فقط قضیہ یہی ہے فن طبعی اور الٰہی میں
فقط قضیہ یہی ہے فن طبعی اور الٰہی میں
جو علم معرفت چاہے تو رہ یاد الٰہی میں
سمجھتا ہے اسی کا جلوہ گہ غیب شہادت کو
نہیں کچھ فرق عارف کو سفیدی و سیاہی میں
نہیں آرام مجھ کو اضطراب دل سے سینہ میں
کہ دریا مضطرب ہوتا ہے بیتابیٔ ماہی میں
نہ کر مستوں سے کاوش ہر گھڑی آمان کہتا ہوں
خلل آ جائے گا زاہد تری عصمت پناہی میں
جگا کر خواب آسائش سے بیدارؔ آہ ہستی میں
عدم آسود گاں کو لا کے ڈالا ہے تباہی میں
جو کیفیت ہے مستی سے تری آنکھوں کی لالی میں
نہیں وہ نشۂ رنگیں شراب پرتگالی میں
سرو برگ خوشی اے گل بدن تجھ بن کہاں مجھ کو
گلستان دل آیا فوج غم کی پائمالی میں
در دنداں ہوئے تھے موجزن کس بحر خوبی کے
کہ موتی شرم سے پانی ہوئے سلک لالی میں
جہاں وہ شکریں لب گفتگو میں آوے اے طوطی
سخن سرسبز تیرا کب ہو واں شیریں مقالی میں
عبث ہے آرزوئے خوش دلی بیدارؔ گردوں سے
مے راحت جو چاہے سو کہاں اس جام خالی میں
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |