فصل گل آئی ہے کل اور ہی ساماں ہوں گے

فصل گل آئی ہے کل اور ہی ساماں ہوں گے
by نسیم دہلوی

فصل گل آئی ہے کل اور ہی ساماں ہوں گے
میرے دامن میں ترے دست و گریباں ہوں گے

سب یہ کافر ہیں حسینوں کی نہ سن تو اے دل
چار دن بعد یہی دشمن ایماں ہوں گے

کس طرح جائیں گے مانع ہے ہمیں خوف مزاج
زلف پر خم ہے تو کچھ وہ بھی پریشاں ہوں گے

گریہ انجام تبسم ہے نہ ہنس اے غافل
خون روئیں گے وہی زخم جو خنداں ہوں گے

یاد آئے گا پس مرگ ہمارا یہ کمال
حال کھل جائے گا جب خاک میں پنہاں ہوں گے

خانہ زادوں کو کہاں قید محبت سے فراغ
ہم وہ بلبل ہیں یہیں خاک گلستاں ہوں گے

دور ہر نخل کریں گے صفت گرد نسیمؔ
ہم پس مرگ بھی قربان گلستاں ہوں گے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse