فلک چکر میں کیوں چونسٹھ گھڑی ہے

فلک چکر میں کیوں چونسٹھ گھڑی ہے
by عاشق اکبرآبادی

فلک چکر میں کیوں چونسٹھ گھڑی ہے
گرہ اس کے بھی طالع میں کڑی ہے

کوئی عیسیٰ نفس ہے آنے والا
اجل گوشہ میں وہ دبکی کھڑی ہے

ترے در پر ہجوم عاشقاں ہے
تمنا بھی تمنائی کھڑی ہے

تبسم سے ترے گلشن میں ہے نور
گلوں پر چاندنی لوٹی پڑی ہے

اگر عاشق نہیں موئے کمر پر
یہ چوٹی کس لئے پیچھے پڑی ہے

کوئی ہٹتی ہے حسرت ان کے در سے
کھڑی ہے ڈٹ گئی ہے جا اڑی ہے

بہ وقت ذبح بسمل تیغ ہوگی
دل عاشق کو ایسی تر پھڑی ہے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse