فصل گل میں جو کوئی شاخ صنوبر توڑے

فصل گل میں جو کوئی شاخ صنوبر توڑے
by رجب علی بیگ سرور

فصل گل میں جو کوئی شاخ صنوبر توڑے
باغباں غیب کا اس کا وہیں پھر سر توڑے

دست صیاد میں کہتی تھی یہ کل بلبل زار
کیا رہائی کا مزا ہے جو مرے پر توڑے

خاک بھی خون کی جا نکلی نہ یہاں اے پیارے
بے سبب ہائے یہ فضا دون نے نشتر توڑے

وصل کے تشنہ لبوں کو نہ ہو مایوسی کیوں
دور پر ان کے فلک ہائے جو ساغر توڑے

میرے دلبر کو ملا دے جو کوئی مجھ سے سرورؔ
ابھی دیتا ہوں زر سرخ کے ستر توڑے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse