فکر ہے شوق کمر عشق دہاں پیدا کروں
فکر ہے شوق کمر عشق دہاں پیدا کروں
چاہتا ہوں ایک دل میں دو مکاں پیدا کروں
طبع عالی سے اگر اوج بیاں پیدا کروں
میں زمین شعر میں بھی آسماں پیدا کروں
ہوں میں وہ دل سوختہ تاثیر آہ گرم سے
گلشن جنت میں بھی دور خزاں پیدا کروں
پاؤں کہتے ہیں ترے کوچے میں آ کر ضعف سے
تو گرا دے اور میں خواب گراں پیدا کروں
اب بھی تم آؤ تو میں آنکھوں میں بہر یک نظر
ڈھونڈ کر تھوڑی سی جان ناتواں پیدا کروں
میں ہوں اے تسلیمؔ شاگرد نسیمؔ دہلوی
چاہیئے استاد کا طرز بیاں پیدا کروں
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |