فقط چند نسخوں کا ہے وہ سفینہ
فقط چند نسخوں کا ہے وہ سفینہ
چلے آئے ہیں جو کہ سینہ بہ سینہ
نہ ان کو نباتات سے آگہی ہے
نہ اصلاً خبر معدنیات کی ہے
نہ تشریح کی لے کسی پر کھلی ہے
نہ علم طبیعی نہ کیمسٹری ہے
نہ پانی کا علم اور نہ علم ہوا ہے
مریضوں کا ان کے نگہباں خدا ہے
نہ قانون میں ان کے کوئی خطا ہے
نہ مخزن میں انگشت رکھنے کی جا ہے
سیدی میں لکھا ہے جو کچھ بجا ہے
نفیسی کے ہر قول پر جاں فدا ہے
سلف لکھ گئے جو قیاس اور گماں سے
صحیفے ہیں اترے ہوئے آسماں سے
وہ شعر اور قصائد کا ناپاک دفتر
عفونت میں سنڈاس سے جو ہے بد تر
زمیں جس سے ہے زلزلہ میں برابر
ملک جس سے شرماتے ہیں آسماں پر
ہوا علم و دیں جس سے تاراج سارا
وہ علموں میں علم ادب ہے ہمارا
برا شعر کہنے کی گر کچھ سزا ہے
عبث جھوٹ بکنا اگر ناروا ہے
تو وہ محکمہ جس کا قاضی خدا ہے
مقرر جہاں نیک و بد کی سزا ہے
گنہ گار واں چھوٹ جائیں گے سارے
جہنم کو بھر دیں گے شاعر ہمارے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |