہ رئیس والا جاہ، رعیت پناہ، غریب نواز، غربا پرور، باریک بیں، قدر شناس، سخی، شجاع، سخن فہم، عدل گستر پایا۔ دریٖں وِلا، دوستوں کی تحریک سے مولوی صاحِب کو شغلِ پاریٖنہ منظور ہوا، پہلے عزمِ فسانۂ سُرور ہوا، اِس کی صحت کی خاطر بندے کو لکھا، بجز اِقرار چارہ نہ ہوا، انکار گوارا نہ ہوا۔

ہر چند یہ فَسانہ، بہ طرزِ زمانہ، ہر ایک چھاپہ خانے میں نیا نیا رنگ لایا، جس نے چاہا جس فقرے پر پانی پھیرا، صفحۂ کتاب سے بہایا، بہ قولِ فقیر: جو مضمون سمجھ میں نہ آیا نہ پڑھا گیا، وہ کُند بَسولے سے گڑھا گیا، جَودَتِ قلم نثاروں کی ہوئی، اصلاحِ خط یاروں کی ہوئی۔ شعر:

اور تو بس نہیں چلتا ہے رقیبوں کا، وَلے

سوز کے نام کو لکھ لکھ کے جَلا دیتے ہیں

یہ نہیں سمجھتے، ؏

قبولِ خاطر و لطفِ سخن خدا داد است

تُعِزُّ مَن تَشاءُ وَتُذِلُّ مَن تَشَاء۔ حاسد مفلس کے چراغ کی طرح جھلملا کے جلتے ہیں، فروغ کیا ہو، منہ کی کھاتے ہیں، ٹیڑھی راہ چلتے ہیں۔ فقیر نے اِس کے دیکھنے میں عَرق ریزی ازحد کی۔ حضرت کے خوف سے انتہا کی کد کی۔ جس جگہ محل اور موقع پایا ہے کیا کیا جملہ بڑھایا ہے۔ طبیعت نے بڑھاپے میں کیا کیا زور دکھایا ہے۔ کہنے کو قصہ ہے، کہانی ہے، ہر جا تصویر کھینچی ہے، مرقعِ مانی ہے۔ ہر صفحہ رشک گلزار، باغ سراپا بہار ہے، مگر حاسد کے دل میں کھٹکتا ہے، خار ہے۔ ایسی مَتاعِ گراں بہا کس گنجینے میں ہے، جس کی جگہ ذی فہم قدر شناسوں کے سینے میں ہے۔ باریک بیں، نکتہ سنج، مرنجاں مرنج خود دیکھ لیں گے کہ اور نسخوں میں کیا ہے اور اس میں کیا لکھا ہے۔ فصاحت کا دریا بہا دیا ہے۔ حشر تک اِس کے شائق دنیا میں کم نہ ہوں گے، قیامت یہ ہے کہ ہم نہ ہوں گے۔ الٰہی! جب تک فلک کی حرکت سے چمنِ دنیا میں نسیم بہاری رہے، کار فرما سرسبز، کام جاری رہے۔

بندہ کم ترینِ تلامِذہ اور خوشہ چینِ خرمن سخنِ جناب قبلہ و کعبہ، استادِ شاگرد نواز، مُعزز و مُمتاز، مجمعِ فضل و کمال، نیک سیرت، فرخُندہ خِصال، خِرد آگاہ، دانش آموز، یادگارِ جناب میر سوز، عرفیِ عصر، سعدیِ زماں، رشکِ انوری و خاقانی آغا نوازش حسین خاں صاحب، عرف مرزا خانی، تخلص نوازش ہے۔ حقیقت حال یہ مَقال ہے کہ طرزِ ریختہ اور روزمرہ اردو کا اُن پر ختم ہے۔ شعر ان کے واسطے، وہ شعر کی خاطر موضوع ہیں۔ کہنے کے علاوہ، پڑھنے کا یہ رنگ ڈھنگ ہے اگر طفل مکتب کا شعر زبانِ مُعجِز بیاں سے ارشاد کریں، فیضِ دَہاں، تاثیر بیاں سے پسندِ طبعِ سَحبانِ وائل ہو۔ فی زمانہ تو کیا، سابقین جو موجِدِ کلام کوسِ لِمنِ المُلکِی بجاتے تھے، ان کے دیوانوں میں دس پانچ شعر تَناسُبِ لفظی یا صنائع بدائع کے ہوں گے، وہ اُن پر نازاں تھے اور مُتاخّرین فخریہ سند گردانتے ہیں، لہذا جس شخص کو فہم کامل یا اس فن میں مرتبہ کمال حاصل ہو اور طبع بھی عالی ہو، آپ کا دیوان بہ چشمِ انصاف و نظرِ غور سے دیکھے، کوئی غزل نہ ہو گی جو کیفیت سے خالی ہو۔ ہر مصرع گواہِ ہزار صنعت، ہر شعر شاہدِ معانی، با کیفیت۔ مطلع سے مقطع تک ہر غزل پری کی صورت، اکثر اشعار آپ کے تبرُّکاً و تیّمناً بہ طریق یادگار بندے نے لکھے ہیں، جہاں لفظ ‘‘استاد‘‘ ہو، وہ آپ کا شعر سمجھو۔