فصل گل میں نئیں بگھولے اٹھتے ویرانوں کے بیچ
فصل گل میں نئیں بگھولے اٹھتے ویرانوں کے بیچ
خاک دیوانوں کی وجدی ہے بیابانوں کے بیچ
وہ جلا مجنوں کے دل کا کوئلہ آتی تھی پھونک
ورنہ لیلہ کاہے کو جاتی بیابانوں کے بیچ
جیسے گرہیں دے کوئی زنار کا سبحہ بنائے
پر ہے کفر عشق تیوں ایمان کے دانوں کے بیچ
پر ہیں مشک تیر بختی سے مری سب دل کے گھاؤ
جس طرح لٹکے ہے زلف دلبراں شانوں کے بیچ
روح میری بھی نہیں چھوڑے گی رنگ سیر باغ
جوں بھری رہتی ہے بوئے گل گلستانوں کے بیچ
فصل گل آئی کہ زنجیروں کے سر پر نالے کر
ناچ اٹھے دیوانہ دستک دے کے زندانوں کے بیچ
لال ہو عشرت سے جوں گل ہنس اٹھے ہیں میرے گوش
یار کے آنے کی جوں پہنچی خبر کانوں کے بیچ
ہر سخن کو فخر ہے عزلتؔ توجہ سے مری
ہوں امام وقت دلی کے سخن دانوں کے بیچ
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |