فلک نے ابر مرے سینہ کا بخار کیا

فلک نے ابر مرے سینہ کا بخار کیا
by بیان میرٹھی
324859فلک نے ابر مرے سینہ کا بخار کیابیان میرٹھی

فلک نے ابر مرے سینہ کا بخار کیا
مجھے مجھی پہ ستم گر نے اشک بار کیا

ہر ایک ذرہ نے ایجاد صد بہار کیا
یہ میری خاک کو کس گل نے رہ گزار کیا

بلا ہے شوق شہادت نہ اس نے وار کیا
جگر کو آپ ہی بڑھ کر سناں کے پار کیا

میں خوش ہوں وعدۂ فردا پہ کون شخص ہوں میں
وہ شوخ اور یہ عمر اس پہ اعتبار کیا

کچھ ایسی چیز نہ تھے دو جہان کیا ہوتے
دکھا کے آئنہ تم پر تمہیں نثار کیا

زمیں میں زلزلہ ہے آسماں میں تہلکہ ہے
کسی نے آج کسی دل کو بے قرار کیا

یہ آبلے نہیں نکلی ہے آنکھ ہر مو پر
ترا تو میرے سراپے نے انتظار کیا

مذاق عشق تو دیکھو کہ دل ہی دل نکلے
جو چاک سینہ مرا صورت انار کیا

ہنوز سنگ میں آئینہ ہے خوشا فرہاد
کہ بعد مرگ بھی شیریں کا انتظار کیا

طریق عشق میں کی بے خودی سے طے منزل
یہ تھی وہ رہ کہ نہ اپنا بھی اعتبار کیا

کہ کیوں ہو عاشق و معشوق کا جہاں دشمن
کہ حسن و عشق نے اچھوں کو بے قرار کیا

ادھر وہ جلوہ کہ موسیٰ کو بے حواس رکھا
ادھر یہ جذبہ کہ یوسف کو بے دیار کیا

سروں پہ داور محشر نے فرش کیں آنکھیں
تمہارے آنے کا کیا کیا نہ انتظار کیا

بیاںؔ مرا دل خونیں وہ قطرہ ہے جس کو
محیط اعظم غم ہائے روزگار کیا


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.